اسلام دین فطرت ہے. کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا خلافِ فطرت سلیمہ ہے. لہذا اسلام نے قتل ناحق کی شدید مذمت کی ہے چنانچہ الله پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا ترجمہ کنز الایمان اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے تیار رکھا بڑا عذاب ۔ (النساء آیت نمبر 93)

قرآن مجید کے علاوہ کئی احادیث کریمہ بھی ایسی ہیں جو قتل ناحق کی مذمت پر دال ہیں چنانچہ

قتل کب جائز ہے: " الله پاک کی آخری نبی محمّد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کسی مسلمان کا جو اللہ کے ایک ہونے کی اور میرے رسول ہونے کی شہادت دیتا ہو ، خون بہانا حلال نہیں مگر تین حالتوں میں، ایک یہ کہ اس نے کسی کو قتل کردیا ہو، دوسرا شادی شدہ ہو کر زنا کیا ہو، تیسرادین اسلام کو چھوڑ دینے والا ، جماعت سے علیحدہ ہونے والا۔“ (صحيح البخاري 9 / 5، كتاب الديات،دار طوق النجاة)

دنیا کے مٹ جانے سے بڑا سانحہ : حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی بھی شخص کے قتلِ نا حق کو دنیا کے مٹ جانے سے بڑا سانحہ قرار دیا ہے: لَزَوَالُ الدُّنْيَا جَمِيْعًا أَهْوَنُ عِنْدَ اﷲِ مِنْ سَفْکِ دَمٍ بِغَيْرِ حَقٍّ. ﷲ تعالیٰ کے نزدیک پوری کائنات کا ختم ہو جانا بھی کسی شخص کے قتلِ ناحق سے ہلکا ہے۔ (ابن أبي الدنيا، الأهوال: 190، رقم:183)

عبادت قبول نہ ہو: جو شخص کسی مسلمان کو ناحق قتل کرتا ہے اس کی کوئی عبادت قبول نہیں ہو گی چاہے فرض ہو یا نفل.

چنانچہ حضرت عبد ﷲ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ قَتَلَ مُوْمِنًا فَاعْتَبَطَ بِقَتْلِهِ لَمْ يَقْبَلِ اﷲُ مِنْهُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا. جس شخص نے کسی مومن کو ظلم سے ناحق قتل کیا تو اﷲ تعالیٰ اس کی کوئی نفلی اور فرض عبادت قبول نہیں فرمائے گا۔ (أبو داود، السنن، کتاب الفتن والملاحم، باب تعظيم قتل المؤمن، 4: 103، رقم: 4270)

مقتول قاتل کو گریبان سے پکڑے گا : ایک حدیث مبارکہ میں ہے کہ :بارگاہِ الٰہی میں مقتول اپنے قاتل کو پکڑے ہوئے حاضر ہوگا جبکہ اس کی گردن کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا، وہ عرض کرے گا: اے میرے پروردگار! اس سے پوچھ، اس نے مجھے کیوں قتل کیا؟ اللہ پاک قاتل سے دریافت فرمائے گا: تُونے اسے کیوں قتل کیا؟وہ عرض کرے گا: میں نے اسے فلاں کی عزّت کے لئے قتل کیا، اسے کہا جائے گا: عزّت تو اللہ ہی کے لئے ہے۔ (معجم اوسط،ج 1،ص224، حدیث:766)

سب سے پہلے قتل نا حق کا فیصلہ: بروز محشر سب سے پہلے قتل کا فیصلہ کیا جائے گا چنانچہ فرمان آخری نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ و سلم ہے قیامت کے دن سب سے پہلے خون ِناحق کے بارے میں لوگوں کے درمیان فیصلہ کیا جائے گا۔(مسلم، ص711، حدیث: 4381)

حکیم الامت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنَّان لکھتے ہیں: خیال رہے کہ عبادات میں پہلے نماز کا حساب ہوگا اور حقوق العباد میں پہلے قتل و خون کا یا نیکیوں میں پہلے نماز کا حساب ہے اور گناہوں میں پہلے قتل کا۔(مراٰۃ المناجیح،ج2ص307،306)

ہمارا معاشرہ جہاں دیگر بہت سی برائیوں کی لپیٹ میں ہے وہی قتلِ ناحق بھی معاشرے میں بڑھتا جا رہا ہے، ذرا سی بات پر جھگڑا کیا ہوا اور نادان فوراً ہی قتل پر اتر آتے ہیں. وراثت کی تقسیم پر جھگڑا، بچوں کی لڑائی پر جھگڑا، جانور دوسرے کی زمین سے کچھ نقصان کر دے تو جھگڑا، کسی کی کار یا موٹر سائیکل سے ٹکر ہو جائے اگرچہ نقصان کچھ بھی نہ ہو پھر بھی جھگڑا. ایسا لگتا ہے کہ زمانہ جاہلیت واپس آ چکا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات پر عمل کریں. اپنے اندر صبر، حوصلہ اور برداشت کا جذبہ پیدا کریں،

خوف خدا، عشق مصطفیٰ اور جہنم کا ڈر اگر ہر دل میں پیدا ہو جائے تو معاشرے کو اس مرضِ کریہہ سے نکلنے میں دیر نہیں لگے گی.

اللہ تعالیٰ ہمارے معاشرے سے اس لعنت کا خاتمہ فرمائے آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ و سلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔