قتل ناحق سے مراد کسی کو ظلما ناحق قتل کرنا ہے، افسوس آج
کل کے معاشرے میں کسی کو بےجا قتل کرنا بالکل معمولی سی بات سمجھا جاتا ہے، کبھی
غیرت کے نام پر قتل، کبھی کسی پرانی دشمنی کے سبب قتل، کبھی جائیداد وغیرہ پر
ناجائز قبضہ کرنے کے لیے کسی کو جان سے مار دیا جاتا ہے، ایسی بہت سی مثالیں آج کے
دور میں ملتی ہیں اور لوگ انتہائی بےخوفی کے ساتھ انجام کی پروا کیے بغیر یہ حرام
فعل سرانجام دے رہے ہیں جبکہ نص قطعی سے اس کی مذمت میں واضح دلائل موجود ہیں جن
میں سے چند ایک پیش خدمت ہیں:
ارشاد ربانی ہے: وَ مَنْ یَّقْتُلْ
مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ
عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز
الایمان: اور
جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے
اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔
ایک اور جگہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ
فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاؕ- (پ 6، المائدۃ: 32) ترجمہ کنز الایمان: جس
نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کئے تو گویا اس نے سب لوگوں
کو قتل کیا۔
ان آیات مبارکہ سے کسی مسلمان کو بلا وجہ شرعی قتل کرنے کی
سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں۔ اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی اس سلسلے میں فرامین
عبرت نشان موجود ہیں، چنانچہ
فرامینِ مصطفیٰ:
1۔ کسی مومن کوقتل کرنے میں اگر زمین وآسمان والے شریک ہو
جائیں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو جہنم میں دھکیل دے۔ (ترمذی، 3/100، حدیث: 1403)
2۔ ایک اور روایت میں ہے: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی
جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری، 4/358، حدیث: 6871)
ان احادیث کریمہ میں بھی قتل ناحق کی شدید مذمت بیان کی جا
رہی ہے اللہ تبارک و تعالیٰ جل شانہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں تمام صغیرہ و کبیرہ
گناہوں سے بچائے اور شرعی مسائل سیکھ کر ان پر اخلاص کے ساتھ عمل کرنے اور انہیں
دوسروں تک پہنچانے کی سعادت نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ