پیارے مذہب دینِ اسلام میں انسانی جان کو بہت قیمتی جانا جاتا ہے کہ ایک جان کا ناجاٸز قتل بھی گوارہ نہیں کیا جاتا بلکہ ایک بھی جان کے ناجاٸز قتل کو ساری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعالٰی ہے: مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاؕ - ترجمہ کنزالعرفان: جس نے کسی جان کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے بدلے کے بغیر کسی شخص کو قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا۔(پارہ:6،المائدہ:32)

ناحق قتل کا حکم: اگر مسلمانو ں کے قتل کو حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب کیا تو یہ خود کفر ہے اور قتل کو حرام ہی سمجھا لیکن پھر بھی اس کا ارتکاب کیا تب یہ گناہ کبیرہ ہے۔(صراط الجنان،ج:2،ص:311)

دورِ حاضرہ میں عوام کی اکثریت دین سے دور جاتی اور دنیا کی پیچھے بھاگی جا رہی ہے جس کے سبب گناہوں کا سیلاب بہتا جا رہا ہے اور چھوٹی چھوٹی بات پر معاملہ قتل و غارت گری تک چلا جاتا ہے۔ بھاٸی بھاٸی کا مال کے لالچ میں قتل کر دینا، اولاد کا ماں باپ کو جاٸیداد کے چکر میں قتل کر دینا، سڑک پر دو بندے ٹکرا جاٸیں تو معمولی نقصان کے بدلے انسانی جان کا نقصان کر دینا، بیوی نے چھوٹی سی غلطی کی تو مارمار کر جان لے لینا، فکرِ معاش کی وجہ سے بھی اپنی اولاد کا ناجاٸز قتل کر دیتے ہیں، یہاں تک کہ کسی نے گالی دی تو قتل کردینا الغرض بڑے مساٸل تو بڑے، اب چھوٹی سی چھوٹی بات پر قتلِ عام ہوا جا رہا ہے۔ جبکہ احادیثِ مبارکہ میں قتل ناحق کے متعلق بہت سخت وعیدات بیان ہوئیں ہیں۔

شریعتِ اسلامیہ ہر مسلمان کی جان کو نا صرف اہمیت دیتی بلکہ پوری دنیا سے بڑھ کر مومن کی جان کو افضل قرار دیا ہے، فرمانِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم : اللہ تعالیٰ کے نزدیک پوری دنیا کا تباہ ہو جانا ایک مسلمان کے قتل سے ہلکا ہے۔(ترمذي، کتاب الديات، باب ما جاء في تشديد قتل المؤمن، 4: 16، الحدیث:1395)

ناحق قتل کا گناہ کوٸی چھوٹا نہیں ہے بلکہ اس کو بڑے گناہوں میں شمار کیا گیا ہے، فرمانِ تاجدارِ رسالت  صلی اللہ علیہ وسلم : بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک (ناحق) کسی جان کو قتل کرنا ہے۔(بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالٰی: ومن احیاہا، 4: 358، الحدیث: 6871)

مسمان کو قتل کرنے کی سختی کا اندازہ اس فرمانِ تاجدارِ  رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ: مسلمان کو گالی دینا فِسق اور اسے قتل کرنا کفر ہے۔(مسلم، کتاب الایمان، باب بیان قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: سباب المسلم۔۔۔ الخ،ص52، الحدیث: 116(64)

جہاں قتل کرنے کی بہت سخت وعیدات ہیں اسی طرح صرف قتل کرنے کی کوشش کرنے والے کی لیے بھی بہت سخت وعید ہے، فرمانِ رسولِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم : جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے، عرض کیا گیا: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے کی کوشش میں تھا۔(بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا۔۔۔ الخ، 1: 23، الحدیث: 31)

اس حدیثِ پاک سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے جو جانی دشمنیاں رکھتے، ایک دوسرے کی تاک میں رہتے اور موقع ملنے پر قتل کردیتے ہیں کہ اس صورت میں قاتل و مقتول دونوں ہی جہنمی ہیں، کیونکہ مقتول بھی قتل کا پورا ارادہ رکھتا تھا، بس فرق اتنا کہ اسکے حصے میں قتل کرنے کے بجاۓ قتل ہونا آیا۔

اور ان لوگوں کو بھی عبرت حاصل کرنی چاہیے جو اصلاً قتل کرتے تو نہیں لیکن قاتل کے مددگار ہوتے ہیں، کیونکہ گناہ کے کام میں مدد کرنا بھی گناہ ہے۔ یہاں تک کہ اس کام میں اپنی رضامندی ہونا بھی جرمِ عظیم ہے، فرمانِ حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم : جس نے مومن کے قتل پر حرف جتنی مدد بھی کی تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ’’یہ اللہ تعالٰی  کی رحمت سے مایوس ہے‘‘۔(ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلمًا، 3: 262، الحدیث: 2620)

دنیا تو دنیا، قاتل کی آخرت بھی تباہ ہوگی کیونکہ قیامت والے دن بھی قتلِ ناحق کا معاملہ پہلے حل کیا جاۓ گا کہ حساب کتاب کی ابتدا ان دونوں (یعنی قاتل و مقتول) سے ہوگی، فرمانِ رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم : قیامت کے دن سب سے پہلے خون ناحق کے بارے میں  لوگوں  کے درمیان فیصلہ کیا جائے گا۔(البخاری ،کتاب الدیات،باب قول اللہ تعالٰی اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ ۔۔۔ إلخ،4: 357، الحدیث:6864)

اللہ عالٰی ہمیں انسانی جان کی قدر سمجھنے اور قتلِ ناحق سے بچے رہنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔آمین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔