کسی مسلمان(ضروریات دین میں سے کسی کا انکار نا کرتا ہو اور
کفریات سے بچتا ہو) کو بلا کسی اجازت شرعی قتل کرنا قتل ناحق کہلاتا ہے۔ قتل ناحق
کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ایک نہایت ہی مذموم گناہ حرام اور جہنم میں لے جانے والا
کام ہے۔ حدیث پاک میں ہے کہ: قیامت کے دن سب سے پہلے لوگوں کے درمیان خون بہانے کے
متعلق فیصلہ کیا جائے گا۔ (مسلم، ص711، حدیث: 4381) مفتی احمد یار خان نعمی رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں: خیال رہے کہ عبادات میں میں پہلے نماز کا حساب ہو گا اور
حقوق العباد میں قتل و خون کا یا نیکیوں میں پہلے نماز کا اور گناہوں میں پہلے قتل
کا۔(مراٰۃ المناجیح، 2/306)
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ قتل ناحق کے بارے میں سب سے پہلے
سُوال ہو گا۔ قتل ناحق کی مذمت پر چند احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیے:
1۔ قتل صرف تین صورتوں میں جائز ہے: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کسی مسلمان مرد کا جو لااِلٰہَ اِلاَّ اللہ کی گواہی اور میری رسالت کی شہادت دیتا ہو خون صرف تین صورتوں میں سے کسی ایک
صورت میں حلال ہے: 1۔ نفس کے بدلے میں نفس، 2۔ ثیب زانی (شادی شدہ زانی) اور 3۔
اپنے مذہب سے نکل کر جماعت اہلِ اسلام کو چھوڑ دے (مرتد ہو جائے یا باغی ہو جائے)۔
(بخاری، 4/361، حدیث:6878)
2۔ مسلمان اپنے دین کے سبب کشادگی میں رہتا ہے جب تک کوئی
حرام خون نہ کر لے۔ (بخاری، 4/356، حدیث: 6862
3۔ جنت کی خوشبو نہیں سونگے گا: جس نے کسی معاہد (ذمی) کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو نہ
سونگھے گا اور بےشک جنت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت تک پہنچتی ہے۔ (بخاری، 2/365،
حدیث: 3166)
4۔ بے شک دنیا کا زوال اللہ پر آسان ہے ایک مرد مسلم کے قتل
سے۔ (ترمذی، 3/98، حدیث: 1400)