کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا شدید ترین کبیرہ گناہ ہے،
اس پر قرآن و حدیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد
فرماتا ہے: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ
خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا
عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز الایمان:
اور
جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے
اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔
احادیث مبارکہ:
1۔ جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ
قیامت کے دن اللہ پاک کی بارگاہ میں اس حال میں پیش ہوگا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے
درمیان لکھا ہوگا کہ یہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہے۔ (ابن ماجہ، 3/262، حدیث: 2620)
2۔ ہلاکت کا بھنور جس میں گرنے کے بعد پھر نکلنے کی امید
نہیں وہ ایسا ناحق خون کرنا ہے جس کو اللہ پاک نے حرام کردیا ہے۔ (بخاری، 4/357، حدیث:6863)
جہاں مسلمان کو ناحق کرنے میں اللہ کے حقوق کی پامالی اور
اس کی نافرمانی ہے وہاں ایک مسلمان کو قتل کرنا اس کو تکلیف دینا اور اس کے
لواحقین کو تکلیف پہنچانا بھی گناہ ہے جس کا تعلق حقوق العباد سے ہے اور حقوق
العباد کا معاملہ حقوق اللہ سے زیادہ سخت ہے کہ اللہ رب العزت تب تک اس بندے کو
معاف نہیں کرتا جب تک بندہ اس کو معاف نہ کردے۔
مسلمان کے قتل کو حلال سمجھنے کا حکم: اگر مسلمانوں کے قتل کو حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب کیا تو
یہ خود کفر ہے ایسا شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور اگر قتل کو حرام سمجھ کر ارتکاب
کیا تو یہ کبیرہ گناہ ہے اور ایسا شخص مدت دراز تک جہنم میں رہے گا۔
مسلمانوں کا باہمی تعلق کیسا ہونا چاہیے؟ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سرکار ﷺ نے
ارشاد فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ پاؤں اور زبان سے دیگر مسلمان محفوظ رہیں۔
(بخاری، 1/15، حدیث: 10)
آ خر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں مسلمان ہونے کا حق ادا
کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے ہاتھ پاؤں، زبان اور دیگر اعضا سے لوگوں کو
محفوظ فرمائے اور ہمیں احترامِ مسلم کا جذبہ عطا فرمائے۔ آمین