آج ہمارے معاشرے میں پھیلنے والے گناہوں میں سے ایک بڑا گناہ قتلِ ناحق بھی ہے ۔قتل ناحق کبھی تو جاٸیداد کی وجہ سے کیا جاتا ہے تو کبھی زبان,رنگ,نسل کی وجہ سے ہوتا ہے ۔کبھی علاقاٸ تعصب تو کبھی سیاسی وجوہات قتلِ ناحق کی وجہ ہوتی ہے ۔دین اسلام نے انسانی جان کو بہت عزت اور عظمت دی ہے ۔جہاں دین اسلام نے انسانی جان کی عزت و عظمت بیان کی ہے وہیں انسانی جان کی بے حرمتی اور اسکو ناحق قتل کرنے کی شدید وعیدیں بھی بیان کی ہیں ۔چنانچہ قرآن مجید میں اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا:وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا۔

ترجمہ کنزالعرفان:اور جو کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کردے تو اس کا بدلہ جہنم ہے عرصہ دراز تک اس میں رہے گا اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔(النساء آیت 93)

احادیث طیبہ میں بھی قتلِ ناحق کی کٸ وعیدیں بیان کی گٸ ہیں ۔جن میں سے 5 درج ذیل ہیں۔

(1)قیامت کے دن سب سے پہلے فیصلہ:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:-أَوَّلُ مَا يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ فِي الدِّمَاءِ.(البخاری 6864)ترجمہ:لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خون کے بارے میں فیصلہ کیا جاۓ گا۔

حکیم الامت مفتی احمد یار خان (علیہ رحمة رحمة الحنان) نے اس حدیث پاک کے تحت فرمایا:یعنی قیامت کے دن معاملات میں سب سے پہلے خون ناحق کا فیصلہ ہوگا بعد میں دوسرے فیصلےاورعبادات میں پہلے نماز کا حساب ہوگا بعد میں دوسرے حسابات ہوں گے لہذا یہ حدیث اس حدیث کے خلاف نہیں کہ قیامت کے دن پہلے نماز کاحساب ہوگا کہ یہ حدیث معاملات کے متعلق ہے اوروہ حدیث عبادات کے بارے میں۔(مراة المناجیح 232/5)

(2)بڑے گناہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:الْكَبَائِرُ الْإِشْرَاكُ بِاللهِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ، وَقَتْلُ النَّفْسِ (البخاری 6675)ترجمہ:بڑے گناہوں میں سے اللہ عزوجل کے کے ساتھ کسی ک شریک کرنا ,اور والدین کی نافرمانی کرنا اور (ناحق) قتل کرنا ۔

(3)قاتل مقتول دونوں جہنم میں: حضرت ابو بکرہ (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے،رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا:إِنَّهُ كَانَ حَرِيصًا عَلَى قَتْلِ صَاحِبِهِ یعنی :اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پرمُصِر تھا۔ (البخاری 31)

4)رحمت الہیٰ سے مایوس: حضرت ابوھریرہ (رضی اللہ عنہ) سے سےمروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مَنْ أَعَانَ عَلَى قَتْلِ مُؤْمِنٍ شَطْرَ كَلِمَةٍ لَقِيَ اللّٰهَ مَكْتُوبٌ بينَ عينيهِ: آيسٌ مِنْ رَحْمَةِ اللّٰهِ ۔(ابن ماجہ 2620)جس شخص نے آدھے کلمہ کے ذریعے بھی کسی مسلمان کے قتل پر مدد کی وہ اللہ عزوجل سے اس حالت میں ملے گا کہ اسکی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوگا کہ یہ شخص رحمتِ الٰہی سے مایوس ہے ۔

حکیم الامت مفتی احمد یار خان (علیہ رحمة رحمة الحنان) نے اس حدیث پاک کے تحت فرمایا:یعنی جس شخص نے کسی سےاقتل امر کا آدھا کلمہاُق بھی کہہ دیا اور قاتل نے اس مسلمان کو قتل کردیا تو مرتے وقت یا قبر میں یا قیامت میں اس کی پیشانی پر لکھا ہوگا کہ یہ شخص اﷲ کی رحمت سے مایوس ہے،اس طرح تمام قیامت میں بدنام ہو جائے گا،خیال رہے کہ حضور کی امت کی قیامت میں ضرور پردہ پوشی ہوگی مگر جو بندہ دنیا میں خود ہی علانیہ گناہ کرتا رہا ہو اس کی پردہ پوشی نہ ہوگی کہ اس نے خود اپنی پردہ دری کی۔ (مراة المناجیح 250/5 ملتقطا)

5)مسلمان ک جان کی اہمیت : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :لَزَوَالُ الدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَى اللّٰهِ مِنْ قَتْلِ رَجُلٍ مُسْلِمٍ (نساٸ3987)

دنیا کا مٹ جانا اﷲ کے ہاں آسان ہے مسلمان آدمی کے قتل سے : حکیم الامت مفتی احمد یار خان (علیہ رحمة رحمة الحنان) نے اس حدیث پاک کے تحت فرمایا:یہاں مسلم سے مراد مرد مؤمن عارف باﷲ ہے یعنی ایک عارف باﷲ کا قتل ساری دنیا کی بربادی سے سخت تر ہے کیونکہ دنیا عارفین ہی کے لیے تو بنی ہے تاکہ وہ اس میں غوروفکر کرکے عرفان میں اضافہ کردیں اور یہاں اعمال کرکے آخرت میں کمال حاصل کریں،دولہا کی ہلاکت بارات کی ہلاکت سے سخت تر ہے کہ مقصود برات وہ ہی ہے۔(مراة المناجیح 241/5)

قتل ناحق کا حکم:اگر مسلمانو ں کے قتل کو حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب کیا تو یہ خود کفر ہے اور ایسا شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور قتل کو حرام ہی سمجھا لیکن پھر بھی اس کا ارتکاب کیا تب یہ گناہ کبیرہ ہے اور ایسا شخص مدت ِ دراز تک جہنم میں رہے گا۔(صراط الجنان تحت سورہ نساء آیت 93)

اللہ کریم ہمیں علم دین حاصل کرنے کی توفیق عطا فرماۓ ۔اور مسلمانوں کی عزت و حرمت کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرماۓ ۔آمین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔