دنیا کے پہلے قتل سے لے کر اب تک بے شمار لوگ طبعی موت کے
بجائے قتل ہو کر دنیا سے رخصت ہو چکے مگر سلسلہ رکا نہیں بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ
بڑھتا ہے چلا گیا۔ مسلمانوں کا ایک دوسرے کو قتل کرنا خود کو قتل کرنا ہے کیونکہ
احادیث میں مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند فرمایا گیا ہے، جیسا کہ نبی اکرم نور
مجسم شاہ بنی آدم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم مسلمان کو دیکھو گے کہ وہ ایک دوسرے پر
رحم کرنے، دوستی رکھنے، اور شفقت کا مظاہرہ کرنے میں ایک جسم کی مانند ہوں گے
چنانچہ جسم کے جب کسی بھی حصے کو تکلیف پہنچتی ہے تو سارا جسم جاگنے اور بخار میں
اس کا شریک ہو جاتا ہے۔ (بخاری، 4/103، حدیث: 6011) جب مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں
تو ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کو قتل کرنا ایسا ہی ہے جیسے اس نے خود کو قتل کیا۔
فرمانِ مصطفی ﷺ ہے: سب گناہوں سے بڑا گناہ کسی کو ناحق قتل
کرنا ہے۔ (بخاری، 4/358، حدیث: 6871)
حیرت کی بات یہ ہے کہ اسلام وہ امن پسند اور صلح پسند دین
ہے جس نے جہاد کے وقت بھی دشمنوں کی املاک کو نقصان پہنچانے، لوٹ مار کرنے اور آتش
زنی سے منع فرمایا اور اسے جاہلیت کی برائی سے تعبیر کیا ہے حضرت ابو بکر رضی اللہ
عنہ نے جب شام و عراق کی طرف اسلامی لشکر روانہ فرمائے تو انہیں یہ ہدایات دیں کہ
بستیوں کو ویران نہ کرنا، فصلوں کو خراب نہ کرنا کھیتیوں کو نہ جلانا۔ گویا کہ
اسلام ہر انسان کی جان و مال کی حفاظت عزت و ناموس کی حفاظت، شخصی آزادی کا تحفظ، عقیدے
اور مسلک کی حفاظت، حق ملکیت کا تحفظ اور قانون کے سامنے تمام انسانوں کو مساوات
فراہم کرتا ہے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مسلمان کی ہر چیز مسلمان پر حرام ہے، اس کا
خون اور اس کا مال بھی اور اس کی آبرو بھی۔
جرائم قتل و غارت گری اور دہشت گردی میں اضافہ
کیوں؟ یہ سوال آتا ہے کہ جب ہم ایسے عظیم مذہب کے ماننے والے ہیں
جو شروع سے لے کر آخر تک امن و سکون کا درس دیتا ہے تو پھر اس کے ماننے والوں کے
درمیان یہ خون ریزی کیوں؟ ایک دوسرے کی جان و مال، عزت وآبرو کیوں محفوظ نہیں اس
کی درج زیل وجوہات ہیں:
سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ آج سوئے قسمت ہم نے صحیح معنوں
میں اسلامی تعلیمات سے آگاہی حاصل نہیں کی۔ ہم جاہلیت سے دوچار ہیں۔ جاہلیت ایک رویے
کا نام ہے جو غرور، تکبر فخر اور خود کو برتر سمجھنے سے عبارت ہے۔ جاہلیت میں
شرافت سے کم زوری اور بزدلی سمجھا جاتا ہے۔ قتل و غارت گری پر فخر کیا جاتا ہے
ہمارے پیارے آقا کریم ﷺ نے فرمایا: مسلمان کی جان لینا سوائے تین وجوہات کے حلال
نہیں: جان کے بدلے جان ( یعنی اس نے ناحق کسی کا قتل کیا ہو اور قصاص کے بدلے اس
کی جان لی جائے )۔ شادی شدہ زانی۔ جماعت ( کی متفق علیہ راہ) کو چھوڑ کر دین سے
نکلنے والا ( یعنی مرتد ہو جائے )۔ (بخاری، 4/361، حدیث:6878)
ناحق قتل ،گویا کہ ساری انسانیت کا قتل: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ
مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ
غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز
الایمان: اور
جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے
اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔
قرآن و حدیث میں نا حق قتل کرنے کی بے شمار وعیدیں بیان کی
گئی ہیں اور نا حق قتل کو کبیرہ گناہ بتایا ہے۔
فرامینِ مصطفیٰ:
1۔ قیامت کے دن لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خون کا فیصلہ
کیا جائے گا۔ (مسلم، ص711، حدیث: 4381)
2۔ اگر کسی ایک مسلمان کے قتل میں تمام آسمان و زمین والے
بھی شریک ہو جائیں (یا اس قتل پر راضی ہوں) تو اللہ پاک ان سب کو اوندھے منہ جہنم میں
ڈال دے گا۔(ترمذی، 3/100، حدیث: 1403)
دنیا اور آخرت میں قاتل کو سخت ترین سزائیں دی جائیں گی، قاتل
کے لئے چار سزائیں ہیں: دائمی جہنم، اللہ کا غضب، اللہ کی لعنت ( رحمت سے دوری)
اور سخت ترین عذاب ( عام جہنمیوں کی نسبت زیادہ سخت عذاب)۔
انسانی جان کی بے حد قدر و قیمت ہے نبی پاک ﷺ نے کسی کی طرف
سے اسلحہ سے محض اشارہ کرنے سے بھی منع فرمایا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا: تم میں سے
کوئی شحض اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے، کیا پتہ شیطان اس کے ہاتھ کو
ڈگمگائے اور (ہتھیار چل پڑے اور قتل نا حق کے نتیجے میں) یہ شحض جہنم کے گڑھے میں
جا گرے۔ (بخاری، 4/434، حدیث: 7072)
ہمارا دین اسلام اس قدر ہمیں احترامِ مسلم سکھاتا ہے کہ کسی
مسلمان کی طرف بغیر شرعی اجازت کے تیز نظر دیکھنے سے بھی منع فرماتا ہے تو پھر نا
حق قتل کرنا تو بہت جرات کی بات ہے۔
قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ ناحق قتل و
غارت گری عام ہو جائے گی نہ قتل کرنے والے کو معلوم ہو گا کہ میں کیوں قتل کر رہا
ہوں اور نہ ہی مقتول کو معلوم ہوگا کہ میں کیوں قتل کیا جا رہا ہوں
اللہ کریم ہمارے حالوں پر اپنی رحمت کی نظر فرمائے اور
ہماری جان مال عزت و آبرو کی حفاظت فرمائے اسلام کا بول بالا فرمائے شریروں کے شر
سے ہمیں محفوظ فرمائے اور جو مسلمان اس غلیظ گناہ میں ملوث ہیں انہیں عقل سلیم عطا
فرما کر ہداہت کی اعلی راہوں پر گامزن ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم
النبی ﷺ