جب بھی ارضِ مقدس پر فساد برپا
ہوا، اس کی بنیاد انسان ہی بنا، تخلیقِ آدم سے لے کر آج تک انسانیت مختلف عروج و
زوال سے گزری اور تاریخ میں ایسی قومیں بھی گزری ہیں، جو آنے والے انسانوں کے لئے عبرت بنیں اور رہتی
دنیا تک بطورِ عبرت یاد کی جانے لگیں، انہی قو موں میں سے ایک قوم"قومِ عاد "بھی
تھی۔
قومِ عاد کا تعارف:
قومِ عاد ایک قدیم عربی قوم ہے، یہ قوم حضرت نوح علیہ الصلاۃ والسلام کی چوتھی
نسبت سے تھی، یہ قوم "عاد بن عاص" کی اولاد تھے اور انہوں نے اپنے قبیلے
کا نام اپنے اجداد کے نام پر رکھا، قومِ
عاد دو ہیں، عادِ اولی۔عادِ ثانیہ، عادِ اولی حضرت ہود علیہ السلام کی قوم تھی، اور عادِ ثانیہ حضرت صالح علیہ السلام کی قوم
تھی، ان دونوں کے درمیان سو برس کا فاصلہ
تھا، قومِ عاد کا ایک اپنا تہذیب و تمدن
تھا، وہ ترقی یافتہ اور خوش خال لوگ تھے، قومِ عاد کے لوگوں کے قد کھجور کے درخت کی طرح
لمبے اور بھاری تھے۔
قرآن پاک کی سورۃ الفجر کی آیت نمبر 6تا8 میں ان
کو یوں بیان کیا گیا ہے،
ترجمہ کنز الایمان:” کیا تم نے نہ دیکھا تمہارے رب نے
عاد کے ساتھ کیسا کیا وہ ارم حد سے زیادہ طول والے کہ ان جیسا شہروں میں پیدا نہ
ہوا“
قوم عاد پر عذاب:
قومِ عاد ایک سرکش اور نافرمان
قوم تھی، وہ مختلف عقائد کو ماننے والے
تھے، انہوں نے مختلف معبود بنائے ہوئے تھے
اور وہ ان کی پوجا کیا کرتے تھے، قرآن
مجید میں مختلف مقامات پراس نافرمان قوم کا ذکر آیا ہے، پارہ 8سورۃ
الاعراف کی آیت نمبر 65 میں یوں ذکر کیا گیا ہے،
ترجمۂ کنز
الایمان:"اور عاد کی طرف ان کی
برادری سے ہود کو بھیجا، کہا اے میری قوم
اللہ کی بندگی کرو اور اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں تو کیا تمہیں ڈر نہیں۔"
تفسیر صراط الجنان میں اس آیت کی
وضاحت یوں کی گئی ہے کہ اللہ تعالی نے قومِ
عاد کی ہدایت کے لئے ان کے ہم قوم حضرت ہود علیہ الصلاۃ والسلام کو ان کی طرف
بھیجا اور انہوں نے ان سے فرمایا:اے میری قوم! تم صرف اللہ تعالی کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، کیا تمہیں اللہ عزوجل کے عذاب سے ڈر نہیں لگتا۔
اس پر قوم کے کافر سرداروں نے
جواب دیا کہ"ہم تمہیں رسالت کے دعوے میں سچا ہی نہیں مانتے، ہم تو تمہیں بے وقوف سمجھتے ہیں، حضرت ہود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:اے میری
قوم!بے وقوفی کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں، میں تو ربّ العالمین کا رسول ہوں، میں تو تمہیں اپنے ربّ عزوجل کے پیغامات پہنچاتا
ہوں، اس پر ان کی قوم جواب دیتی ہے کہ کیا
تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم ایک
اللہ عزوجل کی عبادت کریں اور جن بتوں کی
عبادت ہمارے باپ دادا کیا کرتے تھے، انہیں
چھوڑ دیں اگر تم سچے ہو تو وہ عذاب لے آؤ جس کی تم ہمیں وعیدیں سناتے ہو۔
حضرت ہود علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:"عذاب
نازل ہونے کا وقت مجھے معلوم نہیں کیونکہ اس کا علم تو صرف اللہ تعالی ہی کو ہے۔"پھر
اللہ تعالی نے ان کی طرف ایک سیاہ بادل چلایا، جس میں ان پر آنے والا عذاب تھا اور جب انہوں نے
اس بادل کو وادیوں کی طرف آتے ہوئے دیکھا تو وہ خوش ہو گئے اور کہنے لگے "تو
یہ ہمیں بارش دینے والا بادل ہے"، حضرت ہود علیہ السلام نے ان سے فرمایا" کہ یہ برسنے والا بادل نہیں ہے،
بلکہ یہ تو وہ عذاب ہے، جس کی تم جلدی مچا رہے تھے، اس بادل میں ایک آندھی ہے، جس میں دردناک عذاب ہے"، اس آندھی کے عذاب نے اس نافرمان قوم کے مرد وں،
عورتوں سب کو ہلاک کر دیا، آندھی نے ان کا نام و نشان مٹا دیا، قومِ عاد نے اپنے پیغمبرِ وقت کے ساتھ بدسلوکی
کی تھی اور گستاخی و سرکشی پر اُتر آئی تھی، اس لئے اللہ تعالی نے انہیں دنیا میں عذاب کا
مزہ چکھایا اور آخرت کی نعمتوں سے بھی انہیں محروم کردیا اور ہر وہ قوم جو دنیا میں سرکشی کرے گی اس کے لئے
دنیا مین لعنت اور بروزِ قیامت نارِ جہنم ہے۔
اللہ پاک نے قرآن کریم میں اُمّتِ
محمدی علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی عبرت اور نصیحت کے لئے سابقہ اُمّتوں کی
نافرمانیوں کو بیان فرمایا ہے، انہیں میں سے ایک قومِ عادبھی ہے۔
قومِ عاد کا تعارف:
حضرت ہود علیہ السلام کی قوم کا
نام عاد ہے، یہ ایک قبیلہ ہے اور دراصل یہ
ایک شخص کا نام ہے، جس کی اولاد سے یہ
قبیلہ ہے۔(مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ:132،
ص826)
قومِ عاد کی نافرمانیوں سے متعلق قرآن کریم میں ارشاد ہوا :
وَ تِلْكَ عَادٌ ﳜ جَحَدُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ وَ عَصَوْا رُسُلَهٗ وَ
اتَّبَعُوْۤا اَمْرَ كُلِّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ(۵۹)
ترجمۂ کنز العرفان:"اور یہ عاد ہیں، جنہوں نے اپنے ربّ کی آیتوں کا انکار کیا اور اس
کے رسولوں کی نافرمانی کی اور ہر بڑے سرکش
ہٹ دھرم کے کہنے پر چلے۔"(پ12، ہود، 59)
اَلَاۤ
اِنَّ عَادًا كَفَرُوْا رَبَّهُمْ ؕ۔
ترجمۂ کنزالعرفان:"سن لو! بیشک عاد نے اپنے ربّ کے ساتھ کفر کیا۔(سورہ
ہود، آیت60)
فَاَمَّا عَادٌ
فَاسْتَكْبَرُوْا فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَ قَالُوْا مَنْ اَشَدُّ مِنَّا
قُوَّةًؕ-اَوَ لَمْ یَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ الَّذِیْ خَلَقَهُمْ هُوَ اَشَدُّ مِنْهُمْ
قُوَّةً ؕ-وَ كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَجْحَدُوْنَ۔
ترجمۂ کنزالعرفان:"تو وہ جو عاد تھے انہوں نے زمین میں ناحق تکبرکیا اور انہوں نے کہا: ہم سے زیادہ طاقتور
کون ہے؟ اور کیا انہوں نے اس بات کو نہ دیکھا کہ وہ اللہ جس نے انہیں پیدا کیا ہے،
وہ ان سے زیادہ قوت والا ہے اور وہ ہماری
آیتوں کا انکار کرتے تھے۔(پ24،حم السجدہ: 15)
كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ وَ عَادٌۢ بِالْقَارِعَةِ۔
ترجمۂ کنز العرفان:"ثمود اور عاد نے دلوں کو دہلا دینے والی (قیامت)
کو جھٹلایا۔"(پ29، الحاقۃ، 4)
سورۃ اعراف آیت 65 تا 71 میں ہے:
ترجمۂ کنزالعرفان:"اور قومِ عاد کی طرف ان کے
ہم قوم ہود کو بھیجا، (ہود نے) فرمایا:اے
میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا
تمہارا کوئی معبود نہیں تو کیا تم ڈرتے نہیں؟اس کی قوم کے کافر سردار بولے، بے شک ہم تمہیں بے وقوف سمجھتے ہیں اور بے شک ہم تمہیں
جھوٹوں میں گمان کرتے ہیں، (ہود نے )فرمایا:
اے میری قوم! میرے ساتھ بے وقوفی کا کوئی تعلق نہیں، میں تو ربّ العالمین کا رسول ہوں، میں تمہیں اپنے ربّ کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور
میں تمہارے لئے قابلِ اعتماد خیرخوا ہ ہوں
اور کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہے کہ
تمھارے پاس تمھارے ربّ کی طرف سے تمہیں میں سے ایک مرد کے ذریعے نصیحت آئی، تا کہ
وہ تمہیں ڈرائے اور یاد کرو جب اس نے تمہیں قومِ نوح کے بعد جانشین بنایا اور
تمہاری جسامت میں قوت اور وسعت زیادہ کی
تو اللہ کی نعمتیں یاد کرو تاکہ تم فلاح
پاؤ، قوم نے کہا: کیا تم ہمارے پاس اس لئے
آئے ہو کہ ہم ایک اللہ کی عبادت کریں اور جن چیزوں کی عبادت ہمارے باپ دادا کیا
کرتے تھے انہیں چھوڑ دیں، اگر تم سچے ہو
تو لے آؤ، وہ (عذاب)جس کی تم ہمیں وعیدیں
سناتے ہو، فرمایا: بے شک تم پر تمہارے ربّ کا عذاب اورغضب لازم ہوگیا، کیا تم مجھ سے ان ناموں کے بارے میں جھگڑ رہے
ہو، جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ
لئے ہیں، جن کی کوئی دلیل اللہ نے نہیں اُتاری
تو تم بھی انتظار کرو اور میں بھی تمہارے
ساتھ انتظار کرتا ہوں۔
جب قومِ عاد نے کسی
طرح حق کو قبول نہ کیا تو ان سے جس عذاب
کا وعدہ کیا گیا تھا، وہ آ گیا، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے،
فَلَمَّا رَاَوْهُ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ
اَوْدِیَتِهِمْ ۙ-قَالُوْا هٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا ؕ-بَلْ هُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُمْ
بِهٖ ؕ-رِیْحٌ فِیْهَا عَذَابٌ اَلِیْمٌ ۙ ۔
ترجمہ کنزالعرفان:"پھر جب انہوں نے اسے(یعنی عذاب کو) بادل کی صورت میں
پھیلا ہوا اپنی وادیوں کی طرف آتا ہوا دیکھا تو کہنے لگے:یہ ہمیں بارش دینے والا بادل
ہے، ( کہا گیا کہ نہیں) بلکہ یہ تو وہ ہے، جس کی تم نے جلدی مچائی تھی، یہ ایک اندھی ہے، جس میں دردناک عذاب ہے۔"(پ26،الاحقاف:24)
چنانچہ قومِ عاد اس آندھی سے ہلاک کر دئیے گئے، قرآن کریم میں ہے:
وَ اَمَّا عَادٌ فَاُهْلِكُوْا بِرِیْحٍ صَرْصَرٍ
عَاتِیَةٍۙ۔
ترجمۂ کنزالعرفان:"اور عاد کے لوگ تو وہ نہایت سخت گرجتی آندھی سے ہلاک
کئے گئے۔"(الحاقۃ، آیت:6)
اللہ پاک ہمیں عبرت حاصل کرنے، اپنی نافرمانی سے بچنے، اپنی اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت
و فرمانبرداری میں زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
قومِ عاد احقاف میں رہتی تھی، جو عمان و حضر موت کے درمیان ایک بڑا ریگستان
تھا، ان کے مورثِ اعلی کا نام عادبن عوص
بن ارم بن سام بن نوح ہے، پوری قوم کے لوگ ان کو مورثِ اعلی
"عاد"کے نام سے پکارنے لگے، یہ
لوگ بت پرست اور بہت بداعمال و بد کردار تھے، اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر حضرت ہود علیہ السلام کو ان لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجا، مگر اس قوم نے اپنے تکبر اور سر کشی کی وجہ سے
حضرت ہود علیہ السلام کو جھٹلایا اور اپنے کفر پر اڑے رہے، حضرت ہود علیہ السلام
بار بار ان سرکشوں کو عذابِ الٰہی سے ڈراتے رہے، مگر اس شریر قوم نے نہایت بے باکی اور گستاخی کے ساتھ اپنے نبی سے یہ کہہ
دیا:
اَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللّٰهَ وَحْدَهٗ وَ
نَذَرَ مَا كَانَ یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَاۚ-فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ
الصّٰدِقِیْنَ۔
ترجمۂ کنزالایمان:"کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم ایک اللہ کو
پوجیں اور جو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے، انہیں چھوڑ دیں تو لاؤ، جس کا ہمیں وعدہ
دے رہے ہو اگر سچے ہو۔" ( پ8، الاعراف:70)
آخر عذابِ الہی کی جھلکیاں شروع
ہوگئیں، تین سال تک بارش ہی نہیں ہوئی اور
ہر طرف قحط و خشک سالی کا دور دورہ ہو
گیا، یہاں تک کہ لوگ اناج کے دانے دانے کو
ترس گئے۔(اغراض جلالین، ص8)
انہوں نے زمین کو فسق سے بھر دیا
تھا اور دنیا کی قوموں کا اپنی جفا کاریوں سے اپنے زورِ قوت کے زعم میں پامال کر ڈالا تھا، اس زمانے کا یہ دستور تھا کہ جب کوئی بلا اور
مصیبت آتی تھی تو لوگ مکہ معظمہ جا کر خانہ کعبہ میں دعائیں مانگتے تھے، تو بلائیں ٹل جاتی تھیں، اس لئے ان لوگوں نے
ایک وفد مکہ مکرمہ کو روانہ کیا، اس وفد
میں نعیم بن ہزّال اور مرثد بن سعد تھے،
یہ و ہی صاحب ہیں، جو حضرت ہود علیہ السلام پر ایمان لائیں اور
اپنا ایمان مخفی رکھتے تھے، حرم شریف میں
داخل ہو کر قوم کے لئے پانی برسنے کی دعا کریں، اس وقت مرثد نے اپنے اسلام کا اظہار کر دیا، لوگوں نے مرثد کو
چھوڑ دیا اور خود مکۂ مکرمہ جا کر دعا کی، اللہ تعالی نے تین بادل بھیجے، ایک سفید، ایک سرخ اور ایک سیاہ، آسمان سے ندا ہوئی کہ کہا کہ اے قیل!اپنے اور اپنی قوم کے لئے ان میں
سے ایک ابر اختیار کر، اس نے سیاہ ابر کو اختیار کیا، بایں خیال سے کہ اس سے پانی برسے گا، مگر اس میں سے ایک ہوا چلی، وہ اس شدّت کی تھی
کہ اونٹوں اور آدمیوں کواُڑا کر کہاں سے کہاں لے جاتی تھی، یہ دیکھ کر
لوگ گھروں میں داخل ہوئے اور اپنے دروازے بند کرلئے، مگر ہوا کی تیزی سے بچ نہ سکے، اس نے دروازے بھی اُکھیڑ دئیے اور ان لوگوں کو
بھی ہلاک کر دیا، قدرتِ الہی سے سیاہ
پرندے نمودار ہوئے، جنہوں نے اُن کی لاشوں
کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا، حضرت ہود
مؤمنین کو لے کر جدا ہوگئے تھے ، اس لئے وہ سلامت رہے۔(ترجمۂ کنز العرفان، تفسیر سورۃ الاعراف)
دعوتِ اسلامی کے زیر
اہتمام گزشتہ دنوں کراچی کے علاقے لیاری میں 5 مقامات پر ماہانہ دینی حلقوں کا انعقاد ہوا جن
میں کابینہ نگران وکابینہ مشاورتوں کی
اسلامی بہنوں نے مختلف مقامات پر شرکت کی ۔
ذمہ دار اسلامی بہنوں نے دینی حلقوں میں شریک
اسلامی بہنوں کی تربیت کرتے ہوئے انہیں سنتوں بھرے اجتماع کو کیسے کامیاب بنایا جائے اس
حوالے سے مدنی پھول دئیےاس کے ساتھ ساتھ کپڑے پاک کرنے کا طریقہ بتایا اور جن ذمہ داراسلامی بہنوں نے ہدف سے زیادہ ڈونیشن جمع کروائے ان کے حوصلہ
افزائی کرتے ہوئے انہیں تحائف پیش کئے ۔
اسلامی بہنوں کے شعبہ اصلاحِ اعمال کے تحت گزشتہ دنوں کراچی کھارادر کابینہ میں اصلاحِ اعمال اجتماع
کاانعقاد ہوا جس میں کابینہ مشاورت اصلاح
اعمال ذمہ دار اسلامی بہن نے نیک اعمال
نمبر 13 پر عمل کا جذبہ اجاگر کرتے ہوئے روزانہ صلوٰۃ
التوبہ ادا کرنے، گناہوں پر استغفار کرنے اور جائزہ لینے کا ذہن دیا جس پر اجتماع میں شریک اسلامی بہنوں نے ان مدنی پھولوں پر عمل
کرنے کی اچھی اچھی نیتوں کااظہار کیا۔
اسی طرح گزشتہ دنوں کراچی لیاری کابینہ
، صدر کابینہ ، بلدیہ کابینہ، نیو کراچی
کابینہ اور ماڑی پور کابینہ میں اصلاح ِاعمال
اجتماعات کاانعقاد ہوا جن میں ڈویژن ،
علاقہ اور ذیلی سطح کی ذمہ داراسلامی بہنوں نے شرکت کی۔
کابینہ مشاورت ذمہ داراسلامی بہنوں نے کارکردگی
وصول کرنے کا انداز سمجھایااور نئی مدنی مذاکرہ کارکردگی سمجھاتے ہوئے کارکردگی
جدول کے حوالے سے اسلامی بہنوں کو نکات بتائے۔
اسلامی بہنوں کے شعبہ روحانی علاج کے تحت گزشتہ دنوں نیوکراچی، سرجانی اور اورنگی ٹاؤن کے بستوں پر تربیت کاسلسلہ ہواجن میں زون مشاورت ذمہ دار اسلامی بہن نے اسلامی بہنوں کی سابقہ دینی کاموں کی کارکردگی کاجائزہ لیتے ہوئے اسلامی
بہنوں کو شعبہ میں بہتری کےحوالے سے نکات
فراہم کئے اور آئندہ کے لئےاہداف دیئے۔
وَاِلٰی عَادٍ اَخَاھُمْ ھُوداً قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُو
اللہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ اَفَلَا تَتَّقُوْن۔
ترجمۂ کنز الایمان:" اور عاد کی طرف ان کی برادری سے ہود کوبھیجا کہا اے میری قوم اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا
تمہارا کوئی معبود نہیں تو کیا تمہیں ڈر نہیں۔"(پ8، اعراف: 65)
قوم عاد احقاف میں رہتی تھی، احقاف عمان اور حضر موت کے درمیان علاقہ یمن
میں ایک ریگستان ہے، قومِ عاد نے زمین کو
فسق سے بھر دیا تھا، یہ لوگ بت پرست تھے، ان کے ایک بت کا نام "صُداء" اور ایک
کا نام" صمود"اور ایک کا نام"ہباء" تھا۔
اللہ تعالی نے ان میں حضرت ہود
علیہ السلام کو مبعوث فرمایا، آپ نے انہیں
توحید کا حکم دیا، شرک، بت پرستی اور ظلم و جفا کاری کی ممانعت کی، لیکن وہ لوگ نہ مانے اور آپ کی تکذیب کرنے لگے اور کہنے لگے ہم سے زیادہ زورآور کون ہے؟
ان میں سے صرف چند آدمی حضرت ہود
علیہ السلام پر ایمان لائے، جو بہت تھوڑے
تھے اور وہ بھی مجبوراً اپنا ایمان چھپائے
رکھتے تھے، ان مؤمنین میں سے ایک شخص کا نام "مرثد بن سعد" تھا،
وہ اپنا ایمان مخفی رکھتے تھے، جب قوم نے سرکشی کی اور اپنے نبی حضرت ہود علیہ السلام
کی تکذیب کی اور زمین میں فساد کیا اور ستم گاریوں میں زیادتی کی اور بڑی بڑی
مضبوط عمارتیں بنائیں تو اللہ تعالی نے ان پر بارش روک دی۔
تین سال بارش نہ ہوئی، اب وہ بہت مصیبت میں مبتلا ہوئے اور اس زمانے میں
دستور یہ تھا کہ جب کوئی بلایا مصیبت نازل ہوتی تھی تو لوگ بیت الحرام میں حاضر ہو
کر اللہ تعالی سے اس مصیبت کو دُور کرنے کی دعا کرتے تھے، اس لئے ان لوگوں نے ایک وفد بیت اللہ کو روانہ کیا، اس وفد میں تین آدمی تھے، جن میں مرثد بن سعد بھی تھے، یہ وہی صاحب ہیں، جو حضرت ہود علیہ السلام پر
ایمان لائے تھے اور اپنا ایمان مخفی رکھتے تھے۔اس زمانے میں مکہ مکرمہ میں عمالیق کی سکونت تھی اور ان لوگوں کا سردار معاویہ بن
بکر تھا، اس شخص کا ننھیال قو مِ عاد میں
تھا، اسی علاقہ سے یہ وفد مکہ مکرمہ کے حوالے میں معاویہ بن بکر کے یہاں
مقیم ہوا۔اُس نے لوگوں کی بہت عزت کی اور نہایت خاطر و مدارت کی، یہ لوگ وہاں شراب
پیتے اور باندیوں کا ناچ دیکھتے تھے، اس
طرح انہوں نے عیش و نشاط میں ایک مہینہ
بسر کیا۔معاویہ کو خیال آیا کہ یہ لوگ تو را حت میں پڑگئے اور قوم کی مصیبت کو بھول گئے، جو وہاں گرفتارِ بلا ہے، مگر معاویہ بن بکر کو یہ خیال بھی تھا کہ اگر وہ ان لوگوں سے کچھ کہے تو شاید وہ یہ خیال کریں کہ اب اس کو میزبانی گراں گزرنے لگی ہے۔
اس لئے اس نے گانے والی باندی کو
ایسے اشعاردئیے، جن میں قومِ عاد کی حاجت کا تذکرہ تھا، جب باندی نے وہ نظم گائی تو ان لوگون کو یاد
آیا کہ ہم اس قوم کی مصیبت کی فریاد کرنے
کے لئے مکہ مکرمہ میں بھیجے گئے ہیں، اب انہیں خیال ہوا کہ حرم شریف میں داخل ہو کر
قوم کے لئے پانی برسنے کی دعا کریں۔اس وقت مرثد بن سعد نے کہا کہ اللہ عزوجل کی قسم! تمہاری دعا
سے پانی نہ برسے گا، البتہ اگر تم اپنے نبی کی اطاعت کرو اور اللہ
تعالی سے توبہ کرو تو بارش ہو گی، اس وقت مرثد نے اپنے اسلام کا اظہار کر دیا، ان لوگوں نے مرثد کو چھوڑ دیا اور خود مکہ
مکرمہ جا کر کر دعا کی، اللہ تعالی نے تین
قسم کے بادل بھیجے، ایک سفید، ایک سُرخ اور ایک سیاہ۔اس کے ساتھ آسمان سے ندا
ہوئی کہ اے قیل! اپنے لئے اور اپنی قوم کے لئے ان میں سے ایک بادل اختیار کر، اس نے اس خیال سے سیاہ بادل کو اختیار کیا کہ اس
سے بہت پانی برسے گا، چنانچہ وہ بادل قومِ
عاد کی طرف چلا اور وہ لوگ اس کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے، مگر اس سے ایک ہوا چلی، جو
اس شدت کی تھی کہ اونٹوں اور آدمیوں کو اُڑا
اُڑا کر کہیں سے کہیں لے جاتی تھی۔یہ دیکھ
کر وہ لوگ گھروں میں داخل ہوئے اور اپنے دروازے بند کر لئے، مگر ہوا کی تیزی سے بچ نہ سکے، اس نے دروازے بھی اُکھیڑ دئیے اور ان لوگوں کو ہلاک بھی کر دیا اور قدرتِ الہی سے سیاہ پردے نمودار ہوئے ، جنہوں
نے اُن کی لاشوں کو اُٹھا کر سمندر میں پھینک دیا، حضرت ہود علیہ السلام مؤمنین کو لے کر جدا
ہوگئے تھے، اس لئے وہ سلامت رہے، قوم کے ہلاک ہونے کے بعد وہ
ایمانداروں کو لے کر مکہ مکرمہ تشریف لائے اور آخر عمر تک وہیں اللہ کی عبادت کرتے رہے۔(تفسیر صراط الجنان، ص356، 357)
اَلَمْ
یَاْتِهِمْ نَبَاُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ قَوْمِ نُوْحٍ وَّ عَادٍ وَّ
ثَمُوْدَ وَ قَوْمِ اِبْرٰهِیْمَ وَ اَصْحٰبِ مَدْیَنَ وَ الْمُؤْتَفِكٰتِؕ-اَتَتْهُمْ
رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِۚ-فَمَا كَانَ اللّٰهُ لِیَظْلِمَهُمْ وَ لٰكِنْ
كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ(۷۰)
ترجمۂ کنز الایمان :کیا انہیں اپنے سے اگلوں کی خبر نہ آئی نو ح کی قوم اور عاد
اور ثمود اور ابراہیم کی قوم اور مدین والے اور وہ بستیاں کہ الٹ دی گئیں ان کے
رسول روشن دلیلیں ان کے پاس لائے تھے تو اللہ کی شان نہ تھی کہ ان پر ظلم کرتا
بلکہ وہ خود ہی اپنی جانوں پر ظالم تھے.
(پ10، التوبہ: 70)
قرآن پاک میں پچھلی قوموں کے واقعات کا تذکرہ کیا گیا تاکہ ہم
اس سے نصیحت حاصل کریں.
جن قوموں کی نافرمانیوں کی وجہ سےان پر اللہ پاک کا عذاب نازل
ہوا ان میں سے ایک قوم قوم عاد بھی ہے...
قومِ عاد احقاف میں رہتی تھی، احقاف عمان اور حضر موت کے
درمیان علاقہ یمن میں ایک ریگستان ہے۔ قومِ عاد نے زمین کو فِسق سے بھر دیا تھا۔
یہ لوگ بت پرست تھے ان کے ایک بت کا نام’’ صُدَاء‘‘اور ایک کا ’’صُمُوْد‘‘ اور ایک
کا ’’ ہَباء‘‘ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان میں حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو معبوث فرمایا آپ نے اُنہیں توحید کا حکم
دیا ،شرک وبُت پرستی اور ظلم و جفا کاری کی ممانعت کی، لیکن وہ لوگ نہ مانے اورآپ
کی تکذیب کرنے لگے اور کہنے لگے ہم سے زیادہ زور آور کون ہے؟ اُن میں سے صرف چند
آدمی حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام پر ایمان لائے جو بہت
تھوڑے تھے اور وہ بھی مجبوراً اپنا ایمان چھپائے رکھتے تھے۔ اُن مؤمنین میں سے
ایک شخص کا نام مرثدبن سعد تھا، وہ اپنا ایمان مخفی رکھتے تھے ۔جب قوم نے سرکشی کی
اور اپنے نبی حضرت ہود عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کی
اور زمین میں فساد کیا اور ستم گاریوں میں زیادتی کی اور بڑی بڑی مضبوط عمارتیں
بنائیں تو اللہ تعالیٰ نے ان پر بارش روک دی، تین سال بارش نہ
ہوئی۔
(تفسیر صراط الجنان جلد 3 صفحہ356)
وَ تِلْكَ عَادٌ ﳜجَحَدُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ وَ عَصَوْا رُسُلَهٗ وَ
اتَّبَعُوْۤا اَمْرَ كُلِّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ(۵۹)
ترجمۂ کنز الایمان: اور یہ عاد ہیں کہ اپنے رب کی آیتوں سے منکر ہوئے اور اس کے رسولوں کی
نافرمانی کی اور ہر بڑےسرکش ہٹ دھرم کے کہنے پر چلے۔(پ12،ہود:59)
قوم عاد اپنی نافرمانیوں کے باعث لعنت کے حقدار ہوئے جیسا کہ
سورہ ہود آیت 60 ميں ہے...
وَ
اُتْبِعُوْا فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا لَعْنَةً وَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ ؕ-اَلَاۤ
اِنَّ عَادًا كَفَرُوْا رَبَّهُمْ ؕ-اَلَا بُعْدًا لِّعَادٍ قَوْمِ هُوْدٍ۠
ترجمۂ کنز الایمان:اور
ان کے پیچھے لگی اس دنیا میں لعنت اور قیامت کے دن سن لوبیشک عاد اپنے رب سے منکر
ہوئے ارے دور ہوں عاد ہود کی قوم۔(پ12،ھود،60)
تفسیر صراط الجنان میں ہے
یعنی دنیا اور
آخرت دونوں جگہ لعنت ان کے ساتھ ہے اورلعنت کا معنی ہے اللہ تعالیٰ کی رحمت اور ہر بھلائی سے دوری۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کے برے انجام کا اصلی سبب
بیان فرمایا کہ قومِ عاد نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ کفر کیا
اس لئے ان کا اتنا برا انجام ہوا، سن لو! حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم عاد کے لئے رحمتِ الٰہی سے دوری
ہے۔
( تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۶۰ ، ۶ / ۳۶۷ )
قوم عاد اپنے نبی کی گستاخ اور اپنے نبی کی تکذیب کرنے والی
تھی انہوں نے اپنے نبی علیہ السلام کی نصیحتوں کو نہ مانا زمین میں فسادکیا اپنی
طاقت کے نشے میں مست رہے اونچی اونچی عمارتیں تعمیر لیں لیکن کوئی طاقت کوئی اونچی
عمارت ان کو اللہ پاک کے عذاب سے نہ بچا سکی..
چند ایک کے سوا اکثریت ایمان نہ لائی چنانچہ ان کو عذاب کے
ذریعے ہلاک کر دیا گیا اور ایمان والوں کو بچا لیا گیا
وَ لَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا نَجَّیْنَا هُوْدًا وَّ الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا مَعَهٗ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا ۚ-وَ نَجَّیْنٰهُمْ مِّنْ عَذَابٍ غَلِیْظٍ
ترجمۂ کنز الایمان:اور جب ہمارا حکم آیا ہم نے ہود اور اس کے ساتھ کے مسلمانوں کو
اپنی رحمت فرما کر بچالیا اور انہیں سخت عذاب سے نجات دی۔(پ12،ہود:58)
تفسیر صراط
الجنان میں اس کے تحت فرمایا گیا کہ جب
حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم نے نصیحت حاصل نہ کی تو قادر و قدیر اور سچے رب تعالیٰ کی بارگاہ سے
ان کے عذاب کا حکم نافذ ہوگیا، جب ان کی ہلاکت اور ان پر عذاب کا حکم آیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان پر ایمان لانے
والوں کو جن کی تعداد چار ہزار تھی اپنی رحمت کے ساتھ عذاب سے بچا لیا اور قومِ
عاد کو ہوا کے عذاب سے ہلاک کردیا۔ مسلمانوں پر رحمت اس طرح ہے کہ جب عذاب نازل
ہوا تو اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں
کو اس سے محفوظ رکھا اور ارشاد فرمایا کہ جیسے مسلمانوں کو دنیا کے عذاب سے بچایا
ایسے ہی اللہ تعالیٰ انہیں آخرت کے سخت عذاب سے بھی نجات دے گا۔ ( خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۵۸ ، ۲ / ۳۵۸ ، ملخصاً )
اس آیت سے معلوم ہوا کہ ایمان اور نیک اعمال نجات کا ذریعہ اور سبب ہیں
لیکن در حقیقت نجات صرف اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ملتی ہے۔
اللہ پاک ہمیں پچھلی قوموں کے واقعات سے عبرت حاصل کرنے کی
توفیق عطا فرمائے اور اپنی رحمتوں سے وافر حصہ عطا فرمائے... آمین.
اسلامی بہنوں کے شعبہ مدرسۃالمدینہ بالغات کے زیر اہتمام گزشتہ دنوں کراچی کے علاقے لیاری کابینہ میں مدنی مشورہ ہو اجس میں شعبہ مدرستہ المدینہ
بالغات کی مدرسات نے شرکت کی۔
کابینہ
مشاورت ذمہ دار اسلامی بہن نے مدرسۃالمدینہ بالغات کے درجوں کو مضبوط کرنے کےحوالےسے
مدنی پھول دئیے اور مدرسات کو مدرسہ کورس کرنے کی ترغیب دلائی جس پر مدرسات نے درجوں کو بہتر کرنے کی نیتوں کااظہار
کیا۔
اللہ عزوجل نے ہر قوم کی ہدایت و
رہنمائی کے لئے نبیوں کو مبعوث فرمایا اور قومِ عاد کی رہنمائی کے لئے حضرت ہود
علیہ السلام بھیجے گئے۔
حضرت ہود علیہ
السلام کا تعلق:
حضرت ہود علیہ السلام عادبن اوس بن سام کے قبیلے سے تعلق رکھتے تھے، سب سے پہلے عربی زبان میں کلام کرنے والے بھی
حضرت ہود علیہ السلام ہی تھے۔(قصص الانبیاء)
اللہ عزوجل قرآن مجید، فرقانِ حمید کی سورہ اعراف کی آیت نمبر 65 میں
ارشاد فرماتا ہے:
ترجمۂ کنزالایمان:"اور عاد کی طرف ان کی برادری سے ہود کو بھیجا، کہا اے میری قوم اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں تو کیا تمہیں
ڈر نہیں۔"(پ8، اعراف: 65)
حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم
سے فرمایا:"میں خدا کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ جن کو تم خدا کا شریک بناتے
ہو، میں ان سے بیزار ہوں، جن کی تم خدا کے علاوہ عبادت کرتے ہو، تو تم سب مل کر میرے بارے میں جو تدبیر کرنی چاہو
کر لو، میں خدا پر جو میرا اور تمہارا
پروردگار ہے، بھروسہ رکھتا ہوں۔"
یہ وہی عاد ہے، جنہوں نے خدا کی نشانیوں کا انکار کیا اور ہر
متکبر کی بات مانی، تو اس کے نتیجے میں
دنیا میں اور قیامت کے دن دونوں جگہ وہ ملعون کئے گئے۔
قومِ عاد کا مرنے کے بعد دوبارہ
زندہ ہونے کو جھٹلاتے ہوئے جواب:
قوم عاد نے آخرت کو بعید از قیاس
قرار دیا اور اجسام کے مٹی اور دوبارہ زندہ ہونے کے بارے میں انکار کرتے ہوئے کہا:"
لوگ پیدا ہو رہے ہیں اور مر رہے ہیں، اسی
طرح یہ سلسلہ چل رہا ہے۔" یہ بے دین اور جاہل لوگوں کا عقیدہ رکھتے ہوئے کہا
کہ"انسان ماؤں کے پیٹوں سے پیدا ہو رہے ہیں اور آخرکار زمین انہیں نگل جاتی
ہے اور معاملہ ختم ہو جاتا ہے۔"
جب کہ اللہ عزوجل قرآن پاک میں
سورہ اعراف کی آیت نمبر 25 میں فرماتا ہے:
ترجمۂ کنزالایمان:"اسی میں جیو گے اور اسی میں مرو گے اور اسی میں سے
اٹھائے جاؤ گے۔"
عذاباتِ الہی:
قومِ عاد کی نافرمانیوں کے سبب
اللہ عزوجل نے اس کو عبرت کا نشان بنانے کے لئے اپنا عذاب نازل فرمایا، جس کا ذکر قرآن مجید کی سورۃ الذٰریات کی آیت
نمبر 41 تا 42 میں یوں فرمایا گیا: ترجمۂ
کنزالایمان:"اور عاد میں(بھی نشانی ہے) جب ہم نے ان پر خشک آندھی
بھیجی، وہ جس چیز پر گزرتی تھی، اسے گلی ہوئی چیز کی طرح کر چھوڑتی۔"
اللہ تعالی نے قومِ عاد کی نافرمانیوں کے سبب شدید
آندھی/ہوا کی صورت میں عذاب نازل فرما کر دنیا و آخرت میں ذلت و رسوائی مقدر کی۔الامان
و الحفیظ ۔ہم اللہ عزوجل سے ایمان و عافیت کا سوال کرتے ہیں۔
اسلامی بہنوں کے شعبہ ڈونیشن
بکس کے تحت گزشتہ دنوں کراچی ریجن ایسٹ 2 زون میں بذریعہ کال مدنی
مشورہ ہواجس میں ایسٹ 2 زون کی زون ،
لیاقت آباد کابینہ و ڈویژن ذمہ دار اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔
ریجن مشاورت ذمہ دار اسلامی بہن نےذمہ داراسلامی بہنوں کو ہر ماہ ماہانہ مدنی مشورہ وقت پر لینے ،کارکردگی جدول دینے ،ماتحت سے وصول کرنے کاذہن دیا ۔
ماہانہ کارکردگی مکمل فارمٹ کے مطابق وقت پر
دینے کی ترغیب دلاتے ہوئےہر ماہ صدقہ بکس
کی رجسٹریشن کرنے کا ہدف دیا اور ڈونیشن
بکس کوڈ وائز معلومات کی اپ ڈیٹ
دینے کے اہداف دیئے۔
قوم عاد مقام احقاف میں رہتی تھی، ان کے مورثِ اعلي کا نام عاد بن عوص ہے، پوری قوم کو لوگ ان کے مورثِ اعلیٰ عاد کے نام
سے پکارنے لگے، یہ لوگ بت پرست ، بد اعمال اور بدکردار تھے، اللہ تعالیٰ نے حضرت ہود علیہ السلام کو ان
لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجا، مگر اس قوم
نے اپنے تکبر اور سرکشی کی وجہ سے حضرت ہود علیہ السلام کو جھٹلا دیا، بلکہ اس شریر قوم نے نہایت ہی بے باکی کے ساتھ
اپنے نبی سے کہہ دیا، جیساکہ قرآنِ پاک
میں ارشادِ خداوندی ہے۔
ترجمۂ کنزالایمان:"کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم ایک اللہ کو
پوجیں اور جو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے انھیں چھوڑ دیں تو لاؤ جس کا ہمیں وعدہ دیتے ہو اگر سچے ہو۔"(پ8،
اعراف: 70)
نافرمانی پر سزا:
آخر عذابِ الہی کی جھلکیاں شروع ہوئیں، تین سال تک بارش نہ ہوئی، اس قوم
کے مرثد بن سعد جو مؤمن تھے اور کچھ دوسرے
لوگ کعبہ معظمہ گئے تا کہ وہاں جا کر عرف کے مطابق دعائیں مانگیں، جب انہوں نے
دعائیں مانگنی شروع کی، تو مرثد بن سعد کا
ایمانی جذبہ بیدار ہوگیا اور کہا: اے میری قوم!تم لاکھ دعائیں مانگو، مگر اللہ عزوجل
کی قسم تمہاری دعا سے پانی نہ برسے گا، البتہ اگر تم اپنے نبی کی اطاعت کرو۔
انہوں نے انہیں جھٹلا کر مکہ معظمہ جا کر دعائیں مانگیں، اللہ تعالی نے تین قسم کے بادل بھیجے، ایک سفید، ایک سر خ اور ایک سیاہ، اس کے ساتھ ندا ہوئی کہ ان میں سے ایک بدلی کو
پسند کر لو، ان لوگوں نے کالی بدلی کو پسند کر لیا، چنانچہ وہ ابران کی وادیوں کی طرف چلا، وہ دیکھ کر خوش ہوئے، حضرت ہود علیہ السلام نے پھر سمجھانے کی کوشش کی، مگر قوم نے جھٹلا دیا اور اپنی نافرمانی اور
سرکشی میں بھٹکتے رہے، یہ بادل برابر بڑھتا رہا، حتٰی کہ قومِ عاد کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا، یہ آندھی کی صورت اختیار
کر گیا تھا، جو سات رات اور آٹھ دن تک
مسلسل چلتی رہی، جب آندھی ختم ہوئی تو کالے پرندوں کے غول نے لاشوں کو اُٹھا کر سمندر میں پھینک دیا، حضرت ہود علیہ السلام نے باقی زندگی مکہ مکرمہ
میں گزاری۔(عجائب القرآن، 105۔103)