قتل ناحق وہ قتل ہے جو بغیر کسی غلطی کے کسی شخص کو قتل کر دینا ہے یعنی اس شخص کی غلطی بھی نہ ہو تو پھر بھی اس کو قتل کر دینا یہ قتل ناحق کہلاتا ہے یعنی کسی کو ناجائز قتل کرنا ہے۔

کسی مسلمان کو جان بوجھ کر ناحق قتل کرنا سخت ترین کبیرہ گناہ ہے شریعت میں قتل عمد یعنی (اسلحہ کے ساتھ جان بوجھ کر قتل کرنے) کی سزا دنیا میں فقط قصاص( یعنی قتل کا بدلہ قتل) ہے یعنی یہی متعین (مقرر) ہے ہاں اگر اولیائے مقتول معاف کر دیں یا قاتل سے مال لے کر مصالحت ( صلح)کر لیں تو یہ بھی ہو سکتا ہے۔ (ظاہری گناہوں کی معلومات، ص 78)

رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز الایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔

احادیث مبارکہ:

1۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک مومن کا قتل دنیا کے زوال سے بڑھ کر ہے۔ (ترمذی، 3/98، حدیث: 1400)

2۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! بے شک ایک مومن کا قتل کیا جانا اللہ کے نزدیک دنیا کے تباہ ہو جانے سے زیادہ بڑا ہے۔ (ظاہری گناہوں کی معلومات، ص 78)

پہلا ناحق قتل: قابیل اور ہابیل دونوں حضرت آدم علیہ السّلام کے فرزند تھے حضرت حوا کے حمل میں ایک لڑکا اور ایک لڑکی پیدا ہوتے تھے قابیل کے ساتھ اقلیما اور ہابیل کے ساتھ لیوزا پیدا ہوئی اس وقت یہ دستور تھا ایک حمل کے لڑکے کا دوسرے حمل کی لڑکی سے نکاح کیا جاتا تھا چنانچہ حضرت آدم نے ہابیل کا نکاح اقلیما سے کرنا چاہا مگر قابیل اس پر راضی نہ ہوا کیونکہ اقلیما زیادہ خوبصورت تھی اس لیے وہ اس کا طلبگار ہوا حضرت آدم نے اسے سمجھایا کہ اقلیما تیرے ساتھ پیدا ہوئی ہے اس لیے وہ تیری بہن ہے تیرا اس سے نکاح نہیں ہو سکتا مگر قابیل اپنی ضد پر اڑا رہا بالاخر حضرت آدم علیہ السلام نے یہ حکم دیا کہ تم دونوں اللہ کی بارگاہ میں اپنی اپنی قربانیاں پیش کرو جس کی قربانی قبول ہوگی وہی اقلیما کا حق دار ہوگا اس زمانے میں قربانی کی قبولیت کی یہ نشانی تھی کہ اسمان سے ایک اگ اترتی اور اسے جلا ڈالتی چنانچہ قابیل کے گیہوں کی کچھ بالیں اور ہابیل نے ایک بکری قربانی کے لیے پیش کی اسمانی اگ نے ہابیل کی قربانی کو کھا لیا اور قابیل کے گیہوں کو چھوڑ دیا اس پر قابیل کے دل میں بغض و حسد پیدا ہو گیا اور اس نے ہابیل کو قتل کر دینے کی ٹھان لی اور ہابیل سے کہا کہ میں تجھے قتل کروں گا ہابیل نے کہا کہ قربانی قبول کرنا اللہ کا کام ہے اور وہ اپنے متقی بندوں ہی کی قربانی قبول کرتا ہے اگر متقی ہوتا تو ضرور تیری قربانی قبول ہوتی ساتھ ہی حضرت ہابیل نے یہ بھی کہہ دیا کہ اگر تو میرے قتل کے لیے ہاتھ بڑھائے گا تو میں تجھ پر اپنا ہاتھ نہیں ڈالوں گا کیونکہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں میں چاہتا ہوں کہ میرا اور تیرا گناہ تجھ پر ہی پڑے اور تو ہی جہنمی ہو کیونکہ بے انصافوں کی یہی سزا ہے آخر قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کر دیا بوقت قتل ان کی عمر 20 برس تھی اور قتل کا یہ حادثہ مکہ مکرمہ میں جبل سور کے پاس یا جبل حرا کی گھاٹی میں ہوا بعض کا قول ہے کہ شہر بصرہ میں جس جگہ مسجد اعظم بنی ہوئی ہے وہاں بروز منگل یہ سانحہ رونما ہوا۔ (روح البیان، 2/379)