قتل ناحق ایک ایسی مذموم صفت ہے جس کے ذریعے بندہ کی عزت و آبرو متأثر اور دنیا و آخرت میں ذلت و رسوائی مقدر ہوتی ہے نیز اس کی فعل کی مذمت و برائی احادیث کریمہ میں بھی بیان ہوئی چنانچہ۔۔۔

1۔حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’کسی مومن کو قتل کرنے میں اگر زمین و آسمان والے شریک ہو جائیں تو اللّٰه تعالیٰ ان سب کو جہنم میں دھکیل دے ۔ (ترمذی، کتاب الدیات، باب الحکم فی الدماء، 3 / 100، الحدیث: 1403

2۔حضرت براء بن عازب رَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کاختم ہو جانا ایک مسلمان کے ظلماً قتل سے زیاد سہل ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلماً، 3 / 261، الحدیث: 2619)

3....حضرت ابو الدرداء رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راویت ہے رسول اﷲ صلَّی اﷲ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا کہ’’مومن تیز رو( یعنی مومن نیکی میں جلدی کرنے والا ہوتا ہے۔) اور صالح رہتا ہے جب تک حرام خون نہ کر لے اور جب حرام خون کر لیتا ہے تو اب وہ تھک جاتا ہے۔ (یعنی قتل ناحق کی نحوست سے انسان توفیق خیر سے محروم رہ جاتاہے اسی کو تھک جانے سے تعبیر فرمایا۔) بہار شریعت حصہ 17 ص753 ۔ ’’ سنن أبي داود ‘‘ ،کتاب الفتن والملاحم،باب في تعظیم قتل المؤمن،الحدیث: 4270 ،ج 4 ،ص 139۔)

4۔حضرت معاویہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راویت ہے کہ رسول اﷲ صلَّی اﷲ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا کہ ’’امید ہے کہ گناہ کو اﷲ بخش دے گا مگر اس شخص کو نہ بخشے گا جو مشرک ہی مر جائے یا جس نے کسی مرد مومن کو قصداً ناحق قتل کیا۔( ’’ سنن أبي داود ‘‘ ،کتاب الفتن ۔۔۔ إلخ،باب في تعظیم قتل المؤمن،الحدیث: 4270 ،ج 4 ،ص 139)

5....حضرت ابن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلَّی اﷲ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا کہ’’ مسلمان اپنے دین کے سبب کشادگی میں رہتا ہے جب تک کوئی حرام خون نہ کر لے۔( ’’ صحیح البخاري ‘‘ ،کتاب الدیات،باب قول اللّٰہ تعالٰی{ وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا۔۔۔ إلخ }،الحدیث: 6862 ،ج 4)

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔