قتل ناحق کی مذمت از بنت محمد خلیل، فیضان ام عطار
شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
مسلمان کی جان بہت قیمتی ہے، اس لئے کہ اس کی زندگی اللہ
رَب العزت کی اطاعت، دین اسلام کی خدمت، مخلوق کی خیرخواہی اور الأمرُ بالمعروفِ و
النهىُ عن المنكر کا پیکر ہوتی ہے اور اگر ایسا نہ بھی ہو تو کم از کم اس کی امید
ہوتی ہے۔
خیال رہے کہ ظلم مطلقاً حرام ہے۔ مسلمان تو مسلمان اسلام نے
کسی کافر کو بھی بلا وجہ تکلیف دینے سے منع فرمایا ہے تو یہ کیسے جائز ہو سکتا ہے
کہ مسلمان ہی دوسرے مسلمان کو تکلیف دے ؟
اللہ پاک کے آخری
نبی، رسول عربی ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے بلا وجہ شرعی کسی مسلمان کو ایذا دی اس
نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ تعالیٰ کو ایذا دی۔ (فیضان
ریاض الصالحین، 3/234)
اس روایت سے اندازہ لگائیے کہ جب مسلمان کو کوئی معمولی سی
تکلیف دینے کی یہ وعید ہے تو پھر اس کو ناحق قتل کرنے کی وعید کتنی سخت ہوگی۔
کسی مسلمان کو جان بوجھ کر ناحق قتل کرنا سخت ترین کبیرہ
گناہ ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! بے
شک ایک مومن کا قتل کیا جانا اللہ کے نزدیک دنیا کے تباہ ہو جانے سے زیادہ بڑا ہے۔
(ظاہری گناہوں کی معلومات، ص 78)
اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ
لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّؕ- (پ 15، الاسراء: 33) ترجمہ: اور جس جان کو اللہ نے حرمت
عطا کی ہے، اسے قتل نہ کرو، الا یہ کہ تمہیں (شرعاً) اس کا حق پہنچتا ہو۔
ناحق قتل کرنے والے یا قتل کا حکم دینے والے کے بارے میں
احادیث میں بھی سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں، ان میں سے چند روایات ملاحظہ ہوں
چنانچہ
احادیث مبارکہ:
(1) قیامت کے دن
مقتول قاتل کو لے کراس حال میں آئے گا کہ اس کی پیشانی اور سر اس کے ہاتھ میں ہوں
گے اور گردن کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا۔ عرض کرے گا: اے میرے رب! اس نے مجھے
قتل کیا تھا، حتیٰ کہ قاتل کو عرش کے قریب کھڑا کردے گا۔ (ترمذی، 5/23، حدیث: 3040)
(2) آگ کو ستر حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے 69 حصے قتل کا حکم
دینے والے کیلئے اور ایک حصہ قاتل کیلئے ہے۔ (شعب الایمان، 4/ 349، حدیث: 5360)
(3) ہر گناہ کے بارے میں اُمید ہے کہ اللہ بخش دے گا۔ لیکن
جو شرک کی حالت میں مر گیا اور جس نے کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کر د یا اُن
دونوں کو نہیں بخشے گا۔ (مشکوۃ المصابیح، 2/289، حدیث: 3468)
(4) جو شخص ایک مسلمان کے قتل میں مدد کرے اگرچہ وہ ایک لفظ
بول کر بھی مدد کرے تو وہ اِس حال میں (قیامت کے دن) اللہ کے دربار میں حاضر ہو گا
کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان یہ لکھا ہو گا کہ یہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہو
جانے والا ہے۔ (ابن ماجہ، 3/262، حدیث: 2620)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ کسی مسلمان کو قتل کرنا بہت ہی سخت
گناہ کبیرہ ہے۔ پھر اگر مسلمان کا قتل اس کے ایمان کی عداوت سے ہو یا قاتل مسلمان
کے قتل کو حلال جانتا ہو تو یہ کفر ہو گا اور قاتل کافر ہو کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے
جہنم میں جلتا رہے گا۔ اور اگر صرف دُنیوی عداوت کی بِنا پر مسلمان کو قتل کر دے
اور اِس قتل کو حلال نہ جانے جب بھی آخرت میں اس کی یہ سزا ہے کہ وہ مدتِ دراز تک
جہنم میں رہے گا۔ (جہنم کے خطرات، ص 30،31)
اللہ پاک ہمیں حقوق العباد کو صحیح معنوں میں ادا کرنے اور
ایک مسلمان کی حرمت کی پاسداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں قتل ناحق جیسے
گناہ کبیرہ سے محفوظ فرمائے۔ آمین بجاه الخاتم النبيين ﷺ