اللہ پاک نے ہمیں پیدا فرمایا اور ہمیں بے شمار نعمتوں سے نوازا اور اس کے بعد مزید احسان یہ فرمایا کہ ھمیں مسلمان بنایا پھر اللہ پاک نے ھمیں اپنی رضا والے کام کرنے کا حکم دیا اور اپنی ناراضگی والے کاموں سے منع فرمایا۔ ان ممنوعہ افعال میں سے ایک قتل ناحق بھی ہے چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے : وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ اَنْ یَّقْتُلَ مُؤْمِنًا اِلَّا خَطَــٴًـا ترجمہ کنز العرفان : اور کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے کہ کسی مسلمان کو قتل کرے مگر یہ کہ غلطی سے ہوجائے (پارہ 5, سورہ نسا6 آیت نمبر 92)

یاد رہے کسی مسلمان کو جان بوجھ کر ناحق قتل کرنا سخت کبیرہ گناہ ہے (ظاھری گناہوں کی معلومات صفحہ 78)

کسی مسلمان کو جان بوجھ کر ناحق قتل کرنا جہنم میں لمبے عرصے تک عذاب عظیم, اللہ پاک کے شدید غضب اور اللہ پاک کی لعنت کا موجب ہے چنانچہ فرمان باری تعالی ہے : وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا ترجمہ کنز العرفان : اور جو کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کردے تو اس کا بدلہ جہنم ہے عرصہ دراز تک اس میں رہے گا اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔(پارہ 5, سورہ نسا6 آیت نمبر 93)

اس آیت مبارکہ سے واضح طور پر معلوم ہو رہا ہے کہ اللہ پاک کو قتل ناحق کتنا سخت ناپسند ہے جس طرح قرآن پاک میں قتل ناحق کی ممانعت آٸی اسی طرح احادیث کریمہ میں بھی قتل نا حق کی مذمت وارد ہوٸی ہے اس متعلق چار فرامین مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پڑھیے :

1- کبیرہ گناہ بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو (ناحق) قتل کرنا ہے (بخاری,کتاب الدیات, باب قول اللہ تعالی ومن احیاھا,358/4,حدیث 6871)

2- اوندھے منھ جھنم میں : اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل میں شریک ہو جاٸیں تو اللہ تعالی سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے ۔ (ترمذی,کتاب الدیات ,باب الحکم فی الدما6 ,100/3 ,حدیث 1403)

3 -اللہ کی رحمت سے مایوس : جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ پاک کی بارگاہ میں اس حال میں آۓ گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوگا "یہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہے" (ابن ماجہ , کتاب الدیات , باب التغلیظ فی من قتل--- , 262/3 , حدیث 2620) *

4- ناقابل تلافی گناہ : ممکن ہے کہ اللہ پاک ہر گناہ بخش دے سواۓ اس گناہ کے کہ آدمی جان بوجھ کر مومن کو قتل کرے یا وہ شخص جو کافر ہو کر مرے (الترغیب و الترھیب, کتاب الحدود و غیرھا , الترھیب من قتل النفس --- , 295/3 )

کسی بھی برائی سے بچنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کے اسباب سے بچاٶ کرلیا جاۓ آٸیے قتل ناحق کے کچھ اسباب جانتے ہیں تاکہ ھم اس گناہ سے بچ سکیں قتل ناحق کے اسباب کسی ناکامی پر شدید غم و غصہ , گھریلو ناچاقیاں ,جاٸیداد کے جھگڑے , مال و دولت کی حرص اور تکبر ہیں

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ھمیں اپنی رضا والے کام کرنے اور اپنی ناراضگی کے کاموں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


ہمارے درمیان بڑھتی ہوئی بے حیائی اور علم دین سے دوری کے سبب جس طرح باطنی گناہ عروج پار ہے ہیں اسی طرح ظاھری گناہںوں میں سے قتل نا حق بڑھتا جا رہا ہے جو ہمیں دشمنی کی طرف دھکیل دیتا ہے جیسا کہ اللہ کریم نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا جس نے زمین میں فساد برپا کرنے کے لیے بغیر کسی جان کے قتل کیا گویہ اس نے سب لوگوں کو قتل کیا ( سورہ مائدہ آیت نمبر 32 )

یہ آیت مبارکہ اسلام کی اصل تعلیمات کو واضح کرتی ہے کہ اسلام کس قدر امن و سلامتی کا مذھب ہے ( صراط الجنان مائدہ تحت آیت 32)

قتل ناحق کی مذمت احادیث طیبہ کی روشنی میں : آئیں کچھ احادیث کریمہ کی روشنی میں قتل نا حق کی مذمت پڑھتے ہیں کئی ایک احادیث میں قتل نا حق کی مذمت بیان کی گئی ہیں جن میں 5 کو ہم یہاں ذکر کریں گے

( 1 )رب کی رحمت سے مایوس: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو کسی مسلمان کے قتل پر آدھی بات سے بھی مدد کرے تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوگا اللہ کی رحمت سے نا امید (مشکاة المصابیح حدیث نمبر 3484)

(2) قیامت کے دن رسوائی: حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن مقتول قاتل کو لائے گا کہ اس کی پیشانی و سر اس کے ہاتھ میں ہوگا اور مقتول کی رگیں خون بہاتی ہوگی اور عرض کرے گا یارب اس نے مجھے قتل کیا تھا حتی کہ اسے عرش کے قریب کردے گا ۔ (مشکات المصابیح حدیث نمبر 3465)

(3)مسلمان کی جان کی اہمیت: حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ کے نزدیک دنیا ختم ہوجانا ایک مسلمان کے ظلما قتل سے زیادہ سہل ہے ۔ (ابن ماجہ حدیث نمبر 2619)

(4) جنت کی خوشبو سے محرومی: حضرت عبداللہ ابن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو کسی عہد و پیمان والے کو قتل کردے وہ جنت کی خوشبو نہ پائے گا حالانکہ اس کی خوشبو چالیس کی راہ سے محسوس کی جاتی ہے۔ (مشکات المصابیح حدیث نمبر 3452)

(5) جہنم کی وعید: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کسی مومن کو قتل کرنے میں اگر زمین و آسمان والے شریک ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو جہنم میں دھکیل دے۔ (ترمذی حدیث نمبر 1403)

اللہ کریم سے دعا ہیں کہ ہمیں دنیا میں اخلاص جیسی دولت سے مالامال فرمائے اور آپس میں بغض اور نفرت سے پھیلنے والی دشمنی اور غلط قدم اٹھانے سے محفوظ فرمائے اور علم دین جیسی عظیم نعمت عطاء فرمائے آمین ثم آمین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


ہمارا اسلام بہت ہی عمدہ اور خوبصورت ہے جس نے ہمیں تمام چیزوں کے احکامات بتا دیے ایک طرف جہاں نیکی کرنے پر ہمیں جنت الفردوس کی خوشخبری دی گئی اس طرح گناہ پر سزا کا بھی حکم دیا گیا ہے آج کل ہمارے معاشرے میں ہر گناہ عروج پر ہے ڈاکہ زنی چوری مال کو غصب کرنا کسی پر ظلم کرنا یتیم کا مال کہا جانا انہی میں سے ایک گنا بلکہ بہت بڑا گناہ کسی کو ناحق قتل کرنا ہے ہمارے معاشرے میں بات بات پر قتل کر دیتے ہیں ذرا سی بات ہوئی تو بس غصے سے باہر ہوگئے نا اسکا سوچا نا اسکے بیوی بچوں کا سوچا بس غصے میں آکر سب کچھ ختم کردیا اس کی وجہ کیا ہے ؟ اس کی وجہ کہیں علم دین سے دوری تو نہیں بلکہ علم دین سے دوری ہی ہے اگر ہم اس کے بارے میں (قتل نہ حق) جانتے ہوتے تو ہم یہ کام (قتل نہ حق)کرتے ہوئے سو بار سوچتے ہیں ۔ آئیے اسی کے بارے میں چند احادیث ملاحظہ فرمائیں

’’حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک مسلمان شخص کے قتل سے پوری دنیا کا ناپید ( تباہ) ہو جانا ہلکا (واقعہ) ہے۔‘‘(ترمذي، السنن، کتاب الديات، باب ما جاء في تشديد قتل المؤمن، 4: 16، رقم: 1395۔نسائي، السنن، کتاب تحريم الدم، باب تعظيم الدم، 7: 82، رقم:)

حضرت عبد اللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مومن کو قتل کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام دنیا کے برباد ہونے سے بڑا ہے۔‘‘(نسائي، السنن، کتاب تحريم الدم، باب تعظيم الدم، 7: 82، 83، رقم: 3988-3990۔ طبراني، المعجم الصغير، 1: 355، رقم: 594۔ بيهقي، السنن الکبری، 8: 22، رقم: 15647)

’’حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک پوری کائنات کا ختم ہو جانا بھی کسی شخص کے قتلِ ناحق سے ہلکا ہے۔‘‘(ابن أبي الدنيا، الأهوال: 190، رقم: 183۔ ابن أبي عاصم، الديات: 2، رقم: 2۔بيهقي، شعب الإيمان، 4: 345، رقم: )

اِن روایات اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک جان کو ناحق قتل کرنے والوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اُنہوں نے ایک نفس کو نہیں بلکہ پوری کائنات کی حُرمت پر حملہ کیا ہے، اور اس کا گناہ اس طرح ہے جیسے کسی نے پوری کائنات کو تباہ کردیا ہے۔ اللہ عزوجل ہمیں محفوظ فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


مسلمان کو عمداً قتل کرنا سخت گناہ اور اشد کبیرہ ہے پھر یہ قتل اگر ایمان کی عداوت سے ہو یا قاتل اس قتل کو حلال جانتا ہو تو کفر بھی ہے قاتل اگر کسی مسلمان کو دنیوی عداوت کے سبب قتل کرے اگرچہ اسے حلال نہ جانتا ہو مدت دراز تک جہنم میں رہنے کا حقدار ہے (کیونکہ ایک انسان کا قتلِ ناحق ساری انسانیت کا قتل ہے) (سورة المائدہ آیت 32)

احادیث نبوی صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم میں قتلِ ناحق کی مذمت کو تفصیلا بیان کیا گیا عن عبد اللہ بن عمرو بن العاص قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والذی نفسی بیدہ لقتل مومن اعظم عند اللہ من زوال الدنیا (سنن نسائی المجلد الثانی ص161 مکتبہ یادگار شیخ)

سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں: کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

مجھے اس رب عزوجل کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اللہ کے نزدیک بندہ مومن کا قتل زوال دنیا سے بھی بڑا ہے۔ عن ابن عباس عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال يجيء المقتول بالقاتل يوم القيامه ناسيته وراسه بيده واوداجه تشخب دما یقول یارب قتلنی حتی یدنیہ من العرش۔ (مشکاة المصابیح الجزء الثانی الحدیث3311)

(2) سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن مقتول قاتل کو لائے گا اس حال میں کہ اس کی پیشانی اور سر اس مقتول کے ہاتھ میں ہوگا اور مقتول کے رگیں خون بہاتی ہوں گی اور عرض کرے گا یا رب اس نے مجھے قتل کیا تھا حتی کہ اسے عرش کے قریب کر دے گا

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمہ اللہ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں مطلب یہ کے بارگاہ الہی میں قتل کا مقدمہ بہت اہتمام سے پیش ہوگا اور خاص طور پر سنا جاۓ گا لہذا قتل مومن سے بچو۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:5 , حدیث نمبر:3465)

عن عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال فی الحجۃ الوداع ویحکم (او قال ویلکم )لا ترجعو بعدی کفارا یضرب بعضکم رقاب بعض۔ صحیح مسلم للنووی کتاب الایمان ص332) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا : میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ دوسروں کی گردن مارنے لگو (شرع مسلم لنووی میں اس حدیث کی بہت سی تاویلیں کی گئی لیکن ان میں سے اظہر قول یہ بتایا کے(انہ فعل کفعل کفار) ایسا کرنا کفار کا طریقہ ہے اگرچہ کفر نہیں لیکن بندہ مومن یہ تو سمجھے کے اس قبیح فعل کو طریقہ کفار سے تشبیہ دی گئ ۔

عن عبد اللہ بن مسعود قال قال رسول اللہ علیہ وسلم اول ما یقضی بین الناس یوم القیمہ فی الدماء متفق علیہ ۔ مشکو المصابیح الجزء الثانی الحدیث 3298) سیدنا عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ علیہ الصلوۃ والسلام نے کے قیامت کے دن لوگوں کے درمیان سب سے پہلا فیصلہ خونوں کے بارے میں ہوگا

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمہ اللہ اس کی مراد کی توضیح میں فرماتے ہیں قیامت کے دن معاملات میں سب سے پہلے خون ناحق کا فیصلہ ہوگا بعد میں دوسرے فیصلے اور عبادات میں پہلے نماز کا حساب ہوگا یہ حدیث معاملات کے متعلق ہے وہ حدیث عبادات کے متعلق ہے لہذا دونوں میں کوئی تعارض نہیں (مراۃ المناجیح ص 299)

ان تمام نصوص طیبات سے اظہر من الشمس ہوا کے قتل ناحق نہایت ہی قبیح و مذموم عمل ہے اللہ کے غضب کو دعوت دینے والا شیطان لعین کو خوش کرنے والا بندے کو جہنم کی گہری وادیوں میں جھونکنے کا سبب ہے

اللہ جل شانہ سے دعا ہے کے تمام مسلمانوں کو اس مذموم عمل سے بچنے کی توفیق عطا فرماۓ واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اللہ تعالٰی نے انسان کو”بہترین مخلوق“کےاعزاز سے نوازا، فضیلت و بزرگی اور علم و شرف سے بھی نوازا ہے۔ اور انسان کو”احسنِ تقویم“ کا تاج پہنایا اور اپنی پاک کتاب میں اس کی جان کی حُرمت کا اعلان فرمایا۔ جیسے:اللّہ پاک نے قرآن مجید ارشاد فرمایا:وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّؕ-وَ مَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّهٖ سُلْطٰنًا فَلَا یُسْرِفْ فِّی الْقَتْلِؕ-اِنَّهٗ كَانَ مَنْصُوْرًا۔ ترجمہ کنزالعرفان: اور جس جان کی اللہ نے حرمت رکھی ہے اسے ناحق قتل نہ کرو اور جو مظلوم ہوکر مارا جائے تو ہم نے اس کے وارث کو قابو دیا ہے تووہ وارث قتل کا بدلہ لینے میں حد سے نہ بڑھے۔ بیشک اس کی مدد ہونی ہے۔

اسلام نے کئی جہتوں سے اللہ تعالٰی کی بہترین تخلیق انسان کی حفاظت کا ذہن دیا ہے۔ اور اسلام میں انسانی جان کی بے پناہ حرمت ہے اور کسی انسان کو قتل کرنا شدید کبیرہ گناہ ہے۔

اِسلام نہ صرف مسلمانوں بلکہ بلا تفریقِ مذہب، رنگ و نسل اِنسانوں کے قتل کی سختی سے ممانعت کرتا ہے۔ اِسلام میں کسی اِنسانی جان کی قدر و قیمت اور حرمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے بغیر کسی وجہ کے ایک فرد کے قتل کو پوری اِنسانیت کا خون بہانے کے مترادف قرار دیا ہے۔ اللہ پاک نے ناحق قتل کے بارے میں قرآن مجید میں بھی ارشاد فرمایا ہے:مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا.ترجمہ کنزالعرفان:جس نے کسی جان کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے بدلے کے بغیر کسی شخص کو قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا۔

یہ آیتِ مُبارَکہ اسلام کی تعلیمات کو واضح کرتی ہے کہ اسلام کس قدر امن و سلامتی کا مذہب ہے اور اسلام کی نظر میں انسانی جان کی کس قدر اَہمیت ہے۔احادیث مبارکہ میں بھی ناحق قتل کرنے کی مذمت بیان کی گئی ہے۔

1: سب سے پہلے حساب اور فیصلہ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : ” آدمی سے سب سے پہلے جس چیز کا حساب لیا جائے گا ، وہ نماز ہے ۔ اور لوگوں کے درمیان سب سے پہلے فیصلہ قتل کے بارے میں ہوگا۔ ( سنن سنائی،حدیث 3996)

2: ناحق قتل کبیرہ گناہ: سب سے بڑے گناہ اللہ تعالٰی کے ساتھ شرک کرنا، کسی جان کو قتل کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی گواہی دینا ہیں۔ (بخاری،حدیث:6871) اس حدیثِ مُبارَکہ سے معلوم ہوا کہ کبیرہ گناہوں میں شرک کے بعد سرِ فہرست کسی کی جان لینا ہے

3: دنیا کی تباہی سے زیادہ ہولناک: حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! البتہ مومن کا (ناحق) قتل اللہ تعالیٰ کے ہاں ساری دنیا کی تباہی سے زیادہ ہولناک ہے۔‘‘(سنن نسائی،حدیث 3991)

4: کبیرہ گناہ کیا ہے: حضرت ابو ایوب انصاری رَضِيَ الله تَعَالَى عَنْهُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّى اللَّهِ تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ”جس نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا، نماز قائم کی، زکوۃ ادا کی، رمضان کے روزے رکھے اور کبیرہ گناہوں سے بچتا رہا تو اس کے لئے جنت ہے۔ ایک شخص نے عرض کی: یا رسول اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ ) ، کبیرہ گناہ کیا ہیں ؟ نبی اکرم صَلَّى الله تَعَالَى عَلَيْهِ وَاللهِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا، کسی مسلمان کو (ناحق) قتل کرنا اور کفار سے جنگ کے دن میدان سے فرار ہونا۔ ( سنن نسائی حدیث 4014)

کسی کو بلاجواز قتل کرنے والا پورے سماج اورمعاشرے پر ظلم وزیادتی کرتا ہے۔ وہ معاشرے کو انارکی کی طرف لے جاتا ہے۔ اس جرم عظیم کے باعث قاتل کی دنیوی اور اخروی زندگی تباہ ہوکر رہ جاتی ہے۔ اس سے سکون و چین چھین لیا جاتا ہے۔ پھر سب سے بڑی حقیقت یہ کہ کل اس قاتل نے خود موت کا پیالہ پینا ہے اور اپنے اعمال کا مکمل جواب دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائیں۔آمین !

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


پیارے پیارے اسلامی بھائیوں آج میں آپ کے سامنے ناحق قتل کی مذمت لکھوں گا اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے درست لکھنے کی توفیق عطاءفرمائے۔ الله عز و جل فرماتا ہے یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰىؕ-اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَ الْاُنْثٰى بِالْاُنْثٰىؕ-فَمَنْ عُفِیَ لَهٗ مِنْ اَخِیْهِ شَیْءٌ فَاتِّبَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ وَ اَدَآءٌ اِلَیْهِ بِاِحْسَانٍؕ-ذٰلِكَ تَخْفِیْفٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ رَحْمَةٌؕ-فَمَنِ اعْتَدٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَلَهٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ (تفسیر صراط الجنان)پارہ 2 آیت (178)

ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو! تم پر فرض ہے کہ جو ناحق مارے جائیں ان کے خون کا بدلہ لو آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت تو جس کے لئے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی ہوئی تو بھلائی سے تقاضا ہو اور اچھی طرح ادا یہ تمہارے رب کی طرف سے تمہارا بوجھ ہلکا کرنا ہے اور تم پر رحمت تو اس کے بعد جو زیادتی کرے اس کے لئے دردناک عذاب ہے۔ (ترجمۂ کنز الایمان)

امام بخاری اپنی صحیح البخارى میں ابن عباس رضی الله تعالیٰ عنہما سے راوی کر نبی کریم صل الله عالم نے فرمایا الله تعالیٰ کے نزدیک سب لوگوں سے زیادہ مبغوض تین شخص ہیں حرم میں الحاد کرنے والا اور اسلام میں طریقہ جاہلیت کا طلب کرنے والا اور کسی مسلمان شخص کا ناحق خون طلب کرنے والا تاکہ اسے بہائے۔ (صحيح البخارى كتاب الديات، حصہ 4 ص 362)

امام ترمذی ابو سعید اور ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنھ سے روایت کرتے ہیں ہے کہ اگر آسمان و زمین والے ایک مرد مومن کے خون میں شریک ہو جائیں تو سب کو الله تعالیٰ جہنم میں اوندھا کر کے ڈال دے گا (جامع الترمذی کتاب الديات ج 3 ص 100)

ابوداود اور حضرت ابو الدرداء رضی اللہ تعالی عنھ سے راوی رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ مومن تیز رو اور صالح رہتا ہے جب تک حرام خون نہ کرے اور جب حرام خون کر لیتا ہے تو اب وہ تھک جاتا ہے۔( سنن ابی داود کتاب الفتن ج 4 صے 139)

ابو داود وہ ابو الدرداء سے اور نسائی معاویہ رضي الله عنه سے۔ راوی ھے کے رسول صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ امید ہے کہ گناہ کو اللہ بخش دے گا مگر اس شخص کو نہ بخشے گا جو مشرک ہو تے مر جائے یا جسے نے کسے مرد مومن کو قصداً ناحق قتل کیا(سنن ابی داؤد، کتاب الفتن، ج4، ص139)

الله تبارک وتعالیٰ نے سے دعا ہے کہ ہم کو کسی مسلمان شخص کو ناحق قتل کرنے سے بچے، رہنے کی توفیق عطا فرمائے

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اسلام کے مقدس مقامات میں کعبہ بڑی عظمت والی جگہ ہے۔یہ حرمت والا مقام ہے اور تمام انبیاء و صالحین کا عبادت کا مقام ہے۔اس کی عظمت ،شرافت،بزرگی اور بڑائی کرنے سے ہماری زبانیں عاجز ہیں مگر اللّٰہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے نزدیک ایک مومن کی جان و جسم عزت و عظمت کی شرافت وعظمت کعبہ سے بھی بڑھ کر ہے ۔اور آج کل کے پرفتن دور میں کبیرہ گناہوں میں سے ایک کبیرہ گناہ کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنا ہے اور یہ بہت برا فعل اور قابل مذمت ہے ۔یہاں پر جو ابھی احادیث مبارکہ بیان ہوں گی وہ فقط مسلمانوں کو ڈرانے کے متعلق ہوں گی کہ مسلمان کو ڈرانا بھی جائز نہیں تو قتل تو بہت دور کی بات ہے ۔اور علماء کرام نے صرف ڈرانے کو بھی کبیرہ گناہ شمار کیا ہے ۔

اس پر کئی احادیث موجود ہیں ۔یہاں ان میں سے دو احادیث پیش خدمت ہیں ۔

نبئ کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا: لا يحل لمسلم ان يروع مسلما. ترجمہ: کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی مسلمان کو ڈراۓ۔ (ابو داؤد السنن،ج7کتاب الادب،الرقم4918)۔

ایک اور مقام پر نبئ کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا: لا تروعواالمسلم فان روعة المسلم ظلم عظيم. ترجمہ: کسی مسلمان کو مت ڈراؤ ،بےشک مسلمان کو ڈرانا بہت بڑا ظلم ہے۔ (الھیثمی،مجمع الزوائد ،ج6)

حضرت براء بن عازب( رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ سرور کونین (صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم)کا فرمان عبرت نشان ہے: لزوال الدنیا اھون علی اللّٰہ من قتل مؤمن بغیر حق۔ ترجمہ:ساری دنیا کا تباہ ہو جانا اللّٰہ کے نزدیک مومن کے نا حق قتل سے زیادہ ہلکا ہے۔(قزوینی السنن،ج3،کتاب الدیات الرقم2628)

حضرت عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) سے ایک دوسری روایت میں ہے ۔ قتل المؤمن اعظم عنداللہ من زوال الدنیا ۔ ترجمہ: اللّٰہ کے نزدیک مومن کا قتل دنیا کے زائل ہونے سے بڑا معاملہ ہے ۔(نسائی السنن ج6،کتاب المحاریۃ،الرقم4025)

احادیث میں قاتل کے فرائض و نوافل کے قبول نہ ہونے کے بارے میں آیا ہے ۔چناچہ حضرت ابو عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم)کو فرماتے ہوئے سنا: من قتل مؤمنا فاغتبط بقتلہ لم یقبل اللّٰہ منہ فرضا ولا عدلا۔ ترجمہ:جس نے کسی مومن کو قتل کیا اور پھر اس کے قتل پر خوش ہوا اللّٰہ پاک اس کی فرض اور نفلی عبادات قبول نہیں کرے گا ۔(سجستانی ،السنن ج6،کتاب الغتن الرقم 4221)

قاتل بہت بڑی مصیبت میں ہے ۔قتل ایسا گناہ عظیم ہے جس پر سخت سے سخت وعیدیں وارد ہیں ایک حدیث پاک میں تو قاتل کو لازمی سزا دینے کا ذکر ہے ۔

حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا: کل ذنب عسی اللّٰہ ان یغفرہ الا رجل یموت مشرکا او یقبل مؤمنا متعمدا۔ ترجمہ:قریب ہے کہ اللّٰہ ہر گناہ کو بخش دے مگر جو شخص مشرک ہونے کی حالت میں مرا یا جس نے کسی مومن کو جان بوجھ کر ناحق قتل کیا (یہ ایسے گناہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی سزا دے گا) مشرک کی مغفرت کبھی نہیں ہوگی اور قتل کا تعلق حقوق العباد سے ہے اس لیے قاتل کی بھی مغفرت آسان نہیں ۔

جب تک مقتول معاف نہ کرےاور وہ اپنی سزا پائے گا البتہ اگر مقتول اپنے مسلمان قاتل کو معاف کر دے گا تو مغفرت کی امید کی جا سکتی ہے اور جس شخص نے کسی دوسرے انسان سے زندہ رہنے کا حق ہی چھین لیا ہو وہ بھلا مقتول سے توقع رکھ سکتا ہے کہ وہ قاتل کو معاف کر دے ۔

اللّٰہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اس گناہ کبیرہ سے بچے رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے محبوب (صلی اللہ علیہ وسلم)کے صدقے ہمارا خاتمہ بالخیر فرماۓ آمین یارب العالمین۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اسلام امن وسلامتی کا مذہب ہے اسلام کی نظر میں انسان کی عزت و حرمت بہت زیادہ ہے لیکن افسوس کہ آج کل انسان کو قتل کرنا معمولی سا کام ہوگیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینا غنڈہ گردی' دہشت گردی' ڈکیتی 'خاندانی 'لڑائی تعصب والی لڑائیاں عام ہے اور مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جارہا ہے گروپ جتھے عسکری ونگ بنے ہوئے ہیں جن کا کام ہی قتل کرنا ہے ۔

اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے۔

وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(93) ترجمہ" اور کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کردے تو اسکا بدلہ جہنم ہے عرصہ دراز تک اس میں رہے گا اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور پر لعنت کی اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے (سورہ النساء 93 پارہ 5 )

قتل ناحق کی مذمت احادیث کی روشنی میں۔ آئے احادیث کی روشنی میں قتل نا حق کی مذمّت سنتے ہیں۔

(1)ناحق قتل کبیرہ گناہ ہے: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تاجدار انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا" بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو (ناحق ) قتل کرنا ہے "۔۔(صراط الجنان فے تفسیر القران ص 309 جلد 2 )

(2)جہنم میں داخلہ کی وعید: حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا "اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہو جائیں تو اللہ پاک سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے (صراط الجنان فے تفسیر القران ص 309 جلد 2 )

(3) اللہ کی رحمت سے مایوس : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے"حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا "جس نے کسی مؤمن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو قیامت کے دن اللہ تعالٰیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوگا ٫یہ اللہ عزوجل کی رحمت سے مایوس ہے ۔۔(صراط الجنان فے تفسیر القران ص309 جلد 2 )

(4)اللہ کے نزدیک قتل ناحق کی مذمت : حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے "رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا"اللہ پاک کے نزدیک دنیا کا ختم ہو جانا ایک مسلمان کو ظلما قتل سے زیادہ سہل ہے (صراط الجنان فے تفسیر القران ص 470جلد 2 )

(5)قاتل مقتول دونوں جہنم میں: حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے راوی فرماتے ہیں میں نے عرض کی ۔مقتول جہنم میں کیوں جائے گا ؟ ارشاد فرمایا اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پر مصر تھا (صراط الجنان فے تفسیر القران ص 309جلد 2 )

اللہ پاک ہمیں دین اسلام سمجھنے اور مسلمانوں کی عزت و احترام کی توفیق عطا فرمائے آمین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اللّٰہ تبارک وتعالی نےٰ حضور پر نور رحمت دوعالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت کو دنیا میں بھیجا اور انسان دنیا کے محبت و جذبات میں آکر ایک دوسرے کا قتل کردیتا ہے اور قتل کرنا حرام ہے اسی وجہ کو سامنے رکھ کر چند احادیث و آیات قتل ناحق کی مذمت میں بیان کروں گا

مسلمان کو ناحق قتل کرنے کی مذمت: کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا شدید ترین کبیرہ گناہ ہے اور کثیر احادیث میں ا س کی بہت مذمت بیان کی گئی ہے، ان میں سے 4احادیث درج ذیل ہیں:

(1)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالٰی: ومن احیاہا، 4 / 358، الحدیث: 4871)

(2)…کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے خسارے کا شکار ہو گا۔ حضرت ابو بکرہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہوجائیں تواللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔(معجم صغیر، باب العین، من اسمہ علی، ص205 ، الجزء الاول)

(3)…حضرت ابو بکرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پرمُصِر تھا۔(بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا۔۔۔ الخ، 1 / 23، الحدیث: 31)

(4)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ’’یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے مایوس ہے۔‘‘(ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلمًا 3 / 242، الحدیث: 2420)

اسی طرح اللّٰہ تعالٰی نے قرآن پاک میں بھی ارشاد فرمایا آیت مبارکہ ملاحظہ فرمائیے : وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(93) ترجمۂ کنز الایمان اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے تیار رکھا بڑا عذاب۔

تفسیر صراط الجنان {وَ مَنْ یَّقْتُلْ: اور جو قتل کرے۔} اس سے پہلی آیت میں غلطی سے کسی مسلمان کو قتل کر دینے کا حکم بیان کیا گیا اور اس آیت میں جان بوجھ کر کسی مسلمان کو قتل کرنے کی اُخروی وعید بیان کی گئی ہے۔ (پ4,س النساء،آیت93)

وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ اَنْ یَّقْتُلَ مُؤْمِنًا اِلَّا خَطَــٴًـاۚ-وَ مَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَــٴًـا فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَّ دِیَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰۤى اَهْلِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ یَّصَّدَّقُوْاؕ-فَاِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّكُمْ وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍؕ-وَ اِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍۭ بَیْنَكُمْ وَ بَیْنَهُمْ مِّیْثَاقٌ فَدِیَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰۤى اَهْلِهٖ وَ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍۚ-فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَهْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ٘-تَوْبَةً مِّنَ اللّٰهِؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًا(92)

ترجمۂ کنز الایمان اور مسلمانوں کو نہیں پہنچتا کہ مسلمان کا خون کرے مگر ہاتھ بہک کر اور جو کسی مسلمان کو نادانستہ قتل کرے تو اس پر ایک مملوک مسلمان کا آزاد کرنا ہے اور خوں بہا کہ مقتول کے لوگوں کو سپرد کی جائے مگر یہ کہ وہ معاف کردیں پھر اگر وہ اس قوم سے ہو جو تمہاری دشمن ہے اور خود مسلمان ہے، تو صرف ایک مملوک مسلمان کا آزاد کرنا اور اگر وہ اس قوم میں ہو کہ تم میں ان میں معاہدہ ہے تو اس کے لوگوں کو خوں بہا سپرد کی جائے اور ایک مسلمان مملوک آزاد کرنا تو جس کا ہاتھ نہ پہنچے وہ لگاتار دو مہینے کے روزے رکھے یہ اللہ کے یہاں اس کی توبہ ہے اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔ (پ 4,س النساء،آیت92)

اللّٰہ تعالٰی سے دعا ہے کہ ہمیں حرام کام سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور جو ہم نے قتل ناحق کی مذمت میں احادیث و آیات پڑھیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الامین صلی اللّٰہ علیہ وسلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


محترم قارئین : افسوس کہ آج کل قتل کرنا بڑا معمولی سا کام ہوگیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینا، غنڈہ گردی، دہشت گردی، ڈکیتی، خاندانی لڑائی، تَعَصُّب والی لڑائیاں عام ہیں۔ مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے، گروپ اور جتھے اور عسکری وِنگ بنے ہوئے ہیں جن کا کام ہی قتل و غارتگری کرنا ہے۔

یاد رہے : کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا شدید ترین کبیرہ گناہ ہے اور احادیث میں بکثرت اس کی مذمت بیان کی گئی ہے،

جن میں سے چند احادیث درج ذیل ہیں۔

(01) میں سب کو قتل کر دیتا : عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ: أَنَّ عُمَرَ ابْنَ الْخَطَّابِ قَتَلَ نفًرًا خَمْسَةً أَوْ سَبْعَةً بِرَجُلٍ وَاحِدٍ قَتَلُوهُ قَتْلَ غِيلَةٍ، وَقَالَ عُمَرُ: لَوْ تَمَالأَ عَلَيْهِ أَهْلُ صَنْعَاءَ لَقَتَلْتُهُمْ جَمِيعًا حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت ہے کہ عمربن الخطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پانچ یاسات نفر(یعنی آدمیوں ) کو ایک شخص کو دھوکا دے کر قتل کرنے کی وجہ سے قتل کر دیا اور فرمایا کہ اگر صنعا (یمن کا دار الحکومت)کے سب لوگ اس خون میں شریک ہوتے تو میں سب کو قتل کر دیتا۔ {’’ الموطأ ‘‘ ،للإمام مالک،کتاب العقول،باب ماجاء في الغیلۃ والسحر،الحدیث:1671 ،ج 2 ،ص 377، مکتبہ دار المعرفۃ بیروت}

(02) تو اللہ پاک انہیں آگ میں اوندھا ڈال دے گا : وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَوْ أَنَّ أَهْلَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ اشْتَرَكُوا فِي دَمِ مُؤْمِنٍ لأَكَبَّهُمُ اللّٰهُ فِي النَّارِ۔ حضرت ابو سعید اور ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہما پیارے آقا صلی اللہُ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ پیارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اگر آسمان و زمین والے ایک مرد مومن کے خون میں شریک ہو جائیں تو سب کو اللہ تعالیٰ جہنم میں اوندھا کر کے ڈال دے گا۔ {جامع الترمذی ، کتاب الدیات،باب الحکم في الدماء،الحدیث : 1403،ج 3 ،ص 100،مکتبہ دار الفکر بیروت }

•(03) وہ جنت کی خوشبو نہ سونگھے گا • وَعَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : "مَنْ قَتَلَ مُعَاهِدًا لَمْ يَرَحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ رِيحَهَا تُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ أَرْبَعِينَ خَرِيفًا" حضرت عبداللہ بن عَمْرْو رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ نبی مکرم شفیع معظم نور مجسم صَلَّی اللہ تعالٰی علَیہ وسلَّم نے فرمایا کہ’’ جس نے کسی معاہد (ذمی) کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو نہ سونگھے گا اور بے شک جنت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت تک پہنچتی ہے۔ {’’ صحیح البخاري ‘‘ ،کتاب الجزیۃوالموادعۃ،باب إثم من قتل معاھدا بغیرجرم،الحدیث : 3166 ،ج ،2،ص 365، دار الکتب العلمیہ بیروت }

•(04) دنیا کا زوال اللہ پاک پر آسان ہے • حضرت عبداللہ بن عَمْرْو رضی اللہ تعالٰی عنھما سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تعالٰی علَیہ وسلَّم نے فرمایا کہ ’’بے شک دنیا کا زوال اللہ پر آسان ہے۔ ایک مرد مسلم کے قتل سے ۔‘‘ { جامع الترمذي ‘‘ ،کتاب الدیات،باب ماجاء في تشدید قتل المؤمن،الحدیث :1400،ج 3 ،ص 99، مکتبہ دار الفکر بیروت}

•(05) سب سے زیادہ مبغوض لوگ • حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت ہے کہ پیارے پیارے آقا صَلَّی اللہ تعالٰی علَیہ وسلَّم نے فرمایا: ’’ اللہ (عزوجل)کے نزدیک سب لوگوں سے زیادہ مبغوض تین شخص ہیں ۔

1-حرم میں الحاد کرنے والا ۔

2-اسلام میں طریقۂ جاہلیت کو طلب کرنے والا۔

03- اور کسی مسلمان شخص کا ناحق خون طلب کرنے والاتاکہ اسے بہائے۔ { صحیح البخاری ،کتاب الدیات،باب من طلب دم إمرء بغیرحق،الحدیث:6882،ج 4 ،ص 362، دار الکتب العلمیہ بیروت}

• (06) کبیرہ گناہ ۔ • حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے۔ {بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالٰی: ومن احیاہا، ج،4 ،ص،358، الحدیث: 6871، مکتبہ دار الکتب العلمیہ بیروت }

• (07) قاتل مقتول دونوں جھنم میں • (3)…حضرت ابو بکرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پرمُصِر تھا۔ {بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا۔۔۔ الخ،ج، 1،ص،23، الحدیث: 31 ، مکتبہ دار الکتب العلمیہ بیروت }

• (08) دین کے سبب کشادگی • حضرت ابنِ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت ہے فرماتے ہیں پیارے پیارے مکی مدنی مصطفیٰ صَلَّی اللہ تعالٰی علَیہ وسلَّم نے فرمایا کہ ’’مسلمان اپنے دین کے سبب کشادگی میں رہتا ہے جب تک کوئی حرام خون نہ کر لے۔‘‘ {صحیح البخاری ، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالی (وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا۔۔۔ إلخ ) ،الحدیث : 6862 ،ج 4 ،ص 356}

ان احادیث طیبہ سے وہ لوگ عبرت لے جو قتل نا حق کر کے اس شدید ترین کبیرہ گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اللہ پاک ہمیں قرآن و سنت کے روشنی میں اپنی زندگی گزارنے کی تو فیق رفیق عطا فرمائے ۔ امین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہُ علیہ وسلم۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


الحمدللّٰہ اسلام ایک ایسا دین ہے جس میں ہر انسان کے حقوق بیان کیے گیۓ ہیں اور ان حقوق کو بیان کرنے ان پر عمل کرنے کی تعلیم دی گٸ ہے ۔انسان جتنی سعادتیں پاتا اور جتنے رشتوں سے تعلق بناتا ہے ۔اسکے ذمہ ان معمولات کے حقوق بڑھتے رہتے ہیں۔دین اسلام نے مسلمانوں کے جو حقوق بیان کیے ہیں ان میں سے ایک مسلمان کی جان کی حفاظت کرنا بھی ہے اس کو کسی قسم کی تکیلف نہ پہنچانا ہے۔ جہاں دین اسلام میں مسلمان کی جان کی حفاظت کی تعلیم دی گی ہے اور اس پر عمل کا حکم دیا گیا ہے وہیں کسی مسلمان کی جان کو ناحق قتل کرنے کی مذمت بھی بیان کی گی ہے ۔چنانچہ قرآن کریم پارہ 19 سورہ فرقان میں فرمایا گیا:

وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ وَ لَایَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ لَایَزْنُوْنَۚ-وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ یَلْقَ اَثَامًا(68) ترجمۂ کنز الایمان: اور وہ جو اللّٰہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پوجتے اور اس جان کو جس کی اللہ نے حرمت رکھی ناحق نہیں مارتے اور بدکاری نہیں کرتے اور جو یہ کام کرے وہ سزا پائے گا۔

تفسیر صراط الجنان میں اس آیت کے تحت فرمایا گیا: کامل ایمان والوں کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ وہ فضیلت والے اعمال سے مُتَّصِف ہونے کے ساتھ ساتھ قبیح اور برے کاموں سے بھی بچتے ہیں جیسے وہ اللہ تعالٰی کے ساتھ کسی دوسرے معبود کی عبادت نہیں کرتے،شرک سے بَری اور بیزار ہیں اور وہ اس جان کو ناحق قتل نہیں کرتے جسے قتل کرنے کو اللہ تعالٰی نے حرام فرمایا ہے اور اس کا خون مُباح نہیں کیا جیسے کہ مومن اور معاہدہ کرنے والا کافر، یونہی وہ بدکاری نہیں کرتے اور جو شخص بھی ان کاموں میں سے کوئی کام کرے گا تو وہ اس کی سزا پائے گا۔( مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: 68، ص810-811، روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: 68، 6 / 246-247، ملتقطاً)

احادیث مبارکہ میں بھی دیگر گناہوں کے ساتھ ساتھ قتلِ ناحق کی وعیدیں ذکر کی گئی ہیں:

1:(بڑے بڑے تین گناہ) یاد رہے کہ اللہ تعالٰی کے ساتھ شرک کرنا،کسی جان کو ناحق قتل کرنا اور زنا کرنا بہت بڑے گناہ ہیں،جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’میں نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے سوال کیا’’ کونسا گناہ سب میں بڑا ہے؟ ارشادفرمایا ’’یہ کہ تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ کسی کو شریک کرے، حالانکہ تجھے اُس نے پیدا کیا۔ میں نے عرض کی: پھر اس کے بعد کونسا گناہ؟ ارشادفرمایا ’’یہ کہ تو اپنی اولاد کو اس لیے قتل کر ڈالے کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گی۔میں نے عرض کی: پھر کونسا؟ ارشادفرمایا ’’یہ کہ تو اپنے پڑوسی کی عورت سے زنا کرے۔ اللہ تعالٰی نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تصدیق میں یہ آیت ’’وَ الَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ‘‘ نازل فرمائی۔(بخاری، کتاب الادب، باب قتل الولد خشیۃ ان یأکل معہ، 4 / 100، الحدیث: 6001)

2:(سب سے بڑے گناہ) حضور نبی کریم رؤوف رحیم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کبیرہ گناہوں میں سے سب سے بڑے گناہ اللّٰہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا، کسی کو ناحق قتل کرنا، اور سود کھانا ہے۔ (مجمع الزوائد، کتاب الایمان، باب في الكبائر، الحدیث382، جلد1، صفحہ 291)

3:(تین قسم کے لوگ) حضور نبی پاک صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جہنم سے ایک گردن نکلے گی جو فصیح و بلیغ زبان میں کلام کرے گی، اس کی دو آنکھیں ہونگیں جن سے وہ دیکھے گی اور ایک زبان ہوگی جس سے وہ کلام کرے گی وہ کہے گی:" مجھے اللّٰہ کے سوا کسی کو معبود بنانے والے، ہر سرکش ظالم اور کسی جان کو ناحق قتل کرنے والے کے متعلق حکم دیا گیا ہے۔" پس وہ ان (تین قسم کے لوگوں کو) دیگر تمام لوگوں سے 500 سال پہلے (جہنم میں لے جائے گی۔) (الترغیب والترہیب، کتاب الحدود، باب الترھیب في قتل النفس .........الخ، الحديث3735، جلد 3، صفحہ 237)

4:(جہنم میں اوندھے منہ) حسن اخلاق کے پیکر، محبوبِ رب اکبر صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا: کسی مسلمان کو قتل کرنے میں اگر تمام زمین و آسمان والے شریک ہوجائیں تو اللّٰہ عزوجل ان سب کو اوندھے منہ جہنم میں گرادے۔ (المعجم الصغير للطبراني، الحديث566، الجزؤ الاول، صفحہ 205)

5:(ناحق خون بہانے سے زیادہ آسان چیز) نور کے پیکر تمام نبیوں کے سرور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم کا فرمان عالیشان ہے:" اللّٰہ کے نزدیک تمام دنیا کا تباہ ہوجانا ناحق خون بہانے سے زیادہ آسان ہے۔ (شعب الايمان للبيهقي، باب في تحريم النفوس والجنايات عليها، الحديث5344، جلد 4، صفحہ 345)

ان احادیث مبارکہ سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قتلِ ناحق دنیا میں ایک ایسا عمل ہے کہ جو انسان کی زندگی کے ساتھ ساتھ اس کی آخرت کی تباہی کا بھی باعث بنتا ہے جس کے سبب آخرت میں طرح طرح کے عذابات کا سامنا کرنا پڑے گا!

ہم اللّٰہ کریم کی بارگاہ میں دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اس عملِ قبیح کے ساتھ ساتھ ہر اس عمل سے محفوظ رکھے جو دنیا و آخرت میں ہماری ناکامی و بربادی کا سبب بنے.آمین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اسلام پُر امن و باوقار دین ہے اور یہ اپنے ماننے والوں کو امن و سلامتی کا درس دیتا ہے۔ دینِ اسلام میں کسی مسلمان کو بلا عذر شرعی معمولی سی بھی تکلیف پہنچانے کی اجازت نہیں چہ جائیکہ اس کو قتل کیا جائے۔

کیونکہ کسی ایک نفس کو ظلما قتل کرنا گویا تمام انسانیت کو قتل کرنا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(93) (پ5، النساء :93) ترجمۂ کنزالایمان :اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کابدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے تیار رکھا بڑا عذاب۔

ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے:مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاؕ6، المائدۃ:32) ترجمۂ کنزالایمان:جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کئے تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیا اور جس نے ایک جان کو جِلالیا (بچایا) اس نے سب لوگوں کو جِلالیا۔

تفسیرِ صراط الجنان میں اس آیت کے تحت ہے: یہ آیت ِ مبارکہ اسلام کی اصل تعلیمات کو واضح کرتی ہے کہ اسلام کس قدر امن و سلامتی کا مذہب ہے اور اسلام کی نظر میں انسانی جان کی کس قدر اہمیت ہے۔ اس سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہئے جو اسلام کی اصل تعلیمات کو پس پُشت ڈال کر دامنِ اسلام پر قتل و غارت گری کے حامی ہونے کا بد نما دھبا لگاتے ہیں اور ان لوگوں کو بھی نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو مسلمان کہلا کر بے قصور لوگوں کو بم دھماکوں اور خود کش حملوں کے ذریعے موت کی نیند سلا کر یہ گمان کرتے ہیں کہ انہوں نے اسلام کی بہت بڑی خدمت سر انجام دے دی۔

مسلمان کو قتل کرنے کا حکم ؟اگر مسلمانو ں کے قتل کو حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب کیا تو یہ خود کفر ہے اور ایسا شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور قتل کو حرام ہی سمجھا لیکن پھر بھی اس کا ارتکاب کیا تب یہ گناہ کبیرہ ہے اور ایسا شخص مدت ِ دراز تک جہنم میں رہے گا۔ آیت میں ’’خَالِدًا ‘‘کا لفظ ہے اس کا ایک معنیٰ ہمیشہ ہوتا ہے اور دوسرا معنیٰ عرصہ دراز ہوتا ہے یہاں دوسرے معنیٰ میں مذکور ہے۔(تفسیرِ صراط الجنان, تحت آیت: 93 سورة النساء, پارہ: 5)

احادیث میں بھی قتلِ ناحق کی کثیر مذمت بیان کی گئی ہے:

(1)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالٰی: ومن احیاہا، 4 / 358، الحدیث: 6871)

(2)…کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے خسارے کا شکار ہو گا۔ حضرت ابو بکرہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہوجائیں تواللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔(معجم صغیر، باب العین، من اسمہ علی، ص205 ، الجزء الاول)

(3)…حضرت ابو بکرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پرمُصِر تھا۔(بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا۔۔۔ الخ، 1 / 23، الحدیث: 31)

(4)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ’’یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے مایوس ہے۔‘‘(ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلمًا، 3 / 262، الحدیث: 2620)

(5) رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ممکن ہے اﷲ تعالٰی سارے گناہ بخش دے سوائے اس کے کہ جو مشرک مرے یا جو دانستہ مؤمن کو قتل کرے۔(کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:5 , حدیث نمبر:3468)

(6)…حضرت براء بن عازب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کاختم ہو جانا ایک مسلمان کے ظلماً قتل سے زیاد سہل ہے۔(ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلماً، 3 / 261، الحدیث: 2619)

(7 )....روایت ہے حضرت ابن عباس سے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے راوی فرمایا قیامت کے دن مقتول قاتل کو لائے گا کہ اس کی پیشانی و سر اس کے ہاتھ میں ہوگا اور مقتول کی رگیں خون بہاتی ہوں گی اور عرض کرے گا یارب اس نے مجھے قتل کیا تھا حتی کہ اسے عرش کے قریب کردے گا۔

(کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:5 , حدیث نمبر:3465)

(8)... روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اﷲ نے کہ جوکسی مسلمان کے قتل پر آدھی بات سے بھی مددکرے تو وہ اﷲ تعالٰی سے اس حال میں ملے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کی درمیان لکھا ہوگا اﷲ کی رحمت سے ناامید ہے۔ (کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:5 , حدیث نمبر:3484)

قتل ناحق کے متعلق ہمارے معاشرے کا کردار : قرآن پاک میں قتلِ ناحق کے متعلق ان وعیدات اور ان آحادیث کو پڑھ، سن کر اللّٰہﷻ سے ڈر جانا چاہیے مگر افسوس کہ آج کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہوگیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینا، غنڈہ گردی، دہشت گردی، ڈکیتی، خاندانی لڑائی، تَعَصُّب والی لڑائیاں عام ہیں۔ مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے، گروپ اور جتھے اور عسکری وِنگ بنے ہوئے ہیں جن کا کام ہی قتل و غارتگری کرنا ہے۔

اللہ پاک ہمارے معاشرے کو امن و سکون کا گہوارہ بناۓ اور اس معاشرے سے قتلِ ناحق اور خون ریزی جیسے فسادات کو ختم فرمائے۔آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔