موجودہ دور فتنوں اور آزمائشوں کا دور ہے لوگوں کی اکثریت نفس کی خواہش کو پوری کرنے والی ہے اور اپنے مفاد اور تسکین قلب کے لیے ہر قسم کے اقدام کر گزرتے ہیں معاشرتی برائیوں کی ایک طویل فہرست ہے جن میں سے ایک قتل ناحق بھی ہے ناحق قتل کرنا کفر و شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ شمار کیا گیا ہے۔ قتل کی ابتدا حضرت آدم علیہ السّلام کی اولاد میں سے قابیل نے اپنے بھائی کو قتل کر کے کی۔

قرآن پاک میں بھی قتل ناحق کی مذمت آئی ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز الایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔ اسی طرح کثیر احادیث میں بھی اس کا ذکر ہے چند ایک درج ذیل ہیں:

احادیث مبارکہ:

1۔ بڑے گناہوں میں سے ایک کسی جان کو (ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری، 4/358، حدیث:6871)

2۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے: اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔ (معجم صغیر، 1/ 205)

کسی مسلمان کو جان بوجھ کر ناحق قتل کرنا سخت ترین کبیرہ گناہ ہے شریعت میں قتل عمد(یعنی جان بوجھ کر قتل کرنے)کی سزا دنیا میں فقط قصاص(یعنی قتل کا بدلہ قتل) ہے یعنی یہی مقرر ہے اگر مقتول کے گھر والے معاف کردیں یا قاتل سے مال لے کر صلح کر لیں تو یہ بھی ہو سکتا ہے قاتل اگر توبہ کر لے تو اسکی توبہ قبول ہوگی یا نہیں اسکے متعلق صحابہ کرام کا اختلاف ہے صحیح یہ ہے کہ اس کی توبہ بھی قبول ہو سکتی ہے اور صحیح یہ ہے کہ اس کی مغفرت ہو سکتی ہے اللہ کی مشیت میں ہے۔

قیامت کے دن حقوق العباد میں سب سے پہلے خون کے بارے میں ہی پوچھا جائے گا۔(مسلم، ص711، حدیث: 4381) ایک شخص کو قبرستان میں دفن کیا گیا تو اس کے پاس عذاب کے فرشتے آئے اور کہا تجھے سو کوڑے ماریں گے مردے نے کہا کہ میں تو ایسا اچھا اچھا آدمی تھا تو فرشتوں نے اس کی رعایت کرتے ہوئے دس کوڑوں کی کمی کردی وہ معذرت کرتا رہا اور فرشتے دس کوڑے کم کرتے رہے آخر میں فرشتوں نے کہا ہم ایک کوڑا ضرور ماریں گے جب انہوں نے ایک کوڑا مارا تو قبر میں آگ بھڑک اٹھی مردے نے کہا تم نے مجھے یہ کوڑا کیوں مارا فرشتوں نے کہا تو ایک مظلوم آدمی کے پاس سے گزرا اس نے تجھے مدد کے لیے پکارا مگر تو نے اسکی مدد نہ کی یہ اس کا بدلہ ہے جب مظلوم کی مدد نہ کرنے کا یہ انجام ہے تو خود ظالم کا انجام کتنا برا ہوگا اور خصوصاً وہ ظالم جو کسی کو قتل کر کے حدود الٰہی کو پامال کرنے والا ہو۔

اللہ پاک قاتلوں کو شریعت کے مطابق سچی تونہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے، ہمیں اس گناہ کے ارتکاب سے بچائے اور معاشرے سے قتل و غارت کو دور فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ


دین اسلام ایک مکمل دین ہے جو انسان کی نہ صرف عائلی و انفرادی زندگی میں رہنمائی کرتا ہے بلکہ اس کی اجتماعی، معاشی اور معاشرتی زندگی میں بھی مکمل ضابطہ حیات پیش کرتا ہے اور تمام مسلمانوں کو انما المؤمنون الاخوة کے دل نشین خطاب سے ایک مربوط اور مضبوط رشتے میں باندھ دیتا ہے لیکن افسوس آج مسلمان ان تعلیمات کو پس پشت ڈال کر ایک دوسرے کی جان کے دشمن بن گئے ہیں چھوٹی چھوٹی بات پر جان سے مار دینا غنڈا گردی، دہشت گردی،خاندانی لڑائی جائیداد کے تنازعے اور خون بہانا عام سی بات ہو گئی ہے جبکہ کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنا سخت ترین کبیرہ گناہ اور حرام ہے۔

قتل ناحق کی مذمت پر درج ذیل قرآنی آیات اور احادیث قابل غور ہیں:

وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز الایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔ اگر کسی مسلمان کے قتل کو حلال سمجھ کر اس کا قتل کیا تو کفر ہے اور ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور اگر قتل کو حرام ہی سمجھا پھر بھی اس کا ارتکاب کیا تب یہ گناہ کبیرہ ہے اور ایسا شخص عرصہ دراز تک جہنم میں رہے گا۔

2۔ ایک اور مقام پر اللہ پاک فرماتا ہے: قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ قَتَلُـوْۤااَوْلَادَهُمْ (پ8، الانعام: 140) ترجمہ: بے شک وہ لوگ تباہ ہو گئے جو اپنی اولاد کو قتل کرتے ہیں۔ تنگدستی کے خوف سے اولاد کو قتل کرنے والوں کی نسبت ارشاد ہوا کہ ان کے لیے تباہی ہے اللہ پاک انہیں اس فعل سے منع کرتے ہوئے فرماتا ہے: وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ خَشْیَةَ اِمْلَاقٍؕ-نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَ اِیَّاكُمْؕ-اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِیْرًا(۳۱) (پ 15، بنی اسرائیل: 31) ترجمہ کنز الایمان: اور اپنی اولاد کو قتل نہ کرو مفلسی کے ڈر سے ہم تمھیں بھی اورانہیں بھی روزی دیں گے بےشک ان کا قتل بڑی خطا ہے۔

احادیث مبارکہ:

1۔ بڑے گناہوں میں سے ایک کسی جان کو ناحق قتل کرنا ہے۔ (بخاری، 4/358، حدیث:6871)

2۔ جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالی کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوگا یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہے۔ (ابن ماجہ، 3/262، حدیث: 2620)

اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے اسلام کی نظر میں انسانی جان کی بہت قدر ہے اس سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے جو دامن اسلام پر قتل و غارت گری کے حامی ہونے کا بد نما دھبہ لگاتے ہیں اللہ پاک ہم سب مسلمانوں کو عقل سلیم عطا فرمائے۔ آمین


خالق کائنات نے انسان کو اپنی عبادت و فرمانبرداری کے لئے پیدا فرمایا انسان کوکسی صورت بھی یہ حق نہیں دیاکہ وہ کسی کی جان کو ناحق نقصان پہنچائے۔ اسلام میں انسانی جان کی حرمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک فرد کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کی مثل قرار دیا گیا۔ جیسا کہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاؕ- (پ 6، المائدۃ: 32) ترجمہ کنز الایمان: جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کئے تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیا۔

یعنی اگرایک ہزار افراد ایک قتل میں شریک ہوجائیں توان میں سے ہرایک قتل کے جرم میں برابر کا شریک ہے اور سب پر تمام لوگوں کے قتل کاگناہ ہوگا۔ (نیکیوں کی جزائیں اور گناہوں کی سزائیں، ص86)

جس طرح قرآن کریم نے فقط ایک انسان کے قتل کو تمام انسانوں کا قتل ٹھہرایا اسی طرح قتلِ ناحق کے مرتکب شخص کے لئےجہنم اور عذاب جہنم کی سخت وعیدات سنائی ہیں۔

ارشاد ہوتا ہے: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز الایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔

یعنی کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا شدید کبیرہ گناہ ہے اور کثیر احادیث میں اس کی بہت مذمت بیان کی گئی ہے۔ (صراط الجنان،2 /277)

قتل ناحق کی مذمت میں احادیث مبارکہ ملاحظہ ہوں:

فرامینِ مصطفیٰ:

1۔ بروز قیامت سب سے پہلا فیصلہ: قیامت کے دن سب سے پہلے خونِ ناحق کے بارے میں لوگوں کے درمیان فیصلہ کیا جائے گا۔ (مسلم، ص711، حدیث: 4381)

2۔ قتلِ مؤمن دنیا کی تباہی سے بڑا گناہ: اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کاختم ہو جانا ایک مسلمان کے ظلماًقتل سے زیادہ سہل ہے۔ (ابن ماجہ، 3 / 261، حدیث: 2619)

3۔ قاتل اوندھا جہنم میں: اگر آسمان و زمین والے ایک مرد مومن کے خون میں شریک ہو جائیں تو سب کو ﷲ تعالیٰ جہنم میں اوندھا کر کے ڈال دے گا۔(ترمذی، 3/100، حدیث: 1403)

مذکورہ آیات و احادیث کے ایک مختصر مجموعے سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوتی ہے کہ ایک انسان کی جان کی قیمت و حرمت کتنی زیادہ ہے اور اس معصیت کا مرتکب اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو غضبناک کرتا اور ان کی ناراضی کا سبب بنتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالی ہمیں جانِ مسلم کی حرمت سمجھنے اسکی پامالی سے بچنے اور احکاماتِ الٰہیہ کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرما۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ


اسلام میں انسانی جان کو بہت حرمت حاصل ہے قرآن و حدیث میں ناحق قتل کی شدید مذمت ہے علاوہ ازیں قانون کی رو سے بھی کسی انسان کا ناحق قتل سنگین جرم ہے ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اگر کوئی شخص اس جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ اسلامی شریعت کا مجرم ہونے کے ساتھ ساتھ قانون کا، مقتول کے وارثوں کا اور معاشرے کا بھی مجرم قرار پائے گا۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز الایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔

قتل ناحق گناہ کبیرہ ہے، سرکار دو عالم ﷺ کا فرمانِ عالیشان ہے: اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا کسی جان کو قتل کرنا اور جھوٹی قسم کھانا کبیرہ گناہ ہیں۔ (بخاری، 4/295، حدیث: 6675)

قاتل و مقتول دونوں جہنمی: فرمان مصطفیٰ ﷺ: جب دو مسلمان اپنی تلواروں کے ساتھ باہم ٹکراتے ہیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہیں۔ عرض کی گئی: یا رسول الله! ایک تو قاتل ہے لیکن مقتول کا کیا قصور ہے؟ ارشاد فرمایا: وہ بھی اپنے مقابل کو قتل کرنے پر حریص ہوتا ہے۔ (بخاری، 1/23، حدیث: 31)

جنت کی خوشبو: فرمان مصطفیٰ: جو کسی عہد و پیمان والے کو قتل کر دے وہ جنت کی خوشبو بھی نہ سونگ سکے گا حالانکہ اس کی خوشبو 40 سال کی راہ سے محسوس کی جائے گی۔ (بخاری، 2/ 365، حدیث: 3166)

اللہ پاک کی رحمت سے مایوس: جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہے۔ (ابن ماجہ، 3/ 262، حدیث: 2620)

ہلاک کرنے والا امر: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ناحق حرام خون بہانا ہلاک کرنے والے اُن اُمور میں سے ہے جن سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں۔ (بخاری، 4/357، حدیث:6863)

قتل کی جائز صورتیں: قتل کی شدید ممانعت کے ساتھ قرآن و حدیث کی رو سے چند صورتوں کو اسلامی شریعت نے جائز قرار دیا ہے وہ صورتیں یہ ہیں: قاتل کو قصاص میں قتل کرنا جائز ہے۔ زمین میں فساد پھیلانے والے کو قتل کرنا جائز ہے۔ شادی شدہ مرد یا عورت کو زنا کرنے پر بطورِ حد رجم کرنا۔ مرتد کو قتل کرنا۔ باغی کو قتل کرنا۔

افسوس کہ آج کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہوگیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینا، غنڈہ گردی، دہشت گردی، ڈکیتی، خاندانی لڑائی، تَعَصُّب والی لڑائیاں عام ہیں۔ مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے، گروپ اور جتھے بنے ہوئے ہیں جن کا کام ہی قتل و غارت گری کرنا ہے۔ اللہ پاک ہدایت نصیب فرمائے۔ آمین


کسی مسلمان کو جان بوجھ کر، حلال سمجھ کر، ناحق قتل کیا تو یہ خود کفر ہے اور ایسا شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔ اور قتل کو حرام سمجھتے ہوئے اس کا ارتکاب کیا تو یہ گناہ کبیرہ ہے اور ایسا شخص مدت دراز تک جہنم میں رہے گا۔ (صراط الجنان، 2/ 277) جبکہ اسکی دنیاوی سزا یہ ہےکہ شریعت میں ناحق قتل عمد ( اسلحہ کیساتھ جان بوجھ کر قتل کرنے) کی سزا دنیا میں فقط قصاص (جان کے بدلے جان) ہی ہے یہی متعین ہے ہاں! اگر اولیائے مقتول معاف کردیں یا قاتل سے دیت کے بدلے صلح کرلیں یہ بھی ہو سکتا ہے۔ (بہار شریعت، 3/752، حصہ: 17)

قرآن کریم میں ناحق قتل کی ممانعت پر کئی آیات موجود ہیں آپ ان میں سے 2 ملاحظہ فرمائیے۔

(1) وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز الایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔

(2) مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاؕ- (پ 6، المائدۃ: 32) ترجمہ کنز الایمان: جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کئے تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیا۔

قتل ناحق کی مذمّت احادیث کی روشنی میں: قتل ناحق سخت ترین کبیرہ گناہ ہے احادیث میں بھی بکثرت اسکی مذمت کی گئی ان میں سے 6 احادیث درج ذیل ہیں:

(1) بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو (ناحق) قتل کرنا ہے۔(بخاری، 4/358، حدیث: 6871)

(2) اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہوجائیں تو اللہ پاک سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال ڈے۔ (معجم صغیر، 1/ 205)

(3) جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل و مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں: میں نے عرض کی: حضور مقتول کیوں جہنم میں جائے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اس لیے کہ وہ اپنے بھائی کو قتل کرنے پر مُصِر تھا۔ (بخاری، 1/23، حدیث: 31)

(4) جس نے کسی مسلمان کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اس حال میں اللہ پاک کے حضور حاضر ہوگا کہ اسکی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوگا یہ اللہ پاک کی رحمت سے مایوس ہے۔ (ابن ماجہ، 3/262، حدیث: 2620)

(5) آگ کو 70 حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے 69 حصے قتل کا حکم دینے والے کے لیے اور ایک حصہ قاتل کے لیے ہے۔ (شعب الایمان، 4/ 349، حدیث: 5360)

(6) اللہ پاک کے نزدیک دنیا کا ختم ہوجانا ایک مسلمان کے ظلماً قتل سے زیادہ سہل ہے۔ (ابن ماجہ، 3/ 261، حدیث: 2619)

خلاصہ کلام: مذکورہ بالا تمام آیات و احادیث اسلام کی تعلیمات کو واضح کرتی ہیں کہ اسلام کس قدر امن و سلامتی والا مذہب ہے اور اسلام کی نظر میں انسانی جان کی کتنی اہمیت ہے ۔ اس سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے جو اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر دامن اسلام پر قتل و غارت گری کے حامی ہونے کا داغ لگاتے ہیں اور ان لوگوں کو بھی نصیحت حاصل کرنی چاہیے جو خود کو مسلمان بتا کر بے قصور لوگوں کو ناحق قتل ،خودکش حملوں اور بم دھماکوں کے ذریعے موت کی نیند سلا کر یہ گمان کرتے ہیں کہ انہوں نے اسلام کے لیے بہت بڑا جہاد کردیا، رب کریم ایسوں کو ہدایت دے۔ آمین بجاہ خاتم النبی الامین ﷺ


ہمارے معاشرے میں آج کل جہاں بہت سے فتنے سر اٹھا رہے ہیں وہیں کچھ لوگ ایک دوسرے کو ناحق قتل کرنے جیسے بڑے گناہ میں بھی مبتلا ہیں۔ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں چاہیے کہ ہم دوسرے مسلمانوں کو اپنی ذات سے کوئی تکلیف نہ دیں۔ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے تعلق کیسا ہونا چاہیے؟ اس بارے میں یہ حدیث پیش نظر رکھنی چاہیے جیسا کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ (1)

مندرجہ بالا حدیث مبارکہ سے واضح ہوا کہ حقیقی مسلمان وہی ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔

کسی مسلمان کو جان بوجھ کر ناحق قتل کرنا سخت ترین کبیرہ گناہ ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) ترجمہ کنز الایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔ (2)

اللہ اکبر! کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنے کی کتنی سخت سزا ہے کہ اس کا بدلہ جہنم ہے اور اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہے اور اس کی لعنت ہے۔

قتل نا حق کی مذمت کثیر احادیث میں بھی بیان کی گئی ہے جن میں سے 5 درج ذیل ہیں:

احادیث مبارکہ:

1۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! بے شک ایک مومن کا قتل کیا جانا اللہ کے نزدیک دنیا کے تباہ ہو جانے سے زیادہ بڑا ہے۔ (3) دیکھا آپ نے کہ ایک مومن کی جان اللہ کے نزدیک کتنی عزت والی اور مرتبے والی ہے۔

2۔ بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو ناحق قتل کرنا ہے۔ (4)

3۔ کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے خسارے کا شکار ہوگا۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہو جائیں تو اللہ تعالی سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔ (5)

4۔ ہر گناہ کے بارے میں امید ہے کہ اللہ تعالی بخش دے گا لیکن جو شرک کی حالت میں مر گیا اور جس نے کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کر دیا ان دونوں کو نہیں بخشے گا۔ (6)

5۔ جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالی کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوگا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہے۔ (7)

اللہ اکبر! ایک مسلمان کو قتل کرنا کتنا سخت اور کبیرہ گناہ ہے۔ مزید یہ کہ کسی مومن کے قتل کرنے والے کے ساتھ اس کی مدد کرنا بھی کتنا بڑا گناہ ہے کہ قیامت کے دن اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوگا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہے۔ (ابن ماجہ، 3/262، حدیث: 2620)افسوس کہ آج کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہو گیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینا، غنڈہ گردی، دہشت گردی، ڈکیتی، خاندانی لڑائی، تعصب پر لڑائیاں عام ہیں۔

مسلمان کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے گروپ اور جتھے اور عسکری ونگ بنے ہوئے ہیں جن کا کام ہی قتل و غارت گری کرنا ہے۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم ایسے کبیرہ گناہ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے باز رہیں اور دوسرے مسلمانوں کی عزت کی حفاظت کریں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے لوگوں سے محفوظ فرمائےاور ہم سب کو بھائی بھائی بن کر رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ

حوالہ جات:

1۔بخاری، 1/15، حدیث: 10

2۔پ 5، النساء: 93

3۔ نسائی، ص 652، حدیث: 3992

4۔ بخاری، 4/358، حدیث: 6871

5۔ معجم صغیر، 1/ 205

6۔ مشکاۃ المصابیح، 2/289، حدیث: 3468

7۔ ابن ماجہ، 3/262، حدیث: 2620


اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوق پیدا فرمایا اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: (پ 30، التین4) ترجمہ کنز الایمان: بیشک ہم نے آدمی کو اچھی صورت پر بنایا۔ بےشک اللہ پاک نے ہر انسان کو اچھی صورت پر پیدا فرمایا ہے اور ایک دوسرے پر ناحق قتل کرنا حرام فرمایا ہے، آئیے اس کی مذمت سنتی ہیں، چنانچہ قرآن کریم میں ہے: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز الایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔

دوسری جگہ میں فرمایا: وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّؕ- (پ 15، الاسراء: 33) ترجمہ: اور جس جان کو اللہ نے حرمت عطا کی ہے، اسے قتل نہ کرو، الا یہ کہ تمہیں (شرعاً) اس کا حق پہنچتا ہو۔

معلوم ہوا کہ اللہ پاک نے انسان کو اپنی جان کو ناحق قتل کرنے کی بھی ممانعت فرمائی ہے بہت سی احادیث میں بھی مسلمان کو ناحق قتل کرنے کی وعِید فرمائی ہے، آئیے ملاحظہ فرمائیں:

احادیث مبارکہ:

1۔ اگر تمام آسمان و زمین والے ایک مسلمان کا خون کرنے میں شریک ہوجائیں تو اللہ تعالی ان سب کو منہ کے بل اوندھا کر کے جہنم میں ڈال دے گا۔ (ترمذی، 3/100، حدیث: 1403)

2۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: ہر گناہ کے بارے میں امید ہے کہ اللہ تعالی بخش دے گا لیکن جو شرک کی حالت میں مر گیا اور جس نے کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کر دیا ان دونوں کو نہیں بخشے گا۔ (مشکاۃ المصابیح، 2/289، حدیث: 3468)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ مسلمان کو ناحق قتل کرنا بہت ہی سخت گناہ کبیرہ ہے پھر اگر مسلمان کا قتل اس کے ایمان کی عداوت سے ہو یا قاتل مسلمان کے قتل کوحلال جانتا ہو تو یہ کفر ہوگا اور قاتل کافر ہو گا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں جلتا رہے گا۔ اورصرف دنیوی عداوت کی بنا پر مسلمان کوقتل کر دے اور اس قتل کو حلال نہ جانے جب بھی آخرت میں اس کی یہ سزا ہےکہ وہ مدت دراز تک جہنم میں رہے گا۔

اللہ کریم ہمیں شریعت کی پابندی کرنے کی تو فیق عطافرمائے اور حق صحبت ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


اسلام ہمارا ایک بہت پیارا مذہب ہے ہر مسلمان کی جان مال، مال اور عزت کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے اللہ پاک نے انسانی زندگی کو نہایت قابل احترام قرار دیا ہے کیونکہ ایک انسان کا قتل تمام انسانیت کے قتل کے برابر ہے کوئی بھی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو ناحق اور ظلما قتل نہ کرے کہ یہ سب سخت جرم ہے کہ ایک مسلمان کو نہ تو حقیر جانو نہ اسے حقارت کے الفاظ سے پکارو اور نہ برے لقب سے یاد کرنا نہ اس کا مذاق بناؤ آج کل یہ عیب بہت پایا جا رہا ہے کہ پیشوں، نسبتوں یا غربت و افلاس کی وجہ سے حقیر جانا جاتا ہے شہد کی مکھی پھولوں کے رس کو چوس لیتی ہے تو ان کا نام شہد ہو جاتا ہے یوں ہی جب حضور کے دامن کو پکڑ لیا تو سب مسلمان ایک ہو گئے۔

حضور ﷺ کا فرمان عالیشان ہے: تم میں سے کوئی ایسی جگہ ہر گز کھڑا نہ ہو جہاں کسی شخص کو ظلما قتل کیا جا رہا ہو کیونکہ وہاں موجود لوگوں پر بھی لعنت اُترتی ہے جبکہ وہ مقتول کا دفاع نہ کریں۔ (معجم كبير، 1/201، حديث: 1975)

حضور نبی اکرم ﷺ کا فرمان عالیشان ہے: جس نے کسی مسلمان کی پیٹھ پر ناحق زخم لگایا وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ وہ اس پر ناراض ہوگا۔


قرآن کریم میں بہت جہگوں پر ناحق قتل کرنے کی مذمت بیان کی گئی ہے۔ مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاؕ- (پ 6، المائدۃ: 32) ترجمہ کنز الایمان: جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کئے تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیا۔

وَ الَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ وَ لَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ لَا یَزْنُوْنَۚ-وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ یَلْقَ اَثَامًاۙ(۶۸) (پ 19، الفرقان: 68، 69) ترجمہ کنز الایمان: اور وہ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پوجتے اور اس جان کو جس کی اللہ نے حرمت رکھی ناحق نہیں مارتے اور بد کاری نہیں کرتے اور جو یہ کام کرے وہ سزا پائے گا۔

احادیث مبارکہ:

1۔ جس نے کسی مومن کو قتل کرنے میں مدد کی اگرچہ آدھی بات سے ہو وہ الله سے اس حال میں ملے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوگا کہ یہ الله کی رحمت سے مایوس ہے۔ (ابن ماجہ، 3/262، حدیث: 2620)

2۔ تم میں سے کوئی ایسی جگہ ہر گز کھڑا نہ ہو جہاں کسی شخص کو ظلما قتل کیا جا رہا ہو کیونکہ وہاں موجود لوگوں پر لعنت اترتی ہے جبکہ وہ مقتول کا دفاع نہ کریں۔ (معجم كبير، 11/285، حدیث:11475)

3۔ جس نے کسی مسلمان کی پیٹھ پر نا حق زخم لگایا وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ وہ اس پر ناراض ہوگا۔ (معجم كبير، 8/116، حدیث: 7536)

4۔ مومن کی پیٹھ محفوظ ہے سوائے حق کے یعنی اُسے جرم پر سزا مل سکتی ہے۔

5۔ تم میں سے کوئی قتل ہونے والے کے پاس حاضر نہ ہو قریب ہے کہ وہ مظلوم ہو اور اُن قتل کرنے والوں پر غضب نازل ہو اور یہ بھی اس کی زد میں آجائے۔


کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنا کبیرہ گناہوں میں شدید ترین گناہ ہے، اس پر قرآن وحدیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، مسلمان کو ناحق قتل کرنے میں جہاں اللہ تعالیٰ کے حکم کی پامالی اور اس کی نافرمانی ہے جو حقوق اللہ میں سے ہے، وہاں اس میں ایک مسلمان کو قتل کرنا، اس سے اس کو اور اس کے لواحقین کو تکلیف پہنچانا یہ حقوق العباد سے تعلق رکھتا ہے، شریعت نے اس پر سزائیں مقرر کی ہیں۔یہ حکم ہر اس شخص کے لیے جو ناحق کسی مسلمان کے قتل میں ملوث ہو۔

آیت مبارکہ: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز الایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔

احادیثِ مبارکہ:

(1) بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری، 4/ 358، حدیث: 6871)

(2) کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے خسارے کا شکار ہو گا۔ ارشاد فرمایا: اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہوجائیں تواللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔ (معجم صغیر، 1/ 205)

(3) جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں: میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پرمُصِر تھا۔ (بخاری، 1/23، حدیث: 31)

(4) جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہے۔ (ابن ماجہ، 3/262، حدیث: 2620)

(5) مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ نہ اس پر ظلم کرے نہ اسے حقیر جانے۔ تقویٰ یہاں ہے اور اپنے سینے کی طرف تین بار اشارہ فرمایا۔ انسان کے لیے یہ برائی کافی ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے۔ مسلمان پر مسلمان کی ہر چیز حرام ہے، اس کا خون، اس کا مال، اس کی آبرو۔ (مسلم، ص 1386، حدیث: 2564)

(6) مسلمان کو گالی دینا فِسق اور اسے قتل کرنا کفر ہے۔ (مسلم، ص 52، حدیث: 116)

حکم: اگر مسلمانو ں کے قتل کو حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب کیا تو یہ خود کفر ہے اور ایسا شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور قتل کو حرام ہی سمجھا لیکن پھر بھی اس کا ارتکاب کیا تب یہ گناہ کبیرہ ہے اور ایسا شخص مدت ِ دراز تک جہنم میں رہے گا۔

اللہ پاک ہمیں ہر ایک کے ساتھ اخلاص و محبت کے ساتھ رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

دینِ اسلام نے بہت سے گناہ کے کاموں کی ممانعت فرمائی ہے اور ان کی بہت مذمت بیان فرمائی اور کرنے والوں کی لیے وعیدات بھی ارشاد فرمائی ہیں ان میں سے ایک قتل ناحق بھی ہے۔

قتل ناحق کی مذمت قرآن کریم کی روشنی میں:

وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز الایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔

قتل ناحق کی مذمت احادیث مبارکہ کی روشنی میں:

کسی مسلمان کو قتل ناحق کرنا بہت بڑا کبیرہ گناہ ہے اور بہت سی احادیث مبارکہ میں اس کی شدید مذمت ارشاد فرمائی گئی ہے:

1۔ بڑا کبیرہ گناہ: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو (ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری، 4/358، حديث: 6871)

2۔اللہ پاک جہنم میں ڈالے گا: اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہو جائیں تو الله تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔ (معجم صغیر، 1/ 205)

3۔قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں: میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لیے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پر مصر تھا۔ (بخاری، 1/23،حديث: 31)

4۔ اللہ پاک کی رحمت سے مایوس شخص: جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن الله پاک کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوگا یہ الله تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہے۔ (ابن ماجہ، 3/262، حديث: 2620)

مسلمانوں کا باہمی تعلق کیسا ہونا چاہیے؟ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کے ساتھ تعلق کیسا ہونا چاہیے؟ اس بارے میں چند نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دیگر مسلمان محفوظ رہیں۔ (بخاری، 1/15، حديث: 10)

مسلمانوں کو قتل کرنا کیسا ہے؟ اگر مسلمان کے قتل کو حلال سمجھ کر اسے قتل کیا جائے تو یہ کفر ہے اور ایسا شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور قتل کو حرام سمجھنے کے باوجود کوئی ایسا کرے تو یہ کبیرہ گناہ ہے ایسا شخص ایک مدت دراز کے لیے جہنم میں رہے گا۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قتل ناحق جیسے گناہ کبیرہ سے بچنے اور دوسروں کو بچانے کی توفیق عطا فرمائے اور اسلامی اصولوں پر عمل کرتے ہوئے باہمی حسن سلوک کے ساتھ زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔


کسی مسلمان کو ناحق قتلِ کرنا بہت بڑا گناہ ہے قرآن و حدیث میں اس گناہ پر بہت سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز الایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔

ناحق قتل: مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاؕ- (پ 6، المائدۃ: 32) ترجمہ کنز الایمان: جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کئے تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیا۔

فرمانِ مصطفیٰ ﷺ: سب گناہوں سے بڑا گناہ کسی کو ناحق قتل کرنا ہے۔ (نیکیوں کی جزائیں اور گناہوں کی سزائیں، ص 76)

نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: امید ہے کہ ہر گناہ کو الله بخش دے گا مگر وہ شخص جو کفر کی موت مرا ہو جس شخص نے جان بوجھ کر ناحق قتل کیا ہو۔ (نسائی، 1/ 652، حدیث: 399)

کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے خسارے کا شکار ہوگا، نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہو جائیں تو الله تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔ (معجم صغیر، 1/ 205)

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو ناحق قتل کرنا ہے۔ (بخاری، 4/358، حدیث: 6871)