اسلام نے جن امور کے سر زد ہو جانے پہ حدیں قائم کی ہیں ان میں سے ایک قتل بھی ہے۔ قتل نا حق ایک نہایت قبیح فعل ہے جس سے خاندان کے خاندان تباہ ہو جاتے ہیں۔ حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: کسی بھی مسلمان کا خون بہانا جائز نہیں ہے البتہ تین میں سے کسی ایک صورت میں ایسا کیا جا سکتا ہے:1۔ شادی شدہ زانی، 2۔جان کے بدلے جان۔3، اپنے دین کو ترک کرکے مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہونے والا۔ (بخاری، 4/361، حدیث:6878)

ناقابل معافی گناہ:حضرت ابودرداء رضی الله عنہ سے روایت ہے كہ نبی كریم ﷺ نے فرمایا: امید ہے کہ اللہ ہر گناہ معاف فرما دے سوائے اس شخص کے جو حالت شرک میں فوت ہوگیا ہو، یا جس نے عمداً کسی مومن کو قتل کیا ہو۔ (ابو داود، 4/139، حدیث: 4270)

قیامت کے دن پہلے فیصلہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن لوگوں کےمابین سب سے پہلے خون خرابے (قتل و قتال) کا فیصلہ سنایا جائے گا۔ (مسلم، ص711، حدیث: 4381)

قاتل جہنم کے گڑھے میں: تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے، تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ شاید شیطان اس کے ہاتھ کو ڈگمگا دے اور وہ (قتلِ ناحق کے نتیجے میں) جہنم کے گڑھے میں جا گرے۔ (بخاری، 4/434، حدیث: 7072)

قتل ناحق کے اسباب: نا اتفاقی، حسد، کینہ، بے جا الزام تراشی، زمینی تنازع، خاندانی جھگڑے، چوری چکاری، خاندانی نا چاقیاں وغیرہ۔

اللہ پاک ہمیں اس برے فعل کے ارتکاب سے محفوظ رکھے آمین۔ ہمارے معاشرے سے اس برائی کا خاتمہ فرمائے۔ معاشرے کو امن و امان کا گہوارہ بنائے۔ آمین