اسلام میں انسانی جان کو بہت حرمت حاصل ہے قرآن و حدیث میں
ناحق قتل کی شدید مذمت ہے علاوہ ازیں قانون کی رو سے بھی کسی انسان کا ناحق قتل
سنگین جرم ہے ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اگر کوئی شخص اس جرم کا
ارتکاب کرتا ہے تو وہ اسلامی شریعت کا مجرم ہونے کے ساتھ ساتھ قانون کا، مقتول کے وارثوں
کا اور معاشرے کا بھی مجرم قرار پائے گا۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ
مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ
غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز
الایمان: اور
جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے
اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔
قتل ناحق گناہ کبیرہ ہے، سرکار دو عالم ﷺ کا فرمانِ عالیشان
ہے: اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا کسی جان کو قتل کرنا
اور جھوٹی قسم کھانا کبیرہ گناہ ہیں۔ (بخاری، 4/295، حدیث: 6675)
قاتل و مقتول دونوں جہنمی: فرمان مصطفیٰ ﷺ: جب دو مسلمان اپنی تلواروں کے ساتھ باہم
ٹکراتے ہیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہیں۔ عرض کی گئی: یا رسول الله! ایک تو
قاتل ہے لیکن مقتول کا کیا قصور ہے؟ ارشاد فرمایا: وہ بھی اپنے مقابل کو قتل کرنے
پر حریص ہوتا ہے۔ (بخاری، 1/23، حدیث: 31)
جنت کی خوشبو: فرمان مصطفیٰ: جو کسی عہد و پیمان والے کو قتل کر دے وہ جنت کی خوشبو بھی نہ
سونگ سکے گا حالانکہ اس کی خوشبو 40 سال کی راہ سے محسوس کی جائے گی۔ (بخاری، 2/ 365،
حدیث: 3166)
اللہ پاک کی رحمت سے مایوس: جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ
قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں
کے درمیان لکھا ہو گا یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہے۔ (ابن ماجہ، 3/ 262،
حدیث: 2620)
ہلاک کرنے والا امر: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ناحق حرام خون بہانا ہلاک
کرنے والے اُن اُمور میں سے ہے جن سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں۔ (بخاری، 4/357، حدیث:6863)
قتل کی جائز صورتیں: قتل کی شدید ممانعت کے ساتھ قرآن و حدیث کی رو سے چند صورتوں کو اسلامی شریعت
نے جائز قرار دیا ہے وہ صورتیں یہ ہیں: قاتل کو قصاص میں قتل کرنا جائز ہے۔ زمین
میں فساد پھیلانے والے کو قتل کرنا جائز ہے۔ شادی شدہ مرد یا عورت کو زنا کرنے پر
بطورِ حد رجم کرنا۔ مرتد کو قتل کرنا۔ باغی کو قتل کرنا۔
افسوس کہ آج کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہوگیا ہے چھوٹی
چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینا، غنڈہ گردی، دہشت گردی، ڈکیتی، خاندانی لڑائی،
تَعَصُّب والی لڑائیاں عام ہیں۔ مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے، گروپ
اور جتھے بنے ہوئے ہیں جن کا کام ہی قتل و غارت گری کرنا ہے۔ اللہ پاک ہدایت نصیب
فرمائے۔ آمین