قتل ناحق ایک ایسی مذموم صفت ہے جس کے ذریعے بندہ کی عزت و آبرو متأثر اور دنیا و آخرت میں ذلت و رسوائی مقدر ہوتی ہے نیز اس کی فعل کی مذمت و برائی احادیث کریمہ میں بھی بیان ہوئی چنانچہ۔۔۔

1۔حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’کسی مومن کو قتل کرنے میں اگر زمین و آسمان والے شریک ہو جائیں تو اللّٰه تعالیٰ ان سب کو جہنم میں دھکیل دے ۔ (ترمذی، کتاب الدیات، باب الحکم فی الدماء، 3 / 100، الحدیث: 1403

2۔حضرت براء بن عازب رَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کاختم ہو جانا ایک مسلمان کے ظلماً قتل سے زیاد سہل ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلماً، 3 / 261، الحدیث: 2619)

3....حضرت ابو الدرداء رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راویت ہے رسول اﷲ صلَّی اﷲ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا کہ’’مومن تیز رو( یعنی مومن نیکی میں جلدی کرنے والا ہوتا ہے۔) اور صالح رہتا ہے جب تک حرام خون نہ کر لے اور جب حرام خون کر لیتا ہے تو اب وہ تھک جاتا ہے۔ (یعنی قتل ناحق کی نحوست سے انسان توفیق خیر سے محروم رہ جاتاہے اسی کو تھک جانے سے تعبیر فرمایا۔) بہار شریعت حصہ 17 ص753 ۔ ’’ سنن أبي داود ‘‘ ،کتاب الفتن والملاحم،باب في تعظیم قتل المؤمن،الحدیث: 4270 ،ج 4 ،ص 139۔)

4۔حضرت معاویہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راویت ہے کہ رسول اﷲ صلَّی اﷲ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا کہ ’’امید ہے کہ گناہ کو اﷲ بخش دے گا مگر اس شخص کو نہ بخشے گا جو مشرک ہی مر جائے یا جس نے کسی مرد مومن کو قصداً ناحق قتل کیا۔( ’’ سنن أبي داود ‘‘ ،کتاب الفتن ۔۔۔ إلخ،باب في تعظیم قتل المؤمن،الحدیث: 4270 ،ج 4 ،ص 139)

5....حضرت ابن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلَّی اﷲ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا کہ’’ مسلمان اپنے دین کے سبب کشادگی میں رہتا ہے جب تک کوئی حرام خون نہ کر لے۔( ’’ صحیح البخاري ‘‘ ،کتاب الدیات،باب قول اللّٰہ تعالٰی{ وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا۔۔۔ إلخ }،الحدیث: 6862 ،ج 4)

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ قتل نا حق کبیرہ گناہوں میں سے ہے آئیے ہم احادیث کی روشنی میں اس کے بارے میں مزید جانتے ہیں چنانچہ فرمان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہ ثابت ہو جائے کہ اسمان والے اور زمین والے سب کے سب کسی ایک مرد مومن کے قتل میں شریک ہیں تو اللہ تعالی ان سب کو دوزخ کی اگ میں الٹا دے گا یعنی اللہ تعالی ان سب کو منہ کے بل دوزخ میں گرا دے گا ۔ [مشکوة المصابیح جلد نمبر 2 حدیث نمبر3311]

ایک اور حدیث میں حضرت ابن عباس نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں اپ نے فرمایا کہ قیامت کے دن مقتول اپنے قاتل کو اس طرح پکڑ کر لائے گا کہ قاتل کی پیشانی اور اس کا سر مقتول کے ہاتھ میں ہوگا اور خود اس کی رگوں میں خون بہہ رہا ہوگا اور اس کی زبان پر یہ الفاظ ہوں گے پروردگار اسے نے مجھے قتل کیا میری فریاد رسی کر یہاں تک کہ مقتول اس قاتل کو کھینچتا ہوا عرش الہی کے قریب لے جائے گا [مشکوة المصابیح جلد نمبر 2 حدیث نمبر3312]

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قیامت کے دن مقتول اپنا پورا حق قاتل سے لے گا اور مظلومیت کی کیفیت کے ساتھ اللہ تعالی کے سامنے حاضر ہوگا اور اللہ تعالی اس کو راضی کرے گا ۔

ایک اور حدیث میں حضرت ابو درداء نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ اپ نے فرمایا مسلمان اس وقت تک نیکی کی طرف سبقت کرتا ہے اور اللہ تعالی اس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی میں مشغول رہتا ہے جب تک وہ خون حرام کا ارتکاب نہیں کرتا اور جب وہ خون حرام کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ تھک جاتا ہے [مشکوة المصابیح جلد نمبر 2 حدیث نمبر3314]

یعنی جب تک وہ خون حرام کا ارتکاب نہیں کرتا تو وہ نیکی اور بھلائی کرنے میں چست رہتا ہے اللہ تعالی اس کو بھلائی کی طرف سبقت کرنے کی توفیق دیتا ہے اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کے ادا کرنے پر قائم رہتا ہے اور جب وہ خون حرام کا مرتکب ہوتا ہے تو اس کی وہ نیکی اور چستی ختم ہو جاتی ہے اب وہ نیک اور صالح عمل سے کٹ رہ جاتا ہے اور اللہ تعالی اس کو نیکی کی توفیق نہیں دیتا

اور حضرت ابو درداء رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ اپ نے فرمایا گناہ کے بارے میں یہ امید ہے کہ اللہ تعالی اس کو بخش دے گا مگر اس شخص کو نہیں بخشے گا جو شرک کی حالت میں مر جائے یا جس نے کسی مسلمان کا قتل کیا ہو ۔ [مشکوة المصابیح جلد نمبر 2 حدیث نمبر3315]

ان احادیث سے ثابت ہوا کہ ناحق قتل کرنا اتنا بڑا گناہ ہے کہ جس کا مرتکب دوزخ میں الٹے منہ کے بل پھینکا جائے گا اللہ تعالی ہم سب کو ایسے گناہ سے محفوظ فرمائے اور ہر وقت اپنے خوف میں رکھے امین بجاہ نبی الامین صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


حضور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی کو ناحق قتل کرنے سے منع فرمایا ہے کسی مسلمان کو جان بوجھ کر ناحق قتل کر نا سخت ترین کبیرہ گناہ ہے شریعت میں اسلحہ کے ساتھ جان بوجھ کر قتل کرنے کی سزا دنیا میں فقط قصاص ہے یعنی قتل کا بدلہ قتل ہے یعنی یہی متعین ہے احادیث کریمہ میں قتل ناحق کی مذمت بہت جگہ بیان کی گئی ہے آئے ان میں سے چند احادیث کریمہ آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں اللّٰہ پاک مجھے حق اور سچ بیان کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

حدیث نمبر1 حضرت عبداللہ بن مسعود رضى الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن سب سے پہلے خون ناحق کے بارے ميں لوگوں کے درمیان فیصلہ کیا جائے گا ۔ صحیح بخاری کتاب الدیات الحدیث نمبر 6864 جلد 4 صفہ نمبر 307

حدیث نمبر2 امام ترمزی ابو سعید اور وہ ابو ہریرہ رضی الله عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ اگر آسمان اور زمین والے ایک مرد مومن کے خون میں شریک ہو جائیں تو سب کو اللّٰہ تعالیٰ جہنم میں اوندھا کر کے ڈال دے گا ۔ ( جامع الترمذی باب الحکم فی الدماء الحدیث نمبر1403 جلد نمبر3 صفہ نمبر100 )

حدیث نمبر3 ابو داود انہیں سے اور نسائ حضرت معاویہ رضی اللّٰہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ امید ہے کہ گناہ کو اللّٰہ پاک بخش دے گا مگر اس شخص کو نہ بخشے گا جو مشرک ہی مر جائے یا جس نے کسی مرد مومن کو قصداً ناحق قتل کیا ۔ ( سنن أبي داؤد کتاب الفتن والملاحم باب فی تعظیم قتل المومن الحدیث نمبر4270 جلد4 صفہ139 )

حدیث نمبر4 امام بخاری اپنی صحیح میں ابن عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا الله عزوجل کے نزدیک سب لوگوں سے زیادہ مبغوض تین شخص ہیں (1) حرام الحاد کرنے والا( نمبر2) اسلام میں طریقہ جاہلیت کا طلب کرنے والا اور (نمبر3) کسی مسلمان شخص کا ناحق خون طلب کرنے والا تاکہ اسے بہائے ۔ ( صحیح بخاری کتاب الدیات باب من طلب دم أِمرئ بغیر حق الحدیث نمبر6882 جلد4 صفہ نمبر362)

حدیث نمبر5 اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے بیشک ایک مومن کا قتل کیا جانا اللّٰہ پاک کے نزدیک دنیا کے تباہ کر جانے سے زیادہ بڑا ہے ۔ ( نسائ کتاب تحریم الدم تعظیم الدم صفہ652 الحدیث نمبر3992 دارالکتب *العلمیہ بیروت * )

ہمیں چاہیے کہ ہم بھی اس کبیرہ گناہ سے بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں الله پاک سے دعا ہے کہ ہمیں قتل ناحق کی نحوست سے محفوظ فرمائے اور ہمارا خاتمہ بالخیر فرمائے آمین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


پیارے مذہب دینِ اسلام میں انسانی جان کو بہت قیمتی جانا جاتا ہے کہ ایک جان کا ناجاٸز قتل بھی گوارہ نہیں کیا جاتا بلکہ ایک بھی جان کے ناجاٸز قتل کو ساری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعالٰی ہے: مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاؕ - ترجمہ کنزالعرفان: جس نے کسی جان کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے بدلے کے بغیر کسی شخص کو قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا۔(پارہ:6،المائدہ:32)

ناحق قتل کا حکم: اگر مسلمانو ں کے قتل کو حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب کیا تو یہ خود کفر ہے اور قتل کو حرام ہی سمجھا لیکن پھر بھی اس کا ارتکاب کیا تب یہ گناہ کبیرہ ہے۔(صراط الجنان،ج:2،ص:311)

دورِ حاضرہ میں عوام کی اکثریت دین سے دور جاتی اور دنیا کی پیچھے بھاگی جا رہی ہے جس کے سبب گناہوں کا سیلاب بہتا جا رہا ہے اور چھوٹی چھوٹی بات پر معاملہ قتل و غارت گری تک چلا جاتا ہے۔ بھاٸی بھاٸی کا مال کے لالچ میں قتل کر دینا، اولاد کا ماں باپ کو جاٸیداد کے چکر میں قتل کر دینا، سڑک پر دو بندے ٹکرا جاٸیں تو معمولی نقصان کے بدلے انسانی جان کا نقصان کر دینا، بیوی نے چھوٹی سی غلطی کی تو مارمار کر جان لے لینا، فکرِ معاش کی وجہ سے بھی اپنی اولاد کا ناجاٸز قتل کر دیتے ہیں، یہاں تک کہ کسی نے گالی دی تو قتل کردینا الغرض بڑے مساٸل تو بڑے، اب چھوٹی سی چھوٹی بات پر قتلِ عام ہوا جا رہا ہے۔ جبکہ احادیثِ مبارکہ میں قتل ناحق کے متعلق بہت سخت وعیدات بیان ہوئیں ہیں۔

شریعتِ اسلامیہ ہر مسلمان کی جان کو نا صرف اہمیت دیتی بلکہ پوری دنیا سے بڑھ کر مومن کی جان کو افضل قرار دیا ہے، فرمانِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم : اللہ تعالیٰ کے نزدیک پوری دنیا کا تباہ ہو جانا ایک مسلمان کے قتل سے ہلکا ہے۔(ترمذي، کتاب الديات، باب ما جاء في تشديد قتل المؤمن، 4: 16، الحدیث:1395)

ناحق قتل کا گناہ کوٸی چھوٹا نہیں ہے بلکہ اس کو بڑے گناہوں میں شمار کیا گیا ہے، فرمانِ تاجدارِ رسالت  صلی اللہ علیہ وسلم : بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک (ناحق) کسی جان کو قتل کرنا ہے۔(بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالٰی: ومن احیاہا، 4: 358، الحدیث: 6871)

مسمان کو قتل کرنے کی سختی کا اندازہ اس فرمانِ تاجدارِ  رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ: مسلمان کو گالی دینا فِسق اور اسے قتل کرنا کفر ہے۔(مسلم، کتاب الایمان، باب بیان قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: سباب المسلم۔۔۔ الخ،ص52، الحدیث: 116(64)

جہاں قتل کرنے کی بہت سخت وعیدات ہیں اسی طرح صرف قتل کرنے کی کوشش کرنے والے کی لیے بھی بہت سخت وعید ہے، فرمانِ رسولِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم : جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے، عرض کیا گیا: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے کی کوشش میں تھا۔(بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا۔۔۔ الخ، 1: 23، الحدیث: 31)

اس حدیثِ پاک سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے جو جانی دشمنیاں رکھتے، ایک دوسرے کی تاک میں رہتے اور موقع ملنے پر قتل کردیتے ہیں کہ اس صورت میں قاتل و مقتول دونوں ہی جہنمی ہیں، کیونکہ مقتول بھی قتل کا پورا ارادہ رکھتا تھا، بس فرق اتنا کہ اسکے حصے میں قتل کرنے کے بجاۓ قتل ہونا آیا۔

اور ان لوگوں کو بھی عبرت حاصل کرنی چاہیے جو اصلاً قتل کرتے تو نہیں لیکن قاتل کے مددگار ہوتے ہیں، کیونکہ گناہ کے کام میں مدد کرنا بھی گناہ ہے۔ یہاں تک کہ اس کام میں اپنی رضامندی ہونا بھی جرمِ عظیم ہے، فرمانِ حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم : جس نے مومن کے قتل پر حرف جتنی مدد بھی کی تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ’’یہ اللہ تعالٰی  کی رحمت سے مایوس ہے‘‘۔(ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلمًا، 3: 262، الحدیث: 2620)

دنیا تو دنیا، قاتل کی آخرت بھی تباہ ہوگی کیونکہ قیامت والے دن بھی قتلِ ناحق کا معاملہ پہلے حل کیا جاۓ گا کہ حساب کتاب کی ابتدا ان دونوں (یعنی قاتل و مقتول) سے ہوگی، فرمانِ رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم : قیامت کے دن سب سے پہلے خون ناحق کے بارے میں  لوگوں  کے درمیان فیصلہ کیا جائے گا۔(البخاری ،کتاب الدیات،باب قول اللہ تعالٰی اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ ۔۔۔ إلخ،4: 357، الحدیث:6864)

اللہ عالٰی ہمیں انسانی جان کی قدر سمجھنے اور قتلِ ناحق سے بچے رہنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔آمین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اسلام دین فطرت ہے. کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا خلافِ فطرت سلیمہ ہے. لہذا اسلام نے قتل ناحق کی شدید مذمت کی ہے چنانچہ الله پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا ترجمہ کنز الایمان اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے تیار رکھا بڑا عذاب ۔ (النساء آیت نمبر 93)

قرآن مجید کے علاوہ کئی احادیث کریمہ بھی ایسی ہیں جو قتل ناحق کی مذمت پر دال ہیں چنانچہ

قتل کب جائز ہے: " الله پاک کی آخری نبی محمّد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کسی مسلمان کا جو اللہ کے ایک ہونے کی اور میرے رسول ہونے کی شہادت دیتا ہو ، خون بہانا حلال نہیں مگر تین حالتوں میں، ایک یہ کہ اس نے کسی کو قتل کردیا ہو، دوسرا شادی شدہ ہو کر زنا کیا ہو، تیسرادین اسلام کو چھوڑ دینے والا ، جماعت سے علیحدہ ہونے والا۔“ (صحيح البخاري 9 / 5، كتاب الديات،دار طوق النجاة)

دنیا کے مٹ جانے سے بڑا سانحہ : حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی بھی شخص کے قتلِ نا حق کو دنیا کے مٹ جانے سے بڑا سانحہ قرار دیا ہے: لَزَوَالُ الدُّنْيَا جَمِيْعًا أَهْوَنُ عِنْدَ اﷲِ مِنْ سَفْکِ دَمٍ بِغَيْرِ حَقٍّ. ﷲ تعالیٰ کے نزدیک پوری کائنات کا ختم ہو جانا بھی کسی شخص کے قتلِ ناحق سے ہلکا ہے۔ (ابن أبي الدنيا، الأهوال: 190، رقم:183)

عبادت قبول نہ ہو: جو شخص کسی مسلمان کو ناحق قتل کرتا ہے اس کی کوئی عبادت قبول نہیں ہو گی چاہے فرض ہو یا نفل.

چنانچہ حضرت عبد ﷲ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ قَتَلَ مُوْمِنًا فَاعْتَبَطَ بِقَتْلِهِ لَمْ يَقْبَلِ اﷲُ مِنْهُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا. جس شخص نے کسی مومن کو ظلم سے ناحق قتل کیا تو اﷲ تعالیٰ اس کی کوئی نفلی اور فرض عبادت قبول نہیں فرمائے گا۔ (أبو داود، السنن، کتاب الفتن والملاحم، باب تعظيم قتل المؤمن، 4: 103، رقم: 4270)

مقتول قاتل کو گریبان سے پکڑے گا : ایک حدیث مبارکہ میں ہے کہ :بارگاہِ الٰہی میں مقتول اپنے قاتل کو پکڑے ہوئے حاضر ہوگا جبکہ اس کی گردن کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا، وہ عرض کرے گا: اے میرے پروردگار! اس سے پوچھ، اس نے مجھے کیوں قتل کیا؟ اللہ پاک قاتل سے دریافت فرمائے گا: تُونے اسے کیوں قتل کیا؟وہ عرض کرے گا: میں نے اسے فلاں کی عزّت کے لئے قتل کیا، اسے کہا جائے گا: عزّت تو اللہ ہی کے لئے ہے۔ (معجم اوسط،ج 1،ص224، حدیث:766)

سب سے پہلے قتل نا حق کا فیصلہ: بروز محشر سب سے پہلے قتل کا فیصلہ کیا جائے گا چنانچہ فرمان آخری نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ و سلم ہے قیامت کے دن سب سے پہلے خون ِناحق کے بارے میں لوگوں کے درمیان فیصلہ کیا جائے گا۔(مسلم، ص711، حدیث: 4381)

حکیم الامت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنَّان لکھتے ہیں: خیال رہے کہ عبادات میں پہلے نماز کا حساب ہوگا اور حقوق العباد میں پہلے قتل و خون کا یا نیکیوں میں پہلے نماز کا حساب ہے اور گناہوں میں پہلے قتل کا۔(مراٰۃ المناجیح،ج2ص307،306)

ہمارا معاشرہ جہاں دیگر بہت سی برائیوں کی لپیٹ میں ہے وہی قتلِ ناحق بھی معاشرے میں بڑھتا جا رہا ہے، ذرا سی بات پر جھگڑا کیا ہوا اور نادان فوراً ہی قتل پر اتر آتے ہیں. وراثت کی تقسیم پر جھگڑا، بچوں کی لڑائی پر جھگڑا، جانور دوسرے کی زمین سے کچھ نقصان کر دے تو جھگڑا، کسی کی کار یا موٹر سائیکل سے ٹکر ہو جائے اگرچہ نقصان کچھ بھی نہ ہو پھر بھی جھگڑا. ایسا لگتا ہے کہ زمانہ جاہلیت واپس آ چکا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات پر عمل کریں. اپنے اندر صبر، حوصلہ اور برداشت کا جذبہ پیدا کریں،

خوف خدا، عشق مصطفیٰ اور جہنم کا ڈر اگر ہر دل میں پیدا ہو جائے تو معاشرے کو اس مرضِ کریہہ سے نکلنے میں دیر نہیں لگے گی.

اللہ تعالیٰ ہمارے معاشرے سے اس لعنت کا خاتمہ فرمائے آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ و سلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


آج ہمارے معاشرے میں پھیلنے والے گناہوں میں سے ایک بڑا گناہ قتلِ ناحق بھی ہے ۔قتل ناحق کبھی تو جاٸیداد کی وجہ سے کیا جاتا ہے تو کبھی زبان,رنگ,نسل کی وجہ سے ہوتا ہے ۔کبھی علاقاٸ تعصب تو کبھی سیاسی وجوہات قتلِ ناحق کی وجہ ہوتی ہے ۔دین اسلام نے انسانی جان کو بہت عزت اور عظمت دی ہے ۔جہاں دین اسلام نے انسانی جان کی عزت و عظمت بیان کی ہے وہیں انسانی جان کی بے حرمتی اور اسکو ناحق قتل کرنے کی شدید وعیدیں بھی بیان کی ہیں ۔چنانچہ قرآن مجید میں اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا:وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا۔

ترجمہ کنزالعرفان:اور جو کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کردے تو اس کا بدلہ جہنم ہے عرصہ دراز تک اس میں رہے گا اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔(النساء آیت 93)

احادیث طیبہ میں بھی قتلِ ناحق کی کٸ وعیدیں بیان کی گٸ ہیں ۔جن میں سے 5 درج ذیل ہیں۔

(1)قیامت کے دن سب سے پہلے فیصلہ:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:-أَوَّلُ مَا يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ فِي الدِّمَاءِ.(البخاری 6864)ترجمہ:لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خون کے بارے میں فیصلہ کیا جاۓ گا۔

حکیم الامت مفتی احمد یار خان (علیہ رحمة رحمة الحنان) نے اس حدیث پاک کے تحت فرمایا:یعنی قیامت کے دن معاملات میں سب سے پہلے خون ناحق کا فیصلہ ہوگا بعد میں دوسرے فیصلےاورعبادات میں پہلے نماز کا حساب ہوگا بعد میں دوسرے حسابات ہوں گے لہذا یہ حدیث اس حدیث کے خلاف نہیں کہ قیامت کے دن پہلے نماز کاحساب ہوگا کہ یہ حدیث معاملات کے متعلق ہے اوروہ حدیث عبادات کے بارے میں۔(مراة المناجیح 232/5)

(2)بڑے گناہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:الْكَبَائِرُ الْإِشْرَاكُ بِاللهِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ، وَقَتْلُ النَّفْسِ (البخاری 6675)ترجمہ:بڑے گناہوں میں سے اللہ عزوجل کے کے ساتھ کسی ک شریک کرنا ,اور والدین کی نافرمانی کرنا اور (ناحق) قتل کرنا ۔

(3)قاتل مقتول دونوں جہنم میں: حضرت ابو بکرہ (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے،رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا:إِنَّهُ كَانَ حَرِيصًا عَلَى قَتْلِ صَاحِبِهِ یعنی :اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پرمُصِر تھا۔ (البخاری 31)

4)رحمت الہیٰ سے مایوس: حضرت ابوھریرہ (رضی اللہ عنہ) سے سےمروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مَنْ أَعَانَ عَلَى قَتْلِ مُؤْمِنٍ شَطْرَ كَلِمَةٍ لَقِيَ اللّٰهَ مَكْتُوبٌ بينَ عينيهِ: آيسٌ مِنْ رَحْمَةِ اللّٰهِ ۔(ابن ماجہ 2620)جس شخص نے آدھے کلمہ کے ذریعے بھی کسی مسلمان کے قتل پر مدد کی وہ اللہ عزوجل سے اس حالت میں ملے گا کہ اسکی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوگا کہ یہ شخص رحمتِ الٰہی سے مایوس ہے ۔

حکیم الامت مفتی احمد یار خان (علیہ رحمة رحمة الحنان) نے اس حدیث پاک کے تحت فرمایا:یعنی جس شخص نے کسی سےاقتل امر کا آدھا کلمہاُق بھی کہہ دیا اور قاتل نے اس مسلمان کو قتل کردیا تو مرتے وقت یا قبر میں یا قیامت میں اس کی پیشانی پر لکھا ہوگا کہ یہ شخص اﷲ کی رحمت سے مایوس ہے،اس طرح تمام قیامت میں بدنام ہو جائے گا،خیال رہے کہ حضور کی امت کی قیامت میں ضرور پردہ پوشی ہوگی مگر جو بندہ دنیا میں خود ہی علانیہ گناہ کرتا رہا ہو اس کی پردہ پوشی نہ ہوگی کہ اس نے خود اپنی پردہ دری کی۔ (مراة المناجیح 250/5 ملتقطا)

5)مسلمان ک جان کی اہمیت : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :لَزَوَالُ الدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَى اللّٰهِ مِنْ قَتْلِ رَجُلٍ مُسْلِمٍ (نساٸ3987)

دنیا کا مٹ جانا اﷲ کے ہاں آسان ہے مسلمان آدمی کے قتل سے : حکیم الامت مفتی احمد یار خان (علیہ رحمة رحمة الحنان) نے اس حدیث پاک کے تحت فرمایا:یہاں مسلم سے مراد مرد مؤمن عارف باﷲ ہے یعنی ایک عارف باﷲ کا قتل ساری دنیا کی بربادی سے سخت تر ہے کیونکہ دنیا عارفین ہی کے لیے تو بنی ہے تاکہ وہ اس میں غوروفکر کرکے عرفان میں اضافہ کردیں اور یہاں اعمال کرکے آخرت میں کمال حاصل کریں،دولہا کی ہلاکت بارات کی ہلاکت سے سخت تر ہے کہ مقصود برات وہ ہی ہے۔(مراة المناجیح 241/5)

قتل ناحق کا حکم:اگر مسلمانو ں کے قتل کو حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب کیا تو یہ خود کفر ہے اور ایسا شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور قتل کو حرام ہی سمجھا لیکن پھر بھی اس کا ارتکاب کیا تب یہ گناہ کبیرہ ہے اور ایسا شخص مدت ِ دراز تک جہنم میں رہے گا۔(صراط الجنان تحت سورہ نساء آیت 93)

اللہ کریم ہمیں علم دین حاصل کرنے کی توفیق عطا فرماۓ ۔اور مسلمانوں کی عزت و حرمت کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرماۓ ۔آمین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


آج کل لوگ بہت سے گناہوں میں مبتلا ہیں اور ان گناہوں کو گناہ ہی نہیں سمجھتے۔ جن میں سے ایک گناہ قتل ناحق بھی ہے۔قتل ناحق بہت عام ہو چکا ہے۔بات بات پر قتل کر دیا جاتا ہے۔کسی مسلمان کو جان بوجھ کر ناحق قتل کرنا سخت ترین کبیرہ گناہ ہے۔ (فتاوی رضویہ،جلد 21،ص، 263)قرآن و حدیث میں بھی اس کی بہت سی وعیدیں بیان کی گئی ہیں۔ آئیے قتل ناحق کے متعلق کچھ احادیث پڑھتے ہیں:

(1) "قتل ناحق کبیرہ گناہ" حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالٰی: ومن احیاہا، 4 / 357، الحدیث 6871)

(2) "قتل ناحق کی وجہ سے اوندھے منہ جہنم میں ڈالے جائیں" حضرت ابو بکرہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہوجائیں تواللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔ (معجم صغیر، باب العین، من اسمہ علی، ص205، الجزء الاول)

(3) "قتل ناحق کی وجہ سے جہنم کا عذاب" حضرت ابو بکرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پرمُصِر تھا۔ (بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا۔۔۔ الخ، 1/ 23، الحدیث: 31)

(4)قتل ناحق کی وجہ سے اللہ کی رحمت سے مایوس: حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ’’یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے مایوس ہے۔‘‘ (ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلمًا، 3/ 262، الحدیث: 2620)

(5)"قتل ناحق کفر ہے" حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: مسلمان کو گالی دینا فِسق اور اسے قتل کرنا کفر ہے۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب بیان قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: سباب المسلم۔۔۔ الخ ، ص52، الحدیث: 116)

نوٹ:مسلمان کو قتل کرنا اس صورت میں کفر ہوگا جب مسلمان کو حلال سمجھ کر قتل کیا جائے.

افسوس کہ آج کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہوگیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینا عام ہو گیا ہے۔اللہ عزوجل ہمیں قتل ناحق کے گناہ سے محفوظ فرمائے۔امین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


الله عز وجل نے نیک اعمال کرنے پر جنت اور برے اعمال کرنے پر جہنم کو مقرر فرمایا ہے الله عز و جل کو ناراض کرنے اور جہنم میں لے جانے والے اعمال میں سے ایک عمل کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنا ہے کسی مسلمان کو جان بوجھ کر نا حق قتل کرنا سخت ترین کبیرہ گناہ ہے آئیے اس کی مذمت پر چند احادیث سننے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔

(01) قتل ناحق حلال نہیں: حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کسی مسلمان کا جو اللہ کی ایک ہونے کی اور میرے رسول ہونے کی شہادت دیتا ہو " خون بہانا حلال نہیں مگر تین حالتوں میں، ایک یہ کہ اس نے کسی کو قتل کر دیا ہو دوسرا شادی شدہ ہو کر زنا کیا ہو تیسرا دین اسلام کو چھوڑ دینے والا ، جماعت سے علیحدہ ہونے والا ہے۔ (صحیح بخاری 5/9 کتاب الديات، ط: دار طوق النجاة)

(02) اللہ کی رحمت سے محروم: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص نے کسی مسلمان کے قتل میں آدھے کلمے سے بھی اعانت کی وہ قیامت کے دن اللہ کے سامنے اس حالت میں آئے گا کہ اس کی پیشانی میں لکھا ہوگا کہ یہ شخص اللہ کی رحمت سے محروم ہے " (سنن ابن ماجہ 874/2)

(03) اوندھے منہ جہنم میں ڈالا جائے گا: حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر تمام روئے زمین کے اور آسمان کے لوگ کسی ایک مسلمان کے قتل میں شریک ہوں تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے گا اور جس شخص نے کسی مسلمان کے قتل میں آدھے کلے سے بھی اعانت کی وہ قیامت کے دن اللہ کے سامنے اس حالت میں آئے گا اس کی پیشانی میں لگے ہو گا کہ : یہ شخص اللہ کی رحمت سے محروم ہے۔ (حدیث ابی الفضل الزهری 479/1)

(04)قتل ناحق پوری دنیا کے تباہ ہونے سے زیادہ بدتر: حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم نے ارشاد فرمایا " اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک مسلمان شخص کے قتل سے پوری دنیا کا ناپید (اور تباہ ہو جانا ہلکا (واقع) ہے. (ترمذی السنن 16/4 حدیث 1395)

(05) کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ: حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " سب سے بڑے گناہ اللہ تعالٰی کے ساتھ شرک کرنا ، کسی جان کو قتل کرنا والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی گواہی دینا ہے۔(بخاری 4/357 ،حدیث 6871)

اللہ عزوجل ہمیں قتل ناحق کے گناہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے امین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے آج کل قتل اس قدر عام ہو گیا ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے کو قتل کر دیتے ہیں اس میں ذرا خوف محسوس نہیں کرتے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے قتل ناحق کی کثیر مرتبہ مذمت بیان فرمائی ہے آئیے میں آپ کے سامنے چند احادیث مبارکہ پیش کرتا ہوں

(1)7 بلاک کرنے والی چیزیں :حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ سید عالم نور مجسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عبرت نشان ہے 7 بلاک کرنے والی چیزوں سے بچو عرض کی گئی یا رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ کیا ہیں۔ ارشاد فرمایا (1) الله عز وجل کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا (2) جادو کرنا ( 3) کسی جان کو ناحق قتل کرنا (4) سود کھانا (5 )یتیم کا مال کھانا

(6) جھنگ کے دن پیٹھ پھیر لینا اور (7) پاک دامن مومنہ سیدھی سادی عورتوں پر تہمت لگانا صحیح مسلم کتاب الایمان باب الکبائر صفحہ693حدیث262۔

(2)ساری دنیا کا تباہ ہو جانا: سرکار نامدار مدینے کے تاجدار صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان عالیشان ہے الله عز و جل کے ہاں ساری دنیا کا تباہ ہو جانا کسی مومن کے ناحق قتل سے زیادہ آسان ہے (سنن ابن ماجه ابواب الديات باب التغليظ في قتل مسلم ظلما الحدیث 2619صفحہ2634)

(3)اوندھے منہ جہنم میں گرنا: حسن اخلاق کے پیکر محبوب رب اکبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کسی مسلمان کو قتل کرنے میں اگر تمام زمین و آسمان والے شریک ہو جائیں تو اللہ عزوجل ان سب اوندھے منہ جہنم میں گرادے۔ ( المعجم الصغير لطبرانی الحدیث 566 الجزء الاول صفحہ (205)

(4)مومن کو جان بوجھ کر قتل کرنے والے کے لئے بخشش کا نہ ہونا: حضورنبی رحمت شفیع امت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان مغفرت نشان ہے امید ہے کہ اللہ عزوجل ہر گناہ بخش دے گا سوائے اس شخص کے جو حالت کفر میں میرے یا مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے۔ ( سنن النسائی کتاب المحاربہ باب تحريم الدم الحدیث 3989 صفحہ2349تقدم وتأخر)

(5)جہنم سے ایک گردن کا نکلنا: تاجدار رسالت شہنشاہ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جہنم سے ایک گردن نکلے گی جو فصیح و بلیغ کلام کرے گی۔ اس کی دو آنکھیں ہوں گی جن سے وہ دیکھے گی۔ اور ایک زبان ہوگی جس سے وہ کلام کرے گی وہ کہے گی مجھے اللہ عزوجل کے سوا کسی کو معبود بنانے والے ہر سرکش ظالم اور کسی جان کو ناحق قتل کرنے والے کے متعلق حکم دیا گیا ہے پس وہ ان 3 قسم کے لوگوں کو دیگر تمام لوگوں سے 500 سال پہلے جہنم میں لے جائے گی۔ ( المعجم الاوسط الحدیث 18 3 ص 103)

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


محترم قارئین کرام اللہ تبارک وتعالی نے انسان کو بہت عزت عطا فرمائی ہے آج اگر آپ پوری دنیا پر نظر دوڑائیں تو کوئی محلہ،کوئی شہر، کوئی علاقہ قتل و غارت گری سے خالی نہیں ہے آپ جہاں دیکھیں ذرا سے روپے پیسے، زمین کے تھوڑے سے ٹکڑے کو حاصل کرنے کیلئے ایک دوسرے کو بے جا بغیر کسی وجہ کے ناحق قتل کیا جارہا ہے احادیث مبارکہ میں اس کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے آئیے اس کی مذمت سے متعلق احادیث ملاحظہ کرتے ہیں۔

حدیث:حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک موقع پر سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اگر آسمان وزمین کے تمام لوگ کسی ایک مسلمان کو قتل کرنے کیلئے جمع ہو جائیں تو اللہ تعالٰی ان سب کو گنتی اور حساب کے بغیر عذاب دے گا۔ (مجمع الزوائد، کتاب الفتن، حدیث: 12301)

حدیث: حضرت عبداللہ ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک پوری دنیا کا ختم ہو جانا کسی مسلمان کے قتل سے بہتر ہے۔ {سنن نسائی، کتاب المحاربة، حديث: 3992 (مطبوعته الا السلام)}

حدیث: حضرت عبد الله بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے کسی مومن کو ظلم سے ناحق قتل کیا تو رب تعالی اس کی کوئی نفلی اور فرض عبادت قبول نہیں فرمائیگا۔ (ابو داؤد، کتاب الفتن، حدیث: 4270)

حدیث: حضرت مرثد بن عبد الله رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اگرکوئی شخص کسی کو قتل کرنے کے ارتکاب کا حکم دے تو اس کا کیا حکم ہے؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: آگ کے ستر حصےکیے جائینگے تو قتل کا حکم دینے والے کیلئے انہتر (69) حصہ ہونگے اور قتل کرنے والے کا ایک حصہ اور وہی اس کیلئے کافی ہو جائیگا ۔ (مجمع الزوائد، کتابالفتن، حدیث: 12320 كتاب)

حدیث: نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن قاتل مقتول دونوں کو لایا جائیگا تو مقتول کہےگا کہ اے میرے رب اس سے پوچھ اس نے مجھے کس بات پر قتل کیا ؟ قاتل (ایک اور شخص کی طرف اشارہ کر کے) کہے گا کہ مجھے اس نے حکم دیا تھا چنانچہ دونوں کو ہاتھ پکڑ کر انہیں آگ میں پھینک دیا جائیگا۔ (مجمع الزوائد، کتاب الفتن حدیث:23221)

پیارے محترم قارئین کرام یہاں قتل ناحق سے متعلق جو مذمتیں،وعیدات احادیث مبارکہ میں آئی ہیں آپنے چند احادیث ملاحظہ کیں، محترم حضرات! اگر ہم اور دیگر کتب احادیث کا مطالعہ کریں تو ہمیں اس طرح قتل ناحق کی مذمت پر کئی احادیث ملیں گی یہ ایک بہت برا اور الله ورسول کی نافرمانی والا کام ہے آج معاشرے میں اسے بالکل (لا علمی،جہالت،مال و دولت کی ہوس، زمینوں کے کچھ ٹکڑوں وغیرہ کے حصول کیلئے ہلکا سمجھ کر جیسے دیکھیں ایک دوسرے کے خون کا پیاسا نظر آرہا ہے لہذا قرآن و حدیث میں اس فعل(قتل ناحق) کی جو مذمتین بیان کی گئیں انکو پیش نظر رکھتے ہوئے اس فعل بد سے بچنے اللّٰہ کریم ہمیں قرآن وحدیث پر عمل کرنے اور ایسے افعال جو اللہ اور رسول کی نافرمانی و ناراضی والے ہیں ان سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللّٰہ علیہ وسلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


دین اسلام میں ایک انسان کے مال و جان کی اہمیت کو بہت واضح بیان کیا گیا ہے کہ ایک جان جسے اللہ تعالٰی نے پیدا فرمایا تو بقیہ انسانوں کو بھی اس کے حقوق بیان فرماۓ اور اس انسان پر بھی بقیہ انسانوں کے حقوق رکھے تاکہ ہر کوئ حد اعتدال میں رہ کر ایک دوسرے کی ضرورتوں کو پورا کریں اور نظام زندگی چل سکے ۔ تو جس انسان کے وجود سے اللہ تعالیٰ نے نظام زندگی تشکیل دیا ہو تو یقیناً اسے نا حق قتل کرنا بہت عظیم گناہ ہو گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے

مِنْ اَجْلِ ذٰلِكَ ﳎ كَتَبْنَا عَلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اَنَّهٗ مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاؕ-وَ مَنْ اَحْیَاهَا فَكَاَنَّمَاۤ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًاؕ

ترجمہ کنزالایمان :اس سبب سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کے تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیا اور جس نے ایک جان کو جِلالیا اس نے گویا سب لوگوں کو جلالیا

اب چند احادیث مبارکہ سے قتل نا حق کی مذمت سنتے ہیں

(1) عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَزَوَالُالدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَى اللّٰهِ مِنْ قَتْلِ رَجُلٍ مُسْلِمٍ" روایت ہے حضرت عبداﷲ ابن عمرو سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ دنیا کا مٹ جانا اﷲ کے ہاں آسان ہے مسلمان آدمی کے قتل سے۔ مشکوٰۃ المصابیح حدیث نمبر:3462

(2) وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَوْ أَنَّ أَهْلَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ اشْتَرَكُوا فِي دَمِ مُؤْمِنٍ لأَكَبَّهُمُ اللّٰهُ فِي النَّارِ روایت ہے حضرت ابو سعید اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے وہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم سے راوی فرمایا اگر زمین و آسمان والے ایک مسلمان کے قتل میں شریک ہوجائیں 1؎ تو اﷲ تعالٰی انہیں آگ میں اوندھا ڈال دے ۔ (مشکوٰۃ المصابیح , حدیث نمبر:3464)

(3) عَنْ اَبِیْ بَکْرَۃَ نُفَیْعِ بْنِ الْحَارِثِ الثَّقَفِیْ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا الْتَقَی الْمُسْلِمَانِ بِسَیْفَیْہم ا فَالْقَاتِلُ وَالْمَقْتُوْلُ فِی النَّارِ۔ قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللہِ ہَذَا الْقَاتِلُ فَمَا بَالُ الْمَقْتُوْلِ ؟ قَالَ إِنَّہُ کَانَ حَرِیْصًا عَلَی قَتْلِ صَاحِبِہٖ ترجمہ : حضرتِ سَیِّدُنا ابو بکرہ نُفَیْع بن حَارِث ثَقَفِی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ پیکرِ عظمت و شرافت، مَحبوبِ رَبُّ العزت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:’’جب دو مسلمان تلواریں لئے ایک دوسرے پر حملہ آور ہوں توقاتل ومقتول دونوں آگ میں ہیں۔‘‘ (راوی فرماتے ہیں ) میں نے عرض کی :’’ یَا رَسُوْلَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم قاتل تو واقعی اس کاحق دار ہے مگر مقتول کا کیا قصور ہے؟ ‘‘ ارشاد فر مایا:’’ وہ بھی تواپنے مُقابِل کو قتل کرنا چاہتا تھا۔‘‘ (بخاری ، کتاب العلم ، باب وان طائفتان من المؤمنین … الخ ، 1/23 ، حدیث: 31)

شرح حدیث

قاتل ومقتول کب جہنمی ہونگے ؟ حضرتِ سَیِّدُنامُلَّا عَلِی قَارِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْبَارِی مرقاۃ شرحِ مِشْکاۃ میں اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں : حرام فعل کا ارادہ کرنا ان افعال میں سے ہے جن پرمواخذہ ہے۔ اوریہ ( قاتل ومقتول دونوں کے جہنمی ہونے کا حکم ) اس وقت ہے جب دونوں ہی ایک دوسرے کے قتل کے ارادے سے حملہ آور ہوں۔ اگر ان میں سے ایک نے دِفاع کا ارادہ کیا اور اُس کی طرف سے پہل بھی نہ ہوئی مگر صرف دوسرے کے مارنے کی وجہ سے اس نے اس کو قتل کردیاتو اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہوگا،کیونکہ اس کو(اپنی جان بچانے کی) شرعااجازت دی گئی ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح، کتاب الدیات، باب قتل اہل الردۃ ،7/104 تحت الحدیث:3538

(4) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِِ الْعَاصِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم قَالَ : اَلْكَبَائِرُ اَلْاِشْرَاكُ بِاللَّهِ ، وَعُقُوْقُ الْوَالِدَيْنِ ، وَقَتْلُ النَّفْسِ ، وَالْيَمِيْنُ الْغَمُوسُ ترجمہ : حضرت سیدناعبداللہ بن عَمرو بن عاصرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم رؤف رحیمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا : ’’کبیرہ گناہ یہ ہیں :اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا ، والدین کی نافرمانی کرنا ، کسی جان کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی قسم کھانا ۔ ‘‘(فیضان ریاض الصالحین جلد:4 , حدیث نمبر:337)

(5) حضرت براء بن عازب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کاختم ہو جانا ایک مسلمان کے ظلماً قتل سے زیاد سہل ہے۔(ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلماً، 3/261, الحدیث: 2619)

یہ آیت اور احادیث مبارکہ اسلام کی اصل تعلیمات کو واضح کرتی ہے کہ اسلام کس قدر امن و سلامتی کا مذہب ہے اور اسلام کی نظر میں انسانی جان کی کس قدر اہمیت ہے۔ اس سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہئے جو اسلام کی اصل تعلیمات کو پس پُشت ڈال کر دامنِ اسلام پر قتل و غارت گری کے حامی ہونے کا بد نما دھبا لگاتے ہیں اور ان لوگوں کو بھی نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو مسلمان کہلا کر بے قصور لوگوں کو بم دھماکوں اور خود کش حملوں کے ذریعے موت کی نیند سلا کر یہ گمان کرتے ہیں کہ انہوں نے اسلام کی بہت بڑی خدمت سر انجام دے دی۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا شدید ترین کبیرہ گناہ ہے اور کثیر احادیث میں ا س کی بہت مذمت بیان کی گئی ہے، ان میں سے 5احادیث درج ذیل ہیں:

(1)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالٰی: ومن احیاہا، 2 / 853 الحدیث: 8616)

(2)…کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے خسارے کا شکار ہو گا۔ حضرت ابو بکرہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہوجائیں تواللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔(معجم صغیر، باب العین، من اسمہ علی، ص205 ، الجزء الاول)

(3)…حضرت ابو بکرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پرمُصِر تھا۔(بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا۔۔۔ الخ، 1 / 23 الحدیث: 31)

(4)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ’’یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے مایوس ہے۔‘‘(ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلمًا، 3 / 262، الحدیث: 2620)

روایت ہے عبادہ ابن صامت سے فرماتے ہیں کہ فرمایانبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حالانکہ آپ کے آس پاس صحابہ کی جماعت 2؎ تھی کہ مجھ سے اس پر بیعت کرو کہ الله کےساتھ کسی کو شریک نہ کرنا،نہ چوری کرنا اور نہ زنا،نہ اپنی اولاد کو قتل کرنا،نہ اپنے سامنے گھڑا ہوا بہتان لگانا اور کسی اچھی بات میں نافرمانی نہ کرنا تم میں سے جو وفائے عہد کرے گا اس کا ثواب الله کے ذمہ کرم پر ہے اور جوان میں سے کچھ کر بیٹھے اور دنیا میں سزا پالے تو وہ سزا کفارہ ہے اور جو ان میں سے کچھ کرلے،پھر رب اُس کی پردہ پوشی کرے تو وہ الله کے سپرد ہے۔اگر چاہے معافی دے دے چاہے سزا دے لہذا ہم نے اس پر آپ سے بیعت کی۔( کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:18)

اللہ تعالیٰ ہمیں قتل نا حق سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔