قتل ناحق کی مذمت از بنت رزاق احمد، جامعۃ المدینہ
تلواڑہ مغلاں سیالکوٹ
انسانی ذہن میں سب سے پہلے یہ سوال اٹھتاہے کہ انسان کسی
دوسرے انسان کو قتل کیوں کرتا ہے؟ کیا وہ نہیں جانتا کہ یہ اللہ کی نافرمانی ہے؟ کیا
اسے علم نہیں کہ ابھی ایک عدالت ہے جہاں اسے اپنے کئے کا جواب دینا ہے؟ کیا اسے
موت یاد نہیں؟ اسے یہ فکر کیوں نہیں کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کو راضی بھی کرنا ہے؟
اسبابِ قتل: قتل کے اسباب میں سب سے بڑا اور بنیادی سبب علمِ دین کی کمی ہے ہم نے اپنے دین
کی تعلیمات کو سمجھا ہی نہیں اس کے علاوہ حسد، تکبر، بغض و کینہ، خاندانی دشمنی نفسانی
خواہشات کی پیروی وغیرہ یہ باطنی بیماریاں شامل ہیں۔ انسان جب آخرت بھول بیٹھتا ہے
تو اس کی ناکامی کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ امام اہل سنت اعلی حضرت اپنے نعتیہ دیوان
حدائق بخشش میں غافل انسان کو کچھ یوں جھنجھوڑ رہے ہیں:
ارے یہ بھیڑیوں
کا بن ہےاور شام آگئی سر پر کہاں
سویا مسافر ہائے کتنا لا ابالی ہے
سب سے پہلا قاتل کون؟ دنیا کا سب سے پہلا قاتل قابیل ہے جس نےرشتے کے تنازعے میں اپنے بھائی حضرت ہابیل
رضی اللہ عنہ کو قتل کردیا۔ ظلماً خون بہاتے ہی قابیل کا چہرہ سیاہ اور بَدصورت
ہوگیا۔ حضرتِ آدم علیہ السَّلام نے شدید غَضَب کے عالَم میں (اپنے بیٹے) قابیل کو
اپنی بارگاہ سے نکال دیا اور وہ عَدَن (یمن) کی طرف چلا گیا، وہاں شیطان کے
ورغلانے پر آگ کی پُوجا کرنے لگا۔
عبرتناک انجام: قابیل جب بوڑھا ہوگیا تو اس کے نابینا بیٹے نے پتّھر مار کر اسے قتل کردیا،
یوں یہ کفر و شرک کی حالت میں مارا گیا۔
اللہ پاک قتل ناحق کی مذمت میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ
خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا
عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز
الایمان: اور
جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے
اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔
مسلمان کو قتل کرنا کیسا؟ اگر مسلمانوں کے قتل کو حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب کیا تو یہ خود کفر ہے اور
ایسا شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور قتل کو حرام ہی سمجھا اور پھر بھی اس کا
ارتکاب کیا تب یہ کبیرہ گناہ ہے اور ایسا شخص مدت دراز تک جہنم میں رہے گا۔
قاتل اور مقتول جہنم میں: حضور جان عالمﷺ نےارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل
اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے راوی فرماتے ہیں: میں نے عرض کی: مقتول جہنم
میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پر مصر تھا۔
(بخاری1/23، حدیث: 31)
افسوس کہ آج کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہو گیا ہے چھوٹی
چھوٹی بات پر جان سے مار دینا، دہشت گردی، ڈکیتی، خاندانی لڑائیاں عام ہیں
مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے گروپ اور جتھے اور عسکری ونگ بنے ہوئے
ہیں جن کا کام ہی قتل کرنا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے سرور عالمﷺ نے
ارشاد فرمایا: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرے نہ اسے حقیر جانے۔ تقوی
یہاں ہے اور اپنے سینے کی طرف تین بار اشارہ فرمایا انسان کیلئے یہ برائی کافی ہے
کہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے مسلمان پر مسلمان کی ہر چیز حرام ہے اس کا
خون،اس کا مال، اس کی آبرو۔ (مسلم، ص1386، حدیث:2564)
تمام انسانیت کا قتل: جس نے بلا اجازت شرعی کسی کو قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر
دیا کیونکہ اس نے الله کے حق اور بندوں کے حق اور حدودِ شریعت سب کو پامال کر دیا۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا
بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ
جَمِیْعًاؕ- (پ 6، المائدۃ: 32) ترجمہ کنز الایمان: جس
نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کئے تو گویا اس نے سب لوگوں
کو قتل کیا۔
خود کشی/قتل کا عذاب: حضور جان عالمﷺکا فرمان عبرت نشان ہے: اور سب گناہوں سے بڑا گناہ کسی کو ناحق
قتل کرنا ہے جس نے چھری سے خود کشی کی ملائکہ جہنم کی وادیوں میں اس کو ہمیشہ
ہمیشہ وہ چھری گھونپتے رہیں گے وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور شفاعت سے مایوس رہے
گا اور اگر اس نے بلند جگہ سے اپنے آپ کو گرا کر خود کشی کی ہو گی تو فرشتے بھی
ہمیشہ ہمیشہ اس کو جہنم کی وادیوں میں بلند چوٹی سے گراتے رہیں گے اور قتل کرنے
والے کو آگ کے کنوؤں میں قید کیا جائے گا اور اگر رسی سے لٹک کر خود کشی کی ہو گی
تو ہمیشہ کیلئے الله کی رحمت سے مایوس آگ کی شاخوں میں لٹکا رہے گا اگر کوئی جان
کسی کو ناحق قتل کرے تو یہ کھلی گمراہی ہے فرشتے اس کو آگ کی چھریوں سے ذبح کرتے
رہیں گے جب بھی وہ اس کو ذبح کریں گے تو اس کے حلق سے تار کول سے بھی زیادہ سیاہ
خون بہے گا اور پھر ذبح کیا جائے گا یہ سزا اس کو ہمیشہ ہمیشہ دی جائے گی اور
قاتلوں کو آگ کے کنوؤں میں قید کیا جائے گا اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ ( نیکیوں
کی جزائیں گناہوں کی سزائیں، ص80)
کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا شدید بدترین کبیرہ گناہ
ہے اور کثیر احادیث میں اس کی بہت مذمّت بیان کی گئی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود
سے روایت ہے کہ حضور جان عالم ﷺ کا فرمان عبرت نشان ہے: مسلمان کو گالی دینا فسق
ہے اور اسے قتل کرنا کفر ہے۔(بخاری، 4/11، حدیث: 6044)
مقتول اپنے قاتل کو گریبان سے پکڑے گا: فرمانِ مصطفےٰ ﷺ: بارگاہِ الٰہی میں مقتول اپنے قاتل کو
پکڑے ہوئے حاضر ہوگا جبکہ اس کی گردن کی رگوں سے خون بہہ رہا ہوگا، وہ عرض کرے گا:
اے میرے پروردگار! اس سے پوچھ، اس نے مجھے کیوں قتل کیا؟ اللہ پاک قاتل سے دریافت
فرمائے گا: تُونے اسے کیوں قتل کیا؟وہ عرض کرے گا: میں نے اسے فلاں کی عزّت کے لئے
قتل کیا، اسے کہا جائے گا: عزّت تو اللہ ہی کے لئے ہے۔ (معجم اوسط، 1/224،
حدیث:766)
مولائے کریم قاتلوں کوشریعت کے تقاضو ں کے مطابق سچّی توبہ
کرنے کی توفیق عطا فرمائے، ہمیں اس گُناہ کے اِرتکاب سے بچائے اور ہمارے معاشرے سے
قتل وغارت کے ناسُور کو دُور فرمائے۔
دنیا کے پہلے قتل سے لے کر اب تک بے شمار لوگ طبعی موت کے
بجائے قتل ہو کر دنیا سے رخصت ہو چکے مگر سلسلہ رکا نہیں بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ
بڑھتا ہے چلا گیا۔ مسلمانوں کا ایک دوسرے کو قتل کرنا خود کو قتل کرنا ہے کیونکہ
احادیث میں مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند فرمایا گیا ہے، جیسا کہ نبی اکرم نور
مجسم شاہ بنی آدم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم مسلمان کو دیکھو گے کہ وہ ایک دوسرے پر
رحم کرنے، دوستی رکھنے، اور شفقت کا مظاہرہ کرنے میں ایک جسم کی مانند ہوں گے
چنانچہ جسم کے جب کسی بھی حصے کو تکلیف پہنچتی ہے تو سارا جسم جاگنے اور بخار میں
اس کا شریک ہو جاتا ہے۔ (بخاری، 4/103، حدیث: 6011) جب مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں
تو ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کو قتل کرنا ایسا ہی ہے جیسے اس نے خود کو قتل کیا۔
فرمانِ مصطفی ﷺ ہے: سب گناہوں سے بڑا گناہ کسی کو ناحق قتل
کرنا ہے۔ (بخاری، 4/358، حدیث: 6871)
حیرت کی بات یہ ہے کہ اسلام وہ امن پسند اور صلح پسند دین
ہے جس نے جہاد کے وقت بھی دشمنوں کی املاک کو نقصان پہنچانے، لوٹ مار کرنے اور آتش
زنی سے منع فرمایا اور اسے جاہلیت کی برائی سے تعبیر کیا ہے حضرت ابو بکر رضی اللہ
عنہ نے جب شام و عراق کی طرف اسلامی لشکر روانہ فرمائے تو انہیں یہ ہدایات دیں کہ
بستیوں کو ویران نہ کرنا، فصلوں کو خراب نہ کرنا کھیتیوں کو نہ جلانا۔ گویا کہ
اسلام ہر انسان کی جان و مال کی حفاظت عزت و ناموس کی حفاظت، شخصی آزادی کا تحفظ، عقیدے
اور مسلک کی حفاظت، حق ملکیت کا تحفظ اور قانون کے سامنے تمام انسانوں کو مساوات
فراہم کرتا ہے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مسلمان کی ہر چیز مسلمان پر حرام ہے، اس کا
خون اور اس کا مال بھی اور اس کی آبرو بھی۔
جرائم قتل و غارت گری اور دہشت گردی میں اضافہ
کیوں؟ یہ سوال آتا ہے کہ جب ہم ایسے عظیم مذہب کے ماننے والے ہیں
جو شروع سے لے کر آخر تک امن و سکون کا درس دیتا ہے تو پھر اس کے ماننے والوں کے
درمیان یہ خون ریزی کیوں؟ ایک دوسرے کی جان و مال، عزت وآبرو کیوں محفوظ نہیں اس
کی درج زیل وجوہات ہیں:
سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ آج سوئے قسمت ہم نے صحیح معنوں
میں اسلامی تعلیمات سے آگاہی حاصل نہیں کی۔ ہم جاہلیت سے دوچار ہیں۔ جاہلیت ایک رویے
کا نام ہے جو غرور، تکبر فخر اور خود کو برتر سمجھنے سے عبارت ہے۔ جاہلیت میں
شرافت سے کم زوری اور بزدلی سمجھا جاتا ہے۔ قتل و غارت گری پر فخر کیا جاتا ہے
ہمارے پیارے آقا کریم ﷺ نے فرمایا: مسلمان کی جان لینا سوائے تین وجوہات کے حلال
نہیں: جان کے بدلے جان ( یعنی اس نے ناحق کسی کا قتل کیا ہو اور قصاص کے بدلے اس
کی جان لی جائے )۔ شادی شدہ زانی۔ جماعت ( کی متفق علیہ راہ) کو چھوڑ کر دین سے
نکلنے والا ( یعنی مرتد ہو جائے )۔ (بخاری، 4/361، حدیث:6878)
ناحق قتل ،گویا کہ ساری انسانیت کا قتل: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ
مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ
غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز
الایمان: اور
جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے
اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔
قرآن و حدیث میں نا حق قتل کرنے کی بے شمار وعیدیں بیان کی
گئی ہیں اور نا حق قتل کو کبیرہ گناہ بتایا ہے۔
فرامینِ مصطفیٰ:
1۔ قیامت کے دن لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خون کا فیصلہ
کیا جائے گا۔ (مسلم، ص711، حدیث: 4381)
2۔ اگر کسی ایک مسلمان کے قتل میں تمام آسمان و زمین والے
بھی شریک ہو جائیں (یا اس قتل پر راضی ہوں) تو اللہ پاک ان سب کو اوندھے منہ جہنم میں
ڈال دے گا۔(ترمذی، 3/100، حدیث: 1403)
دنیا اور آخرت میں قاتل کو سخت ترین سزائیں دی جائیں گی، قاتل
کے لئے چار سزائیں ہیں: دائمی جہنم، اللہ کا غضب، اللہ کی لعنت ( رحمت سے دوری)
اور سخت ترین عذاب ( عام جہنمیوں کی نسبت زیادہ سخت عذاب)۔
انسانی جان کی بے حد قدر و قیمت ہے نبی پاک ﷺ نے کسی کی طرف
سے اسلحہ سے محض اشارہ کرنے سے بھی منع فرمایا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا: تم میں سے
کوئی شحض اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے، کیا پتہ شیطان اس کے ہاتھ کو
ڈگمگائے اور (ہتھیار چل پڑے اور قتل نا حق کے نتیجے میں) یہ شحض جہنم کے گڑھے میں
جا گرے۔ (بخاری، 4/434، حدیث: 7072)
ہمارا دین اسلام اس قدر ہمیں احترامِ مسلم سکھاتا ہے کہ کسی
مسلمان کی طرف بغیر شرعی اجازت کے تیز نظر دیکھنے سے بھی منع فرماتا ہے تو پھر نا
حق قتل کرنا تو بہت جرات کی بات ہے۔
قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ ناحق قتل و
غارت گری عام ہو جائے گی نہ قتل کرنے والے کو معلوم ہو گا کہ میں کیوں قتل کر رہا
ہوں اور نہ ہی مقتول کو معلوم ہوگا کہ میں کیوں قتل کیا جا رہا ہوں
اللہ کریم ہمارے حالوں پر اپنی رحمت کی نظر فرمائے اور
ہماری جان مال عزت و آبرو کی حفاظت فرمائے اسلام کا بول بالا فرمائے شریروں کے شر
سے ہمیں محفوظ فرمائے اور جو مسلمان اس غلیظ گناہ میں ملوث ہیں انہیں عقل سلیم عطا
فرما کر ہداہت کی اعلی راہوں پر گامزن ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم
النبی ﷺ
قتل ناحق کی مذمت از بنت سید ابرار حسین، جامعۃ
المدینہ پاکپورہ سیالکوٹ
کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ قتل ناحق بھی ہے، اس کی مذمت
قرآن و احادیث میں وارد ہوئی ہے، ہمارا رب کریم اپنے کلام قرآن مجید میں ارشاد
فرماتا ہے: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ
خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا
عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز
الایمان: اور
جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے
اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔
قتل ناحق کی مذمت میں احادیث مبارکہ ملاحظہ ہوں:
قتل ناحق کبیرہ گناہ ہے: حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے
ارشاد فرمایا: کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، والدین کی
نافرمانی کرنا، کسی جان کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی قسم کھانا۔ ( مسلم، ص 60، حدیث:260)
ہلاکت کی چیزوں میں سے ایک قتل ناحق بھی ہے، جیسا کہ حدیث
مبارک میں ہے: سات ہلاکت کی چیزوں سے بچو۔ لوگوں نے پوچھا: حضور وہ کیا ہیں؟
فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک، جادو اور ناحق اس جان کو ہلاک کرنا جو اللہ نے حرام کی اور
سود خوری، یتیم کا مال کھانا، جہاد کے دن پیٹھ دکھادینا، پاکدامن مؤمنہ بے خبر
بیبیوں کو بہتان لگانا۔ (بخاری، 2/242، حدیث: 2766)
قتل ناحق پر مدد کرنا کیسا؟ جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی کی مدد کی تو وہ
قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں
کے درمیان لکھا ہو گا یہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہے۔(ابن ماجہ، 3/262، حدیث: 2620)
قیامت میں خسارا پانے والا: اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہو جائیں
تو اللہ تعالیٰ سب کو اوندھا منہ جہنم میں ڈال دے۔ (معجم صغیر، 1/ 205)
ناپسندیدہ لوگ: الله کی بارگاہ میں تین شخص ناپسند ترین ہیں: حرم میں بے دینی کرنے والا، اسلام
میں جاہلیت کے طریقے کا متلاشی، مسلمان کے خون ناحق کا جویاں تاکہ اس کی خونریزی
کرے۔ (مراۃ المناجیح، 1/146)
کسی مسلمان(ضروریات دین میں سے کسی کا انکار نا کرتا ہو اور
کفریات سے بچتا ہو) کو بلا کسی اجازت شرعی قتل کرنا قتل ناحق کہلاتا ہے۔ قتل ناحق
کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ایک نہایت ہی مذموم گناہ حرام اور جہنم میں لے جانے والا
کام ہے۔ حدیث پاک میں ہے کہ: قیامت کے دن سب سے پہلے لوگوں کے درمیان خون بہانے کے
متعلق فیصلہ کیا جائے گا۔ (مسلم، ص711، حدیث: 4381) مفتی احمد یار خان نعمی رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں: خیال رہے کہ عبادات میں میں پہلے نماز کا حساب ہو گا اور
حقوق العباد میں قتل و خون کا یا نیکیوں میں پہلے نماز کا اور گناہوں میں پہلے قتل
کا۔(مراٰۃ المناجیح، 2/306)
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ قتل ناحق کے بارے میں سب سے پہلے
سُوال ہو گا۔ قتل ناحق کی مذمت پر چند احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیے:
1۔ قتل صرف تین صورتوں میں جائز ہے: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کسی مسلمان مرد کا جو لااِلٰہَ اِلاَّ اللہ کی گواہی اور میری رسالت کی شہادت دیتا ہو خون صرف تین صورتوں میں سے کسی ایک
صورت میں حلال ہے: 1۔ نفس کے بدلے میں نفس، 2۔ ثیب زانی (شادی شدہ زانی) اور 3۔
اپنے مذہب سے نکل کر جماعت اہلِ اسلام کو چھوڑ دے (مرتد ہو جائے یا باغی ہو جائے)۔
(بخاری، 4/361، حدیث:6878)
2۔ مسلمان اپنے دین کے سبب کشادگی میں رہتا ہے جب تک کوئی
حرام خون نہ کر لے۔ (بخاری، 4/356، حدیث: 6862
3۔ جنت کی خوشبو نہیں سونگے گا: جس نے کسی معاہد (ذمی) کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو نہ
سونگھے گا اور بےشک جنت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت تک پہنچتی ہے۔ (بخاری، 2/365،
حدیث: 3166)
4۔ بے شک دنیا کا زوال اللہ پر آسان ہے ایک مرد مسلم کے قتل
سے۔ (ترمذی، 3/98، حدیث: 1400)
قتل ناحق سے مراد کسی کو ظلما ناحق قتل کرنا ہے، افسوس آج
کل کے معاشرے میں کسی کو بےجا قتل کرنا بالکل معمولی سی بات سمجھا جاتا ہے، کبھی
غیرت کے نام پر قتل، کبھی کسی پرانی دشمنی کے سبب قتل، کبھی جائیداد وغیرہ پر
ناجائز قبضہ کرنے کے لیے کسی کو جان سے مار دیا جاتا ہے، ایسی بہت سی مثالیں آج کے
دور میں ملتی ہیں اور لوگ انتہائی بےخوفی کے ساتھ انجام کی پروا کیے بغیر یہ حرام
فعل سرانجام دے رہے ہیں جبکہ نص قطعی سے اس کی مذمت میں واضح دلائل موجود ہیں جن
میں سے چند ایک پیش خدمت ہیں:
ارشاد ربانی ہے: وَ مَنْ یَّقْتُلْ
مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ
عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز
الایمان: اور
جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے
اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔
ایک اور جگہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ
فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاؕ- (پ 6، المائدۃ: 32) ترجمہ کنز الایمان: جس
نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کئے تو گویا اس نے سب لوگوں
کو قتل کیا۔
ان آیات مبارکہ سے کسی مسلمان کو بلا وجہ شرعی قتل کرنے کی
سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں۔ اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی اس سلسلے میں فرامین
عبرت نشان موجود ہیں، چنانچہ
فرامینِ مصطفیٰ:
1۔ کسی مومن کوقتل کرنے میں اگر زمین وآسمان والے شریک ہو
جائیں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو جہنم میں دھکیل دے۔ (ترمذی، 3/100، حدیث: 1403)
2۔ ایک اور روایت میں ہے: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی
جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری، 4/358، حدیث: 6871)
ان احادیث کریمہ میں بھی قتل ناحق کی شدید مذمت بیان کی جا
رہی ہے اللہ تبارک و تعالیٰ جل شانہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں تمام صغیرہ و کبیرہ
گناہوں سے بچائے اور شرعی مسائل سیکھ کر ان پر اخلاص کے ساتھ عمل کرنے اور انہیں
دوسروں تک پہنچانے کی سعادت نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ
قتل ناحق کا حکم قصاص یعنی خون کا بدلہ خون اور آخرت میں
دردناک عذاب ہے۔ جیسا کہ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا: وَ
مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ
غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز
الایمان: اور
جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے
اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔
قتل ناحق کی مذمت احادیث کی روشنی میں: کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنا شدید ترین کبیرہ گناہ ہے اور
اس کی مذمت احادیث میں بیان کی گئی ہے جن میں سے چار احادیث ملاحظہ ہوں:
(1)حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آقا ﷺ نے ارشاد
فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو ناحق قتل کرنا ہے۔ (بخاری، 4/358،
حدیث: 6871)
(2) ارشاد فرمایا: دو مسلمان آپس میں تلواروں سے لڑیں تو
قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے راوی فرماتے ہیں میں نے عرض کی: مقتول
جہنم میں کیوں جائے گا؟ فرمایا: اس لیے کہ وہ اپنے ساتھی کے ساتھ لڑنے میں مصر تھا۔
(بخاری، 1/23، حدیث: 31)
(3) جس نے کسی مسلمان کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی
قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے
درمیان لکھا ہوگا کہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہے۔ (ابن ماجہ، 3/262، حدیث: 2620)
(4) اگر آسمان وزمین والےکسی مسلمان کے قتل پر جمع ہو جائیں
تو اللہ پاک ان سب کو اوندھےمنہ جہنم میں ڈال دے۔ (معجم صغیر، 1/ 205)
کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا شدید ترین کبیرہ گناہ ہے،
اس پر قرآن و حدیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد
فرماتا ہے: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ
خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا
عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز الایمان:
اور
جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے
اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔
احادیث مبارکہ:
1۔ جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ
قیامت کے دن اللہ پاک کی بارگاہ میں اس حال میں پیش ہوگا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے
درمیان لکھا ہوگا کہ یہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہے۔ (ابن ماجہ، 3/262، حدیث: 2620)
2۔ ہلاکت کا بھنور جس میں گرنے کے بعد پھر نکلنے کی امید
نہیں وہ ایسا ناحق خون کرنا ہے جس کو اللہ پاک نے حرام کردیا ہے۔ (بخاری، 4/357، حدیث:6863)
جہاں مسلمان کو ناحق کرنے میں اللہ کے حقوق کی پامالی اور
اس کی نافرمانی ہے وہاں ایک مسلمان کو قتل کرنا اس کو تکلیف دینا اور اس کے
لواحقین کو تکلیف پہنچانا بھی گناہ ہے جس کا تعلق حقوق العباد سے ہے اور حقوق
العباد کا معاملہ حقوق اللہ سے زیادہ سخت ہے کہ اللہ رب العزت تب تک اس بندے کو
معاف نہیں کرتا جب تک بندہ اس کو معاف نہ کردے۔
مسلمان کے قتل کو حلال سمجھنے کا حکم: اگر مسلمانوں کے قتل کو حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب کیا تو
یہ خود کفر ہے ایسا شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور اگر قتل کو حرام سمجھ کر ارتکاب
کیا تو یہ کبیرہ گناہ ہے اور ایسا شخص مدت دراز تک جہنم میں رہے گا۔
مسلمانوں کا باہمی تعلق کیسا ہونا چاہیے؟ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سرکار ﷺ نے
ارشاد فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ پاؤں اور زبان سے دیگر مسلمان محفوظ رہیں۔
(بخاری، 1/15، حدیث: 10)
آ خر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں مسلمان ہونے کا حق ادا
کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے ہاتھ پاؤں، زبان اور دیگر اعضا سے لوگوں کو
محفوظ فرمائے اور ہمیں احترامِ مسلم کا جذبہ عطا فرمائے۔ آمین
عبدالکریم آصف (درجۂ رابعہ جامعۃ المدینہ کنز
الایمان مزنگ لاہور ، پاکستان)
اِسلام تکریم
اِنسانیت کا دین ہے۔ یہ اپنے ماننے والوں کو نہ صرف اَمن و آشتی، تحمل و برداشت
اور بقاء باہمی کی تعلیم دیتا ہے بلکہ ایک دوسرے کے مکتب و مشرب کا احترام بھی
سکھاتا ہے۔ یہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ بلا تفریقِ رنگ و نسل تمام انسانوں کے ناحق
قتل کی سختی سے ممانعت کرتا ہے۔
اسلام میں کسی
انسانی جان کی قدر و قیمت اور حرمت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے
بغیر کسی وجہ کے ایک فرد کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیاہے۔
…حضرت براء بن
عازب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک
دنیا کاختم ہو جانا ایک مسلمان کے ظلماً قتل سے زیاد سہل ہے۔(ابن ماجہ، کتاب
الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلماً، 3 / 261، الحدیث: 2619)
…حضرت ابو
ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’کسی مومن کوقتل کرنے میں
اگر زمین وآسمان والے شریک ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو جہنم میں دھکیل دے ۔
(ترمذی، کتاب الدیات، باب الحکم فی الدماء، 3 / 100، الحدیث: 1403)
؛روایت ہے
حضرت ابو سعید اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے
راوی فرمایا اگر زمین و آسمان والے ایک مسلمان کے قتل میں شریک ہو جائیں ، تو اللہ
تعالی انہیں آگ میں اوندھا ڈال دے ۔ اور فرمایا یہ حدیث غریب ہے۔
شرح حدیث:
ے آسمان والوں
سے مراد ان انسانوں کی روحیں ہیں جو یہاں فوت ہو چکے یا جو ابھی دنیا میں آئی
نہیں۔ مقصد یہ ہے کہ قتل ایسا جرم ہے کہ ایک قتل کی وجہ سے بہت کو عذاب ہو سکتا ہے۔
دعا ہے اللہ
عزوجل ہمیں کسی کو ناحق تکلیف دینے سے بچتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
زین العابدین ( جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم
سادھوکی لاہور،پاکستان)
کسی مسلمان کو
جان بوجھ کر قتل کرنا شدید ترین کبیرہ گناہ ہے اور کثیر احادیث میں اس کی بہت مذمت
بیان کی گئی ہے ان میں سے 5 احادیث درج ذیل ہیں۔
(1)سب
سے بڑا گناہ : حضرت
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے
سوال کیا کونسا گناہ سب سے بڑا ہے؟ ارشاد فرمایا یہ کہ تو اللہ عزوجل کے ساتھ کسی
کو شریک کرے حالانکہ اس نے تمہیں پیدا کیا میں نے عرض کی پھر اس کے بعد کونسا گناہ
؟ ارشاد فرمایا کہ تو اپنی اولاد کو اس لیے قتل کر ڈالے کے وہ تیرے ساتھ کھاے گی
میں نے عرض کی پھر کونسا ؟ یہ کہ تو اپنے پڑوسی کی عورت کے ساتھ زنا کرے۔ ( بخاری
کتاب الادب، باب قتل الولد خشيته ان يأكل معہ
ج 4 ص 100
حدیث 2001 )
(2)ظلماً
قتل کی سزاء: حضرت
عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے ارشاد فرمایا جسے بھی ظالما قتل کیا جاتا ہے تو حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کے
پہلے بیٹے کے حصے میں بھی اس کا خون ہوتا ہے کیونکہ سب سے پہلے قتل کو اس نے ایجاد
کیا (فیضان رياض الصالحین جلد 2 حدیث نمبر 172)
(3)
جنت کی خوشبو سے دوری کا سبب : حضرت عبداللہ ابن عمر و رضی اللہ عنہ
فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جو کسی عہد و پیمان والے کو
قتل کر دے۔ وہ جنت کی خوشبو نہ پائے گا حالانکہ اس کی خوشبو چالیس سال کی راہ سے
محسوس کی جاتی ہے ۔ مرأة المناجيح شرح مشکوه المصالح مجلد 5 حدیث نمبر3452
(4)دنیا
کا مٹ جانا آسان ہے :حضرت عبداللہ ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا کہ دنیا کا مٹ جانا الله کے ہاں
آسان ہے مسلمان آدمی کے قتل سے۔ ( مراۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح جلد 5
حدیث3462)
(5)ناحق
قتل کرنے والے خسارہ کا شکار: حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل
پر جمع ہو جائیں تو الله تعالی سب کو جنم میں اوندھے منہ ڈال دے) معجم صغیر، باب
العین من اسمه علی ، ص 205 جز اول )
اللہ تعالٰی
سے دعا ہے کہ ہمیں اپنی فرمانبرداری والے کام کرنے اور نافرمانی والے کاموں سے
بیچنے کی توفیق عطا فرمائے بالخصوص قتل ناحق سے بچنے کی توفیق دے
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
عبدالحنان (درجۂ خامسہ جامعۃ المدینہ گلزار
حبیب سبزہ زار لاہور، پاکستان)
دین اسلام کی
نظر میں ایک انسان کی عزت و حرمت کی قدر بہت زیادہ ہے اور اگر وہ انسان مسلمان ہو
تو اس کی قدر و منزلت اسلام کی نظر میں زیادہ بڑھ جاتی ہے اسی لئے دین اسلام نے وہ
تمام افعال جو ایک انسان کی حرمت کو ضائع کرے اسلام نے ان تمام افعال سے انسان کو
بچنے کا حکم دیا ہے تاکہ ایک انسان کی عزت و حرمت ضائع نہ ہو۔
انسان کی حرمت
کو ضائع کرنے میں سب سے بڑا کردار ناحق کسی کو قتل کرنا ہے وہ دینِ اسلام جو حیوانات
و نباتات کے حقوق کا خیال رکھنے کا حکم دیتا ہے تو وہ دینِ اسلام ایک جان کو ناحق
قتل کرنے کا حکم کیسے دے سکتا ہے۔ ایک انسان کی عزت و حرمت کا اندازہ اس حدیث سے
لگایا جا سکتا ہے۔
حضرت عبداللہ
بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو
دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کعبہ کا طواف فرما رہے تھے اور فرما رہے تھے تو
کتنا پاکیزہ ہے اور تیری خوشبو کس قدر پاکیزہ ہے تو کتنا عظیم ہے اور تیری حرمت
کتنی عظیم ہے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
جان ہے مومن کی حرمت اس کے مال و جان کی حرمت اللہ کے نزدیک تیری حرمت سے عظیم تر
ہے اور ہمیں مومن کے ساتھ اچھا گمان رکھنا چاہیے۔(ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب حرمة
دم المؤمن وماله، ج2، ص1297، الحدیث3932، مکتبہ دار إحياء الكتب العربية)
دین اسلام میں
ایک انسان کو ناحق قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے اور اکثر احادیث میں قتل ناحق کی شدید
مذمت بیان کی گئی ہے۔
قارئین کرام
چند احادیث قتل ناحق کی مذمت پر ملاحظہ کرتے ہیں۔
کبیرہ
گناہوں میں سے ایک بڑا گناہ۔ حضرت انس رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے،
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک
کسی جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے۔ (البخاری، کتاب الدیات، باب قول اللّٰہ تعالیٰ:
(ومن احیاھا) ج6، ص2519، الحدیث6477، مکتبہ دار ابن کثیر ، دار الیمامه)
قاتل
و مقتول دونوں جہنمی۔
حضرت ابو بکرہ
رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے،رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔
راوی فرماتے ہیں: میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس
لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پر مُصِر تھا۔( البخاری، کتاب الایمان، باب وان
طائفتان من المؤمنین اقتتلوا۔۔۔ الخ، ج1، ص20، الحدیث31، مکتبہ دار ابن کثیر ،
دار الیمامه)
قتل پر مدد
کرنے والا اللّٰہ کی رحمت سے مایوس۔
حضرت ابو
ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد
فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ
تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا
ہو گا یہ اللہ پاک کی رحمت سے مایوس ہے۔ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل
مسلم ظلمًا، ج2، ص874، الحدیث 2620 مکتبہ دار إحياء الكتب العربية
قیامت کے دن
گردن کی رگوں سے خون جاری۔
حضرت عبداللہ
بن عباس رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد
فرمایا قیامت کے دن مقتول قاتل کو لے کر اس حال میں آئے گا کہ اس کی پیشانی اور
سر اس کے ہاتھ میں ہوں گے اور گردن کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا۔ عرض کرے گا: اے
میرے رب! اس نے مجھے قتل کیا تھا، حتّٰی کہ قاتل کو عرش کے قریب کھڑا کردے گا۔ (سنن
ترمزی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ النساء، ج5، ص122، الحدیث، 3029 مکتبہ دار
الغرب الاسلامی بیروت)
دنیا
کے تباہ ہو جانے سے زیادہ بڑا۔ حضرت عبداللہ بن بریدہ رضی اللّٰہ عنہ
اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد
فرمایا: ایک مومن کا قتل کیا جانا اللہ پاک کے نزدیک دنیا کے تباہ ہو جانے سے
زیادہ بڑا ہے۔ ( سنن نسائی، کتاب التحریم الدم، باب تعظیم الدم، ج7، ص83،
الحدیث3990، مکتبہ المطبوعات الاسلامیہ بحَلَب)
قارئین کرام
چند احادیث قتل ناحق کی مذمت پر ملاحظہ کی افسوس کہ آج کل قتل ناحق بڑا معمولی
کام ہوگیا ہے اور اس کو گناہ سمجھا ہی نہیں جارہا چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار
دینا، غنڈہ گردی، ڈکیتی، خاندانی لڑائی وغیرہ عام ہیں۔
مسلمانوں کا
خون پانی کی طرح بہایا جارہا ہے۔ ہمیں ان احادیث کریمہ سے عبرت حاصل کرنی چاہیئے۔
اللہ پاک ہمیں
ایک دوسرے کی عزت و حرمت کا خیال رکھنے اور تمام صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے بچنے کی
توفیق عطا فرمائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتوں پر عمل کرتے رہنے
کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
ابو کلیم عبد الرحیم عطّاری (درجۂ رابعہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم
سادھوکی لاہور،پاکستان)
دین اسلام ایک
مکمل ضابطہ حیات ہے اس میں دنیاۓ زندگی کے تمام معاملات کی
رہنمائی اور پاسداری کی گئی ہے حتیٰ کہ کسی کو ناحق قتل کرنے کی بھی مذمت اور
وعیدیں بیان کی گئی ہیں
چنانچہ اللہ
تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا
مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خلِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ
وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لهُ عَذَابًا عَظِيمًا (پ4,النساء
93) ترجمہ کنز الایمان : اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ
جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس
کے لئے تیار رکھا بڑا عذاب۔
کسی مسلمان کو
جان بوجھ کر قتل کر نا شدید ترین کبیرہ گناہ ہے اور کثیر احادیث میں اس کی بہت
مذمت بیان کی گئی ہے ، ان میں سے 4 احادیث درج ذیل ہیں:
(1)بڑا کبیرہ گناہ : حضرت انس
رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُ سے روایت ہے: تاجدار رسالت صَلَّى اللهُ تَعَالَى
عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان
کو ( ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری، کتاب الديات، باب قول الله تعالى: ومن
احياها,358/4 الحديث: 6871)
(2)
قیامت کے دن کا خسارہ : کسی مسلمان کو نا حق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے
خسارے کا شکار ہو گا۔ حضرت ابو بکرہ رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُ سے روایت ہے،
نبی کریم صلَّی اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ”اگر
زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ سب کو اوندھے
منہ جہنم میں ڈال دے۔ ( معجم صغير، باب العين، من اسمه على، ص 205 ، الجزء الاول)
(3)
دونوں ہی جہنمی : حضرت
ابو بکرہ رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُ سے مروی ہے ، رسولِ اکرم صَلَّى اللهُ
تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں
سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض
کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل
کرنے پر مُصر تھا۔(بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنين اقتتلوا - -
- الخ، 1 / 23 ، الحديث : 31)
(4)
رحمت الٰہی سے محروم: حضرت ابو ہریرہ رَضِيَ اللهُ تَعَالٰی عَنْہ سے
روایت ہے ، حضور پر نور صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ نے
ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے
دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان
لکھا ہو گا ” یہ اللہ عزوجل کی رحمت سے مایوس ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب الديات، باب
التغليظ في قتل مسلم ظلما ، 3 / 262، الحديث : 2620)
افسوس کہ آج
کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہو گیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینا، غنڈہ
گردی، دہشت گردی، ڈکیتی ، خاندانی لڑائی، تعصب والی لڑائیاں عام ہیں۔ مسلمانوں کا
خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے، گروپ اور جتھے اور عسکری ونگ بنے ہوئے ہیں جن کا
کام ہی قتل و غارتگری کرنا ہے۔
اللّٰہ پاک
ہمیں قتل ناحق جیسے کبیرہ گناہوں اور دیگر گناہوں سے محفوظ فرمائے آمین بجاہ النبی
الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
کسی مسلمان کو
جان بوجھ کر قتل کرنا شدید ترین کبیرہ گناہ ہے اور کثیر احادیث میں ا س کی بہت
مذمت بیان کی گئی ہے، ان میں سے 4احادیث درج ذیل ہیں:
(1)…حضرت انس
رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی
جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالٰی: ومن
احیاہا، 1 / 358، الحدیث:871)
(2)…کسی
مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے خسارے کا شکار ہو گا۔ حضرت ابو بکرہ
رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر زمین و آسمان والے کسی
مسلمان کے قتل پر جمع ہوجائیں تواللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال
دے۔(معجم صغیر، باب العین، من اسمہ علی، ص205 ، الجزء الاول)
(3)…حضرت ابو
بکرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں
تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض کی:
مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے
پرمُصِر تھا۔(بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا۔۔۔ الخ،
1 / 23، الحدیث: 31)
(4)…حضرت ابو
ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر
ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں
آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ’’یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی
رحمت سے مایوس ہے۔‘‘(ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلمًا، 3 /262، الحدیث: 26220)
افسوس کہ آج کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہوگیا
ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینا، غنڈہ گردی، دہشت گردی، ڈکیتی، خاندانی
لڑائی، تَعَصُّب والی لڑائیاں عام ہیں۔ مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا
ہے، گروپ اور جتھے اور عسکری وِنگ بنے ہوئے ہیں جن کا کام ہی قتل و غارتگری کرنا
ہے۔
مسلمان
کو قتل کرنا کیسا ہے؟ اگر مسلمانو ں کے قتل کو حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب
کیا تو یہ خود کفر ہے اور ایسا شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور قتل کو حرام ہی
سمجھا لیکن پھر بھی اس کا ارتکاب کیا تب یہ گناہ کبیرہ ہے اور ایسا شخص مدت ِ دراز
تک جہنم میں رہے گا۔ آیت میں ’’خَالِدًا ‘‘کا لفظ ہے اس کا ایک معنیٰ ہمیشہ ہوتا
ہے اور دوسرا معنیٰ عرصہ دراز ہوتا ہے یہاں دوسرے معنیٰ میں مذکور ہے۔
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔