ابو کلیم عبد الرحیم عطّاری (درجۂ رابعہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم
سادھوکی لاہور،پاکستان)
دین اسلام ایک
مکمل ضابطہ حیات ہے اس میں دنیاۓ زندگی کے تمام معاملات کی
رہنمائی اور پاسداری کی گئی ہے حتیٰ کہ کسی کو ناحق قتل کرنے کی بھی مذمت اور
وعیدیں بیان کی گئی ہیں
چنانچہ اللہ
تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا
مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خلِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ
وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لهُ عَذَابًا عَظِيمًا (پ4,النساء
93) ترجمہ کنز الایمان : اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ
جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس
کے لئے تیار رکھا بڑا عذاب۔
کسی مسلمان کو
جان بوجھ کر قتل کر نا شدید ترین کبیرہ گناہ ہے اور کثیر احادیث میں اس کی بہت
مذمت بیان کی گئی ہے ، ان میں سے 4 احادیث درج ذیل ہیں:
(1)بڑا کبیرہ گناہ : حضرت انس
رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُ سے روایت ہے: تاجدار رسالت صَلَّى اللهُ تَعَالَى
عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان
کو ( ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری، کتاب الديات، باب قول الله تعالى: ومن
احياها,358/4 الحديث: 6871)
(2)
قیامت کے دن کا خسارہ : کسی مسلمان کو نا حق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے
خسارے کا شکار ہو گا۔ حضرت ابو بکرہ رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُ سے روایت ہے،
نبی کریم صلَّی اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ”اگر
زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ سب کو اوندھے
منہ جہنم میں ڈال دے۔ ( معجم صغير، باب العين، من اسمه على، ص 205 ، الجزء الاول)
(3)
دونوں ہی جہنمی : حضرت
ابو بکرہ رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُ سے مروی ہے ، رسولِ اکرم صَلَّى اللهُ
تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں
سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض
کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل
کرنے پر مُصر تھا۔(بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنين اقتتلوا - -
- الخ، 1 / 23 ، الحديث : 31)
(4)
رحمت الٰہی سے محروم: حضرت ابو ہریرہ رَضِيَ اللهُ تَعَالٰی عَنْہ سے
روایت ہے ، حضور پر نور صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ نے
ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے
دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان
لکھا ہو گا ” یہ اللہ عزوجل کی رحمت سے مایوس ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب الديات، باب
التغليظ في قتل مسلم ظلما ، 3 / 262، الحديث : 2620)
افسوس کہ آج
کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہو گیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینا، غنڈہ
گردی، دہشت گردی، ڈکیتی ، خاندانی لڑائی، تعصب والی لڑائیاں عام ہیں۔ مسلمانوں کا
خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے، گروپ اور جتھے اور عسکری ونگ بنے ہوئے ہیں جن کا
کام ہی قتل و غارتگری کرنا ہے۔
اللّٰہ پاک
ہمیں قتل ناحق جیسے کبیرہ گناہوں اور دیگر گناہوں سے محفوظ فرمائے آمین بجاہ النبی
الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔