انسانی ذہن میں سب سے پہلے یہ سوال اٹھتاہے کہ انسان کسی دوسرے انسان کو قتل کیوں کرتا ہے؟ کیا وہ نہیں جانتا کہ یہ اللہ کی نافرمانی ہے؟ کیا اسے علم نہیں کہ ابھی ایک عدالت ہے جہاں اسے اپنے کئے کا جواب دینا ہے؟ کیا اسے موت یاد نہیں؟ اسے یہ فکر کیوں نہیں کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کو راضی بھی کرنا ہے؟

اسبابِ قتل: قتل کے اسباب میں سب سے بڑا اور بنیادی سبب علمِ دین کی کمی ہے ہم نے اپنے دین کی تعلیمات کو سمجھا ہی نہیں اس کے علاوہ حسد، تکبر، بغض و کینہ، خاندانی دشمنی نفسانی خواہشات کی پیروی وغیرہ یہ باطنی بیماریاں شامل ہیں۔ انسان جب آخرت بھول بیٹھتا ہے تو اس کی ناکامی کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ امام اہل سنت اعلی حضرت اپنے نعتیہ دیوان حدائق بخشش میں غافل انسان کو کچھ یوں جھنجھوڑ رہے ہیں:

ارے یہ بھیڑیوں کا بن ہےاور شام آگئی سر پر کہاں سویا مسافر ہائے کتنا لا ابالی ہے

سب سے پہلا قاتل کون؟ دنیا کا سب سے پہلا قاتل قابیل ہے جس نےرشتے کے تنازعے میں اپنے بھائی حضرت ہابیل رضی اللہ عنہ کو قتل کردیا۔ ظلماً خون بہاتے ہی قابیل کا چہرہ سیاہ اور بَدصورت ہوگیا۔ حضرتِ آدم علیہ السَّلام نے شدید غَضَب کے عالَم میں (اپنے بیٹے) قابیل کو اپنی بارگاہ سے نکال دیا اور وہ عَدَن (یمن) کی طرف چلا گیا، وہاں شیطان کے ورغلانے پر آگ کی پُوجا کرنے لگا۔

عبرتناک انجام: قابیل جب بوڑھا ہوگیا تو اس کے نابینا بیٹے نے پتّھر مار کر اسے قتل کردیا، یوں یہ کفر و شرک کی حالت میں مارا گیا۔

اللہ پاک قتل ناحق کی مذمت میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز الایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔

مسلمان کو قتل کرنا کیسا؟ اگر مسلمانوں کے قتل کو حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب کیا تو یہ خود کفر ہے اور ایسا شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور قتل کو حرام ہی سمجھا اور پھر بھی اس کا ارتکاب کیا تب یہ کبیرہ گناہ ہے اور ایسا شخص مدت دراز تک جہنم میں رہے گا۔

قاتل اور مقتول جہنم میں: حضور جان عالمﷺ نےارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے راوی فرماتے ہیں: میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پر مصر تھا۔ (بخاری1/23، حدیث: 31)

افسوس کہ آج کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہو گیا ہے چھوٹی چھوٹی بات پر جان سے مار دینا، دہشت گردی، ڈکیتی، خاندانی لڑائیاں عام ہیں مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے گروپ اور جتھے اور عسکری ونگ بنے ہوئے ہیں جن کا کام ہی قتل کرنا ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے سرور عالمﷺ نے ارشاد فرمایا: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرے نہ اسے حقیر جانے۔ تقوی یہاں ہے اور اپنے سینے کی طرف تین بار اشارہ فرمایا انسان کیلئے یہ برائی کافی ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے مسلمان پر مسلمان کی ہر چیز حرام ہے اس کا خون،اس کا مال، اس کی آبرو۔ (مسلم، ص1386، حدیث:2564)

تمام انسانیت کا قتل: جس نے بلا اجازت شرعی کسی کو قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا کیونکہ اس نے الله کے حق اور بندوں کے حق اور حدودِ شریعت سب کو پامال کر دیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاؕ- (پ 6، المائدۃ: 32) ترجمہ کنز الایمان: جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کئے تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیا۔

خود کشی/قتل کا عذاب: حضور جان عالمﷺکا فرمان عبرت نشان ہے: اور سب گناہوں سے بڑا گناہ کسی کو ناحق قتل کرنا ہے جس نے چھری سے خود کشی کی ملائکہ جہنم کی وادیوں میں اس کو ہمیشہ ہمیشہ وہ چھری گھونپتے رہیں گے وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور شفاعت سے مایوس رہے گا اور اگر اس نے بلند جگہ سے اپنے آپ کو گرا کر خود کشی کی ہو گی تو فرشتے بھی ہمیشہ ہمیشہ اس کو جہنم کی وادیوں میں بلند چوٹی سے گراتے رہیں گے اور قتل کرنے والے کو آگ کے کنوؤں میں قید کیا جائے گا اور اگر رسی سے لٹک کر خود کشی کی ہو گی تو ہمیشہ کیلئے الله کی رحمت سے مایوس آگ کی شاخوں میں لٹکا رہے گا اگر کوئی جان کسی کو ناحق قتل کرے تو یہ کھلی گمراہی ہے فرشتے اس کو آگ کی چھریوں سے ذبح کرتے رہیں گے جب بھی وہ اس کو ذبح کریں گے تو اس کے حلق سے تار کول سے بھی زیادہ سیاہ خون بہے گا اور پھر ذبح کیا جائے گا یہ سزا اس کو ہمیشہ ہمیشہ دی جائے گی اور قاتلوں کو آگ کے کنوؤں میں قید کیا جائے گا اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ ( نیکیوں کی جزائیں گناہوں کی سزائیں، ص80)

کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا شدید بدترین کبیرہ گناہ ہے اور کثیر احادیث میں اس کی بہت مذمّت بیان کی گئی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ حضور جان عالم ﷺ کا فرمان عبرت نشان ہے: مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اسے قتل کرنا کفر ہے۔(بخاری، 4/11، حدیث: 6044)

مقتول اپنے قاتل کو گریبان سے پکڑے گا: فرمانِ مصطفےٰ ﷺ: بارگاہِ الٰہی میں مقتول اپنے قاتل کو پکڑے ہوئے حاضر ہوگا جبکہ اس کی گردن کی رگوں سے خون بہہ رہا ہوگا، وہ عرض کرے گا: اے میرے پروردگار! اس سے پوچھ، اس نے مجھے کیوں قتل کیا؟ اللہ پاک قاتل سے دریافت فرمائے گا: تُونے اسے کیوں قتل کیا؟وہ عرض کرے گا: میں نے اسے فلاں کی عزّت کے لئے قتل کیا، اسے کہا جائے گا: عزّت تو اللہ ہی کے لئے ہے۔ (معجم اوسط، 1/224، حدیث:766)

مولائے کریم قاتلوں کوشریعت کے تقاضو ں کے مطابق سچّی توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے، ہمیں اس گُناہ کے اِرتکاب سے بچائے اور ہمارے معاشرے سے قتل وغارت کے ناسُور کو دُور فرمائے۔