موجودہ دور فتنوں اور آزمائشوں کا دور ہے لوگوں کی اکثریت
نفس کی خواہش کو پوری کرنے والی ہے اور اپنے مفاد اور تسکین قلب کے لیے ہر قسم کے
اقدام کر گزرتے ہیں معاشرتی برائیوں کی ایک طویل فہرست ہے جن میں سے ایک قتل ناحق
بھی ہے ناحق قتل کرنا کفر و شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ شمار کیا گیا ہے۔ قتل کی
ابتدا حضرت آدم علیہ السّلام کی اولاد میں سے قابیل نے اپنے بھائی کو قتل کر کے
کی۔
قرآن پاک میں بھی قتل ناحق کی مذمت آئی ہے، چنانچہ ارشاد
باری تعالیٰ ہے: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا
مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ
وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز
الایمان: اور
جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے
اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔ اسی طرح کثیر احادیث میں بھی اس کا ذکر ہے چند ایک درج ذیل
ہیں:
احادیث مبارکہ:
1۔ بڑے گناہوں میں سے ایک کسی جان کو (ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری،
4/358، حدیث:6871)
2۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے: اگر زمین و آسمان والے کسی
مسلمان کے قتل پر جمع ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔ (معجم
صغیر، 1/ 205)
کسی مسلمان کو جان بوجھ کر ناحق قتل کرنا سخت ترین کبیرہ
گناہ ہے شریعت میں قتل عمد(یعنی جان بوجھ کر قتل کرنے)کی سزا دنیا میں فقط
قصاص(یعنی قتل کا بدلہ قتل) ہے یعنی یہی مقرر ہے اگر مقتول کے گھر والے معاف کردیں
یا قاتل سے مال لے کر صلح کر لیں تو یہ بھی ہو سکتا ہے قاتل اگر توبہ کر لے تو
اسکی توبہ قبول ہوگی یا نہیں اسکے متعلق صحابہ کرام کا اختلاف ہے صحیح یہ ہے کہ اس
کی توبہ بھی قبول ہو سکتی ہے اور صحیح یہ ہے کہ اس کی مغفرت ہو سکتی ہے اللہ کی
مشیت میں ہے۔
قیامت کے دن حقوق العباد میں سب سے پہلے خون کے بارے میں ہی
پوچھا جائے گا۔(مسلم، ص711، حدیث: 4381) ایک شخص کو قبرستان میں دفن کیا گیا تو اس
کے پاس عذاب کے فرشتے آئے اور کہا تجھے سو کوڑے ماریں گے مردے نے کہا کہ میں تو
ایسا اچھا اچھا آدمی تھا تو فرشتوں نے اس کی رعایت کرتے ہوئے دس کوڑوں کی کمی کردی
وہ معذرت کرتا رہا اور فرشتے دس کوڑے کم کرتے رہے آخر میں فرشتوں نے کہا ہم ایک
کوڑا ضرور ماریں گے جب انہوں نے ایک کوڑا مارا تو قبر میں آگ بھڑک اٹھی مردے نے
کہا تم نے مجھے یہ کوڑا کیوں مارا فرشتوں نے کہا تو ایک مظلوم آدمی کے پاس سے گزرا
اس نے تجھے مدد کے لیے پکارا مگر تو نے اسکی مدد نہ کی یہ اس کا بدلہ ہے جب مظلوم
کی مدد نہ کرنے کا یہ انجام ہے تو خود ظالم کا انجام کتنا برا ہوگا اور خصوصاً وہ
ظالم جو کسی کو قتل کر کے حدود الٰہی کو پامال کرنے والا ہو۔
اللہ پاک قاتلوں کو شریعت کے مطابق سچی تونہ کرنے کی توفیق
عطا فرمائے، ہمیں اس گناہ کے ارتکاب سے بچائے اور معاشرے سے قتل و غارت کو دور فرمائے۔
آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ