محمد معید (درجہ اولی جامعۃُ المدينہ فيضان ابو
عطّار ملير كراچی، پاکستان)
اللّٰہ تبارک
وتعالی نےٰ حضور پر نور رحمت دوعالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت کو دنیا میں
بھیجا اور انسان دنیا کے محبت و جذبات میں آکر ایک دوسرے کا قتل کردیتا ہے اور قتل
کرنا حرام ہے اسی وجہ کو سامنے رکھ کر چند احادیث و آیات قتل ناحق کی مذمت میں
بیان کروں گا
مسلمان
کو ناحق قتل کرنے کی مذمت: کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا
شدید ترین کبیرہ گناہ ہے اور کثیر احادیث میں ا س کی بہت مذمت بیان کی گئی ہے، ان
میں سے 4احادیث درج ذیل ہیں:
(1)…حضرت انس
رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی
جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالٰی: ومن
احیاہا، 4 / 358، الحدیث: 4871)
(2)…کسی
مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے خسارے کا شکار ہو گا۔ حضرت ابو بکرہ
رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر زمین و آسمان والے کسی
مسلمان کے قتل پر جمع ہوجائیں تواللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال
دے۔(معجم صغیر، باب العین، من اسمہ علی، ص205 ، الجزء الاول)
(3)…حضرت ابو
بکرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں
تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض کی:
مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے
پرمُصِر تھا۔(بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا۔۔۔ الخ،
1 / 23، الحدیث: 31)
(4)…حضرت ابو
ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر
ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں
آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ’’یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی
رحمت سے مایوس ہے۔‘‘(ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلمًا 3 /
242، الحدیث: 2420)
اسی طرح
اللّٰہ تعالٰی نے قرآن پاک میں بھی ارشاد فرمایا آیت مبارکہ ملاحظہ فرمائیے : وَ
مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ
غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(93) ترجمۂ
کنز الایمان اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ
مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے تیار
رکھا بڑا عذاب۔
تفسیر صراط الجنان {وَ مَنْ یَّقْتُلْ: اور جو
قتل کرے۔} اس سے پہلی آیت میں غلطی سے کسی مسلمان کو قتل کر دینے کا حکم بیان کیا
گیا اور اس آیت میں جان بوجھ کر کسی مسلمان کو قتل کرنے کی اُخروی وعید بیان کی
گئی ہے۔ (پ4,س النساء،آیت93)
وَ مَا كَانَ
لِمُؤْمِنٍ اَنْ یَّقْتُلَ مُؤْمِنًا اِلَّا خَطَــٴًـاۚ-وَ مَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا
خَطَــٴًـا فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَّ دِیَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰۤى
اَهْلِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ یَّصَّدَّقُوْاؕ-فَاِنْ كَانَ مِنْ
قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّكُمْ وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍؕ-وَ
اِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍۭ بَیْنَكُمْ وَ بَیْنَهُمْ مِّیْثَاقٌ فَدِیَةٌ
مُّسَلَّمَةٌ اِلٰۤى اَهْلِهٖ وَ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ
مُّؤْمِنَةٍۚ-فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَهْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ٘-تَوْبَةً
مِّنَ اللّٰهِؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًا(92)
ترجمۂ کنز الایمان اور مسلمانوں کو نہیں پہنچتا
کہ مسلمان کا خون کرے مگر ہاتھ بہک کر اور جو کسی مسلمان کو نادانستہ قتل کرے تو
اس پر ایک مملوک مسلمان کا آزاد کرنا ہے اور خوں بہا کہ مقتول کے لوگوں کو سپرد کی
جائے مگر یہ کہ وہ معاف کردیں پھر اگر وہ اس قوم سے ہو جو تمہاری دشمن ہے اور خود
مسلمان ہے، تو صرف ایک مملوک مسلمان کا آزاد کرنا اور اگر وہ اس قوم میں ہو کہ تم
میں ان میں معاہدہ ہے تو اس کے لوگوں کو خوں بہا سپرد کی جائے اور ایک مسلمان
مملوک آزاد کرنا تو جس کا ہاتھ نہ پہنچے وہ لگاتار دو مہینے کے روزے رکھے یہ اللہ
کے یہاں اس کی توبہ ہے اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔ (پ 4,س النساء،آیت92)
اللّٰہ تعالٰی
سے دعا ہے کہ ہمیں حرام کام سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور جو ہم نے قتل ناحق کی
مذمت میں احادیث و آیات پڑھیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ النبی
الامین صلی اللّٰہ علیہ وسلم
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔