مسلمان کی جان بہت قیمتی ہے، اس لئے کہ اس کی زندگی اللہ رَب العزت کی اطاعت، دین اسلام کی خدمت، مخلوق کی خیرخواہی اور الأمرُ بالمعروفِ و النهىُ عن المنكر کا پیکر ہوتی ہے اور اگر ایسا نہ بھی ہو تو کم از کم اس کی امید ہوتی ہے۔

خیال رہے کہ ظلم مطلقاً حرام ہے۔ مسلمان تو مسلمان اسلام نے کسی کافر کو بھی بلا وجہ تکلیف دینے سے منع فرمایا ہے تو یہ کیسے جائز ہو سکتا ہے کہ مسلمان ہی دوسرے مسلمان کو تکلیف دے ؟

اللہ پاک کے آخری نبی، رسول عربی ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے بلا وجہ شرعی کسی مسلمان کو ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ تعالیٰ کو ایذا دی۔ (فیضان ریاض الصالحین، 3/234)

اس روایت سے اندازہ لگائیے کہ جب مسلمان کو کوئی معمولی سی تکلیف دینے کی یہ وعید ہے تو پھر اس کو ناحق قتل کرنے کی وعید کتنی سخت ہوگی۔

کسی مسلمان کو جان بوجھ کر ناحق قتل کرنا سخت ترین کبیرہ گناہ ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! بے شک ایک مومن کا قتل کیا جانا اللہ کے نزدیک دنیا کے تباہ ہو جانے سے زیادہ بڑا ہے۔ (ظاہری گناہوں کی معلومات، ص 78)

اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّؕ- (پ 15، الاسراء: 33) ترجمہ: اور جس جان کو اللہ نے حرمت عطا کی ہے، اسے قتل نہ کرو، الا یہ کہ تمہیں (شرعاً) اس کا حق پہنچتا ہو۔

ناحق قتل کرنے والے یا قتل کا حکم دینے والے کے بارے میں احادیث میں بھی سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں، ان میں سے چند روایات ملاحظہ ہوں چنانچہ

احادیث مبارکہ:

(1) قیامت کے دن مقتول قاتل کو لے کراس حال میں آئے گا کہ اس کی پیشانی اور سر اس کے ہاتھ میں ہوں گے اور گردن کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا۔ عرض کرے گا: اے میرے رب! اس نے مجھے قتل کیا تھا، حتیٰ کہ قاتل کو عرش کے قریب کھڑا کردے گا۔ (ترمذی، 5/23، حدیث: 3040)

(2) آگ کو ستر حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے 69 حصے قتل کا حکم دینے والے کیلئے اور ایک حصہ قاتل کیلئے ہے۔ (شعب الایمان، 4/ 349، حدیث: 5360)

(3) ہر گناہ کے بارے میں اُمید ہے کہ اللہ بخش دے گا۔ لیکن جو شرک کی حالت میں مر گیا اور جس نے کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کر د یا اُن دونوں کو نہیں بخشے گا۔ (مشکوۃ المصابیح، 2/289، حدیث: 3468)

(4) جو شخص ایک مسلمان کے قتل میں مدد کرے اگرچہ وہ ایک لفظ بول کر بھی مدد کرے تو وہ اِس حال میں (قیامت کے دن) اللہ کے دربار میں حاضر ہو گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان یہ لکھا ہو گا کہ یہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہو جانے والا ہے۔ (ابن ماجہ، 3/262، حدیث: 2620)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ کسی مسلمان کو قتل کرنا بہت ہی سخت گناہ کبیرہ ہے۔ پھر اگر مسلمان کا قتل اس کے ایمان کی عداوت سے ہو یا قاتل مسلمان کے قتل کو حلال جانتا ہو تو یہ کفر ہو گا اور قاتل کافر ہو کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں جلتا رہے گا۔ اور اگر صرف دُنیوی عداوت کی بِنا پر مسلمان کو قتل کر دے اور اِس قتل کو حلال نہ جانے جب بھی آخرت میں اس کی یہ سزا ہے کہ وہ مدتِ دراز تک جہنم میں رہے گا۔ (جہنم کے خطرات، ص 30،31)

اللہ پاک ہمیں حقوق العباد کو صحیح معنوں میں ادا کرنے اور ایک مسلمان کی حرمت کی پاسداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں قتل ناحق جیسے گناہ کبیرہ سے محفوظ فرمائے۔ آمین بجاه الخاتم النبيين ﷺ 


وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز الایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔

احاديث طیبہ:

1۔ اللہ ایسے دو آدمیوں کو دیکھ کر ضحک فرمائے گا جن میں سے ایک نے دوسرے کو قتل کیا ہو گا ( پھر بھی) وہ دونوں جنت میں داخل ہو نگے۔ اُن میں سے ایک تو الله کی راہ میں لڑ کر شہید ہوا تھا پھر اللہ پاک نے اس کے قاتل کو توبہ کی توفیق بخشی اور وہ مسلمان ہو گیا اور جہاد کرتا ہوا شہید ہوگیا۔ (فيضان رياض الصالحین، 1/286)

2۔ جسے بھی ظلماً قتل کیا جاتا ہے تو حضرت آدم کے پہلے بیٹے کے حصے میں بھی اُس کا خون ہوتا ہے کیونکہ اُس نے سب سے پہلے قتل کو ایجاد کیا۔(بخاری، 2/413، حدیث:3335)

3۔ کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی جان کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی قسم کھانا۔ ( مسلم، ص 60، حدیث:260)

افسوس! بعض مسلمان بھی اس جرم کا ارتکاب دینی خدمت سمجھتے ہیں، حالاں کہ قرآن و حدیث میں کسی انسان کو ناحق قتل کرنے پر ایسی سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں جو کسی اور جرم پر بیان نہیں ہوئیں۔


قتل ناحق وہ قتل ہے جو بغیر کسی غلطی کے کسی شخص کو قتل کر دینا ہے یعنی اس شخص کی غلطی بھی نہ ہو تو پھر بھی اس کو قتل کر دینا یہ قتل ناحق کہلاتا ہے یعنی کسی کو ناجائز قتل کرنا ہے۔

کسی مسلمان کو جان بوجھ کر ناحق قتل کرنا سخت ترین کبیرہ گناہ ہے شریعت میں قتل عمد یعنی (اسلحہ کے ساتھ جان بوجھ کر قتل کرنے) کی سزا دنیا میں فقط قصاص( یعنی قتل کا بدلہ قتل) ہے یعنی یہی متعین (مقرر) ہے ہاں اگر اولیائے مقتول معاف کر دیں یا قاتل سے مال لے کر مصالحت ( صلح)کر لیں تو یہ بھی ہو سکتا ہے۔ (ظاہری گناہوں کی معلومات، ص 78)

رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز الایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔

احادیث مبارکہ:

1۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک مومن کا قتل دنیا کے زوال سے بڑھ کر ہے۔ (ترمذی، 3/98، حدیث: 1400)

2۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! بے شک ایک مومن کا قتل کیا جانا اللہ کے نزدیک دنیا کے تباہ ہو جانے سے زیادہ بڑا ہے۔ (ظاہری گناہوں کی معلومات، ص 78)

پہلا ناحق قتل: قابیل اور ہابیل دونوں حضرت آدم علیہ السّلام کے فرزند تھے حضرت حوا کے حمل میں ایک لڑکا اور ایک لڑکی پیدا ہوتے تھے قابیل کے ساتھ اقلیما اور ہابیل کے ساتھ لیوزا پیدا ہوئی اس وقت یہ دستور تھا ایک حمل کے لڑکے کا دوسرے حمل کی لڑکی سے نکاح کیا جاتا تھا چنانچہ حضرت آدم نے ہابیل کا نکاح اقلیما سے کرنا چاہا مگر قابیل اس پر راضی نہ ہوا کیونکہ اقلیما زیادہ خوبصورت تھی اس لیے وہ اس کا طلبگار ہوا حضرت آدم نے اسے سمجھایا کہ اقلیما تیرے ساتھ پیدا ہوئی ہے اس لیے وہ تیری بہن ہے تیرا اس سے نکاح نہیں ہو سکتا مگر قابیل اپنی ضد پر اڑا رہا بالاخر حضرت آدم علیہ السلام نے یہ حکم دیا کہ تم دونوں اللہ کی بارگاہ میں اپنی اپنی قربانیاں پیش کرو جس کی قربانی قبول ہوگی وہی اقلیما کا حق دار ہوگا اس زمانے میں قربانی کی قبولیت کی یہ نشانی تھی کہ اسمان سے ایک اگ اترتی اور اسے جلا ڈالتی چنانچہ قابیل کے گیہوں کی کچھ بالیں اور ہابیل نے ایک بکری قربانی کے لیے پیش کی اسمانی اگ نے ہابیل کی قربانی کو کھا لیا اور قابیل کے گیہوں کو چھوڑ دیا اس پر قابیل کے دل میں بغض و حسد پیدا ہو گیا اور اس نے ہابیل کو قتل کر دینے کی ٹھان لی اور ہابیل سے کہا کہ میں تجھے قتل کروں گا ہابیل نے کہا کہ قربانی قبول کرنا اللہ کا کام ہے اور وہ اپنے متقی بندوں ہی کی قربانی قبول کرتا ہے اگر متقی ہوتا تو ضرور تیری قربانی قبول ہوتی ساتھ ہی حضرت ہابیل نے یہ بھی کہہ دیا کہ اگر تو میرے قتل کے لیے ہاتھ بڑھائے گا تو میں تجھ پر اپنا ہاتھ نہیں ڈالوں گا کیونکہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں میں چاہتا ہوں کہ میرا اور تیرا گناہ تجھ پر ہی پڑے اور تو ہی جہنمی ہو کیونکہ بے انصافوں کی یہی سزا ہے آخر قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کر دیا بوقت قتل ان کی عمر 20 برس تھی اور قتل کا یہ حادثہ مکہ مکرمہ میں جبل سور کے پاس یا جبل حرا کی گھاٹی میں ہوا بعض کا قول ہے کہ شہر بصرہ میں جس جگہ مسجد اعظم بنی ہوئی ہے وہاں بروز منگل یہ سانحہ رونما ہوا۔ (روح البیان، 2/379)


اسلام میں کسی انسانی جان کی حرمت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک فرد کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا گیا ہے، ارشاد باری تعالی ہے: مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاؕ- (پ 6، المائدۃ: 32) ترجمہ کنز الایمان: جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کئے تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیا۔

یعنی ایک شخص کے خلاف قتل کا یہ جرم پوری انسانیت کے خلاف جُرم ہے، کیونکہ کوئی شخص قتلِ ناحق کا ارتکاب اسی وقت کرتا ہے،جب اس کے دل سے انسان کی حرمت کا احساس مِٹ جائے، ایسی صورت میں اگر اس کے مفاد یا سرشت کا تقاضا ہوگا تو وہ کسی اور کو بھی قتل کرنے سے دریغ نہیں کرے گا اور اس طرح پوری انسانیت اس کی مجرمانہ ذہنیت کی زد میں رہے گی۔

اسلامی تعلیمات کی رُو سے انسانی جان کو ہمیشہ عزت و حرمت حاصل رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ کسی انسان کا ناحق قتل کرنا کفر کے بعد کبیرہ گناہوں میں سے سب سے بڑا گناہ ہے اس پر قرآن وحدیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، اللہ تعالی کا ارشاد ہے: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز الایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔

روز قیامت سب سے پہلے خون کا حساب: حضرت عبدالله بن مسعود بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: روزِ قیامت لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خونوں کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔ (مسلم، ص711، حدیث: 4381)

انسانی خون کی حُرمت: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ (بخاری، 1/15، حديث: 10)

ایک مومن کی حرمت کعبہ کی حرمت سے بھی زیادہ ہے، حضرت عبد الله بن عمر بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور یہ فرماتے سنا: اے کعبہ تُو کتنا عُمدہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پیاری ہے، تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے، قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے، مومن کے جان و مال کی حرمت اللہ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے۔

مقتول قاتل کو عرش تک لے جائے گا: حضرت عبد الله بن عباس سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: روزِ قیامت مقتول قاتل کو لے کر آئے گا اس (قاتل) کی پیشانی اور اس کا سر مقتول کے ہاتھ میں ہوگا اور اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہوگا، وہ کہے گا: اے میرے رب! اس نے مجھے کیوں قتل کیا؟ حتی کہ وہ اسے عرش کے قریب لے جائے گا۔ (ترمذی، 5/23، حدیث: 3040)

قاتل کا کوئی عمل قبول نہیں: حضرت عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو کسی مومن کو ناحق قتل کرے، پھر اس پر خوش بھی ہو تو اللہ اس کا کوئی عمل قبول نہ فرمائے گا نہ نفل اور نہ فرض۔ (ابو داود، 4/ 139، حدیث: 4270)

مومن کو قتل کرنیوالے کی بخشش نہیں: اُمید ہے کہ اللہ ہر گناہ معاف فرما دے سوائے اس شخص کے جو حالتِ شرک میں فوت ہوگیا ہو یا جس نے عمداً کسی مومن کو قتل کیا ہو۔(ابو داود، 4/139، حدیث: 4270)

اسلحے سے اشارہ کرنے سے ممانعت: فولادی اور آتشیں اسلحہ سے لوگوں کو قتل کرنا تو بہت بڑا اقدام ہے، حضور نبی اکرم ﷺ نے اہل اسلام کو اپنے مسلمان بھائی کی طرف اسلحہ سے محض اشارہ کرنے والے کو بھی ملعون و مردود قرار دیا ہے۔

حضرت ابو ہریره بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے۔ تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ شاید شیطان اس کے ہاتھ کو ڈگمگا دے اور وہ (قتلِ ناحق کے نتیجے میں) جہنم کے گڑھے میں جاگِرے۔ (بخاری، 4/434، حدیث: 7072)

حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص نیزے سے اپنے بھائی کی طرف اشارہ کرے، فرشتے اس پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں، حتی کہ وہ اسے رکھ دے۔ (مسلم، ص 1081، حدیث: 6666)

ناحق قتل میں شامل سب لوگ جہنم میں: نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر تمام آسمان اور زمین والے ایک مومن کے خون میں شریک ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو جہنم میں ڈال دے گا۔ (ترمذی، 3/100، حدیث: 1403)

قرآن و حدیث کی رو سے معلوم ہوتا ہےکہ کسی شخص کو قتل کرنا شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے اور قاتل کی سزا جہنم ہے، جس میں وہ ایک طویل عرصہ تک رہے گا، اللہ تعالی نے قاتل کیلئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے لہذا ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ قتل جیسے کبیرہ گناہ سے ہمیشہ بچے۔

جب سے ہم نے اللہ تعالیٰ کے احکامات اور امام الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کی سنت کی پیروی کرنے سے منہ موڑا ہے، آئے روز ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں کہ بھائی غیرت کے نام پر اپنی بہن کو قتل کر رہا تو بہن آشنا کے ساتھ مل کر بھائی کو قتل کر رہی ہے، باپ بیٹے کو قتل کر رہا ہے تو بیٹا باپ کو، بھائی بھائی کا دشمن بنا ہوا ہے، جہیز کم لانے کی وجہ سے بہوؤں کی جان لے لی جاتی ہے۔ کیا ہم انسان کہلانے کے لائق ہیں، یہ سب کچھ اسلام سے دوری کا نتیجہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے ہیں۔

الله پاک ہم سب کو صراط مستقیم پہ چلنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم ایک دوسرے کی جان و مال کے محافظ بن جائیں۔ آمین


مذہب و اخلاق کی رو سے انسانی جان کو ہمیشہ حرمت حاصل رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ کسی انسان کا ناحق قتل کرنا کفر کے بعد کبیرہ گناہوں میں سے سب سے بڑا گناہ ہے۔ کسی انسان کو ناحق قتل کرنا حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کو بھی پامال کرنا ہے، جس پر قرآن وحدیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں:

آیات مبارکہ:

وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز الایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔

وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّؕ- (پ 15، الاسراء: 33) ترجمہ: اور جس جان کو اللہ نے حرمت عطا کی ہے، اسے قتل نہ کرو، الا یہ کہ تمہیں (شرعاً) اس کا حق پہنچتا ہو۔

احادیث مبارکہ:

1۔ ہلاکت کا بھنور جس میں گرنے کے بعد پھر نکلنے کی امید نہیں ہے وہ ایسا ناحق خون کرنا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے۔(بخاری، 4/357، حدیث:6863)

2۔ اگر آسمان اور زمین والے (سارے کے سارے) ایک مومن کے خون میں ملوث ہوجائیں تواللہ ان (سب) کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے گا۔ (ترمذی، 3/100، حدیث: 1403)

خلاصہ کلام: قرآن وحدیث کی تعلیمات سے معلوم ہوا کہ کسی شخص کو قتل کرنا شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے اور قاتل کی سزا جہنم ہے، جس میں وہ ایک طویل عرصہ تک رہے گا، الله تعالی اس پر اپنا غضب نازل کرے گا اور لعنت بھیجے گا اور الله تعالیٰ نے قاتل کے لیے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے، لہٰذا ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ قتل جیسے کبیرہ گناہ سے ہمیشہ بچے، حتٰی کہ کسی بھی درجہ میں قتل کی معاونت سے بچنا بھی ضروری ہے، کیونکہ بسا اوقات ایک شخص کے قتل سے نہ صرف اس کی بیوی بچوں کی زندگی، بلکہ خاندان کے مختلف افراد کی زندگی بعد میں دوبھر ہو جاتی ہے اور اس طرح خوش حال خاندان کے افراد بیوہ، یتیم اور محتاج بن کر تکلیفوں اور پریشانیوں میں زندگی گزارنے والے بن جاتے ہیں، جس کا سبب یہ قاتل بنتا ہے۔


اسلام نے جن امور کے سر زد ہو جانے پہ حدیں قائم کی ہیں ان میں سے ایک قتل بھی ہے۔ قتل نا حق ایک نہایت قبیح فعل ہے جس سے خاندان کے خاندان تباہ ہو جاتے ہیں۔ حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: کسی بھی مسلمان کا خون بہانا جائز نہیں ہے البتہ تین میں سے کسی ایک صورت میں ایسا کیا جا سکتا ہے:1۔ شادی شدہ زانی، 2۔جان کے بدلے جان۔3، اپنے دین کو ترک کرکے مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہونے والا۔ (بخاری، 4/361، حدیث:6878)

ناقابل معافی گناہ:حضرت ابودرداء رضی الله عنہ سے روایت ہے كہ نبی كریم ﷺ نے فرمایا: امید ہے کہ اللہ ہر گناہ معاف فرما دے سوائے اس شخص کے جو حالت شرک میں فوت ہوگیا ہو، یا جس نے عمداً کسی مومن کو قتل کیا ہو۔ (ابو داود، 4/139، حدیث: 4270)

قیامت کے دن پہلے فیصلہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن لوگوں کےمابین سب سے پہلے خون خرابے (قتل و قتال) کا فیصلہ سنایا جائے گا۔ (مسلم، ص711، حدیث: 4381)

قاتل جہنم کے گڑھے میں: تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے، تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ شاید شیطان اس کے ہاتھ کو ڈگمگا دے اور وہ (قتلِ ناحق کے نتیجے میں) جہنم کے گڑھے میں جا گرے۔ (بخاری، 4/434، حدیث: 7072)

قتل ناحق کے اسباب: نا اتفاقی، حسد، کینہ، بے جا الزام تراشی، زمینی تنازع، خاندانی جھگڑے، چوری چکاری، خاندانی نا چاقیاں وغیرہ۔

اللہ پاک ہمیں اس برے فعل کے ارتکاب سے محفوظ رکھے آمین۔ ہمارے معاشرے سے اس برائی کا خاتمہ فرمائے۔ معاشرے کو امن و امان کا گہوارہ بنائے۔ آمین


قتل ناحق کا مطلب ہے کسی شخص یا انسان کی بے گناہی یا بغیر کسی جرم کے قتل کرنا۔ یہ ایک ظلم ہے جو کسی کی حقوق یا جان کو نقصان پہنچانے والا عمل ہے۔قتل ناحق کسی بھی صورت میں ہو قابل مذمت ہے۔ یہ ایک بہت بڑا جرم ہے جو انسانی حقوق کے خلاف ہے اور سماج کی بنیادی بنیادوں پر خطرہ ہے۔ اس کی مذمت کرنا ہماری ذمہ داری ہے اور ہمیں انسانیت کی قدر و قیمت کی حفاظت کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔

ارشادِ ربانی ہے: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز الایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔

احاديث مبارکہ:

1۔ جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہے۔ (ابن ماجہ، 3/262، حدیث: 2620)

2۔ جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں: میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پرمُصِر تھا۔ (بخاری، 1/23، حدیث: 31)

3۔ جس نے کسی ذمی کو ناحق قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پا سکے گا۔ حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس سال کی راہ سے سونگھی جا سکتی ہے۔ (بخاری، 2/365، حدیث: 3166)

4۔ جب بھی کوئی انسان ظلم سے قتل کیا جاتا ہے تو آدم علیہ السلام کے سب سے پہلے بیٹے ( قابیل ) کے نامہ اعمال میں بھی اس قتل کا گناہ لکھا جاتا ہے۔ کیونکہ قتل ناحق کی بنا سب سے پہلے اسی نے قائم کی تھی۔ (بخاری، 2/413، حدیث:3335)

5۔ بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری، 4/358، حدیث: 6871)

خلاصہ کلام: اگر مسلمانو ں کے قتل کو حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب کیا تو یہ خود کفر ہے اور ایسا شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور قتل کو حرام ہی سمجھا لیکن پھر بھی اس کا ارتکاب کیا تب یہ گناہ کبیرہ ہے اور ایسا شخص مدت ِ دراز تک جہنم میں رہے گا۔


موجودہ دور میں انسانی جان کی قیمت ساحل پر پڑے ریت کے ذروں سے بھی ارزاں ہو چکی ہے ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے اگر یہ کہا جائے تو بے جانا ہوگا کہ انسانی جان کی قدر و قیمت مچھر اور مکھی سے بھی کمتر ہوگی اور یہ بات باعث ندامت ہے ظالم قاتلوں کا دل محبت ہمدردین ساری انسانی دوستی سے بھی حالی ہو چکا ہے انسانی ان کے پیار نہیں پڑھے جو قاتل ناحق کی عید میں نازل ہوئے اللہ تعالی نے ناحق قتل کی مذمت کرتے ہوئے قران کریم میں ارشاد فرمایا ہے اور جو شخص کسی مسلمان کو عمدہ قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اللہ اس پر غضب ناک عذاب نازل کرے گا اور لعنت کرے گا اور اللہ نے اس کے لیے زبردست عذاب تیار کر رکھا ہے۔

کسی کو قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا کیونکہ اس نے اللہ پاک کے حق بندوں کے حق اور حدود شریعت سب کو پامال کر دیا۔

احادیث مبارکہ:

1۔ ایک مومن کا قتل دنیا کی تباہی سے بڑھ کر ہے، فرمان مصطفی ﷺ ہے: ایک مومن کا قتل کیا جانا اللہ پاک کے نزدیک دنیا کے تباہ ہو جانے سے بڑا ہے۔ (نسائی، ص 652،حدیث 3992)

2۔ جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے راوی فرماتے ہیں میں نے عرض کی، مقتول جہنم میں کیوں جائیں گے؟ ارشاد فرمایا: اس لیے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پر مصر تھا۔ (بخاری، 1/23، حدیث: 31)

3۔ اگر تمام آسمان و زمین والے کسی ایک مومن کے قتل میں شریک ہو جائیں تب بھی اللہ تعالی ان سب کو جہنم میں جھونک دے گا۔ (ترمذی، 3/100، حدیث: 1403)

4۔ جس نے کسی مسلمان کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالی کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوگا یہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہے۔(ابن ماجہ، 3/262، حدیث: 2620)

5۔ بڑے کبیرہ گناہوں میں سے کسی جان کو ناحق قتل کرنا ہے۔(بخاری، 4/358، حدیث: 6871)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں کبیر و صغیرہ گناہوں سے محفوظ فرمائے اور حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز الایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔

احادیث مبارکہ:

1۔ ایک شخص نے عرض کیا حضور کون سا گناہ بہت بڑا ہے اللہ کے ہاں فرمایا یہ کہ تم اللہ کا شریک ٹھہراؤ۔ حالانکہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے، عرض کیا پھر کون سا گناہ۔ فرمایا یہ کہ اپنی اولاد اس ڈر سے مار ڈالو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائے، عرض کیا پھر کون سا گناہ فرمایا یہ کہ اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو۔ تب اللہ نے اس کی تصدیق میں یہ آیت اتاری اور وہ جو خدا کے ساتھ دوسرے معبود کو نہیں پوجتے اور نہ اس جان کو ناحق قتل کریں جسے اللہ نے حرام کیا ہے اور نہ زنا کریں۔

2۔ الله پاک کے نزدیک ایک مومن کا قتل دنیا کے زوال سے بڑھ کر ہے۔ (ترمذی، 3/98، حدیث: 1400)

3۔ جب دو مسلمان تلواریں لئے ایک دوسرے پر حملہ آور ہوں تو قاتل و مقتول دونوں آگ میں ہیں۔ (راوی فرماتے ہیں) میں نے عرض کی: یار سول الله! قاتل تو واقعی اس کا حق دار ہے مگر مقتول کا کیا قصور ہے؟ ارشاد فرمایا: وہ بھی تو اپنے مقابل کو قتل کرنا چاہتا تھا۔ (بخاری، 1/23، حدیث: 31)

4۔ اللہ کی بارگاہ میں تین شخص ناپسند ترین ہیں: حرم میں بے دینی کرنے والا، اسلام میں جاہلیت کے طریقے کا متلاشی، مسلمان کے خون ناحق کا جو یاں تا کہ اس کی خونریزی کرے۔ (مراۃ المناجیح، 1/146)

5۔ مسلمانوں کو قتل کرنے والے کی نفلی اور فرض عبادت بھی ردّ کر دی جائے گی۔ حضرت عبد اﷲ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے کسی مومن کو ظلم سے ناحق قتل کیا تو اﷲ تعالیٰ اس کی کوئی نفلی اور فرض عبادت قبول نہیں فرمائے گا۔ (ابو داود، 4/ 139، حدیث: 4270)

ان احادیث سے معلوم ہوا کہ مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا بہت سخت گناہ ہے ناحق قتل کرنے والے کو دنیا اور آخرت میں سزا دی جائے گی کسی مسلمان کے قتل کو حلال سمجھ کر قتل کیا تو یہ خود کفر ہے اور ایسا شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور قتل کو حرام ہی سمجھا لیکن پھر بھی اس کا ارتکاب کیا تب یہ گناہ کبیرہ ہے اور ایسا شخص مدت ِ دراز تک جہنم میں رہے گا۔

انسانی حرمت و تقدس کو پامال کرکے اپنے اَعمال و عبادات کو ذریعہ نجات سمجھنے والے اِنتہا پسندوں اور دہشت گردوں کو جان لینا چاہیے کہ روزِ محشر نہ صرف ان کی عبادات ردّ کر دی جائیں گی بلکہ ان کے لیے دردناک عذاب کی وعید بھی ہے۔

اللہ پاک ہمیں معاف فرمائے آمین۔ 


مسلمان کا کسی دوسرے مسلمان کو ناحق قتل کرنا حرام ہے اور اس کی مذمت قرآن وحدیث میں بیان کی گئی ہے اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز الایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔ کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا شدید ترین کبیرہ گناہ ہے اس پر احادیث مبارکہ درج ذیل ہیں:

احادیث مبارکہ:

1۔ بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو ناحق قتل کرنا ہے۔(بخاری، 4/358، حدیث: 6871)

2۔ کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے خسارے کا شکار ہو گا۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر زمین وآسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔ (معجم صغیر، 1/ 205)

3۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ناحق حرام خون بہانا ہلاک کرنے والے ان امور میں سے ہے جن سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں۔ (بخاری، 4/357، حدیث:6863)

4۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کا ختم ہو جانا ایک مسلمان کے ظلماً قتل سے زیادہ سہل ہے۔ (ابن ماجہ، 3/ 261، حدیث: 2619)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ایسے کاموں سے بچائے۔ آمین 


جس نے بلا اجازتِ شرعی کسی کو قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ کے حق، بندوں کے حق اور حدودِ شریعت سب کو پامال کردیا اور جس نے کسی کی زندگی بچا لی جیسے کسی کو قتل ہونے یا ڈوبنے یا جلنے یا بھوک سے مرنے وغیرہ اَسبابِ ہلاکت سے بچالیا تو اس نے گویا تمام انسانوں کو بچا لیا۔

آیت مبارکہ: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز الایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔

احادیث مبارکہ:

(1) کسی مومن کوقتل کرنے میں اگر زمین وآسمان والے شریک ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو جہنم میں دھکیل دے۔ (ترمذی، 3/100، حدیث: 1403)

(2) اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کاختم ہو جانا ایک مسلمان کے ظلماً قتل سے زیاد سہل ہے۔ (ابن ماجہ، 3/ 261، حدیث: 2619)

(3) جب دو مسلمان اپنی تلواروں کے ساتھ باہم ٹکراتے ہیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہیں عرض کی گئی یا رسول الله ﷺ ایک تو قاتل ہے لیکن مقتول کا کیا قصور؟ ارشاد فرمایا: وہ بھی اپنے مقابل کو قتل کرنے پر حریص ہوتا ہے۔ (بخاری، 1/23، حدیث: 31)

(4)امید ہے کے ہر گناہ کو الله بخش دے گا مگر وہ شخص جو کفر کی موت مرا ہو یا کسی شخص نے جان بوجھ کر کسی مسلمان کو ناحق قتل کیا ہو۔ (ابو داود، 4/139، حدیث: 4270)

(5)جس شخص نے آدھے کلمے کے ذریعے بھی کسی مسلمان کے قتل پر مدد کی وہ الله سے اس حالت میں ملے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوگا کہ یہ شخص رحمتِ الٰہی سے مایوس ہے۔ (ابن ماجہ، 3/262، حدیث: 2620)

یہ آیت ِ مبارکہ و احادیث مبارکہ اسلام کی اصل تعلیمات کو واضح کرتی ہیں کہ اسلام کس قدر امن و سلامتی کا مذہب ہے اور اسلام کی نظر میں انسانی جان کی کس قدر اہمیت ہے۔ اس سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہئے جو اسلام کی اصل تعلیمات کو پس پُشت ڈال کر دامنِ اسلام پر قتل و غارت گری کے حامی ہونے کا بد نما دھبا لگاتے ہیں اور ان لوگوں کو بھی نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو مسلمان کہلا کر بے قصور لوگوں کو بم دھماکوں اور خود کش حملوں کے ذریعے موت کی نیند سلا کر یہ گمان کرتے ہیں کہ انہوں نے اسلام کی بہت بڑی خدمت سر انجام دے دی۔

قتل کی جائز صورتیں: قتل کی شدید ممانعت کے ساتھ چند صورتوں کو اس سے جدا رکھا ہے بیان کردہ وہ صورتیں یہ ہیں:

(1) قاتل کو قصاص میں قتل کرنا جائز ہے۔

(2) زمین میں فساد پھیلانے والے کو قتل کرنا جائز ہے۔

اس کے علاوہ مزید چند صورتوں میں شریعت نے قتل کی اجازت دی ہے۔ مثلاً

(1)شادی شدہ مرد یا عورت کو زنا کرنے پر بطورِ حد رجم کرنا، (2) مرتد کو قتل کرنا۔ (3) باغی کو قتل کرنا۔

الله پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اس گناہ کبیرہ سے محفوظ رکھے۔ آمین بجاہ خاتم النبین ﷺ


کسی مسلمان کوناحق قتل کرنابہت بڑا گناہ ہے قرآن وحدیث میں اس گناہ پر بہت سی وعیدیں بیان کی گئی ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز الایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔

ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے: مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاؕ- (پ 6، المائدۃ: 32) ترجمہ کنز الایمان: جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کئے تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیا۔

احادیث مبارکہ:

1۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اللہ کے نزدیک ایک مومن کا قتل دنیا کے زوال سے بڑھ کر ہے۔ (شعب الایمان، 4/344، حدیث: 5341)

2۔ دنیا میں سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے قابیل نے حسد میں آکر اپنے سگے بھائی حضرت ہابیل کو قتل کیا۔ قتل ناحق ایسا برا فعل ہے کہ اسکی وجہ سے ابلیس لعین نے قابیل کو اسکے اس فعل پر اسے ایسا دلیر بنا دیا کہ وہ آگ کی پوجا کرنے لگا کسی کو رب العالمین کا شریک ٹھہرایا۔ قابیل ہی وہ شخص ہے جس نے سب سے پہلے آگ کی پوجا کی اور اپنے ایمان سے دوچار ہوا۔

حدیث شریف میں ہے کہ روئے زمین پر قیامت تک جو بھی قتل ہوگا قابیل اس میں حصہ دار ہوگا کیونکہ اسی نے سب سے پہلے قتل کا دستور نکالا۔ (بخاری، 2/413، حدیث:3335)

3۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ کے نزدیک ایک مومن کا قتل دنیا کے زوال سے بڑھ کر ہے۔ (ترمذی، 3/98، حدیث: 1400)