وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا
مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ
وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز
الایمان: اور
جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے
اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔
احاديث طیبہ:
1۔ اللہ ایسے دو آدمیوں کو دیکھ کر ضحک فرمائے گا جن میں سے
ایک نے دوسرے کو قتل کیا ہو گا ( پھر بھی) وہ دونوں جنت میں داخل ہو نگے۔ اُن میں
سے ایک تو الله کی راہ میں لڑ کر شہید ہوا تھا پھر اللہ پاک نے اس کے قاتل کو توبہ
کی توفیق بخشی اور وہ مسلمان ہو گیا اور جہاد کرتا ہوا شہید ہوگیا۔ (فيضان رياض
الصالحین، 1/286)
2۔ جسے بھی ظلماً قتل کیا جاتا ہے تو حضرت آدم کے پہلے بیٹے
کے حصے میں بھی اُس کا خون ہوتا ہے کیونکہ اُس نے سب سے پہلے قتل کو ایجاد کیا۔(بخاری،
2/413، حدیث:3335)
3۔ کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا،
والدین کی نافرمانی کرنا، کسی جان کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی قسم کھانا۔ ( مسلم،
ص 60، حدیث:260)
افسوس! بعض مسلمان بھی اس جرم کا ارتکاب دینی خدمت سمجھتے
ہیں، حالاں کہ قرآن و حدیث میں کسی انسان کو ناحق قتل کرنے پر ایسی سخت وعیدیں
بیان کی گئی ہیں جو کسی اور جرم پر بیان نہیں ہوئیں۔