پیارے پیارے اسلامی بھائیو ،آج کل قتل کرنا عام ہوتا جا رہا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے کو قتل کر ڈالتے ہیں کسی کو نا حق قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے اور یہ اتنا سخت گناہ ہے کہ حدیث میں فرمایا گیا کسی مسلمان کا قتل اللّٰہ عزوجل کے نزدیک دنیا کے برباد ہونے سے بڑا ہے، اس کی اور بھی کثیر احادیث مبارکہ میں شدید ترین مذمت بیان کی گئی ہیں جو کہ پانچ درج ذیل ہیں،

(1)... حضرت ابو بکرہ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ سے مروی ہے ، رسولِ اکرم صَلَّى اللَّهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض کی : مقتول جہنم میں کیوں جائے گا ؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پر مصر تھا۔ (بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنين اقتتلوا ۔ ۔ ۔ الخ،23/1، الحدیث: (31)

(2)... حضرت ابوہریرہ رَضِيَ اللهُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے، حضور پر نور صلى الله تعالى عَلَيْهِ وَالِہ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ” یہ اللہ عزوجل کی رحمت سے مایوس ہے۔“(ابن ماجہ، کتاب الدیات،کتاب التغلیظ،فی قتل مسلم ظلما 262/3الحدیث 2620

(3)... حضرت انس رَضِيَ اللَّهُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو (ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری، کتاب الديات، باب قول الله تعالى: ومن احیاها ، 358/6، الحدیث: 6871

(4) کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے خسارے کا شکار ہو گا۔ حضرت ابو بکرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ”اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔(معجم صغیر، باب العین، من اسمه على، ص 205 ، الجزء الاول)

(5)... حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ سے روایت ہے ، تاجدارِ رسالت صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: مسلمان کو گالی دینا فسق اور اسے قتل کرنا کفر ہے۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب بیان قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم : سباب المسلم - - الخ ، ص 25، الحدیث: 116

پیارے پیارے اسلامی بھائیو ،

جیسا کہ ہم نے سنا کہ نا حق قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے اور قتل کرنے والا قیامت کے دن اللّٰہ پاک کی رحمت سے مایوس ہے ۔اللّٰہ پاک ہمیں اس کبیرہ گناہ سے بچنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اللہ پاک اپنے پاک اور سچے کلام قرآن کریم میں قتل ناحق کی مذمت میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(سورہ النساء:93) ترجمۂ کنز الایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے تیار رکھا بڑا عذاب۔ افسوس کہ آج کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہوگیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینا، غنڈہ گردی، دہشت گردی، ڈکیتی، خاندانی لڑائی، تَعَصُّب والی لڑائیاں عام ہیں۔ مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے، گروپ اور جتھے اور عسکری وِنگ بنے ہوئے ہیں جن کا کام ہی قتل و غارتگری کرنا ہے۔

کسی مسلمان کو جان بوجھ کرقتل کرنا شدید ترین کبیرہ گناہ ہے اور کثیر احادیث میں اس کی بہت مذمت بیان کی گئی ہے، ان میں سے 7 احادیث درج ذیل ہیں:

(1) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالٰی: ومن احیاہا، 4 /358 ، الحدیث:6871 )

(2) کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے خسارے کا شکار ہو گا۔حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہوجائیں تواللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔(معجم صغیر، باب العین، من اسمہ علی، ص205 ، الجزء الاول)

(3) حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔راوی فرماتے ہیں: میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پرمُصِر تھا۔(بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا۔۔۔ الخ،1 /23، الحدیث:31)

(4) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور پر صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ’’یہ اللہ پاک کی رحمت سے مایوس ہے۔‘‘(ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلمًا، 3 /262 ، الحدیث:2620 )

(5) حضرت امیرمعاویہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راوی کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’امید ہے کہ گناہ کو اﷲبخش دے گا مگر اس شخص کو نہ بخشے گا جو مشرک ہی مر جائے یا جس نے کسی مرد مومن کو قصداً (جان بوجھ کر) ناحق قتل کیا۔‘‘

(سنن أبي داود،کتاب الفتن ۔۔۔إلخ،باب في تعظیم قتل المؤمن، الحدیث:4270 ،ج:4 ،ص:139)

(6) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:’’کبیرہ گناہ یہ ہیں (1) اللہ(عزوجل) کے ساتھ شریک کرنا، (2) ماں باپ کی نافرمانی کرنا،(3) کسی کو ناحق قتل کرنا،(4) اور جھوٹی گواہی دینا‘‘۔ (صحیح مسلم،کتاب الإیمان،باب الکبائرواکبرھا،الحدیث:144 ،(88)، ص:59 )

(7) حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے مروی ہےکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن سب سے پہلے خون ناحق کے بارے میں لوگوں کے درمیان فیصلہ کیا جائے گا۔(صحیح البخاري،کتاب الدیات،باب قول اللّٰہ تعالٰی{ وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا۔۔۔إلخ }،الحدیث:6862،ج:4 ،ص:356)

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اسلام ایک مکمل دین ہے ۔ جس میں زندگی کے ہر پہلو کے بارے میں مکمل رہنمائی حاصل ہے ۔ اسلام امن کا درس دیتا ہے ۔ جہاں اسلام مظلوم پر ظلم کرنے سے منع کرتا وہاں اسلام کسی مظلوم کو نا حق قتل کرنے سے بھی منع کرتا ہے۔ احادیث میں ناحق قتل کرنے والے کے بارے میں کافی وعیدیں ملتی ہیں ۔

پہلی حدیث : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”گناہوں میں سب سے بڑے گناہ یہ ہیں کہ اللہ کے ساتھ شرک کیا جائے۔ کسی انسان کو (ناحق) قتل کیا جائے اور والدین کی نافرمانی کی جائے اور جھوٹ بولا جائے۔“ (صحیح بخاری/5977)

یعنی کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ ہے ۔

دوسری حدیث : حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کو فرماتے سنا: ”ہر معصیت وبرائی (کے مرتکب) کو اللہ تعالیٰ معاف فرمادیں گے، سوائے اس شخص کے جو حالت شرک و کفر میں مرا یا وہ مسلمان ،جو کسی دوسرے مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کردے۔“ (سنن ابو داوٴد/4270)

اللہ اکبر! کسی مسلمان کو بلا وجہ قتل کرنے والے کو اللہ تعالیٰ معاف نہیں فرماتا ۔ اور جس شخص کو اللہ معاف نہیں فرمائے گا وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں پائے گا۔

تیسری حدیث : حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”پوری دنیا کا ختم ہوجانا اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک مسلمان کو ناحق قتل کرنے سے زیادہ حقیر ہے۔“ (سنن نسائی/3992)

اللہ تعالیٰ کے لیے مسلمان کا قتل کرنا پوری دنیا کے ختم ہوجانے سے زیادہ ناپسندیدہ ہے۔اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کریں اور اس کی نا پسندیدگی والے اعمال سے بچیں ۔

چوتھی حدیث :حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: ”مسلمان کو گالی دینا گناہ ہے اور اسے قتل کرناکفر ہے۔ کفر ۔“ (صحیح بخاری/6044)

یعنی کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک کفر کرنے کے برابر ہے ۔اس حدیث سے واضح ہوتا کہ قتل ناحق بہت بڑا کبیرہ گناہ ہے ۔

پانچویں حدیث:حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دن بیت اللہ کو دیکھا اور اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا: ”اے کعبہ! تم بہت عظمت والے ہو اور تمہاری حرمت بھی بہت بڑی ہے۔ (لیکن) ایک مومن و مسلمان (کی جان) اللہ رب العالمین کے ہاں تم سے زیادہ محترم و مکرم ہے۔“ (نضرة النعیم: 5298/11)

اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ ایک مسلمان کی جان اللہ تعالیٰ کو کعبہ سے بھی زیادہ عزیز ہے اور اس جان کو ناحق قتل کرنے سے اللہ تعالیٰ کتنا ناراض ہوگا؟

چھٹی حدیث : حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ سات تباہ کن گناہوں سے بچو ۔ ‘ ‘ پوچھا گیا : اے اللہ کے رسول! وہ کون سے ہیں ؟ فرمایا : ’’ اللہ کے ساتھ شرک ، جادو ، جس جان کا قتل اللہ نے حرام ٹھہرایا ہے اسے ناحق قتل کرنا ، یتیم کا مال کھانا ، سود کھانا ، لڑائی کے دن دشمن کو پشت دکھانا ( بھاگ جانا ) اور پاک دامن ، بے خبر مومن عورتوں پر الزام تراشی کرنا ۔ ‘ (صحیح مسلم /262)

اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ سات کبیرہ گناہوں میں سے ایک بڑا گناہ کسی مسلمان کو نا حق قتل کرنا ہے ۔

اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اکثر مقامات پر قتل نا حق کی مذمت کی۔ آپ نے پچھلی احادیث میں پڑھا کہ اللہُ کے نزدیک انسان کی جان دنیا کے ختم ہو جانے سے افضل ہے ۔ہمیں چاہیے کہ جب بھی ہمیں غصہ آئے یا ایسی مجلس میں ہوں جہاں اندیشہ ہو کہ لڑائی جھگڑا ہو سکتا ہے تو ایسی مجلسوں میں مت بیٹھا کریں اور نیک لوگوں کی صحبت اختیار کریں ۔اللہ ہمیں قتل ناحق جیسے کبیرہ گناہ سے محفوط فرمائے ۔آمین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اللہ پاک کا احسان عظیم ہے کہ اس نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا لیکن یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو باطنی قوتیں عطا فرمائی ہیں ایک کا نام عقل ہے اور دوسری کا نام شہوت ہے پھر اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کے مددگار بھی مقرر فرمائے عقل کا مددگار انبیاء کرام (علیہم السلام) ،فرشتوں اور نیک لوگوں کو بنایا جبکہ شہوت کا مددگار نفس و شیطان اور برے لوگوں کو بنایا ہے' عقل کا نور انسان کو سیدھی راہ کی طرف چلانے کی کوشش کرتا ہے جبکہ شہوت کا فتور انسان کو گناہوں کی دلدل میں پھنسا دیتا ہے۔ کتنا بدنصیب ہے وہ انسان جو شہوت کی پیروی کرکے اپنے خالق حقیقی کی نافرمانی کرتا ہے شہوت کی پیروی کرکے طرح طرح کے گناہوں میں ملوث ہوجاتا ہے۔

یاد رہے گناہ دو طرح کے ہیں : 1:صغیرہ گناہ 2:کبیرہ گناہ 1

صغیرہ گناہ: ایسے گناہ ہیں جو نماز ،روزہ ،حج ،زکوة وغیرہ سے معاف ہو جاتے ہیں یہ بات یاد رہے کہ صغیرہ گناہ پر اصرار (ہمیشگی) اسے کبیرہ بنا دیتا ہے اور جن گناہوں کا تعلق بندوں کے حقوق کے ساتھ ہے ان میں توبہ کے ساتھ ساتھ تلافی کی خاطر حق کی ادائیگی یا صاحب حق سے معاف کروانا ضروری ہے

2: کبیرہ گناہ : یہ ایسے گناہ ہیں جو بغیر توبہ کیے معاف نہیں ہوتے کبیرہ گناہ سے معافی کے لیے توبہ شرط ہے انہیں کبیرہ گناہوں میں سے کسی انسان کو ناحق قتل کرنا بھی ہے.قتل ناحق کی مذمت اللہ پاک نے قرآن پاک میں کئی مقامات پہ فرمائی اور اسی طرح قتل ناحق کی مذمت میں حضور علیہ السلام کے بہت سے فرمان موجود ہیں

اللہ عزوجل قتل ناحق کی مذمت میں ارشاد فرماتا ہے 1:ومَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا( پارہ 5 آیت نمبر 93)

ترجمہ کنزالایمان :"اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے تیار رکھا بڑا عذاب"

2:قتل ناحق کی مذمت میں احادیث :

(1)حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ایک مومن کا قتل کیا جانا اللہ عزوجل کے نزدیک دنیا کے تباہ ہوجانے سے زیادہ بڑا ہے ۔(نسائی،کتاب تحریم الدم،باب تعظیم الدم ،ص652،حدیث:3992)

(2)حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا بڑے گناہوں میں سے اللہ عزوجل کے ساتھ کسی کو شریک کرنا ، ناحق قتل کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا ہے۔(بخاری ،کتاب الایمان والنذور،باب الیمین الغموس،4/295،حدیث:6675)

(3)فرمان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے امید ہے کہ ہر گناہ کو اللہ عزوجل بخش دے گا مگر وہ شخص جو کفر کی موت مرا ہو یا جس شخص نے جان بوجھ کر کسی مسلمان کو (ناحق )قتل کیا ہو۔(نسائی،کتاب تحریم الدم،باب:1،ص652حدیث:3990)

(4)فرمان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے آدمی اپنے دین میں کشادگی ووسعت میں رہتا ہے جب تک حرام خون کو نہ پہنچے (یعنی جب تک کسی کو ناحق قتل نہ کرے)۔(بخاری،کتاب الدیات،باب قول اللہ:ومن یقتل مومنا...الخ،4/356،حدیث:6862)

(5)آدمی اپنے دین میں کشادگی ووسعت میں رہتا ہے جب تک وہ خون حرام سے آلودہ نہ ہو۔(بخاری،کتاب الدیات،4/356حدیث:6862)

(6)فرمان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے میرے بعد کافر مت ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو (بخاری کتاب العلم،باب الانصات للعلماء1/63،حدیث 121)

(7)فرمان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے جو کسی عہد و پیمان والے کو قتل کردے وہ جنت کی خوشبو بھی نہ سونگھ سکے گا حالانکہ اس کی خوشبو 40سال کی راہ سے محسوس کی جائے گی۔ (بخاری2/365،حدیث 3166)

(8)فرمان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے جو جان بھی ظلما قتل کی جاتی ہے حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کے پہلے بیٹے (قابیل)پر اس کے خون میں سے حصہ ہے کیونکہ وہ پہلا شخص ہے جس نے قتل ایجاد کیا۔ یہ حدیث بخاری و مسلم دونوں میں ہے (بخاری،کتاب احادیث الانبیاء،باب خلق آدم و ذریتہ413/حدیث 3335)

(9)جب دو مسلمان اپنی تلواروں کے ساتھ باہم ٹکراتے ہیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہیں۔عرض کی گئی: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ایک تو قاتل ہے لیکن مقتول کا کیا قصور ہے؟ارشاد فرمایا: وہ بھی اپنے مقابل کو قتل کرنے پر حریص ہوتا ہے۔(بخاری،کتاب الایمان23/1حدیث:31 )

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


قتل ناحق کے بارے میں بہت سخت وعیدین بیان ہوئی ہے۔ہمیں چاہیے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو درگزر کرنا چاہے کیونکہ چھوٹی باتوں سے ہی لڑائی کا اغاز ہوتا ہے۔ افسوس کہ آج کل ناحق قتل کرنا معمولی کام ہو گیا ہے۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار دیتے ہیں۔غنڈا گردی،دہشت گردی،ڈکیتی، خاندانی لڑائی، بہت عام ہو گیا ہے۔ ہمیں ان تمام برے کاموں سے بچنا چاہیے آئیے قتل ناحق کی مذمت پر کچھ احادیث پڑھتے ہیں:

(1)دنیا تباہ ہونے سے زیادہ بڑا گناہ: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے بے شک مومن کا قتل کیا جانا الله کے نزدیک دنیا کے تباء ہو جانے سے زیادہ بڑا ہے۔ (نسائی,کتاب التحریم الدم تعظیم الدم, ص 652,حدیث 3992)

(2) جہنم میں دھکیلا جائے گا: حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے کہ اگر کسی مومن کے خون میں زمین و اسمان والے تمام شریک ہو جائیں تو اللہ ان سب کو جہنم میں دھکیل دے گا۔ (جامع الترمذی ،باب حکم فی دماء،حدیث 1398،ص 1793)

(3)بڑا کبیرہ گناہ: حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ کسی جان کو ناحق قتل کرنا ہے۔(بخاری،کتاب الديات بقول الله و من احیا تھا 358/4, حدیث 6871)

(4)قیامت کے دن بڑے خسارے کا شکار: حضرت ابوبکر سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہو جائیں تو اللہ تعالٰی سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔ (معجم صغیر، باب العین من اسمه على,ص 605)

(5)اللہ کی رحمت سے مایوس ہے: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے کسی مومن کے قتل میں ایک حروف جتنی بھی مدد کی وہ قیامت کے دن اس حال میں ائے گا کہ اس کے دونوں انکھوں کے درمیان لکھا ہوگا یہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہے۔( ابن ماجہ, کتاب الدیات, باب تغلیظ فی قتل مسلم ظلما،363/3, حدیث 3630)

افسوس اج کل ناحق قتل عام ہو گیا ہے چھوٹی چھوٹی بات پر لوگ قتل کرنے پر اتر اتے ہیں ہمیں چاہیے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو گزر کریں اور ہمیں چاہیے کہ اپنے غصے پر قابو کریں زیادہ سے زیادہ درود پاک کی کثرت کریں اور چھوٹی چھوٹی غلطی کو در گزر کریں اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں قتل ناحق جیسے گناہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ امین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


آج کل مسلمانوں کو قتل کرنا بہت اہم ہوتا چلا جا رہا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پہ مسلمانوں کو قتل کرنا بات بات پہ گالی دینا معاشرہ میں عام ہو گیا ہے قتل کرنے کی وعدے حدیث میں بیان ہوئی ہیں ائیے ان میں سے چند احادیث پڑھتے ہیں:

(1)قتل ناحق کو حرام جانا :حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا جس نے قتل ناحق کو حرام جانا اس نے سب لوگوں کو زندہ رکھا۔(نزہۃ القاری علی شرح صحیح البخاری،کتاب الدیات، صفحہ 568،حدیث 811)

(2)جو کسی مسلمان کے خون کا بغیر حق کے طلب گار ہو : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ مبغوض تین قسم کے لوگ ہیں ۔ (1)حرم میں ظلم کرنے والے (2) اسلام میں جاہلیت کا طریقہ ڈھونڈنے والے (3) کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے کے پے درپے ہونے والے۔ (نزہۃ القاری علی شرح صحیح البخاری،کتاب الدیات، صفحہ 1016, حدیث 2855)

(3) کبیرہ گناہ کا تذکرہ کرتے سنا: حضرت سیدنا عمرو بن عاص رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کبیرہ گناہ کا تذکرہ کرتے ہوئے سنا والدین کی نافرمانی کرنا اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا کسی جان کو ناحق قتل کرنا اور پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا۔ (المعجم الکبیر ،حدیث 13,جزء 13,14، صفحہ 07)

(4)دنیا کے برباد ہونے سے بڑا ہے : دو جہاں کے تاجور سلطان بحر و بر صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم کا فرمان با قرینہ ہے کسی مسلمان کا قتل الله عزوجل کے نزدیک دنیا کے برباد ہونے سے بڑا ہے۔ (سنن النسائی، کتاب المحاربہ، باب تعظیم الدم، حدیث 3995، صفحہ 2349)

(5) اللہ عزوجل کی رحمت سے مایوس: حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے جسں نے کسی مسلمان کے خون پر مدد کی اگرچہ آدھا کلمہ کہا قیامت کے دن اس کی دونوں انکھوں کے درمیان لکھا ہوا ہوگا یہ اللہ عزوجل کی رحمت سے مایوس. (شعب الایمان للبیہقی،باب فی تحریم النفوس والجنایات، حدیث 5347، جلد 4،صفحہ 347)

اللہ عزوجل ہمیں قتل ناحق جیسے مضموم گناہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے امین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


پیارے پیارے اسلامی بھائیو آج کل قتل کرنا عام ہوتا چلا جا رہا ہے چھوٹی چھوٹی بات پر ایک دوسرے کو قتل کر دیتے ہیں کسی کو ناحق قتل کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے ناحق قتل کرنے کے متعلق چند احادیث مبارکہ پیش کرتا ہوں

(1) کبیرہ گناہ حضرت سیدنا انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ حضور پاک صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم نے کبیرہ گنا ہوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا اللہ عز وجل کے ساتھ شریک ٹھہرانا والدین کی نافرمانی کرنا اور کسی جان کو قتل کرنا. (صحیح البخاری٫ الحدیث 5977٫ص 506)

(2) ساری دنیا کا مٹ جانا حضور پاک صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے اللہ عزوجل کے نزدیک ساری دنیا کا مٹ جانا کسی مسلمان کے (ناحق) قتل سے زیادہ آسان ہے (جامع الترمذی الحديث 1395 ص 1793

(3 )۔ 7 کبیرہ گناہوں سے بچو حضور پاک صلی اللہ تعالٰی علیہ و ابد و سلم نے ارشاد فرمایا 7 کبیرہ گناہوں سے بچو ( پھر ان میں سے چند بیان فرمائے) الله عز وجل کے ساتھ شریک ٹھہرانا کسی جان کو قتل کرنا اور جنگ سے بھاگ جانا المعجم الکبیر الحدیث5636جلد6ص103

(4)مومن کو قتل کرنا حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کسی مومن کو قتل کرنے میں اگر تمام آسمان و زمین والے شریک ہو جائیں تو الله عز وجل ان سب کوجھنم میں داخل کرے گا الترغیب والترھیب الحدیث 3718جلد3ص234

(5)دنیا کا برباد ہونا : حضور پاک صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کسی مسلمان کا قتل الله عزوجل کے نزدیک دنیا کے بربادیہونے سے بڑا ہے ۔ ( سنن ابنِ ماجہ الحدیث 3932ص2712)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو حدیث مبارکہ میں قتل ناحق کی مذمت بیان کی گئی ہے حدیث مبارکہ میں ہےکہ کس جان کو قتل کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ھمیں قتل ناحق سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ خاتم النبین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


پیارے پیارے اسلامی بھائیوں آج میں آپ کے سامنے ناحق قتل کی مذمت لکھوں گا اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے درست لکھنے کی توفیق عطاءفرمائے۔ الله عز و جل فرماتا ہے :

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰىؕ-اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَ الْاُنْثٰى بِالْاُنْثٰىؕ-فَمَنْ عُفِیَ لَهٗ مِنْ اَخِیْهِ شَیْءٌ فَاتِّبَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ وَ اَدَآءٌ اِلَیْهِ بِاِحْسَانٍؕ-ذٰلِكَ تَخْفِیْفٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ رَحْمَةٌؕ-فَمَنِ اعْتَدٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَلَهٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ (تفسیر صراط الجنان)پارہ 2 آیت (178)

ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو! تم پر فرض ہے کہ جو ناحق مارے جائیں ان کے خون کا بدلہ لو آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت تو جس کے لئے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی ہوئی تو بھلائی سے تقاضا ہو اور اچھی طرح ادا یہ تمہارے رب کی طرف سے تمہارا بوجھ ہلکا کرنا ہے اور تم پر رحمت تو اس کے بعد جو زیادتی کرے اس کے لئے دردناک عذاب ہے۔ (ترجمۂ کنز الایمان)

امام بخاری اپنی صحیح البخارى میں ابن عباس رضی الله تعالیٰ عنہما سے راوی کر نبی کریم صل الله عالم نے فرمایا الله تعالیٰ کے نزدیک سب لوگوں سے زیادہ مبغوض تین شخص ہیں حرم میں الحاد کرنے والا اور اسلام میں طریقہ جاہلیت کا طلب کرنے والا اور کسی مسلمان شخص کا ناحق خون طلب کرنے والا تاکہ اسے بہائے۔ (صحيح البخارى كتاب الديات، حصہ 4 ص 362)

امام ترمذی ابو سعید اور ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنھ سے روایت کرتے ہیں ہے کہ اگر آسمان و زمین والے ایک مرد مومن کے خون میں شریک ہو جائیں تو سب کو الله تعالیٰ جہنم میں اوندھا کر کے ڈال دے گا (جامع الترمذی کتاب الديات ج 3 ص 100)

ابوداود اور حضرت ابو الدرداء رضی اللہ تعالی عنھ سے راوی رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ مومن تیز رو اور صالح رہتا ہے جب تک حرام خون نہ کرے اور جب حرام خون کر لیتا ہے تو اب وہ تھک جاتا ہے۔( سنن ابی داود کتاب الفتن ج 4 صے 139)

ابو داود وہ ابو الدرداء سے اور نسائی معاویہ رضي الله عنه سے۔ راوی ھے کے رسول صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ امید ہے کہ گناہ کو اللہ بخش دے گا مگر اس شخص کو نہ بخشے گا جو مشرک ہو تے مر جائے یا جسے نے کسے مرد مومن کو قصداً ناحق قتل کیا(سنن ابی داؤد، کتاب الفتن، ج4، ص139)

الله تبارک وتعالیٰ نے سے دعا ہے کہ ہم کو کسی مسلمان شخص کو ناحق قتل کرنے سے بچے، رہنے کی توفیق عطاء فرمائے

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اسلام ایسا مذہب ہے جو سب سے زیادہ حقوق دینے والا ہے۔ اسلام واحد مذہب ہے جس نے باقاعدہ جانوروں کے حقوق بیان کئے حتی کہ سینگھ والی بکری اگر بغیر سینگھ والی بکری کو مارے گی تو بروز قیامت وہ بھی حساب دے گی (صحیح مسلم ، حدیث 2582)۔ اور انسان تو پھر اشرف المخلوقات ہے تو اسکے حقوق اور زیادہ کثرت اور شدت سے بیان کئے گئے حتی کہ قرآن کریم میں ایک انسان کے قتل ناحق کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف شمار کیا گیا ۔ اس سے انسان کی عظمت اور قتل نا حق کی قباحت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ آئیے قتل نا حق کی مذمّت میں کچھ احادیثِ مبارکہ پڑھتے ہیں۔

1.."قتل ناحق کتنا بڑا گناہ" ؟ حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے ، حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’کسی مومن کو نا حق قتل کرنے میں اگر زمین و آسمان والے شریک ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو جہنم میں دھکیل دے" ۔ ( سنن ترمذی، کتاب الدیات، الحدیث 1403)

2."قاتل کا کوئی عمل قبول نہیں" حضرت عبادہ بن صامت رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٫٫جو کسی مومن کو نا حق قتل کرے پھر اس پر خوش بھی ہو تو اللہ تعالیٰ اسکا کوئی عمل قبول نہیں فرمائے گا نہ نفل اور نہ ہی فرض،، (سنن ابو داؤد:4270)

3."مومن کا قتل پوری دنیا کی تباہی سے ہولناک " حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٫٫قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے مومن کو نا حق قتل کرنا اللّٰہ پاک کے ہاں پوری دنیا کی تباہی سے زیادہ ہولناک ہے ،،(سنن نسائی:3997)

4. "قتل ناحق کبیرہ گناہ" حضرت انس رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے" ( صحیح بخاری، کتاب الدیات، الحدیث 6871)

5.."رحمت سے مایوسی" حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا" جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ’’یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے مایوس ہے۔‘‘(ابن ماجہ، کتاب الدیات، الحدیث: 2620)

6.."دین کی وسعت ختم"حضرتِ سَیِّدُنا ابنِ عمر رضی اللّٰہ عنھما سے مروی ہے کہ اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’مومن ہمیشہ اپنے دِین کی وُسعت اور کشادگی میں رہتا ہےجب تک کہ وہ ناحق قتل نہ کرے ۔ ‘‘( صحیح بخاری،کتاب الدیات ،حدیث :6862)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!! بد قسمتی سے ہمارا معاشرہ قتلِ نا حق کی گندگی میں لت پت ہو گیا ہے ۔ ذرا سی بات پر طیش میں آکر قتل کر دینا رواج بن گیا ہے ۔ یہ سب تعلیمات نبویہ "علی صاحبھا الصلاۃ والتسلیم"

سے دوری کا نتیجہ ہے ۔ لہذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ قرآن و حدیث میں موجود قتل ناحق کے بارے وعیدات کا مطالعہ کرے ۔ کیونکہ جب یہ وعیدات ذھن میں ہوں گی تو وہ اس نحوست سے بچنے میں کار آمد ثابت ہوں گی ان شاءاللہ ۔ اللہ پاک ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے اور قتل نا حق جیسے کبیرہ گناہوں سے محفوظ فرمائے آمین بجاہ سیدنا خاتم النبیین علیہ الصلاۃ والتسلیم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


حدیث مبارکہ نمبر ایک فرمان مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کہ ایک مومن کا قتل کیا جانا اللہ عزوجل کے نزدیک دنیا کے تباہ ہو جانے سے زیادہ بڑا ہے۔ (کتاب 76 کبیرہ گناہ صفحہ نمبر 23)

حدیث نمبر دو حدیث پاک میں ہے جس نے کسی مسلمان کو قتل کیا اور اس پر خوش ہوا تو اللہ تعالیٰ اس کا نہ تو کوئی فرض قبول فرمائے گا اور نہ نفل۔ (کتاب سیرت الانبیاء صفحہ نمبر 127)

حدیث مبارکہ نمبر تین عن ابي سعيد وابي هريرۃ عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لو ان اهل السماء والارض اشتركوا في دم مؤمن لا قبهم الله في النار رواه ترمزي فقال هذا حديث غريب ترجمہ حضرت ابو سعید اور ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہما سے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے راوی فرمایا اگر زمین و اسمان والے ایک مسلمان کے قتل میں شریک ہو جائے تو اللہ تعالی انہیں اگ میں اوندھا ڈال دے گا۔ (کتاب مرأۃ مناجیح جلد پانچ صفحہ نمبر 241)

حدیث نمبر چار۔ امام مالک نے سعید بن مسیب رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے پانچ یا سات نفر کو ایک شخص کو دھوکا دے کر قتل کرنے کی وجہ سے قتل کر دیا اور فرمایا اگر صنعاء کے سب لوگ اس خون میں شریک ہوتے تو میں سب کو قتل کر دیتا امام بخاری نے اپنی صحیح میں اسی کے مثل ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے۔ ( کتاب بہار شریعت جلد تین با صفحہ نمبر 772)

حدیث مبارکہ کا نمبر پانچ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور پرنور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے کسی مسلمان کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالی کی بارگاہ میں اس حال میں ائے گا کہ اس کی دونوں انکھوں کے درمیان لکھا ہوگا یہ اللہ عزوجل کی رحمت سے مایوس ہے۔ (کتاب صراط الجنان جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 276)

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


پیارے پیارے اسلامی بھائیو کسی کو نا حق قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے بہت زیادہ افسوس ہے کہ اج کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہو گیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینا غنڈہ گردی دہشت گردی ڈکیتی خاندانی لڑائ تعقب والی لڑائیاں عام اور مسلمان کے خون کو پانی کی طرح بہایا جاتا ہے ہیں گروپ اورجتھے اورعسکری ونگ بنے ہوۓہیں جن کا کام ہی قتل و غارت گری کرنا ہے

وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(93)ترجمہ. . کنزالایمان اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے تیار رکھا بڑا عذاب۔

ترجمہ کنز الایمان اور جو کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے عرصہ دراز تک اس میں رہے گا اور اللہاللہ تعالی نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔

کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا شدید ترین کبیرہ گناہ ہے اور کثیر حدیث میں اس کی بہت مذمت بیان کی گئی ہے

حدیث نمبر 1حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے تاجدار مدینہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو ناحق قتل کرنا ہے ۔(صحیح بخاری شریف کتاب الدیات باب قول اللہ تعالی جلد 4. 358 حدیث نمبر 6871)

حدیث نمبر 2 کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے خسارے کا شکار ہوگا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر زمین و اسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہو جائیں تو اللہ تعالی سب کو اوندے منہ جہنم میں ڈال دے گا (معجم الصغیر باب العین من اسمۀ علی صفحہ نمبر205الجزءالاول )

حدیث نمبر 3 …حضرت ابو بکرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پرمُصِر تھا(بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا جلد،1 23 الحدیث31)

حدیث نمبر4 حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ’’یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے مایوس ہے۔(ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلمًا، 3 / 262، الحدیث: 2620)

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ قتل نا حق کی نحوست سے محفوظ فرمائے اور ہمیں دوسرے لوگوں کو اس سے بچانے کی توفیق عطا فرمائے

امین امین ثم امین جزاک اللہ خیرا

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


مسلمان کا کسی کو ناحق قتل کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے اب دور حاضر میں بھی ناحق قتل ہو رہے ہیں اب سگے بھائی ایک دوسرے کو زمین کے بدلے قتل کر رہے ہیں۔ناحق قتل کے متعلق کچھ احادیث مبارکہ پڑھتے ہیں:

(1)ظلماقتل کس کے حصے میں: حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم نور مجسم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا جس سے بھی ظلم قتل کیا جاتا ہے تو حضرت ادم علیہ السلام کے پہلے بیٹے کے حصے میں اس کا خون ہوتا ہے کیونکہ اس نے سب سے پہلے قتل کو ایجاد کیا۔ (بخاری, کتاب الاعصام, ج 4,ص 513, حدیث 7321)

(2)دین کی وسعت اور کشادگی میں رکاوٹ قتل ناحق: حضرت سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سرکار مدینہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا مومن ہمیشہ اپنے دین کی وسعت اور کشادگی میں رہتا ہے جب تک کہ وہ نہ حق قتل نہ کرے۔ (بخاری, کتاب الدیات ,ج 4 ,ص 356, حدیث 6862)

(3)قیامت کے دن قاتل کو ہزار مرتبہ قتل: حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں بروز قیامت قاتل کو ہزار مرتبہ قتل کیا جائے گا عاصم بن ابی النجنود رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ اے ابو زرعہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا جس سے اس نے قتل کیا اس کی ہزار ضربیں.(کتاب الفتن, ج 8 ,ص 644, حدیث 330)

(4)مومن کا قتل دنیا کے زوال سے برھ کر: حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ عزوجل کے نزدیک ایک مومن کا قتل دنیا کے زوال سے بڑھ کر ہے. (ترمذی, کتاب الدیات,ج 3, ص98, حدیث 1400)

(5)قاتل و مقتول دونوں اگ میں:حضرت سیدنا ابوبکر ندی بن حارث ثقفی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب دو مسلمان تلواریں لے کے ایک دوسرے پر حملہ اور ہوں تو قاتل مقتول دونوں اگ میں ہیں راوی فرماتے ہیں میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ تعال علیہ وسلم قاتل تو واقعی حقدار ہیں مگر مقتول کا کیا قصور ہے تو فرمایا وہ بھی اپنے مقابل کو قتل کرنا چاہتا تھا.(بخاری,کتاب العلم, ج 1, ص 23, حدیث 31)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!بات بات پر قتل کرنا عام ہو چکا ہے اللہ عزوجل ہمیں اس مذموم گناہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے امین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔