اسلام ایک پر امن دین ہے جس میں ہر چیز کے تحفظ کا درس ملتا ہے حتی کہ بلاوجہ ایک چیونٹی کو مارنے کی بھی اجازت نہیں انسان چونکہ اشرف المخلوقات ہے دین اسلام انسان کی جان مال عزت سب کا تحفظ فراہم کرتا ہے جبکہ کسی انسان کی کو نقصان پہنچانا چاہے وہ نا حق قتل کرنا ہو مال چھین لینا ہو یا عزت کو پامال کرنا ہو اسلام اس کو سخت ناپسند کرتا ہے اور ایسا کرنے والے کے لیے طرح طرح کی سزائیں بیان کی گئیں ہیں قتلِ ناحق اسلام کو کتنا نا پسند ہے قرآن و حدیث میں اس کی سخت وعیدیں آئی ہیں کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا شدید ترین کبیرہ گناہ ہے جس کی بدلہ جھنم ہے چنانچہ الله پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:

وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا

اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے تیار رکھا بڑا عذاب۔(النساء آیت نمبر 93)

کسی مسلمان کو نا حق کرنے کی مذمت کئی احادیث میں بھی بیان کی گئی ہے چند احادیث ملاحظہ فرمائیں صرف تین حالتوں کے علاؤہ کسی مسلمان کا قتل جائز نہیں

" الله پاک کی آخری نبی محمّد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کسی مسلمان کا جو اللہ کی ایک ہونے کی اور میرے رسول ہونے کی شہادت دیتا ہو ، خون بہانا حلال نہیں مگر تین حالتوں میں، ایک یہ کہ اس نے کسی کو قتل کردیا ہو، دوسرا شادی شدہ ہو کر زنا کیا ہو، تیسرادین اسلام کو چھوڑ دینے والا ، جماعت سے علیحدہ ہونے والا۔“ (صحيح البخاري 9 / 5، كتاب الديات،دار طوق النجاة)

کسی ایک مسلمان کا ناحق قتل ہونا پوری کائنات کے ختم ہونے سے بڑا ہے: حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی بھی شخص کے قتلِ نا حق کو دنیا کے مٹ جانے سے بڑا سانحہ قرار دیا ہے: لَزَوَالُ الدُّنْيَا جَمِيْعًا أَهْوَنُ عِنْدَ اﷲِ مِنْ سَفْکِ دَمٍ بِغَيْرِ حَقٍّ. اﷲ تعالیٰ کے نزدیک پوری کائنات کا ختم ہو جانا بھی کسی شخص کے قتلِ ناحق سے ہلکا ہے۔ (ابن أبي الدنيا، الأهوال: 190، رقم:183)

مسلمان کو ناحق قتل کرنے والے کی کوئی عبادت قبول نہیں ہوگی مسلمانوں کو قتل کرنے والے کی نفلی اور فرض عبادت بھی ردّ کر دی جائے گی۔ حضرت عبد ﷲ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ قَتَلَ مُوْمِنًا فَاعْتَبَطَ بِقَتْلِهِ لَمْ يَقْبَلِ اﷲُ مِنْهُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا. جس شخص نے کسی مومن کو ظلم سے ناحق قتل کیا تو اﷲ تعالیٰ اس کی کوئی نفلی اور فرض عبادت قبول نہیں فرمائے گا۔ (أبو داود، السنن، کتاب الفتن والملاحم، باب تعظيم قتل المؤمن، 4: 103، رقم: 4270)

مقتول اپنے قاتل کو گریبان سے پکڑے گا: فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم :بارگاہِ الٰہی میں مقتول اپنے قاتل کو پکڑے ہوئے حاضر ہوگا جبکہ اس کی گردن کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا، وہ عرض کرے گا: اے میرے پروردگار! اس سے پوچھ، اس نے مجھے کیوں قتل کیا؟ اللہ پاک قاتل سے دریافت فرمائے گا: تُونے اسے کیوں قتل کیا؟وہ عرض کرے گا: میں نے اسے فلاں کی عزّت کے لئے قتل کیا، اسے کہا جائے گا: عزّت تو اللہ ہی کے لئے ہے۔ (معجم اوسط،ج 1،ص224، حدیث:766)

بروز حشر سب سے پہلا فیصلہ: فرمانِ مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم : قیامت کے دن سب سے پہلے خون ِناحق کے بارے میں لوگوں کے درمیان فیصلہ کیا جائے گا۔ (مسلم، ص711، حدیث: 4381)

نوٹ: حکیم الامت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنَّان لکھتے ہیں: خیال رہے کہ عبادات میں پہلے نماز کا حساب ہوگا اور حقوق العباد میں پہلے قتل و خون کا یا نیکیوں میں پہلے نماز کا حساب ہے اور گناہوں میں پہلے قتل کا۔ (مراٰۃ المناجیح،ج2ص307،306)

زمین و آسمان والے مل کربھی قتل کریں تو؟ فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم:اگر آسمان و زمین والے ایک مردِ مؤمن کے خون میں شریک ہو جائیں تو اللہ پاک سب کو اوندھا کرکے جہنم میں ڈال دے گا۔ (ترمذی،ج 3،ص100، حدیث: 1403)

ہمارا معاشرہ جہاں دیگر کئی برائیوں کی طرف بڑھتا جا رہا ہے وہیں ایک مسلمان کو نا حق قتل کرنا بھی بہت عام ہوتا جا رہا ہے چھوٹی چھوٹی لڑائیوں پر قتل ہورہے ہیں زمینی فسادات پر بھائی بھائی کی جان کا دشمن بنا ہوا ہے بسا اوقات تو ایک دھماکے میں کئی مسلمانوں کو بے دردی سے شہید کر دیا جاتا ہے۔ الله پاک ایسے لوگوں کو ہدایت دے اور مسلمانوں کی حفاظت فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔