قتل ناحق کی مذمت از بنت قاری محمد امین صدیقی، اصطار
مدینہ اورنگی ٹاؤن کراچی
کسی مسلمان کو جان بوجھ کر، حلال سمجھ کر، ناحق قتل کیا تو
یہ خود کفر ہے اور ایسا شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔ اور قتل کو حرام سمجھتے ہوئے
اس کا ارتکاب کیا تو یہ گناہ کبیرہ ہے اور ایسا شخص مدت دراز تک جہنم میں رہے گا۔
(صراط الجنان، 2/ 277) جبکہ اسکی دنیاوی سزا یہ ہےکہ شریعت میں ناحق قتل عمد (
اسلحہ کیساتھ جان بوجھ کر قتل کرنے) کی سزا دنیا میں فقط قصاص (جان کے بدلے جان)
ہی ہے یہی متعین ہے ہاں! اگر اولیائے مقتول معاف کردیں یا قاتل سے دیت کے بدلے صلح
کرلیں یہ بھی ہو سکتا ہے۔ (بہار شریعت، 3/752، حصہ: 17)
قرآن کریم میں ناحق قتل کی ممانعت پر کئی آیات موجود ہیں آپ
ان میں سے 2 ملاحظہ فرمائیے۔
(1) وَ مَنْ یَّقْتُلْ
مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ
عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز
الایمان: اور
جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے
اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔
(2) مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا
بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ
جَمِیْعًاؕ- (پ 6، المائدۃ: 32) ترجمہ کنز الایمان: جس
نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کئے تو گویا اس نے سب لوگوں
کو قتل کیا۔
قتل ناحق کی مذمّت احادیث کی روشنی میں: قتل ناحق سخت ترین کبیرہ گناہ ہے احادیث میں بھی بکثرت اسکی
مذمت کی گئی ان میں سے 6 احادیث درج ذیل ہیں:
(1) بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو (ناحق) قتل
کرنا ہے۔(بخاری، 4/358، حدیث: 6871)
(2) اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع
ہوجائیں تو اللہ پاک سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال ڈے۔ (معجم صغیر، 1/ 205)
(3) جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل و مقتول
دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں: میں نے عرض کی: حضور مقتول کیوں جہنم
میں جائے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اس لیے کہ وہ اپنے بھائی کو قتل کرنے پر مُصِر تھا۔
(بخاری، 1/23، حدیث: 31)
(4) جس نے کسی مسلمان کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو
وہ قیامت کے دن اس حال میں اللہ پاک کے حضور حاضر ہوگا کہ اسکی دونوں آنکھوں کے
درمیان لکھا ہوگا یہ اللہ پاک کی رحمت سے مایوس ہے۔ (ابن ماجہ، 3/262، حدیث: 2620)
(5) آگ کو 70 حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے 69 حصے قتل کا حکم
دینے والے کے لیے اور ایک حصہ قاتل کے لیے ہے۔ (شعب الایمان، 4/ 349، حدیث: 5360)
(6) اللہ پاک کے نزدیک دنیا کا ختم ہوجانا ایک مسلمان کے
ظلماً قتل سے زیادہ سہل ہے۔ (ابن ماجہ، 3/ 261، حدیث: 2619)
خلاصہ کلام: مذکورہ بالا تمام آیات و احادیث اسلام کی تعلیمات کو واضح کرتی ہیں کہ اسلام
کس قدر امن و سلامتی والا مذہب ہے اور اسلام کی نظر میں انسانی جان کی کتنی اہمیت
ہے ۔ اس سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے جو اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر
دامن اسلام پر قتل و غارت گری کے حامی ہونے کا داغ لگاتے ہیں اور ان لوگوں کو بھی
نصیحت حاصل کرنی چاہیے جو خود کو مسلمان بتا کر بے قصور لوگوں کو ناحق قتل ،خودکش
حملوں اور بم دھماکوں کے ذریعے موت کی نیند سلا کر یہ گمان کرتے ہیں کہ انہوں نے اسلام
کے لیے بہت بڑا جہاد کردیا، رب کریم ایسوں کو ہدایت دے۔ آمین بجاہ خاتم النبی
الامین ﷺ