اسلام میں کسی انسانی جان کی حرمت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک فرد کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا گیا ہے، ارشاد باری تعالی ہے: مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاؕ- (پ 6، المائدۃ: 32) ترجمہ کنز الایمان: جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کئے تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیا۔

یعنی ایک شخص کے خلاف قتل کا یہ جرم پوری انسانیت کے خلاف جُرم ہے، کیونکہ کوئی شخص قتلِ ناحق کا ارتکاب اسی وقت کرتا ہے،جب اس کے دل سے انسان کی حرمت کا احساس مِٹ جائے، ایسی صورت میں اگر اس کے مفاد یا سرشت کا تقاضا ہوگا تو وہ کسی اور کو بھی قتل کرنے سے دریغ نہیں کرے گا اور اس طرح پوری انسانیت اس کی مجرمانہ ذہنیت کی زد میں رہے گی۔

اسلامی تعلیمات کی رُو سے انسانی جان کو ہمیشہ عزت و حرمت حاصل رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ کسی انسان کا ناحق قتل کرنا کفر کے بعد کبیرہ گناہوں میں سے سب سے بڑا گناہ ہے اس پر قرآن وحدیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، اللہ تعالی کا ارشاد ہے: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز الایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔

روز قیامت سب سے پہلے خون کا حساب: حضرت عبدالله بن مسعود بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: روزِ قیامت لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خونوں کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔ (مسلم، ص711، حدیث: 4381)

انسانی خون کی حُرمت: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ (بخاری، 1/15، حديث: 10)

ایک مومن کی حرمت کعبہ کی حرمت سے بھی زیادہ ہے، حضرت عبد الله بن عمر بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور یہ فرماتے سنا: اے کعبہ تُو کتنا عُمدہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پیاری ہے، تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے، قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے، مومن کے جان و مال کی حرمت اللہ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے۔

مقتول قاتل کو عرش تک لے جائے گا: حضرت عبد الله بن عباس سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: روزِ قیامت مقتول قاتل کو لے کر آئے گا اس (قاتل) کی پیشانی اور اس کا سر مقتول کے ہاتھ میں ہوگا اور اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہوگا، وہ کہے گا: اے میرے رب! اس نے مجھے کیوں قتل کیا؟ حتی کہ وہ اسے عرش کے قریب لے جائے گا۔ (ترمذی، 5/23، حدیث: 3040)

قاتل کا کوئی عمل قبول نہیں: حضرت عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو کسی مومن کو ناحق قتل کرے، پھر اس پر خوش بھی ہو تو اللہ اس کا کوئی عمل قبول نہ فرمائے گا نہ نفل اور نہ فرض۔ (ابو داود، 4/ 139، حدیث: 4270)

مومن کو قتل کرنیوالے کی بخشش نہیں: اُمید ہے کہ اللہ ہر گناہ معاف فرما دے سوائے اس شخص کے جو حالتِ شرک میں فوت ہوگیا ہو یا جس نے عمداً کسی مومن کو قتل کیا ہو۔(ابو داود، 4/139، حدیث: 4270)

اسلحے سے اشارہ کرنے سے ممانعت: فولادی اور آتشیں اسلحہ سے لوگوں کو قتل کرنا تو بہت بڑا اقدام ہے، حضور نبی اکرم ﷺ نے اہل اسلام کو اپنے مسلمان بھائی کی طرف اسلحہ سے محض اشارہ کرنے والے کو بھی ملعون و مردود قرار دیا ہے۔

حضرت ابو ہریره بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے۔ تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ شاید شیطان اس کے ہاتھ کو ڈگمگا دے اور وہ (قتلِ ناحق کے نتیجے میں) جہنم کے گڑھے میں جاگِرے۔ (بخاری، 4/434، حدیث: 7072)

حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص نیزے سے اپنے بھائی کی طرف اشارہ کرے، فرشتے اس پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں، حتی کہ وہ اسے رکھ دے۔ (مسلم، ص 1081، حدیث: 6666)

ناحق قتل میں شامل سب لوگ جہنم میں: نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر تمام آسمان اور زمین والے ایک مومن کے خون میں شریک ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو جہنم میں ڈال دے گا۔ (ترمذی، 3/100، حدیث: 1403)

قرآن و حدیث کی رو سے معلوم ہوتا ہےکہ کسی شخص کو قتل کرنا شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے اور قاتل کی سزا جہنم ہے، جس میں وہ ایک طویل عرصہ تک رہے گا، اللہ تعالی نے قاتل کیلئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے لہذا ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ قتل جیسے کبیرہ گناہ سے ہمیشہ بچے۔

جب سے ہم نے اللہ تعالیٰ کے احکامات اور امام الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کی سنت کی پیروی کرنے سے منہ موڑا ہے، آئے روز ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں کہ بھائی غیرت کے نام پر اپنی بہن کو قتل کر رہا تو بہن آشنا کے ساتھ مل کر بھائی کو قتل کر رہی ہے، باپ بیٹے کو قتل کر رہا ہے تو بیٹا باپ کو، بھائی بھائی کا دشمن بنا ہوا ہے، جہیز کم لانے کی وجہ سے بہوؤں کی جان لے لی جاتی ہے۔ کیا ہم انسان کہلانے کے لائق ہیں، یہ سب کچھ اسلام سے دوری کا نتیجہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے ہیں۔

الله پاک ہم سب کو صراط مستقیم پہ چلنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم ایک دوسرے کی جان و مال کے محافظ بن جائیں۔ آمین