اسلام کے مقدس مقامات میں کعبہ بڑی عظمت والی جگہ ہے۔یہ حرمت والا مقام ہے اور تمام انبیاء و صالحین کا عبادت کا مقام ہے۔اس کی عظمت ،شرافت،بزرگی اور بڑائی کرنے سے ہماری زبانیں عاجز ہیں مگر اللّٰہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے نزدیک ایک مومن کی جان و جسم عزت و عظمت کی شرافت وعظمت کعبہ سے بھی بڑھ کر ہے ۔اور آج کل کے پرفتن دور میں کبیرہ گناہوں میں سے ایک کبیرہ گناہ کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنا ہے اور یہ بہت برا فعل اور قابل مذمت ہے ۔یہاں پر جو ابھی احادیث مبارکہ بیان ہوں گی وہ فقط مسلمانوں کو ڈرانے کے متعلق ہوں گی کہ مسلمان کو ڈرانا بھی جائز نہیں تو قتل تو بہت دور کی بات ہے ۔اور علماء کرام نے صرف ڈرانے کو بھی کبیرہ گناہ شمار کیا ہے ۔

اس پر کئی احادیث موجود ہیں ۔یہاں ان میں سے دو احادیث پیش خدمت ہیں ۔

نبئ کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا: لا يحل لمسلم ان يروع مسلما. ترجمہ: کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی مسلمان کو ڈراۓ۔ (ابو داؤد السنن،ج7کتاب الادب،الرقم4918)۔

ایک اور مقام پر نبئ کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا: لا تروعواالمسلم فان روعة المسلم ظلم عظيم. ترجمہ: کسی مسلمان کو مت ڈراؤ ،بےشک مسلمان کو ڈرانا بہت بڑا ظلم ہے۔ (الھیثمی،مجمع الزوائد ،ج6)

حضرت براء بن عازب( رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ سرور کونین (صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم)کا فرمان عبرت نشان ہے: لزوال الدنیا اھون علی اللّٰہ من قتل مؤمن بغیر حق۔ ترجمہ:ساری دنیا کا تباہ ہو جانا اللّٰہ کے نزدیک مومن کے نا حق قتل سے زیادہ ہلکا ہے۔(قزوینی السنن،ج3،کتاب الدیات الرقم2628)

حضرت عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) سے ایک دوسری روایت میں ہے ۔ قتل المؤمن اعظم عنداللہ من زوال الدنیا ۔ ترجمہ: اللّٰہ کے نزدیک مومن کا قتل دنیا کے زائل ہونے سے بڑا معاملہ ہے ۔(نسائی السنن ج6،کتاب المحاریۃ،الرقم4025)

احادیث میں قاتل کے فرائض و نوافل کے قبول نہ ہونے کے بارے میں آیا ہے ۔چناچہ حضرت ابو عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم)کو فرماتے ہوئے سنا: من قتل مؤمنا فاغتبط بقتلہ لم یقبل اللّٰہ منہ فرضا ولا عدلا۔ ترجمہ:جس نے کسی مومن کو قتل کیا اور پھر اس کے قتل پر خوش ہوا اللّٰہ پاک اس کی فرض اور نفلی عبادات قبول نہیں کرے گا ۔(سجستانی ،السنن ج6،کتاب الغتن الرقم 4221)

قاتل بہت بڑی مصیبت میں ہے ۔قتل ایسا گناہ عظیم ہے جس پر سخت سے سخت وعیدیں وارد ہیں ایک حدیث پاک میں تو قاتل کو لازمی سزا دینے کا ذکر ہے ۔

حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا: کل ذنب عسی اللّٰہ ان یغفرہ الا رجل یموت مشرکا او یقبل مؤمنا متعمدا۔ ترجمہ:قریب ہے کہ اللّٰہ ہر گناہ کو بخش دے مگر جو شخص مشرک ہونے کی حالت میں مرا یا جس نے کسی مومن کو جان بوجھ کر ناحق قتل کیا (یہ ایسے گناہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی سزا دے گا) مشرک کی مغفرت کبھی نہیں ہوگی اور قتل کا تعلق حقوق العباد سے ہے اس لیے قاتل کی بھی مغفرت آسان نہیں ۔

جب تک مقتول معاف نہ کرےاور وہ اپنی سزا پائے گا البتہ اگر مقتول اپنے مسلمان قاتل کو معاف کر دے گا تو مغفرت کی امید کی جا سکتی ہے اور جس شخص نے کسی دوسرے انسان سے زندہ رہنے کا حق ہی چھین لیا ہو وہ بھلا مقتول سے توقع رکھ سکتا ہے کہ وہ قاتل کو معاف کر دے ۔

اللّٰہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اس گناہ کبیرہ سے بچے رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے محبوب (صلی اللہ علیہ وسلم)کے صدقے ہمارا خاتمہ بالخیر فرماۓ آمین یارب العالمین۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔