کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنا کبیرہ گناہوں میں شدید ترین گناہ ہے، اس پر قرآن وحدیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، مسلمان کو ناحق قتل کرنے میں جہاں اللہ تعالیٰ کے حکم کی پامالی اور اس کی نافرمانی ہے جو حقوق اللہ میں سے ہے، وہاں اس میں ایک مسلمان کو قتل کرنا، اس سے اس کو اور اس کے لواحقین کو تکلیف پہنچانا یہ ”حقوق العباد“ سے تعلق رکھتا ہے، شریعت نے اس پر سزائیں مقرر کی ہیں۔یہ حکم ہر اس شخص کے لیے جو ناحق کسی مسلمان کے قتل میں ملوث ہو۔

حدیث شریف میں ہے :عن عبد الله، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لايحل دم امرئ مسلم، يشهد أن لا إله إلا الله وأني رسول الله، إلا بإحدى ثلاث: النفس بالنفس، والثيب الزاني، والمارق من الدين التارك للجماعة (صحيح البخاري 9 / 5، كتاب الديات، ط: دار طوق النجاة)

ترجمہ: کسی مسلمان کا جو اللہ کی ایک ہونے کی اور میرے رسول ہونے کی شہادت دیتا ہو ، خون بہانا حلال نہیں مگر تین حالتوں میں، ایک یہ کہ اس نے کسی کو قتل کردیا ہو، دوسرا شادی شدہ ہو کر زنا کیا ہو، تیسرادین اسلام کو چھوڑ دینے والا ، جماعت سے علیحدہ ہونے والا۔“

یہ بھی ملحوظ رہے کہ جب ان تینوں کاموں میں سے کوئی کام کسی سے واقع ہوجائے تواس کی سزا کا اجرا حکومت کا کام ہے، ہرکس و ناکس اس طرح کی سزا جاری کرنے کا مجاز نہیں ہے۔نیز احادیثِ مبارکہ میں اس پر بہت سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔

عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من أعان على قتل مؤمن و لو بشطر كلمة، لقي الله عز وجل مكتوب بين عينيه: آيس من رحمة الله۔ (سنن ابن ماجه 2 / 874،باب التغليظ في قتل مسلم ظلما، ط: دار إحياء الكتب العربية)

ترجمہ: حضرت ابو ہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے کسی مسلمان کے قتل میں آدھے کلمے سے بھی اعانت کی وہ قیامت کے دن اللہ کے سامنے اس حالت میں آئے گا اس کی پیشانی میں لکھاہا ہوگا کہ:” یہ شخص اللہ کی رحمت سے محروم ہے۔

اور ”حديث أبي الفضل الزهري“ میں ان الفاظ کے ساتھ مروی ہے:"عن نافع، عن ابن عمر، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لو أن الثقلين اجتمعوا على قتل مؤمن لأكبهم الله يوم القيامة على وجوههم في النار، وما من أحد يشترك بشطر كلمة في قتل مؤمن إلا كتب بين عينيه آيس من رحمة الله، إن الله تعالى حرم الجنة على القاتل والآمر»(حديث أبي الفضل الزهري (1 / 479)،ط: أضواء السلف، الرياض)

ترجمہ: حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : ”اگر تمام روئے زمین کے اور آسمان کے لوگ کسی ایک مسلمان کے قتل میں شریک ہوں تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دےگا، اورجس شخص نے کسی مسلمان کے قتل میں آدھے کلمے سے بھی اعانت کی وہ قیامت کے دن اللہ کے سامنے اس حالت میں آئے گا اس کی پیشانی میں لکھاہا ہوگا کہ:” یہ شخص اللہ کی رحمت سے محروم ہے۔“(وکذا فی تفسیر ابن کثیر، سورة النساء، ط: دار الكتب العلمية)

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کسی کو ناحق قتل کرنے پر بہت سخت وعیدیں ارشاد فرمائیں ہمیں اور اور امت کو اس سنگین گناہ سے باز رہنے کی بار بار تلقین فرمائی ہے

حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’کبیرہ گناہوں میں سے سب سے بڑے گناہ یہ ہیں: اﷲ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، کسی انسان کو قتل کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی بات کہنا۔‘‘

(بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالٰی: ومن احیاہا، 4/ 358، الحدیث: 4871)

حجۃ الوداع کے موقع پر آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری آبرو ایک دوسرے کے لیے ایسی ہی حرمت رکھتی ہیں جیسے تمہارے اس مہینے (ذی الحجہ) میں تمہارے اس شہر (مکہ مکرمہ) اور تمہارے اس دن کی حرمت ہے۔ تم سب اپنے پروردگار سے جاکر ملو گے، پھر وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں پوچھے گا۔ لہٰذا میرے بعد پلٹ کر ایسے کافر یا گم راہ نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔‘‘ (بخاری، الصحيح، کتاب الحج، 2: 620، رقم: 1654)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:روزِ قیامت مقتول قاتل کو لے کر آئے گا اس(قاتل)کی پیشانی اور اس کا سر مقتول کے ہاتھ میں ہوگا اور اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہوگا، وہ کہے گا : اے میرے رب! اس نے مجھے کیوں قتل کیا؟ حتیٰ کہ وہ اسے عرش کے قریب لے جائے گا۔(جامع الترمذی، ج 2، حدیث نمبر 2955)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: روز قیامت لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خونوں کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔ (بخاري، الصحيح، کتاب الديات، باب ومن يقتل مؤمنا متعمدا، 6: 2517، رقم: 6471)

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جس شخص نے کسی مومن کو ظلم سے (ناحق) قتل کیا تو اللہ تعالیٰ اس کی کوئی نفلی اور فرض عبادت قبول نہیں فرمائے گا۔‘‘(أبو داود، السنن، کتاب الفتن والملاحم، باب تعظيم قتل المؤمن، 4: 103، رقم: 4270)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص نیزے سے اپنے بھائی کی طرف اشارہ کرے، فرشتے اس پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔(مشكوة المصابيح/كتاب القصاص/حدیث: 3519)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہلاک کرنے والے وہ امور کہ جن میں پھنسنے کے بعد نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہوگا، ان میں سے ایک وہ ناحق خون کرنا ہے، جس کو اللہ تعالی نے حرام کیا ہے۔ (صحیح البخاری، کتاب الدیات، ومن قتل مومنا متعمدا فجزاءہ جہنم،6/2517 رقم 6470)

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


مسلمان کا کسی کو ناحق قتل کرنا یہ کبیرہ گناھوں میں سے ہے۔ ناحق قتل کے متعلق علامہ محمد بن علان شافعی علیہ رحمہ اللہ القوی فرماتے ہیں حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کی اولاد میں سب سے پہلا قتل قابیل اور سب سے پہلا مقتول ہابیل ہے۔ قابیل وہ پہلا شخص ہے جس نے دنیا میں اپنے بھائی ھابیل کو قتل کیا اب جو بھی اس کے بعد ( نا حق قتل کرے گا. وہ اس کی اقتداء کرنے والا ھو گا۔ اب دور حاضر میں بھی ناحق قتل ھو رہے ہیں، ناحق قتل کے متعلق حضور علیہ السلام کے کثیر فرامین ہیں۔ جن میں سے چند ایک یہ ہیں .

(1) قیامت کے دن قاتل کو ہزار مرتبہ قتل: حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بروز قیامت قاتل کو ہزار مرتبہ قتل کیا جائے گا عاصم بن ابی النجود رضی اللہ عنہ نے کہا اے ابو زرعہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا جس آلہ سے اس نے قتل کیا اسکی بزار ضر بیں : کتاب الفتن جلد (8) صفحہ (644) حدیث (330)

(2).قاتل و مقتول دونوں آگے ہیں ۔ حضرت سیدنا ابوبکر نفیع بن حارث ثقفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ پیکر عظمت و شرافت محبوب رب العزت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب دو مسلمان تلواریں لئے ایک دوسرے پر حملہ آور ہوں تو قاتل و مقتول دونوں آگ میں ہیں۔ (راوی فرماتے ہیں )میں نے عرض کی یارسول الله صلی اللہ علیہ وسلم قائل تو واقعی اس کا حقدار ہے مگر مقتول کا کیا قصور ہے؟۔ ارشاد فرمایا وہ بھی اپنے مقابل کو قتل کرنا چاہتا تھا ۔ (۔ بخاری کتاب العلم باب وان طائفتان من المومنين ج (1)ص( 23) حدیث( 31)

(3) مومن کا قتل دنیا کے زوال سے بڑھ کر حضرت سیدنا عبد الله بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ شہنشاہ خوش خصال پیکر حسن و جمال صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ عزوجل کے نزدیک ایک مومن کا قتل دنیا کے زوال سے بڑھ کر ہے۔ ۔ترمذی کتاب الدیات باب ما جاء فی تشدید قتل مؤمن جلد(3) صفحہ (98) حدیث (1400)

(4) ظلما قتل کس کے حصے میں ہے . حضرت سیدنا عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جسے بھی ظلما قتل کیا جاتا ہے۔ تو حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کے پہلے بیٹے کے حصے میں بھی اس کا خون ہوتا ہے۔ کیونکہ اس نے سب سے پہلے قتل کو ایجاد کیا ۔ بخاری کتاب الاعتصام ج (4 )ص(513)حدیث (7321)

(5). دین کی کشادگی اور وسعت میں رکاوٹ قتل ناحق . حضرت سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ سرکار نامدار مدینے کے تاجدار صلی اللہ علیہ سلم نے ارشاد فرمایا مومن ہمیشہ اپنے دین کی وسعت اور کشادگی میں رہتا ہے۔ جب تک کہ وہ قتل ناحق قتل نہ کرے۔ بخاری کتاب الديات ج (4) ص(356)حدیث )6862)

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا شدید ترین کبیرہ گناہ ناجائز و حرام ہے اور کثیر احادیث میں ا س کی بہت مذمت بیان کی گئی ہے، ان میں سے 5احادیث درج ذیل ہیں:

(1)…کبیرہ گناہ-حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالٰی: ومن احیاہا، 2 / 387، الحدیث: 6871)

(2-بڑے خسارے کا شکار:حضرت ابو بکرہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہوجائیں تواللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔(معجم صغیر، باب العین، من اسمہ علی، ص205 ، الجزء الاول)

(3 جہنم میں داخلہ حضرت ابو بکرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پرمُصِر تھا۔(بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا۔۔۔ الخ، 1/23 الحدیث: 31)

(4) اللہ کی رحمت سے مایوس ؛-حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ’’یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے مایوس ہے۔‘‘(ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلمًا، 3/ 263 الحدیث: 2620)"

5- نا حق خون حلال نہیں:حضور صلی الله عليه وسلم کا ارشاد ہے کسی مسلمان کا جو اللہ کی ایک ہونے کی اور میرے رسول ہونے کی شہادت دیتا ہو ، خون بہانا حلال نہیں مگر تین حالتوں میں، ایک یہ کہ اس نے کسی کو قتل کردیا ہو، دوسرا شادی شدہ ہو کر زنا کیا ہو، تیسرادین اسلام کو چھوڑ دینے والا ، جماعت سے علیحدہ ہونے والا۔“صحيح البخاري 9 / 5، كتاب الديات، ط: دار طوق النجاة)

افسوس کہ آج کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہوگیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینا، غنڈہ گردی، دہشت گردی، ڈکیتی، خاندانی لڑائی، تَعَصُّب والی لڑائیاں عام ہیں۔ مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے، گروپ اور جتھے اور عسکری وِنگ بنے ہوئے ہیں جن کا کام ہی قتل و غارتگری کرنا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں قتل ناحق سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


ابھی ہم انشاءاللہ ناحق قتل کرنے پہ پڑھنے کی سعادت حاصل کریں گے کیونکہ اسلام کی تعلیمات میں انسانی جان کی حرمت بہت زیادہ ہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو ایک دوسرے کا احترام کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ مگر بد قسمتی سے آج ہمارہ معاشرہ سینکڑوں برائیوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم نے اجتماعی طور پر خود کو شریعت سے دور کر لیا ہے۔ اگرچہ انفرادی طور پر ہمارے معاشرے میں اب بھی خیر موجود ہے۔معاشرتی طور پر جو برائیاں اور جرائم عروج پکڑ رہے ہیں ، اُن میں ایک کسی انسان کو ناحق قتل کرنا بھی ہے۔ اب لوگوں کے ہاں کسی دوسرے کو قتل کرنا معمولی ہوتا جارہا ہے۔ شاید ہی کوئی دن ہو جس دن ملک کے اندر لوگوں کی ایک تعداد قتل نہ ہو رہی ہو۔ میڈیا، سوشل میڈیا اور اخبارات کے ذریعہ روزانہ کی بنیاد پر قتل کی خبریں ملتی ہیں۔ حالانکہ قرآن و حدیث میں اسے شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ شمار کیا گیا اوراس کی حرمت پر کثیر آیات و احادیث وارد ہیں۔

میرے عزیز یاد رکھ!

اسلام اپنے ماننے والوں کو محبت ، اخوت، تحمل و برداشت اور عزت و احترام کا درس دیتا ہے۔ اسلام میں انسانی جان کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ اور اہمیت کیوں نہ ہو کہ انسان ہی تو خلیفۃ الارض ہے۔دنیا میں رہنے والے وہ تمام افراد جو اسلام کو ماننے والے ہیں۔ اللہ اور اُس کے رسول صلى الله عَلَيْهِ وَالہ وسلم نے انھیں ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا ہے۔ اب وہ ایک ہی جگہ رہتے ہوں یا ان میں سے ایک مشرق میں اور دوسرا مغرب میں ہو پھر بھی وہ بھائی چارگی کے رشتہ میں قائم ہیں مگر ہم اس چیز کو نہیں سمجھ رہے آپ نے کٸ مرتبہ سنا اور پڑھا ہو گا کہ کعبہ بہت عظمت والا ہے اس کی بڑی شان ہے مگر یہاں پہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں:

رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يَطُوفُ بِالْكَعْبَةِ، وَيَقُولُ: مَا أطيبك وأطيب رِيحَكِ، مَا أَعْظَمَكِ وأعظم حرمتك، والذي نفس محمد بِيَدِهِ، لَحُرْمَةُ الْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ عِندَ اللهِ حُرْمَةً مِنْكِ، مَالِهِ، وَدَمِهِ، وَأَنْ تَظُنُّ بِهِ إلا خيرا.میں نے رسول الله صلى الله عَلَيْهِ وآلہ وسلم کو کعبة اللہ کا طواف کرتے دیکھا اور اس حال میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرما رہے تھے: (اے کعبہ !) تو کتنا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پاکیزہ ہے۔ تو کتنا عظیم ہے اور تیری حرمت کتنی عظمت والی ہے۔ اُس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں محمد صلى الله عَلَيْهِ وَالِهِ وَسلم کی جان ہے، اللہ کےنزدیک مومن کے مال و خون کی حرمت تیری حرمت سے کہیں زیادہ ہے۔ اور ہمیں مومن کے ساتھ اچھا گمان ہی رکھنا چاہیے۔ ابن ماجه، السنن، ج 3، ابواب الفتن، الرقم: 3961

اب دیکھیں یہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم مومن کے خون کی حرمت کو کعبہ کی حرمت سے بھی زیادہ فرمارہے ہے اور ایک ہم ہے کہ ہم ناحق قتل کرتے ہے۔پوری دنیا اگر ایک ہی لمحے میں تباہ ہو جائے تو یہ تصور ہی انسان کو اندر سے ہلانے کے لیے کافی ہے۔ اور اللہ کے نزدیک اس پوری دنیا کا تباہ ہو جانا کسی انسان کے ناحق قتل سے زیادہ ہلکا ہے۔

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ سرور کونین صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان عبرت نشان ہے:

لزوال الدُّنيا أَهُونُ عَلَى اللَّهِ مِنْ قَبْلِ مُؤْمِنٍ بغير حق. ساری دنیا کا تباہ ہو جانا اللہ کے نزدیک مومن کے ناحق قتل سے زیادہ ہلکا ہے۔ قزويني، السنن ، ج 3 ، كتاب الديات ، الرقم : 2628

اور ہم جو عبادات و ریاضات کرتے ہے اس کی کیا وجہ ہے بس یہی کہ اللہ پاک اس کو اپنی بارگاہ میں قبول فرما لیں جبکہ ہم جب ناحق قتل کرتے ہے تو اس پراپنی واہ واہ چاہ رہے ہوتے ہے اوراس قتل پہ خوش بھی ہو رہے ہوتے ہے جبکہ کسی

مومن کا ناحق قتل اتنا بڑا گناہ ہے کہ اللہ رب العزت قاتل کی عبادات قبول نہیں کرتا۔

چنانچہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ انھوں نے رسول الله صلى الله علیہ والہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:من قتل مؤمناً، فاغتبط بقتله، لم يقبل الله منه صرفاً ولا عدلاً. جس نے کسی مومن کو قتل کیا اور پھر اس کے قتل پر خوش ہوا، اللہ تعالیٰ اس کی فرض اور نفلی عبادت قبول نہیں کرے گا۔ سجستانی، السنن، ج 6، کتاب الفتن، الرقم : 4221

تو ہمیں ان احادیث سے پتہ چلا کہ ناحق قتل کرنے سے ہماری عبادات قبول نہیں کی جائے گی۔ ناحق قتل کرنا ساری دنیا کے تباہ ہو جانے سے بھی زیادہ سخت ہے۔ اور کعبتہ اللہ کی بہت زیادہ شان و عظمت ہے مگر مومن کی عظمت اس سے بھی زیادہ ہے اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہم سب کو ناحق قتل کرنے سے محفوظ رکھے۔آمین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو مسلمان شخص یہ گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں تو اس کا خون (یعنی قتل کرنا) فقط تین صورتوں کی وجہ سے حلال ہے، جان کے بدلے جان (قاتل کو قتل کرنا)، شادی شدہ زانی اور دین سے مرتد ہو کر جماعت چھوڑنے والا‘‘(صحیح البخاری 6878)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد نے فرمایا: ’’اگر تمام آسمان اور زمین والے ایک مومن کے خون میں شریک ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو جہنم میں ڈال دے گا‘‘(صحیح الترمذی : 139)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مومن اس وقت تک اپنے دین کے بارے میں برابر کشادہ رہتا ہے (اسے ہر وقت مغفرت کی امید رہتی ہے) جب تک ناحق خون نہ کرے جہاں ناحق کیا تو مغفرت کا دروازہ تنگ ہو جاتا ہے۔ (صحیح البخاری 6862)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہلاک کرنے والے وہ امور کہ جن میں پھنسنے کے بعد نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہوگا، ان میں سے ایک وہ ناحق خون کرنا ہے، جس کو اللہ تعالی نے حرام کیا ہے۔ (صحیح البخاری 6863)

رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی دوسرے پر اسلحہ تاننے سے ہی نہیں بلکہ عمومی حالات میں اسلحہ کی نمائش کو بھی ممنوع قرار دیا، حضرت جابر اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ننگی تلوار لینے دینے سے منع فرمایا(صحیح الترمذی: 2163)

حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا: میرے بعد ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ کر کافر نہ بن جانا (صحیح البخاری: 7080)،

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میدانِ عرفات میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: بلا شبہ تمہارے خون اور تمہارے مال آپس میں ایک دوسرے پر حرام ہیں، جیسا کہ آج کے دن کی بے حرمتی تمہارے اس مہینے میں، تمہارے اس شہر میں حرام ہے (صحیح البخاری : 1739)۔

ابن ابی لیلیٰ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مسلمان کے لئے یہ لائق نہیں کہ وہ کسی مسلمان کو خوف زدہ کرے (صحیح بی داد 5004)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک پوری دنیا کا زوال و تباہی ایک مسلمان کے قتل سے کم تر ہے، یعنی ساری دنیا تباہ ہو جائے، یہ اللہ کے ہاں چھوٹا عمل ہے بہ نسبت اس کے کہ ایک مسلمان کو قتل کیا جائے‘‘(صحیح الترمذی : 1395)

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! البتہ مومن کا (ناحق) قتل اللہ تعالیٰ کے ہاں ساری دنیا کی تباہی سے زیادہ ہولناک ہے (صحیح النسائی: 3997)۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص نیزے سے اپنے بھائی کی طرف اشارہ کرے، فرشتے اس پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں، حتی کہ وہ اسے رکھ دے (صحیح مسلم 2616)۔

اللہ پاک ہم سب کو صراط مستقیم پہ چلنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم ایک دوسرے کی جان و مال کے محافظ بن جائیں (آمین)۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


پیارے پیارے اسلامی بھائیوں یاد رکھو کسی کو بھی مسلمان کانا حق خون بہا نے کی قطعا اجازت نہیں ہے ایسے تمام لوگوں کے لئےلمحہ فکر یہ ہے جو مسلمانوں کا ناحق خون بہاتے ہیں چھوٹی چھوٹی باتوں پر بلاوجہ ناحق قتل کرنا ان کی عادت بن چکی ہے مسلمانوں کی جان سے کھیلنے کا کوئی موقع وہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے طلب مال ، مقام و مرتبے اور عہدہ پانے کے لیے بھی کسی کی جان کی پرواہ تک نہیں کرتے قرآن و سنت دونوں میں مسلمانوں کی عزت وحرمت کو واضح طور پر بیان فرما یا گیا ہے ۔

چنا نچہ قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد ہوتا ہے ترجمہ کنز الایمان. اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیے تیار رکھا بڑاعذاب۔ (پ 5. نساء – 93)

کسی بھی مسلمان کا ناحق خون بہانے احادیث میں شدید مذمت بیان کی گئی ہے۔ (1)فرمان مصطفے صلی اللہ علیہ الیہ اسلم ہلاکت میں ڈالنے والے سات گنا ہوں سے بچتے رہو اور وہ یہ ہیں -1- الله عز وجل کا شریک ٹھہرانا (2) جادو کرنا (3) الله عزوجل کی حرام کردہ جان کو ناحق قتل کرنا ہے ۔ (4)یتیم کا مال کھانا (5) سودکھانا (6) جہار کے دن میدان سے فرار ہونا (7)سیدھی سادی پاک دامن مومن عورتوں پر زنا کی تہمت لگانا۔۔۔۔(فیضانِ ریاض الصالحین)

(2)فرمان مصطفے صلی اللہ علیہ والہ وسلم کہ کبیرہ گناہ یہ ہیں۔، اللہ پاک کے ساتھ کسی کو شریک کرنا (2) والدین کی. نافرمانی کرنا ہو) کسی جان کاناحق قتل کرنا۔۔۔۔(بخاری کتابالوصا ،باب قول اللہ تعالی 242/2 حدیث ۔ 2766 )

(3)فرمان مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم: کہ کبیرہ گناہوں میں سب - پہلے بڑے گناہ۔(1) اللہ پاک کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا

(2)سود اور یتیم کا مال کھاتا ہے (3) مومن کر نا حق قتل کرنا۔ فیضانِ ریاض الصالحین ۔ مسلم کتاب الایمان بابالکبائر واکبرھا ص 60 حدیث 88 )

(بلاوجہ عمداقتل کرنے کی ممانعت)

(4) حضور نبی کریم رؤف رحیم صلی الله علیہ و سلم

نے حضرت سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ سے بار بار فرمایا کہ کیا تم نے اسے

لا اله الا اللہ کہنے کے بعد قتل کر دیا. اس معلوم ہوا کہ

اللہ یا ک اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نزدیک کسی بھی مسلمان کو بلا وجہ جان بوجھ کر قتل کرنا بہت بڑا گنا ہے۔

(فیضان ریاض صالحین) ( ص326)

(5) تاجدار رسالت ، شہنشاہ نبوت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اہل یمن کی طرف اپنے مبارک پیغام میں تحریر فرمایا بروز قیامت اللہ پاک کے نزدیک سب سے بڑا گناہ اس کے ساتھ شریک ٹھہرانا اور کسی مومن کو ناحق قتل کرنا

الا حسان بترتیب صحیح ابن حبان کتاب التاریخ باب کتب اپنی صلی اللہ یہ سلم الحدیث 7625 ج8 ص 180

(6)حضور پاک صاحب لولاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرماں ہدایت نشان ہے۔

مومن اپنے دین کے معاملہ میں ہمیشہ کشادگی میں رہتا ہے جب تک وہ نا حق خون نہیں باتا. (صحیح البخاری، کتاب الديات الخ الحدیث 636ص572)

(7)نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اُمید ہے کہ اللہ پاک

ہر گناہ بخش دے گا سوائے اس شخص کے جو حالت

کفر میں میرے یا مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے

( سنن النسائی، کتاب المحاربہ باب تحریم الدم الحدیث 1989 میں 2349)

ترغیب ۔پیارے پیارے اسلامی بھائیوں ہمیں بھی چاہیے کہ ہم بھی ناحق قتل کرنے والوں اور خودبھی الله پاک سے ڈرتے ہوئے اس طرح كے کاموں سے باز رہے الله پاک ہمیں ہرگناہ اور ناحق قتل کرنے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائیں ۔ امین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


پیارے اسلامی بھائیوں! الله پاک ہمیں علم دین سیکھنے کی توفیق عطا فرمائے- جس طرح ہم بہت سے گناہوں میں علم دین نہ سیکھنے کی وجہ سے مبتلا ہو جاتے ہیں اسی طرح قتل ناحق ہونے کی بھی بہت بڑی وجہ علم دین سے دوری ہے- افسوس کہ آج کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہوگیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر قتل کرنا،غنڈہ گردی،دہشت گردی،ڈکیتی ،خاندانی لڑائی ،تعصب والی لڑائیاں عام ہیں۔ مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے ,گروپ اور جتھے اور عسکری ونگ بنے ہوئے ہیں جن کا کام ہی قتل و غارت گری کرنا ہے۔

یاد رہے کہ قتل ناحق حرام، سخت ترین کبیرہ گناہ ہے اور گناہ نہ سمجھتے ہوئے ناحق قتل کیا جائے تو کفر ہے

احادیث میں کثرت سے قتل ناحق کی بہت سخت وعیدیں آںٔی ہیں ان احادیث میں سے چند ذیل میں درج کی گئی ہیں:

1)حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے تاجدار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو (ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری ،کتاب الدیات ،باب قول اللہ تعالی ومن احیاھا،358/4, الحدیث:6871, دار الکتب العلمیہ 1419ھ)

2)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالی کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی آنکھوں کے درمیان لکھا ہوگا" یہ اللہ عزوجل کی رحمت سے مایوس ہے-" (ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلما, 262/3, الحدیث :2620 ،دارالمعرفہ بیروت1420ھ)

3)حضرت برا بن غازب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالی کے نزدیک دنیا کا ختم ہو جانا ایک مسلمان کے ظلما قتل ہونے سے زیادہ سہل ہے- (ابن ماجہ ،کتاب الدیات ،باب الغلیظ فی قتل مسلم ظلما، 261/3, الحدیث:2619,دارالمعرفہ بیروت 1420ھ)

4) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :کسی مسلمان مومن کو ناحق قتل کرنے میں اگر زمین و آسمان والے شریک ہو جائیں تو اللہ پاک ان سب کو جہنم میں دھکیل دے- (ترمذی ،کتاب الدیات، باب الحکم دی الدماء, 100/3,الحدیث:1403' دارالفکر بیروت1414ھ)

5)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ناحق حرام خون بہانہ ہلاک کرنے والے ان امور میں سے ہے جن سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں- (بخاری, کتاب الدیات ,باب قول اللہ تعالی ومن یقتل مومنا ،356/4, الحدیث:6863, دارالکتب العلمیہ بیروت 1419ھ)

قتل ناحق سے بچے رہنے کے لیے: (1) اس گناہ سے بچے رہنے کے لیے اپنے غصے کو قابو میں رکھیے-(اس کے لیے حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دامت برکاتہم العالیہ کا رسالہ "غصے کا علاج" کا مطالعہ مفید ہے-) (2) علم دین(فرض علوم) سیکھیے-(3)عاشقان رسول کی صحبت اختیار کریں اور قتل ناحق کی وعیدیں ذہن نشین رکھیں تو انشاء اللہ الکریم بچے رہنے کا ذہن بنےگا-

ایک اہم بات: ان احادیث سے اسلام کی اصل تعلیمات واضح ہوتی ہیں کہ اسلام کس قدر سلامتی والا دین ہے اس میں انسانی جان کی کس قدر اہمیت ہے اس سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے جو اسلام کو انتہا پسند کہہ کر مسلمانوں کے خلاف پروپگینڈے کرتے ہیں اور اسلام کو بدنام کرنے کی ناکام کوششیں کرتے رہتے ہیں۔

الله پاک سے دعا ہے کہ ہمیں علم دین سیکھنے، قتل ناحق سے بچے رہنے اور دور حاضر کے فتنوں سے محفوظ رہنے کی توفیق عطا فرمائے- (آمین)

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


پیارے پیارے اسلام بھائیو جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ کسی بھی مسلمان کو نا حق قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہے ہمیں چاہیے کہ ہم خود بھی اس گناہ سے بچیں اور اپنے دوسرے اسلامی بھائیوں کو بھی اس گناہ سے دور رہنے کی تلقین کریں ابھی اس کی مذمت کے بارے میں احادیث نبوی کی روشنی میں جانتے ہیں :

فرمان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :

(1)حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَنَسٍ، «أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْيَهُودِ قَتَلَ جَارِيَةً مِنَ الْأَنْصَارِ عَلَى حُلِيٍّ لَهَا، ثُمَّ أَلْقَاهَا فِي الْقَلِيبِ، وَرَضَخَ رَأْسَهَا بِالْحِجَارَةِ، فَأُخِذَ، فَأُتِيَ بِهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَرَ بِهِ أَنْ يُرْجَمَ حَتَّى يَمُوتَ، فَرُجِمَ حَتَّى مَاتَ

[ترجمہ]

عبدالرزاق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں معمر نے ایوب سے خبر دی انہوں نے ابو قلابہ سے اور انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ یہود کے ایک آدمی نے انصار کی ایک لڑکی کو اس کے زیورات کی خاطر قتل کر دیا ،پھر اسے کنویں میں پھینک دیا ،اس نے اس کا سر پتھر سے کچل دیا تھا اسے پکڑ لیا گیا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مر جانے تک پتھر مارنے کا حکم دیا چنانچہ اسے پتھر مارے گئے حتی کہ وہ مر گیا {صحیح مسلم شریف حدیث نمبر 4363}

ایک مقام پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(2) حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى،‏‏‏‏ عَنْ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ،‏‏‏‏ عَنْ يَزِيدَ الرَّقَاشِيِّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو الْحَكَمِ الْبَجَلِيُّ، قَال:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ،‏‏‏‏ وَأَبَا هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ يَذْكُرَانِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَوْ أَنَّ أَهْلَ السَّمَاءِ،‏‏‏‏ وَأَهْلَ الْأَرْضِ،‏‏‏‏ اشْتَرَكُوا فِي دَمِ مُؤْمِنٍ،‏‏‏‏ لَأَكَبَّهُمُ اللَّهُ فِي النَّارِ .

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر آسمان اور زمین والے سارے کے سارے ایک مومن کے خون میں ملوث ہو جائیں تو اللہ پاک ان سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے گا {سنن ترمزی حدیث نمبر 1398 }

(3)حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مَعْدِيُّ بْنُ سُلَيْمَانَ هُوَ الْبَصْرِيُّ،‏‏‏‏ عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِيهِ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَلَا مَنْ قَتَلَ نَفْسًا مُعَاهِدًا لَهُ ذِمَّةُ اللَّهِ وَذِمَّةُ رَسُولِهِ فَقَدْ أَخْفَرَ بِذِمَّةِ اللَّهِ فَلَا يُرَحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ،‏‏‏‏ وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ سَبْعِينَ خَرِيفًا

{ترجمہ } نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے کسی ایک ذمی کو قتل کیا جس کو اللہ عزوجل اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پناہ حاصل تھی تو اس نے اللہ عزوجل کے عہد کو توڑ دیا لہذا وہ جنت کی خوشبو نہیں پا سکے گا حالانکہ جنت کی خوشبو 70 سال کی مسافت (دوری) سے آتی ہے

[سنن ترمزی حدیث نمبر 1403 ]

{4} حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو کسی مومن کو ناحق قتل کرے، پھر اس پر خوش بھی ہو تو اللہ اس کا کوئی عمل قبول نہ فرمائے گا نہ نفل اور نہ فرض‘‘ (سنن ابی داؤد: 4270

پیارے اسلامی بھائیو دیکھا آپ نے کے قتل نا حق کی کتنی سخت وعیدیں آئیں ہیں احادیث مبارکہ میں لہذا ہمیں کسی بھی مسلمان کو نا حق قتل نہیں کرنا چاہیے اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ ہمیں اس سب پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اسلام ایک پر امن دین ہے جس میں ہر چیز کے تحفظ کا درس ملتا ہے حتی کہ بلاوجہ ایک چیونٹی کو مارنے کی بھی اجازت نہیں انسان چونکہ اشرف المخلوقات ہے دین اسلام انسان کی جان مال عزت سب کا تحفظ فراہم کرتا ہے جبکہ کسی انسان کی کو نقصان پہنچانا چاہے وہ نا حق قتل کرنا ہو مال چھین لینا ہو یا عزت کو پامال کرنا ہو اسلام اس کو سخت ناپسند کرتا ہے اور ایسا کرنے والے کے لیے طرح طرح کی سزائیں بیان کی گئیں ہیں قتلِ ناحق اسلام کو کتنا نا پسند ہے قرآن و حدیث میں اس کی سخت وعیدیں آئی ہیں کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا شدید ترین کبیرہ گناہ ہے جس کی بدلہ جھنم ہے چنانچہ الله پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:

وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا

اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے تیار رکھا بڑا عذاب۔(النساء آیت نمبر 93)

کسی مسلمان کو نا حق کرنے کی مذمت کئی احادیث میں بھی بیان کی گئی ہے چند احادیث ملاحظہ فرمائیں صرف تین حالتوں کے علاؤہ کسی مسلمان کا قتل جائز نہیں

" الله پاک کی آخری نبی محمّد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کسی مسلمان کا جو اللہ کی ایک ہونے کی اور میرے رسول ہونے کی شہادت دیتا ہو ، خون بہانا حلال نہیں مگر تین حالتوں میں، ایک یہ کہ اس نے کسی کو قتل کردیا ہو، دوسرا شادی شدہ ہو کر زنا کیا ہو، تیسرادین اسلام کو چھوڑ دینے والا ، جماعت سے علیحدہ ہونے والا۔“ (صحيح البخاري 9 / 5، كتاب الديات،دار طوق النجاة)

کسی ایک مسلمان کا ناحق قتل ہونا پوری کائنات کے ختم ہونے سے بڑا ہے: حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی بھی شخص کے قتلِ نا حق کو دنیا کے مٹ جانے سے بڑا سانحہ قرار دیا ہے: لَزَوَالُ الدُّنْيَا جَمِيْعًا أَهْوَنُ عِنْدَ اﷲِ مِنْ سَفْکِ دَمٍ بِغَيْرِ حَقٍّ. اﷲ تعالیٰ کے نزدیک پوری کائنات کا ختم ہو جانا بھی کسی شخص کے قتلِ ناحق سے ہلکا ہے۔ (ابن أبي الدنيا، الأهوال: 190، رقم:183)

مسلمان کو ناحق قتل کرنے والے کی کوئی عبادت قبول نہیں ہوگی مسلمانوں کو قتل کرنے والے کی نفلی اور فرض عبادت بھی ردّ کر دی جائے گی۔ حضرت عبد ﷲ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ قَتَلَ مُوْمِنًا فَاعْتَبَطَ بِقَتْلِهِ لَمْ يَقْبَلِ اﷲُ مِنْهُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا. جس شخص نے کسی مومن کو ظلم سے ناحق قتل کیا تو اﷲ تعالیٰ اس کی کوئی نفلی اور فرض عبادت قبول نہیں فرمائے گا۔ (أبو داود، السنن، کتاب الفتن والملاحم، باب تعظيم قتل المؤمن، 4: 103، رقم: 4270)

مقتول اپنے قاتل کو گریبان سے پکڑے گا: فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم :بارگاہِ الٰہی میں مقتول اپنے قاتل کو پکڑے ہوئے حاضر ہوگا جبکہ اس کی گردن کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا، وہ عرض کرے گا: اے میرے پروردگار! اس سے پوچھ، اس نے مجھے کیوں قتل کیا؟ اللہ پاک قاتل سے دریافت فرمائے گا: تُونے اسے کیوں قتل کیا؟وہ عرض کرے گا: میں نے اسے فلاں کی عزّت کے لئے قتل کیا، اسے کہا جائے گا: عزّت تو اللہ ہی کے لئے ہے۔ (معجم اوسط،ج 1،ص224، حدیث:766)

بروز حشر سب سے پہلا فیصلہ: فرمانِ مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم : قیامت کے دن سب سے پہلے خون ِناحق کے بارے میں لوگوں کے درمیان فیصلہ کیا جائے گا۔ (مسلم، ص711، حدیث: 4381)

نوٹ: حکیم الامت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنَّان لکھتے ہیں: خیال رہے کہ عبادات میں پہلے نماز کا حساب ہوگا اور حقوق العباد میں پہلے قتل و خون کا یا نیکیوں میں پہلے نماز کا حساب ہے اور گناہوں میں پہلے قتل کا۔ (مراٰۃ المناجیح،ج2ص307،306)

زمین و آسمان والے مل کربھی قتل کریں تو؟ فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم:اگر آسمان و زمین والے ایک مردِ مؤمن کے خون میں شریک ہو جائیں تو اللہ پاک سب کو اوندھا کرکے جہنم میں ڈال دے گا۔ (ترمذی،ج 3،ص100، حدیث: 1403)

ہمارا معاشرہ جہاں دیگر کئی برائیوں کی طرف بڑھتا جا رہا ہے وہیں ایک مسلمان کو نا حق قتل کرنا بھی بہت عام ہوتا جا رہا ہے چھوٹی چھوٹی لڑائیوں پر قتل ہورہے ہیں زمینی فسادات پر بھائی بھائی کی جان کا دشمن بنا ہوا ہے بسا اوقات تو ایک دھماکے میں کئی مسلمانوں کو بے دردی سے شہید کر دیا جاتا ہے۔ الله پاک ایسے لوگوں کو ہدایت دے اور مسلمانوں کی حفاظت فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے کہ مسلمان اپنے دین کی وسعت میں رہتا ہے جب تک کہ حرام خون نہ کرے ۔حدیث نمبر 3297 [ مشکوت المصابیح • جلد نمبر دوم ص 308](بخاری ))

حضرت عبداللہ ابن مسعود نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ قیامت کے دن سب سے پہلے خون کا فیصلہ کیا جائے گا۔ حدیث نمبر 3298 مشکوت [ المصابیح جلد دوم ص 308 ](مسلم بخاری)

حضرت اسامہ بن زید سے فرماتے ہیں کہ ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہینہ کے کچھ لوگوں کی طرف بھیجا تو میں نے ان میں سے کسی ایک شخص کے سر پر پہنچا تو اسے نیزہ مارنے لگا تو اس نے کہہ دیا ((لا الہ الا اللہ)) مگر میں نے اس کو نیزہ مار کر قتل کر دیا پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اپ کو اس واقعے کی خبر دی فرمایا کہ تم نے اسے قتل کر دیا حالانکہ وہ گواہی دے چکا تھا ( لا الہ الا اللہ) کی میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس نے بچنے کے لیے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نےفرمایا تم نے اس کا دل کیوں نہ چیر لیا۔حدیث نمبر 3300 [ مشکوت المصابیح جلد دوم ص 308 ]۔مسلم بخاری ]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جو کسی عہد و پیمان والے کو قتل کر دے وہ جنت کی خوشبو نہ پائے گا حالانکہ اس کی خوشبو 40 سال کی راہ سے محسوس کی جاتی ہے ۔ حدیث نمبر 3301 مشکوت [ المصابیح جلد دوم ص 308 ] (بخاری )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پہاڑ سے چھلانگ لگا کر اپنے اپ کو ہلاک کر لے تو وہ دوزخ کی اگ میں چھلانگ لگاتا رہے گا اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا اور جو زہر پی کر اپنے اپ کو ہلاک کرے تو اس کا زہر اس کے ہاتھ میں ہوگا جس سے وہ دوزخ کی اگ میں ہمیشہ ہمیشہ پیتا رہے گا اور جو اپنے اپ کو لوہے سے ہلاک کرے تو اس کا لوہا اس کے ہاتھ میں ہوگا جس سے وہ دوزخ کی اگ میں ہمیشہ ہمیشہ اپنے پیٹ میں گھونپتا رہے گا ۔ [ حدیث نمبر 3302 مشکوت المصابیح جلد دوم ص 308 ](مسلم بخاری)

حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کا سر دو پتھروں کے درمیان کچل دیا تو اس سے کہا گیا کہ تیرے ساتھ یہ حرکت کس نے کی . کیا فلاں نے کی. یا فلاں نے. حتی کہ اس یہودی کا نام لیا گیا تو اس نے سر سے اشارہ کر دیا پھر یہودی کو لایا گیا اس نے اقرار کر لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حکم دیا تو اس کا سر پتھروں سے کچل دیا جائے۔ [[ حدیث نمبر 3307 مشکوت المصابیح جلد دوم ص 309 ]( مسلم بخاری )

حضرت عبداللہ ابن عمرو سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ دنیا کے مٹ جانا اللہ تعالی کے لیے ہاں أسان ہے مسلمان ادمی کے قتل سے۔ [ حدیث نمبر 3310 مشکوت المصابیح جلد دوم ص 309 ] ترمذی نسائی ) اور بعض نے اسے موقوف بیان کیا اور وہ ہی زیادہ صحیح ہے

حضرت ابو سعید اور حضرت ابوہریرہ سے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے راوی فرمایا : اگر زمین و اسمان والے ایک مسلمان کے قتل میں شریک ہو جائیں تو اللہ تعالی انہیں اگ میں اوندھا ڈال دے اور فرمایا یہ حدیث غریب ہے۔ [ حدیث نمبر 3311 مشکوت المصابیح جلد دوم ص 309 تا 310 تک ]

حضرت ابن عباس سے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے راوی فرمایا کہ قیامت کے دن مقتول قاتل کو لائے گا کہ اس کی پیشانی وسر اس کے ہاتھ میں ہوگا اور مقتول کی رگیں خون بہاتی ہوں گی اور عرض کرے گا یا رب اس نے مجھے قتل کیا تھا حتی کہ اسے عرش کے قریب کر دے گا ۔ [ حدیث نمبر 3312 مشکوت المصابیح جلد دوم ص 310 ](ترمذی نسائی، ابن ماجہ )

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمارے معاشرے میں ناحق قتل کرنے سے ہمیں بچائے اور ہمیں اللہ تعالی اور اس کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ امین ثم امین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اللّٰہ تبارک و تعالیٰ نے جہاں انسانوں کو مختلف احسانات سے نوازا ہے وہیں شریعت میں گناہوں کی سزائیں اور وعیدیں بیان فرمائی ہے-کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا بھی ہے- قتل ناحق گناہ کبیرہ حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے- نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے قتل ناحق کی حدیث مبارکہ میں مذمت ارشاد فرمائی ہے-

اللّٰہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْ مِناً مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہُ جَھَنَّمُ خَالِدًا وَ غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهُ وَاَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِیْماً (پارہ 5 ٫النساء :93)

ترجمہ کنزالایمان:اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللّٰہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے تیار رکھا ہے بڑا عذاب

(1)ایک مومن کا قتل:نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے!بے شک ایک مومن کا قتل کیا جانا اللّٰہ کے نزدیک دنیا تباہ ہو جانے سے زیادہ بڑا ہے- (بحوالہ:نسائی کتاب التحریم الدم ص 652٫ حدیث 3992)

(2)بڑا کبیرہ گناہ:حضرت انس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو ناحق قتل کرنا ہے (بحوالہ:بخاری شریف کتاب الدیات الحدیث:2751)

(3) اللّٰہ پاک کی رحمت سے مایوس: حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس نے کسی مومن کو قتل کرنے پر مدد کی اگر چہ آدھی بات سے٬ وہ اللّٰہ عزوجل سے اس حال میں ملے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا:اٰیِسٌ مِّنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ: یعنی اللّٰہ عزوجل کی رحمت سے مایوس ہے-(بحوالہ:سنن ابن ماجہ ابواب الدیات حدیث 2637)

(4)نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا فرمان با برکت نشان ہے:تم میں سے کوئی قتل ہونے والے کے پاس موجود نہ رہے٬ شاید!وہ مظلوم ہو اور اس پر بھی غضب نازل ہو جائے (بحوالہ:مسند امام احمد بن حنبل حدیث 1983)

(5) حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کسی مومن کو قتل کرنے میں اگر زمیں و آسمان والے شریک ہو جائیں تو اللّٰہ تعالیٰ ان سب کو جہنم میں دھکیل دے (بحوالہ ترمذی شریف جلد 3 حدیث 100)

افسوس کہ آج کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہو گیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینا٬خاندانی لڑائی عام ہے مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے- ہمیں صبر وتحمل سے کام لینا چاہیے اور فیصلوں میں جلدی نہیں کرنی چاہئے- اللّٰہ پاک ہمیں ناحق قتل اور لڑائیوں سے بچنے اور آپس میں محبت و سلوک سے رہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الامین صلی اللّٰہ علیہ وسلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔