صفی الرحمٰن عطّاری (درجۂ خامسہ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ جوہر
ٹاؤن لاہور، پاکستان)
اسلام پُر امن
و باوقار دین ہے اور یہ اپنے ماننے والوں کو امن و سلامتی کا درس دیتا ہے۔ دینِ
اسلام میں کسی مسلمان کو بلا عذر شرعی معمولی سی بھی تکلیف پہنچانے کی اجازت نہیں
چہ جائیکہ اس کو قتل کیا جائے۔
کیونکہ کسی
ایک نفس کو ظلما قتل کرنا گویا تمام انسانیت کو قتل کرنا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:وَ
مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ
غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(93) (پ5،
النساء :93) ترجمۂ کنزالایمان :اور جو کوئی مسلمان
کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کابدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس
پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے تیار رکھا بڑا عذاب۔
ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے:مَنْ
قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ
النَّاسَ جَمِیْعًاؕ (پ 6،
المائدۃ:32) ترجمۂ کنزالایمان:جس نے کوئی جان قتل
کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کئے تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیا اور
جس نے ایک جان کو جِلالیا (بچایا) اس نے سب لوگوں کو جِلالیا۔
تفسیرِ صراط
الجنان میں اس آیت کے تحت ہے: یہ آیت ِ مبارکہ اسلام کی اصل تعلیمات کو واضح کرتی
ہے کہ اسلام کس قدر امن و سلامتی کا مذہب ہے اور اسلام کی نظر میں انسانی جان کی
کس قدر اہمیت ہے۔ اس سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہئے جو اسلام کی اصل تعلیمات
کو پس پُشت ڈال کر دامنِ اسلام پر قتل و غارت گری کے حامی ہونے کا بد نما دھبا
لگاتے ہیں اور ان لوگوں کو بھی نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو مسلمان کہلا کر بے قصور
لوگوں کو بم دھماکوں اور خود کش حملوں کے ذریعے موت کی نیند سلا کر یہ گمان کرتے
ہیں کہ انہوں نے اسلام کی بہت بڑی خدمت سر انجام دے دی۔
مسلمان
کو قتل کرنے کا حکم ؟اگر مسلمانو ں کے قتل کو حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب
کیا تو یہ خود کفر ہے اور ایسا شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور قتل کو حرام ہی
سمجھا لیکن پھر بھی اس کا ارتکاب کیا تب یہ گناہ کبیرہ ہے اور ایسا شخص مدت ِ دراز
تک جہنم میں رہے گا۔ آیت میں ’’خَالِدًا ‘‘کا لفظ ہے اس کا ایک معنیٰ ہمیشہ ہوتا
ہے اور دوسرا معنیٰ عرصہ دراز ہوتا ہے یہاں دوسرے معنیٰ میں مذکور ہے۔(تفسیرِ صراط
الجنان, تحت آیت: 93 سورة النساء, پارہ: 5)
احادیث میں
بھی قتلِ ناحق کی کثیر مذمت بیان کی گئی ہے:
(1)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے
روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے
ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے۔
(بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالٰی: ومن احیاہا، 4 / 358،
الحدیث: 6871)
(2)…کسی
مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے خسارے کا شکار ہو گا۔ حضرت ابو بکرہ
رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر زمین و آسمان والے کسی
مسلمان کے قتل پر جمع ہوجائیں تواللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال
دے۔(معجم صغیر، باب العین، من اسمہ علی، ص205 ،
الجزء الاول)
(3)…حضرت ابو
بکرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں
تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض کی:
مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے
پرمُصِر تھا۔(بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا۔۔۔ الخ، 1 / 23، الحدیث: 31)
(4)…حضرت ابو
ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر
ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں
آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ’’یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی
رحمت سے مایوس ہے۔‘‘(ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلمًا، 3 / 262، الحدیث: 2620)
(5) رسول اﷲ
صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ممکن ہے اﷲ تعالٰی سارے گناہ بخش دے سوائے اس کے کہ
جو مشرک مرے یا جو دانستہ مؤمن کو قتل کرے۔(کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ
المصابیح جلد:5 , حدیث نمبر:3468)
(6)…حضرت براء
بن عازب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک
دنیا کاختم ہو جانا ایک مسلمان کے ظلماً قتل سے زیاد سہل ہے۔(ابن ماجہ، کتاب
الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلماً، 3 / 261،
الحدیث: 2619)
(7 )....روایت
ہے حضرت ابن عباس سے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے راوی فرمایا قیامت کے دن
مقتول قاتل کو لائے گا کہ اس کی پیشانی و سر اس کے ہاتھ میں ہوگا اور مقتول کی
رگیں خون بہاتی ہوں گی اور عرض کرے گا یارب اس نے مجھے قتل کیا تھا حتی کہ اسے عرش
کے قریب کردے گا۔
(کتاب:مرآۃ
المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:5 , حدیث نمبر:3465)
(8)... روایت
ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اﷲ نے کہ جوکسی مسلمان کے قتل پر آدھی
بات سے بھی مددکرے تو وہ اﷲ تعالٰی سے اس حال میں ملے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کی
درمیان لکھا ہوگا اﷲ کی رحمت سے ناامید ہے۔ (کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ
المصابیح جلد:5 , حدیث نمبر:3484)
قتل
ناحق کے متعلق ہمارے معاشرے کا کردار : قرآن پاک میں قتلِ ناحق کے
متعلق ان وعیدات اور ان آحادیث کو پڑھ، سن کر اللّٰہﷻ سے ڈر جانا چاہیے مگر افسوس
کہ آج کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہوگیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار
دینا، غنڈہ گردی، دہشت گردی، ڈکیتی، خاندانی لڑائی، تَعَصُّب والی لڑائیاں عام
ہیں۔ مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے، گروپ اور جتھے اور عسکری وِنگ
بنے ہوئے ہیں جن کا کام ہی قتل و غارتگری کرنا ہے۔
اللہ پاک ہمارے معاشرے کو امن و سکون کا گہوارہ
بناۓ اور
اس معاشرے سے قتلِ ناحق اور خون ریزی جیسے فسادات کو ختم فرمائے۔آمین بجاہ النبی
الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔