قومِ عاد مقامِ "احقاف"
میں رہتی تھی، جو عمان و حضر موت کے
درمیان ایک بڑا ریگستان تھا، ان کے مورثِ
اعلی کا نام عادبن عوص بن ارم بن سام بن نوح
ہے، پوری قوم کے لوگ ان کو مورثِ اعلی
"عاد"کے نام سے پکارتے تھے، یہ
لوگ بت پرست اور بہت بداعمال و بد کردار تھے، اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر حضرت ہود علیہ السلام کو ان کی ہدایت کے لئے بھیجا، مگر اس قوم نے اپنے تکبر اور سر کشی کی وجہ سے
حضرت ہود علیہ السلام کو جھٹلا دیا اور اپنے کفر پر اڑے رہے۔
قوم عاد کی سرکشی:
عذاب کا باعث:
حضرت ہود علیہ السلام بار بار ان
سرکشوں کو عذابِ الٰہی سے ڈراتے رہے، مگر
اس شریر قوم نے نہایت بے باکی اور گستاخی کے ساتھ اپنے نبی سے یہ کہہ دیا کہ
اَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللّٰهَ وَحْدَهٗ وَ
نَذَرَ مَا كَانَ یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَاۚ-فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ
مِنَ الصّٰدِقِیْن۔
ترجمۂ کنزالایمان:"کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم ایک اللہ کو
پوجیں اور جو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے انھیں چھوڑ دیں تو لاؤ جس کا ہمیں وعدہ دیتے ہو اگر سچے ہو۔"(پ8،
اعراف: 70)
عذاب کی نشانیاں:
آخر عذابِ الہی کی جھلکیاں شروع
ہوگئیں، تین سال تک بارشیں ہی نہیں ہوئی
اور ہر طرف قحط و خشک سالی کا دور دورہ ہو
گیا، یہاں تک کہ لوگ اناج کے دانے دانے کو
ترسنے لگے، اس زمانے کا دستور تھا کہ جب
کوئی بلا اور مصیبت آتی تھی تو لوگ مکہ معظمہ جاکر کعبہ میں دعائیں مانگتے تھے، تو بلائیں ٹل جاتی تھیں، چنانچہ ایک جماعت مکہ معظمہ گئی، اس جماعت میں مرثد بن سعد نامی ایک شخص بھی تھا، جو مؤمن تھا، مگر اپنے ایمان کو قوم سے چھپائے ہوئے تھا، جب ان لوگوں نے کعبہ معظمہ میں دعا مانگنا شروع کی، تو مرثد بن سعد کا ایمانی جذبہ بیدار ہو گیا اور اس نے تڑپ کر
کہا کہ اے میری قوم! تم لاکھ دعائیں مانگو، مگر خدا
کی قسم!اس وقت تک پانی نہیں بر سے گا، جب
تک تم اپنے نبی پر ایمان نہ لاؤ گے، حضرت
مرثد بن سعد نے جب اپنا ایمان ظاہر کردیا تو قومِ عاد کے شریروں نے ان کو مار پیٹ
کر الگ کر دیا اور دعائیں مانگنے لگے، اس وقت اللہ نے تین بدلیاں بھیجیں، ایک سفید، ایک سرخ اور ایک سیاہ اور آسمان سے ایک آواز آئی کہ"اے قومِ عاد! تم لوگ اپنی قوم
کے لئے ان تین بدلیوں میں سے کسی ایک بدلی کو پسند کر لو۔"
ان لوگوں نے کالی بدلی کو پسند کیا اور یہ لوگ اس
خیال میں مگن تھے کہ کالی بدلی خوب زیادہ بارش دے گی، چنانچہ وہ ابرِ سیاہ قومِ عاد کی آبادیوں کی طرف
چل پڑا، قومِ عاد کے لوگ کالی بدلی کو
دیکھ کر بہت خوش ہوئے، حضرت ہود علیہ
السلام نے فرمایا:" کہ اے میری قوم! دیکھ لو! عذابِ الہی اَبر کی صورت میں
تمہاری جانب بڑھ رہا ہے۔"
مگر قوم کے گستاہوں نے اپنے نبی
کو جھٹلایا اور کہاکہ کہاں کا عذاب اور کیسا عذاب؟ھٰذَا عَارِضٌ مُمْطِرْنَا "(پ26، احقاف: 24)یہ تو بادل ہے، جو ہمیں بارش دینے کے لئے آ رہا ہے۔"
عذاب کا نزول: قومِ
عاد کا دردناک انجام:
یہ بادل پچھم کی طرف سےآبادیوں کی
طرف برابر بڑھتا رہا اور ایک دم ناگہاں اس میں سے ایک آندھی جو اتنی تیز تھی کہ اونٹوں
کو مع سو ار اُڑا کر لے گئی، پھر اتنی
زوردار ہوگئی کہ درختوں کو جڑوں سے اُکھاڑ
دیا، یہ دیکھ کر قومِ عاد کے لوگوں نے
اپنے سنگین محلوں میں داخل ہوکر دروازوں کو بند کر لیا، مگر آندھی کے جھونکے نہ صرف دروازوں کواُکھاڑ کر
لے گئے، بلکہ پوری عمارتوں کو جھنجھوڑ کر
ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، سات رات اور
آٹھ دن مسلسل یہ آندھی چلتی رہی، یہاں تک
کہ قومِ عاد کا ایک ایک آدمی مر کر فنا ہو
گیا۔(عجائب القران مع غرائب القران)
قومِ عاد مقامِ "احقاف"
میں رہتی تھی، جو عمان و حضر موت کے
درمیان ایک بڑا ریگستان تھا، ان کے مورثِ
اعلی کا نام عادبن عوص بن ارم بن سام بن
نوح ہے، پوری قوم کے لوگ ان کو مورثِ اعلی
"عاد"کے نام سے پکارنے لگے، یہ
لوگ بت پرست اور بہت بداعمال و بد کردار تھے، اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر حضرت ہود علیہ السلام کو ان کی ہدایت کے لئے بھیجا، مگر اس قوم نے اپنے تکبر اور سر کشی کی وجہ سے
حضرت ہود علیہ السلام کو جھٹلا دیا اور اپنے کفر پر اڑے رہے، حضرت ہود علیہ السلام
بار بار ان سرکشوں کو عذابِ الٰہی سے ڈراتے رہے، مگر اس شریر قوم نے نہایت بے باکی اور گستاخی کے ساتھ اپنے نبی سے یہ کہہ
دیا کہ
ترجمۂ کنزالایمان:"کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم ایک اللہ کو
پوجیں اور جو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے انھیں چھوڑ دیں تو لاؤ جس کا ہمیں وعدہ دیتے ہو اگر سچے ہو۔"(پ8،
اعراف: 70)
آخر عذابِ الہی کی جھلکیاں شروع
ہوگئیں، تین سال تک بارشیں ہی نہیں ہوئی
اور ہر طرف قحط و خشک سالی کا دور دورہ ہو
گیا، یہاں تک کہ لوگ اناج کے دانے دانے کو
ترس گئے، اس زمانے کا دستور تھا کہ جب
کوئی بلا اور مصیبت آتی تھی تو لوگ مکہ معظمہ جاکر کعبہ میں دعائیں مانگتے
تھے، تو بلائیں ٹل جاتی تھیں۔
چنانچہ ایک جماعت مکہ معظمہ گئی، اس جماعت میں مرثد بن سعد نامی ایک شخص بھی تھا، جو مؤمن تھا، مگر اپنے ایمان کو قوم سے
چھپائے ہوئے تھا، جب ان لوگوں نے کعبہ
معظمہ میں دعا مانگنی شروع کی، تو مرثد بن سعد کا ایمانی جذبہ بیدار ہو گیا اور اس نے تڑپ کر
کہا کہ اے میری قوم! تم لاکھ دعائیں مانگو، مگر خدا کی قسم!اس وقت تک پانی
نہیں بر سے گا، جب تک تم اپنے نبی حضرت
ہود علیہ السلام پر ایمان نہ لاؤ گے، حضرت
مرثد بن سعد نے جب اپنا ایمان ظاہر کردیا تو قومِ عاد کے شریروں نے ان کو مار پیٹ
کر الگ کر دیا اور دعائیں مانگنے
لگے، اس وقت اللہ نے تین بدلیاں بھیجیں، ایک سفید، ایک سرخ اور ایک سیاہ
اور آسمان سے ایک آواز آئی کہ"اے قومِ عاد! تم لوگ اپنی قوم
کے لئے ان تین بدلیوں میں سے کسی ایک بدلی کو پسند کر لو۔"
ان لوگوں نے کالی بدلی کو پسند کیا اور یہ لوگ اس
خیال میں مگن تھے کہ کالی بدلی خوب زیادہ بارش دے گی، چنانچہ وہ ابرِ سیاہ قومِ عاد کی آبادیوں کی
طرف چل پڑا، قومِ عاد کے لوگ کالی بدلی کو
دیکھ کر بہت خوش ہوئے، حضرت ہود علیہ
السلام نے فرمایا:" کہ اے میری قوم! دیکھ لو! عذابِ الہی اَبر کی صورت میں
تمہاری طرف بڑھ رہا ہے۔"
مگر قوم کے گستاخوں نے اپنے نبی
کو جھٹلایا اور کہاکہ کہاں کا عذاب اور کیسا عذاب؟"یہ تو بادل ہیں، جو ہمیں بارش دینے کے لئے آ رہا ہے۔"(روح
البیان، ج3، ص187 تا 189، پ8، الاعراف70)
یہ بادل پچھم کی طرف سےآبادیوں کی
طرف برابر بڑھتا رہا اور ایک دم ناگہاں اس میں سے ایک آندھی آئی، جو اتنی شدید تھی
کہ اونٹوں کو مع سو ار اُڑا کر کہیں سےکہیں پھینک دیتی تھی، پھر اتنی زوردار ہوگئی کہ درختوں کو جڑوں سے اُکھاڑ کر اُڑا لے جانے لگی، یہ دیکھ کر قومِ عاد کے لوگوں نے اپنے سنگین
محلوں میں داخل ہوکر دروازوں کو بند کر لیا، مگر آندھی کے جھونکے نہ صرف دروازوں کواُکھاڑ کر لے گئے، بلکہ پوری عمارتوں کو جھنجھوڑ کر ان کی اینٹ سے
اینٹ بجا دی، سات رات اور آٹھ دن مسلسل یہ
آندھی چلتی رہی، یہاں تک کہ قومِ عاد کا
ایک ایک آدمی مر کر فنا ہو گیا اور اس قوم
کا ایک بچہ بھی باقی نہ رہا، جب آندھی ختم
ہوئی تو اس قوم کی لاشیں زمین پر اس طرح
پڑی ہوئی تھیں، جس طرح کھجوروں کے درخت اُ کھڑاکر زمین پر پڑے ہوں، چنانچہ ارشادِ ربّانی ہے،
ترجمہ کنزالایمان:"اور رہے عادوہ ہلاک کئے گئے، نہایت سخت گرجتی
آندھی سے وہ ان پر قوت سے لگا دی، سات راتیں اور آٹھ دن لگاتار تو ان لوگوں کو ان میں دیکھو بچھڑے ہوئے، گویا وہ کھجور کے ڈنڈ(سوکھے تنے)ہیں گرے ہوئے تو
تم ان میں کسی کو بچا ہوا دیکھتے
ہو۔"(پ29، الحاقۃ: 6-8)
پھر قدرتِ خداوندی سے کالے رنگ کے
پرندوں کا ایک غول نمودار ہوا، جنہوں نے
ان کی لاشوں کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا اور حضرت ہود علیہ السلام نے اس بستی
کو چھوڑ دیا اور چند مؤمنین کو جو ایمان لائے تھے، ساتھ لے کر مکہ مکرمہ چلے گئے اور آخر زندگی تک
بیت اللہ شریف میں عبادت کرتے رہے۔(تفسیر الصاوی، ج2، ص686، پ8، الاعراف:70)
"قومِ عاد" بڑی طاقتور
اور قد آور قوم تھی، ان لوگوں کی مالی
خوشخالی بھی نہایت مستحکم تھی، کیونکہ
لہلہاتی کھیتیاں اور ہرے بھرے باغات ان کے
پاس تھے، پہاڑوں کو تراش تراش کر ان لوگوں نے گرمیوں اور سردیوں کے لئے الگ الگ محلات تعمیر کئے
تھے، ان لوگوں کو اپنی کثرت اور طاقت پر
بڑا اعتماد تھا، اپنے تمدن اور سامانِ عیش وعشرت پر بڑا ناز تھا، مگر کفر اور بداعمالیوں و بدکاریوں کی نحوست نے
ان لوگوں کو قہر ِالہی کے عذاب میں اس طرح گرفتار کر دیا کہ آندھی کے جھونکوں اور
جھٹکوں نے ان کی پوری آبادی کو جھنجھور کر
چکنا چور کر دیا اور اس پوری قوم کے وجود کو صفحہ ہستی سے اس طرح مٹا
دیا کہ ان کی قبروں کا کہیں بھی نشان باقی نہ رہا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ :
ترجمہ کنزالایمان:"اور الٹنے والی بستیاں خطا لائے۔"(پارہ 29،
الحاقۃ:9)
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا گیا ہے،
ترجمۂ کنزالایمان:"اور اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور ڈرتے تو ضرور ہم
ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے، مگر انہوں نے جھٹلایا تو ہم نے انہیں ان کے کئے پر گرفتار کیا۔"(پ9،اعراف:96)
قومِ عاد
مقام"احقاف"میں رہتی تھی، جو
بڑی طاقتور اور قد آور قوم تھی اور ان
لوگوں کی مالی خوشحالی بھی نہایت مستحکم تھی، کیونکہ لہلہاتی کھیتیاں اور ہرے
بھرے باغات ان کے پاس تھے، ان لوگوں کو
اپنی کثرت اور طاقت پر بڑا اعتماد تھا، مگر کفر اور بداعمالیوں و بدکاریوں کی نحوست نے ان لوگوں کو قہر ِالہی کے عذاب میں اس طرح گرفتار کر
دیا کہ آندھی کے جھونکوں اور جھٹکوں نے ان
کی پوری آبادی کو جھنجھوڑ کر چکنا چور کر دیا اور اس پوری قوم کے وجود کو صفحہ ہستی
سے اس طرح مٹا دیا کہ ان کی قبروں کا کہیں نشان باقی نہ رہا۔
اس قوم کے مورثِ اعلی کا نام عادبن عوص بن ارم بن سام بن نوح ہے، یہ لوگ بت پرست اور بہت بداعمال و بد کردار
تھے، اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر حضرت ہود
علیہ السلام کو ان کی ہدایت کے لئے بھیجا:
٭ مگر اس قوم نے اپنے تکبر اور سر
کشی کی وجہ سے حضرت ہود علیہ السلام کو جھٹلا دیا اور اپنے کفر پر اڑے رہے۔
٭حضرت ہود علیہ السلام بار بار ان
سرکشوں کو عذابِ الٰہی سے ڈراتے رہے۔
٭ مگر اس شریر قوم نے نہایت بے
باکی اور گستاخی کے ساتھ اپنے نبی سے کہہ
دیا کہ
اَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللّٰهَ وَحْدَهٗ وَ
نَذَرَ مَا كَانَ یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَاۚ-فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ
الصّٰدِقِیْن۔
ترجمۂ کنزالایمان:"کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم ایک اللہ کو پوجیں
اور جو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے انھیں چھوڑ دیں تو لاؤ جس کا ہمیں وعدہ دیتے ہو اگر سچے ہو۔"(پ8،
اعراف: 70)
٭آخر عذابِ الہی کی جھلکیاں شروع
ہوگئیں، تین سال تک بارش ہی نہیں
ہوئی، یہاں تک کہ لوگ اناج کے دانے دانے
کو ترس گئے۔
٭ اللہ تعالی نے تین بدلیاں بھیجیں، ایک سفید، ایک سرخ اور ایک سیاہ اور آسمان سے ایک آواز آئی کہ"اے قومِ عاد! تم لوگ اپنی قوم کے لئے ان تین بدلیوں میں
سے کسی ایک بدلی کو پسند کر
لو۔"ان لوگوں نے کالی بدلی کو پسند
کر لیا اس خیال میں کہ کالی بدلی خوب بارش دے گی، حضرت ہود علیہ السلام نے فرمایا:" کہ اے
میری قوم! دیکھ لو! عذابِ الہی اَبر کی صورت میں تمہاری طرف بڑھ رہا ہے۔"مگر
٭ قوم کے گستاخوں نے اپنے نبی کو
جھٹلایا اور کہاکہ کہاں کا عذاب اور کیسا عذاب؟"
ھٰذَا مَمارِضٌ مُمْطِرُنَا (پ26،احقاف:24)یہ تو بادل ہیں، جو ہمیں بارش دینے کے لئے آ رہا ہے۔"
٭ جب آندھی ختم ہوئی تو اس قوم کی
لاشیں زمین پر اس طرح پڑی ہوئی تھیں، جس
طرح کھجوروں کے درخت اُ کھڑکر زمین پر پڑے ہوں۔
سب تعریف اللہ عزوجل کے لئے ہیں
جو بلند و بالا ہے، سب خوبیوں والا ہے، پیدا کرنے والا اور لوٹانے والا ہے، اپنے ارادے کو پورا کرنے والا ہے اور کروڑوں
درود و سلام اللہ پاک کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم پر، جس کا ذکر اللہ پاک نے خود بلند فرمایا۔
قومِ عاد کی
نافرمانیاں:
قرآن کریم میں ہے : ترجمۂ کنز
الایمان:"کیا تم ہمارے پاس اس لئے
آئے ہو کہ ہم ایک اللہ کو پوجیں اور جو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے، انہیں چھوڑ دیں تو لاؤ جس کا ہمیں وعدہ دے رہے
ہو، اگر سچے ہو۔"( پ 8، الاعراف، 70)
قومِ عاد اپنے زمانے کی بہت
طاقتور قوم تھی اور حضرت سیّدنا آدم علیہ السلام کے بیٹے سام کی نسل سے اس قوم کا
تعلق تھا، یہ بت پرست، بد اعمال و بد کردار تھے، اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر حضرت سیّدنا ہود علیہ
السلام کو ان کی ہدایت کے لئے بھیجا، مگر
انہوں نے اپنے نبی کو جھٹلایا۔
قومِ عاد کی آندھی:
آخرکار عذابِ الہی کی جھلکیاں شروع ہو گئیں، تین سال تک بارش ہی نہیں ہوئی اور ہر طرف قحط و خشک
سالی کا دور دورہ ہو گیا، یہاں تک کہ لوگ اناج کے دانے دانے کے لئے ترس گئے، ایک جماعت نے کعبہ معظمہ میں جاکر دعائیں
مانگیں، لیکن اپنے نبی کے نافرمان اورگستاخ اور بے ادب تھے، اللہ عزوجل نے تین بدلیاں بھیجیں، ایک سفید، ایک
سرخ اور ایک سیاہ اور آواز آئی کہ ایک بدلی کو پسند کر و، انہوں نے کالی بدلی کو پسند
کیا، اس خیال سے کہ اس سے خوب بارش برسے
گی، حضرت ہود علیہ السلام نے فرمایا: کہ
اے میری قوم! اللہ عزوجل کا عذاب بدلی کی صورت
میں تمھاری طرف بڑھ رہا ہے، لیکن نافرمان
قوم نے کہا: کہاں کاعذاب اور کیسا عذاب؟ایک دم اس بدلی سے ایک آندھی آئی، جس نے اس
قوم کو فنا کر دیا، اس قوم کا ایک ایک بچہ
مر کر فنا ہو گیا، جب آندھی ختم ہوئی تو اس قوم کی لاشیں اس طرح
زمین پر پڑی ہوئی تھیں، جس طرح درخت اُکھڑ
کر زمین پر پڑے ہیں، پھر اللہ پاک کی طرف
سے کالے رنگ کے پرندوں کا ایک غول نمودار ہوا، جنہوں نے ان کی لاشوں کو اٹھا کر
سمندر میں پھینک دیا۔(تفسیر الفتاوی، جلد
2، صفحہ 686، پارہ 8، الاعراف70)
درسِ ہدایت:
قران کریم کے اس دردناک واقعہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ قومِ عاد جو بڑی طاقتور اور قد آور، ان کے پاس لہلہاتے کھیت، ہرے بھرے باغات، پہاڑوں کو تراش کر انہوں نے گرمی اور سردیوں کے
لئے الگ الگ محلات تعمیر کئے تھے، اپنی
طاقت پر بڑا اعتماد تھا، مگر اپنے کفر ، بداعمالیوں،
بدکاریوں کی نحوست سے ان لوگوں کو قہر ِالہی
اور عذابِ الہی نے پکڑ لیا، تو بھلا ہم
جیسی کمزور قوموں کا کیا ٹھکانہ ہے کہ عذابِ الہی کے جھٹکوں کی تاب لا سکیں، اس لئے جن لوگوں کو اپنی اور
اپنی نسلوں کی خیریت و بقا منظور ہے،
انہیں لازم ہے کہ اللہ عزوجل اور رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم کی
نافرمانیوں اور بد اعمالیوں سے ہمیشہ بچتے رہیں، ورنہ قرآن پاک کی آیاتِ کریمہ ہمیں جھنجھوڑ کر یہ سبق دے رہی ہیں کہ نیکی کی تاثیر آبادی اور بدی کی
تاثیر بربادی۔
قومِ عاداحقاف میں رہتی تھی، احقاف عمان اور حضر موت کے درمیان علاقہ یمن
میں ایک ریگستان ہے، قومِ عاد نے ز مین کو
فسق سے بھر دیا تھا۔
یہ لوگ بت پرست تھے، ان کے ایک بت کا نام صُداء، ایک کا صُمود اور ایک کاہباء تھا، اللہ
تعالی نے ان میں حضرت ہود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا،
ترجمۂ کنزالایمان:"اور عاد کی طرف ان کے ہم
قوم ہود کو ۔"(پارہ 12، سورہ ھود، آیت 50)
نبی کی تکفیر:
قومِ عاد کی نافرمانی میں سے نبی
کی تکفیر بھی ہے کہ انہوں نے نبی کی نافرمانی کی، حضرت ہود علیہ السلام نے (اپنی قوم) سے فرمایا:
ترجمہ کنزالایمان:"اے میری قوم! اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں تو کیا تمہیں ڈر نہیں؟"(پ 8، الاعراف:65)
اس پر قوم کے کافر سردار بولے،
ترجمہ کنزالایمان:"بے شک ہم تمہیں بے وقوف سمجھتے ہیں اور بے شک ہم
تمہیں جھوٹوں میں گمان کرتے ہیں۔"(پ8، الاعراف:66)
قومِ ہود نے اپنے نبی کی تکفیر اور نافرمانی کی، جو ان کی ہلاکت کا سبب بنی۔
کفر پر اصرار:قومِ عاد نے
نافرمانی کرتے ہوئے کفر پر اصرار کیا، جب
ہود علیہ السلام نے اپنی قوم کو نصیحت فرمائی، ایک اللہ کی عبادت کرنے کا کہا، تو ان کی قوم نے کہا،
ترجمۂ کنزالایمان:"کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم ایک اللہ کو
پوجیں اور جو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے انھیں چھوڑ دیں تو لاؤ جس کا ہمیں وعدہ دیتے ہو اگر سچے ہو۔"(پ8،
اعراف: 70)
اپنے آباؤ اجداد کی
اندھی تقلید:
حضرت ہود علیہ السلام چونکہ اپنی قوم کی بستی سے علیحدہ ایک تنہائی کے مقام
میں عبادت کیا کرتے تھے، جب آپ کے پاس وحی آتی تو قوم کے پاس آ کر سنا
دیتے، اس وقت قوم یہ جواب دیتی کہ ہم ایک
اللہ عزوجل کی عبادت کریں اور جن بتوں کی عبادت ہمارے باپ دادا کیا کرتے تھے انہیں
چھوڑ دیں، اگر تم سچے ہو تو وہ عذاب لے آؤ
جس کی تم ہمیں وعیدیں سناتے ہو۔
نعمتوں کی ناشکری:
اللہ نے قومِ عاد کو سلطنت اور
قوتِ بدنی عطا فرمائی تھی، چنانچہ شداد ابنِ
عاد جی بڑا بادشاہ انہیں میں ہوا، ان میں پست قد آدمی ساٹھ ہاتھ اور لمبا آدمی سو
ہاتھ کا تھا۔
بڑے قوت والے اور شب زور تھے، ان کا سرخیمہ کے برابر آنکھیں پرندوں کے گھونسلوں کی تھیں۔(پ8،
آیت69، سورہ اعراف کی تفسیر نور العرفان، صفحہ 191)
اللہ پاک قومِ عاد کو اپنی نعمتیں
یاد دلاتا ہوا قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے،
ترجمہ کنزالایمان:اور یاد کرو جب اس نے تمہیں قومِ نوح کا جانشین کیا اور
تمہارے بدن کا پھیلاؤ بڑھایا تو اللہ کی نعمتیں یاد کرو کہ کہیں تمہارا بھلا ہو۔(پ8،
اعراف: 69)
قومِ عاد نے اللہ کی نعمتوں میں
ناشکری کی اور کفر پر اَڑے رہے۔
مذاق اڑانا:
حضرت ہود علیہ السلام کی قوم نے
مذاق اڑاتے ہوئے اور عناد کے طور پر یہ کہا:اے ہود! تم ہمارے پاس کوئی دلیل لے کر
نہیں آئے، جو تمہارے دعوے کی صحت پر دلالت
کرتی، یہ بات انہوں نے بالکل غلط اور جھوٹ کہی تھی، کیونکہ حضرت ہود علیہ السلام نے انہیں جو معجزات
دکھائے تھے، وہ سب سے مکر گئے تھے۔"(بیضاوی،
ھود، تحت الآیۃ53)
قرآن پاک میں ان کی نافرمانیوں کو
بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا،
ترجمۂ کنزالایمان:"اور یہ عاد ہیں کہ اپنے ربّ کی آیتوں سے منکر ہوئے
اوراس کے رسولوں کی نافرمانی کی اور ہر بڑے سرکش، ہٹ دھرم کے کہنے پر چلے۔(پ 12، ہود: 59)
قومِ عاد کی نافرمانیوں کے سبب
انہیں عذاب کی وعید سنائی گئی اور دنیا و آخرت میں لعنت فرمائی گئی، ترجمۂ
کنزالایمان:"اور ان کے پیچھے لگی، اس
دنیا میں لعنت اور قیامت کے دن، سن لو بے شک
عاد اپنے ربّ سے منکر ہوئے ار ے دُور ہو ں عاد ہود کی قوم۔"(پ12، ہود: 60)
دوسری جگہ فرمایا گیا:
ترجمۂ کنزالایمان:"ضرور تم پر تمہارے ربّ کا عذاب اور غضب پڑگیا۔"( پ 8،
اعراف، 71)اللہ پاک ہمیں اپنی نافرمانی
کرنے سے بچائے، ہمیشہ ہمیں اپنا فرمانبردار
رکھے۔آمین
قومِ عاد کا مختصر تعارف:
قوم عاد احقاف میں رہتی تھی، جو عمان و حضر موت کے درمیان علاقۂ یمن میں ایک ریگستان
ہے۔
قومِ عاد کی نافرمانیاں:
1۔قومِ عاد نے زمین کو فسق سے بھر دیا تھا۔
2۔ دنیا کی قوموں کو اپنی جفا
کاریوں سے، اپنے زورِ قوت کے زعم میں
پامال کر ڈالا تھا۔
3۔یہ لوگ بت پرست تھے۔
4۔ان کے ایک بت کا نام صُداء، ایک کا صُمود اور ایک کاہباء تھا۔
اللہ عزوجل نے ان میں حضرت ہود علیہ السلام کو
مبعوث فرمایا، آپ نے انہیں توحید کا حکم دیا، شرک و بت پرستی اور ظلم و جفا کاری کی ممانعت کی،
اس پر وہ لوگ منکر ہوئے اور آپ کی تکذیب
کرنے لگے اور کہنے لگے:ہم سے زیادہ زور آور کون ہے؟چند آدمی ان میں حضرت ہود علیہ
السلام پر ایمان لائے، وہ تھوڑے تھے اور
اپنا ایمان چھپائے رہتے تھے، ان مؤمنین
میں سے ایک شخص کا نام مرثد بن سعد بن عفیر تھا، وہ اپنا ایمان مخفی رکھتے تھے، جب قوم نے سرکشی کی اور اپنے نبی حضرت ہود علیہ السلام کی
تکذیب کی اور زمین میں فساد کیا اور ستم گاریوں میں زیادتی کی اور بڑی مضبوط عمارتیں
بنائیں، معلوم ہوتا تھا کہ انہیں گمان ہے کہ وہ دنیا میں
ہمیشہ ہی رہیں گے، جب ان کی نوبت یہاں تک
پہنچی تو اللہ عزوجل نے بارش روک دی، تین
سال بارش نہ ہوئی، اب وہ بہت مصیبت میں مبتلا ہوئے اور اس زمانے میں دستور یہ تھا
کہ جب کوئی بلایا مصیبت نازل ہوتی تو وہ لوگ بیتُ اللہِ الحرام میں حاضر ہوکر اللہ
عزوجل سے اس کے دفع کی دعا کرتے تھے، اس لئے ان لوگوں نے ایک وفد بیت اللہ کو روانہ
کیا، اس وفد میں قیل بن عنزا اور نعیم بن
ہزال اور مرثد بن سعد تھے، یہ وہی صاحب
ہیں جو حضرت ہود علیہ السلام پر ایمان لائے تھے، اور اپنا ایمان مخفی رکھتے تھے، اس زمانے میں مکہ مکرمہ میں عمالیق کی سکونت تھی
اور ان لوگوں کا سردار معاویہ بن بکر تھا، اس شخص کا نانہال قومِ عاد میں تھا،
اس تعلق سے یہ وفد مکہ مکرمہ کے حوالی (گردونواح)
میں معاویہ بن بکر کے یہاں مقیم ہوا، اس
نے ان لوگوں کا بہت اکرام کیا، نہایت خاطر
و مدارت کی، یہ لوگ وہاں شراب پیتے اور
اور باندیوں کا ناچ دیکھتے تھے۔
اس طرح انہوں نے عیش وعشرت میں ایک مہینہ بسر
کیا، معاویہ کو خیال آیا کہ یہ لوگ تو
راحت میں پڑ گئے اور قوم کی مصیبت بھول گئے، جو وہاں گرفتارِ بلا ہے، مگر معاویہ بن بکر کو یہ خیال بھی تھا کہ اگر وہ
ان لوگوں سے کچھ کہے تو شاید وہ یہ خیال کریں کہ اب اس کو میزبانی گراں گزرنے لگی
ہے، اس لئے اس نے گانے والی باندی کو ایسے
اشعار دیئے، جس میں قومِ عاد کی حاجت کا
تذکرہ تھا، جب باندی نے وہ نظم گائی، تو ان لوگوں کو یاد آیا کہ ہم اس قوم کی مصیبت کی فریاد کرنے کے لئے مکہ مکرمہ بھیجے گئے
ہیں، اب انہیں خیال ہوا کہ حرم شریف میں
داخل ہو کر قوم کے لئے پانی برسنے کی دعا کریں۔
اس وقت مرثد بن سعد نے کہا: کہ
اللہ کی قسم! تمہاری دعا سے پانی نہ برسے گا، لیکن اگر تم اپنے نبی کی اطاعت کرو اور اللہ
عزوجل سے توبہ کرو، تو بارش ہوگی اور اس
وقت مرثد نے اپنے اِسلام کا اظہار کر دیا، ان لوگوں نے مرثد کو چھوڑ دیا اور خود مکہ مکرمہ
جا کر دعا کی، اللہ عزوجل نے تین ابر بادل
بھیجے، ایک سفید، ایک سرخ اور ایک سیاہ اور آسمان سے ندا ہوئی کہ اے قیل! اپنے اور
اپنی قوم کے لئے ان میں سے ایک ابر اختیار
کر، اس نے ابرِ سیاہ کو اختیار کیا، اس
خیال سے کہ اس سے بہت پانی برسے گا۔
چنانچہ وہ ابر قومِ عاد کی طرف چلا اور وہ لوگ اس کو
دیکھ کر بہت خوش ہوئے، مگر اس میں سے ایک
ہوا چلی، وہ ہوا اس شدّت کی تھی کہ وہ
اونٹوں اور آدمیوں کو اُڑا اُڑا کر کہیں
سے کہیں لے جاتی تھی، یہ دیکھ کر وہ لوگ گھروں میں داخل ہوئے اور اپنے دروازے بند
کرلئے، مگر ہوا کی تیزی سے بچ نہ سکے، اس
نے دروازے بھی اُکھیڑ دئیے اور ان لوگوں
کو ہلاک بھی کر دیا اور قدرتِ الہی سے سیاہ پرندے نمودار ہوئے، جنہوں نے ان کی لاشوں کو اٹھا کر سمندر میں
پھینک دیا، حضرت ہود علیہ السلام مؤمنین کو لے کر قوم سے جدا ہوگئے تھے، اس لئے وہ سلامت رہے، قوم کے ہلاک ہونے کے بعد ایمان داروں کو ساتھ لے
کر مکۂ مکرمہ تشریف لائے اور آخر عمر شریف تک وہیں اللہ عزوجل کی عبادت کرتے رہے۔(بحوالہ
ترجمۂ کنزالایمان مع تفسیر خزائن العرفان، پارہ 8، الاعراف:صفحہ 301)
قوم عاد انہیں قوموں میں شامل ہے،
جو اللہ پاک کی نافرمانی کرکے عذابِ الہی
میں گرفتار ہوئے، یہ قوم مقامِ "احقاف"
میں رہتی تھی، جو عمان و حضر موت کے
درمیان ایک بڑا ریگستان ہے، ان کے مورثِ
اعلی کا نام عاد بن عاص بن ارم بن سام بن نوح ہے، قوم کے لوگ اسے عاد کے نام سے پکارتے تھے۔یہ لوگ
بتوں کی پوجا کرتے تھے اور بہت بد اعمال و بد کردار تھے، اللہ پاک نے اپنے پیغمبر حضرت ہود علیہ السلام
کو ان لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجا، لیکن
اس قوم کے لوگوں نے تکبر وسرکشی کی وجہ سے حضرت ہود علیہ السلام کی نافرمانی کی
اور ایمان نہ لائے۔(پ8، الاعراف: 70)جب ان لوگوں نے اپنی سرکشی کو نہ چھوڑا تو اللہ پاک نے
ان کی طرف عذاب بھیجا اور تین سال تک بارش نہ ہوئی، سخت قحط میں مبتلا ہوگئے۔اس قوم کا ایک دستور(role) تھا کہ جب ان کے پاس کوئی مصیبت یا بلا آتی تو یہ کعبہ معظمہ میں
جا کر خانہ کعبہ میں دعا ئیں مانگتے تو ان کی مصیبتیں دور ہوجاتیں، تو ان میں سے ایک جماعت کعبہ معظمہ گئی، انہی میں
مرثد بن سعد نامی ایک شخص بھی تھا، جو
مؤمن ہو چکا تھا، لیکن اپنی ایمان کو
چھپایا ہوا تھا، جب اُس جماعت نے خانہ کعبہ میں دعائیں مانگنا شروع کیں تو مرثد
بن سعد کا ایمانی جذبہ بیدار ہوا اور وہ اپنی قوم سے تڑپ کے بولا:اے
میری قوم! جتنی دعائیں مانگنی ہیں، مانگ
لو، پر یاد رکھو، جب تک اللہ پاک کے بھیجے
گئے پیغمبر حضرت ہود علیہ السلام پر ایمان
نہ لاؤ گے، تب تک تمہاری کوئی دعا قبول
نہیں ہوگی، قوم کو جب ان کے مؤمن ہونے کا
پتہ چلا تو انہوں نے مرثد بن سعد کو مار مار کر زخمی کردیا، اللہ پاک نے اس قوم پر تین بدلیاں(clouds) ظاہر کیں اور آواز آئی"کہ اے قومِ عاد! تم لوگ اپنی قوم کے
لئے ان تین بدلیوں میں سے ایک بدلی چُن لو" اس قوم نے کالی بدلی کو چُن(chose) لیا کہ شاید اس میں سے بہت بارش برسے اور خوش ہوگئے کہ اب قحط سالی
دُور ہو جائے گی۔
حضرت ہود علیہ السلام نے فرمایا
کہ اے میری قوم!یہ ابر بادل تمہاری طرف
اللہ پاک کا عذاب ہے، اُس قوم نے اِس
کا انکار کیا اور کہا: کیساعذاب اور کہاں کا عذاب؟ ہٰذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا
۔ (پ26،احقاف:24)" تو بادل
ہے، جو ہمیں بارش دینے والا ہے۔"
یہ بعد پچھم (east)سے شروع ہوا ، جو آبادی کی طرف بڑھتا ہوا آ رہا تھا، قوم سوچ رہی تھی، آج ہم پر خوب بارش ہوگی، لیکن جب وہ بادل آبادی میں آئے تو تیز آندھی چلی،
جس کی وجہ سے ان کے اُونٹ سمیت ان کے
سواری بھی تیز آندھی کے شکار آلہ بن گئے
اور ان کی عمارتوں کو چیر کر اُڑا کر لے گئی، سات رات اور آٹھ دن تک یہ آندھی جاری رہی اور
قومِ عاد کے سب لوگ ہلاک ہوگئے۔اللہ پاک نے پرندوں کے جُھنڈ بھیجے، جو اِن کی لاشوں کو سمندر میں پھینک آئے، حضرت ہود علیہ السلام نے اس بستی کو چھوڑ کر چند
مؤمنین کو لے کر جو ان پر ایمان لائے تھے، مکہ مکرمہ چلے گئے اور ساری زندگی وہیں عبادت
میں گزار دی۔اب ہمیں کیا عبرت ملی کہ اُن کے پاس ہر نعمت تھی، بڑے بڑے محلات، ہر طرح کے پھل اور ہر طرح کی سبزیاں تھیں، لیکن یہ قوم اپنے کفر کی وجہ سے ہلاک ہو گئی، قرآن پاک میں اللہ پاک فرماتا ہے:
ترجمۂ کنزالایمان:"اور اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور ڈرتے تو ضرور ہم
ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے، مگر انہوں نے تو جھٹلایا تو ہم نے اُنہیں اُن کے
کئے پرگرفتار کیا۔ " (پ9، الاعراف96)(عجائب
القران مع غرائب القران)اللہ پاک ہمیں ایمان پر خاتمہ عطا فرمائے۔ آمین
قومِ عاد حضرت ہود علیہ السلام کی
قوم تھی ، یہ "احقاف "میں رہتی تھی،
یہ بہت بُری اور بدکردار قوم تھی، حضرت ہود علیہ السلام نے ان کو اِسلام کی طرف بلانے کی بہت کوشش کی، مگر اس قوم نے تکبر اور سرکشی کی وجہ سے حضرت
ہود علیہ السلام کو جھٹلایا اور کفر کو نہ چھوڑا، حضرت ہود علیہ السلام بار بار اس قوم کو عذابِ الٰہی سے ڈراتے رہے، مگر انہوں نے کوئی فکر نہ کی، آخر عذابِ الٰہی آنا شروع ہوگیا، اس کی کُچھ نشانیاں ظاہر ہوئیں، تین سال تک بارش ہی نہیں ہوئی، یہ لوگ بھوک کی
وجہ سے نڈھال ہوگئے تھے، ہر طرف خُشک سالی
اور قحط پھیل گیا، اس زمانے میں یہ ہوا
کرتا تھا کہ جب کوئی مصیبت آتی تو لوگ دعا مانگتے تو بلائیں دور ہوجاتیں، چنانچہ کُچھ لوگ مکہ معظمہ گئے، ان لوگوں میں ایک شخص مسلمان بھی تھا، جس نے اپنے ایمان کو قومِ ہود سے چھپایا ہوا
تھا، جب ان لوگوں نے دعا مانگنا شروع
کی، تو اس کا ایمانی جذبہ بیدار ہوا تو اس
نے کہا: کہ اے میری قوم! تم جتنی دعائیں مانگو، تمہاری دعائیں جبھی قبول ہوں گی، جب تم حضرت ہود علیہ السلام پر ایمان لاؤ گے، قومِ عاد کے لوگوں نے اس شخص کو بہت مارا اور اپنی دعاؤں میں مصروف ہوگئے
تو پھر اللہ نے تین بدلیاں بھیجیں، ایک
سفید، ایک سُرخ اور ایک کالی، غیب سے آواز
آئی:کسی ایک کو چُنو! تو لوگوں نے کالی بدلی کو چُنا، وہ سمجھتے تھے کہ اس سے بارش
برسے گی، چنانچہ وہ کالا بادل قومِ عاد کی
آبادیوں کی طرف چل پڑا، جب وہ وہاں پہنچ
گیا تو ایک دم اِتنی شدید قسم کی آندھی آئی کہ ہر چیز کو اپنے ساتھ اُڑا کر لے گئی،
حضرت ہود علیہ السلام نے ان کو بہت
سمجھایا، مگر یہ لوگ کہتے تھے:کہ کیسا
عذاب اور کہاں کا عذاب؟ اس آندھی نے تو
جانوروں، درختوں حتیٰ کہ ان کے محلات کو
بھی نہ چھوڑا اور اس قوم کا ہر فرد آندھی سے فنا ہو گیا، جب آندھی ختم ہوئی تو ہر بندہ اس طرح پڑا تھا، جیسے کُھجور کے درخت جڑ سے اُکھڑ کر زمین پر
آگئے ہوں۔اللہ ہمیں ایسے عذابات سے محفوظ رکھے۔آمین
دعوتِ اسلامی کے شعبہ ڈونیشن بکس للبنات کے تحت گزشتہ دنوں کراچی بِن قاسم زون
میں مدنی مشورےکاانعقادہواجس میں
پاکستان زون کی 3 کابینہ تا علاقہ ذمہ
داراسلامی بہنوں نے شرکت کی۔
ریجن مشاورت ذمہ داراسلامی بہن نے ہر ماہ
ماہانہ مدنی مشورہ وقت پر لینے اور
کارکردگی مشورہ ماتحت سے وصول کرنے کا ذہن
دیا نیز ماہانہ کارکردگی مکمل فارمٹ کے مطابق وقت پر دینے کا ذہن دیتے ہوئے ہر ماہ صدقہ بکس کی رجسٹریشن کرنے کا ہدف دیا اور ڈونیشن بکس کوڈ وائز معلومات کی اپ ڈیٹ دینے کے اہداف بھی دیئے۔
کراچی ریجن ذمہ دار اسلامی بہنوں میں بذریعہ
آڈیو لنک تربیتی اجتماع کاانعقاد
دعوتِ اسلامی کے تحت گزشتہ دنوں کراچی ریجن کی
ذمہ دار اسلامی بہنوں کے درمیان بذریعہ آڈیو لنک
تربیتی اجتماع کاانعقادہوا جس میں 710 اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔
رکن شوریٰ و ریجن نگران حاجی امین عطاری نے
بذریعہ آڈیو لنک سنتوں بھرا بیان کرتے ہوئے اسلامی بہنوں کو ہفتہ وار اجتماع میں شرکت کرنے ،مدنی مذاکرہ سننے کاذہن
دیا اور دعوت اسلامی کے دینی کام کرنے کے
حوالے سے نکات بتائے ۔
دعوت ِاسلامی کے شعبہ کفن دفن للبنات کے زیر
اہتمام گزشتہ دنوں کوئٹہ کے علاقے چکی شاہوانی
میں کفن دفن تربیتی اجتماع کا انعقاد ہوا
جس میں 12 اسلامی بہنوں نے شرکت کی ۔
کفن دفن زون سطح کی ذمہ دار اسلامی بہن نے اسلامی بہنوں کو غسل میت کا طریقہ سکھانے کے ساتھ ساتھ
کفن کاٹنے، بچھانےاور پہنانے کا طریقہ سمجھایا نیز اسلامی بہنوں کو ٹیسٹ دینے کاذہن
دیا جس پر اسلامی بہنوں نےاچھی اچھی نیتوں کااظہار کیا۔
دعوتِ اسلامی کے شعبہ شب و روز کے زیر اہتمام گزشتہ
دنوں کراچی ریجن شب و
روز کی ذمہ دار اسلامی بہنوں کا آن لائن مدنی مشورہ ہوا جس میں زون مشاورت شب و روز ذمہ دار اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔
کراچی ریجن مشاورت کی ذمہ دار اسلامی بہن نے
اسلامی بہنوں کودعوت اسلامی کے دینی کام احسن انداز میں کرنے سے متعلق تربیتی نکات
بتائے اور ماتحت کو شعبہ کے دینی کام دینے
کے حوالے سے مدنی پھول دیئے نیز اپنی کارکردگی وقت پر جمع کروانے کی ترغیب دلائی
اور سابقہ ماہ وقت پر جمع کروانے والی اسلامی بہنوں کی حوصلہ افزائی کی جس پر اسلامی بہنوں نے اچھی نیتوں کااظہار کیا۔