ذیشان علی عطّاری (درجۂ خامسہ جامعۃ المدینہ
فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
مسلمان کا کسی
کو ناحق قتل کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے اب دور حاضر میں بھی ناحق قتل ہو رہے ہیں
اب سگے بھائی ایک دوسرے کو زمین کے بدلے قتل کر رہے ہیں۔ناحق قتل کے متعلق کچھ
احادیث مبارکہ پڑھتے ہیں:
(1)ظلماقتل
کس کے حصے میں: حضرت
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم نور مجسم صلی
اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا جس سے بھی ظلم قتل کیا جاتا ہے تو حضرت ادم علیہ
السلام کے پہلے بیٹے کے حصے میں اس کا خون ہوتا ہے کیونکہ اس نے سب سے پہلے قتل کو
ایجاد کیا۔ (بخاری, کتاب الاعصام, ج 4,ص 513, حدیث 7321)
(2)دین
کی وسعت اور کشادگی میں رکاوٹ قتل ناحق: حضرت سیدنا ابن عمر رضی اللہ
عنہما سے مروی ہے کہ سرکار مدینہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا
مومن ہمیشہ اپنے دین کی وسعت اور کشادگی میں رہتا ہے جب تک کہ وہ نہ حق قتل نہ کرے۔
(بخاری, کتاب الدیات ,ج 4 ,ص 356, حدیث 6862)
(3)قیامت
کے دن قاتل کو ہزار مرتبہ قتل: حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی
عنہ فرماتے ہیں بروز قیامت قاتل کو ہزار مرتبہ قتل کیا جائے گا عاصم بن ابی
النجنود رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ اے ابو زرعہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا
جس سے اس نے قتل کیا اس کی ہزار ضربیں.(کتاب الفتن, ج 8 ,ص 644, حدیث 330)
(4)مومن
کا قتل دنیا کے زوال سے برھ کر: حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ
عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ عزوجل
کے نزدیک ایک مومن کا قتل دنیا کے زوال سے بڑھ کر ہے. (ترمذی, کتاب الدیات,ج 3,
ص98, حدیث 1400)
(5)قاتل
و مقتول دونوں اگ میں:حضرت سیدنا ابوبکر ندی بن حارث ثقفی سے روایت ہے
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب دو مسلمان تلواریں لے کے ایک دوسرے
پر حملہ اور ہوں تو قاتل مقتول دونوں اگ میں ہیں راوی فرماتے ہیں میں نے عرض کی یا
رسول اللہ صلی اللہ تعال علیہ وسلم قاتل تو واقعی حقدار ہیں مگر مقتول کا کیا قصور
ہے تو فرمایا وہ بھی اپنے مقابل کو قتل کرنا چاہتا تھا.(بخاری,کتاب العلم, ج 1, ص
23, حدیث 31)
میٹھے میٹھے
اسلامی بھائیو!بات بات پر قتل کرنا عام ہو چکا ہے اللہ عزوجل ہمیں اس مذموم گناہ
سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے امین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔