جس نے بلا اجازتِ شرعی کسی کو قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ کے حق، بندوں کے حق اور حدودِ شریعت سب کو پامال کردیا اور جس نے کسی کی زندگی بچا لی جیسے کسی کو قتل ہونے یا ڈوبنے یا جلنے یا بھوک سے مرنے وغیرہ اَسبابِ ہلاکت سے بچالیا تو اس نے گویا تمام انسانوں کو بچا لیا۔

آیت مبارکہ: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز الایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔

احادیث مبارکہ:

(1) کسی مومن کوقتل کرنے میں اگر زمین وآسمان والے شریک ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو جہنم میں دھکیل دے۔ (ترمذی، 3/100، حدیث: 1403)

(2) اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کاختم ہو جانا ایک مسلمان کے ظلماً قتل سے زیاد سہل ہے۔ (ابن ماجہ، 3/ 261، حدیث: 2619)

(3) جب دو مسلمان اپنی تلواروں کے ساتھ باہم ٹکراتے ہیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہیں عرض کی گئی یا رسول الله ﷺ ایک تو قاتل ہے لیکن مقتول کا کیا قصور؟ ارشاد فرمایا: وہ بھی اپنے مقابل کو قتل کرنے پر حریص ہوتا ہے۔ (بخاری، 1/23، حدیث: 31)

(4)امید ہے کے ہر گناہ کو الله بخش دے گا مگر وہ شخص جو کفر کی موت مرا ہو یا کسی شخص نے جان بوجھ کر کسی مسلمان کو ناحق قتل کیا ہو۔ (ابو داود، 4/139، حدیث: 4270)

(5)جس شخص نے آدھے کلمے کے ذریعے بھی کسی مسلمان کے قتل پر مدد کی وہ الله سے اس حالت میں ملے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوگا کہ یہ شخص رحمتِ الٰہی سے مایوس ہے۔ (ابن ماجہ، 3/262، حدیث: 2620)

یہ آیت ِ مبارکہ و احادیث مبارکہ اسلام کی اصل تعلیمات کو واضح کرتی ہیں کہ اسلام کس قدر امن و سلامتی کا مذہب ہے اور اسلام کی نظر میں انسانی جان کی کس قدر اہمیت ہے۔ اس سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہئے جو اسلام کی اصل تعلیمات کو پس پُشت ڈال کر دامنِ اسلام پر قتل و غارت گری کے حامی ہونے کا بد نما دھبا لگاتے ہیں اور ان لوگوں کو بھی نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو مسلمان کہلا کر بے قصور لوگوں کو بم دھماکوں اور خود کش حملوں کے ذریعے موت کی نیند سلا کر یہ گمان کرتے ہیں کہ انہوں نے اسلام کی بہت بڑی خدمت سر انجام دے دی۔

قتل کی جائز صورتیں: قتل کی شدید ممانعت کے ساتھ چند صورتوں کو اس سے جدا رکھا ہے بیان کردہ وہ صورتیں یہ ہیں:

(1) قاتل کو قصاص میں قتل کرنا جائز ہے۔

(2) زمین میں فساد پھیلانے والے کو قتل کرنا جائز ہے۔

اس کے علاوہ مزید چند صورتوں میں شریعت نے قتل کی اجازت دی ہے۔ مثلاً

(1)شادی شدہ مرد یا عورت کو زنا کرنے پر بطورِ حد رجم کرنا، (2) مرتد کو قتل کرنا۔ (3) باغی کو قتل کرنا۔

الله پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اس گناہ کبیرہ سے محفوظ رکھے۔ آمین بجاہ خاتم النبین ﷺ