افتخار احمد عطّاری (درجۂ ثالثہ جامعۃ المدینہ
فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
ہمارا اسلام
بہت ہی عمدہ اور خوبصورت ہے جس نے ہمیں تمام چیزوں کے احکامات بتا دیے ایک طرف جہاں
نیکی کرنے پر ہمیں جنت الفردوس کی خوشخبری دی گئی اس طرح گناہ پر سزا کا بھی حکم
دیا گیا ہے آج کل ہمارے معاشرے میں ہر گناہ عروج پر ہے ڈاکہ زنی چوری مال کو غصب
کرنا کسی پر ظلم کرنا یتیم کا مال کہا جانا انہی میں سے ایک گنا بلکہ بہت بڑا گناہ
کسی کو ناحق قتل کرنا ہے ہمارے معاشرے میں بات بات پر قتل کر دیتے ہیں ذرا سی بات
ہوئی تو بس غصے سے باہر ہوگئے نا اسکا سوچا نا اسکے بیوی بچوں کا سوچا بس غصے میں
آکر سب کچھ ختم کردیا اس کی وجہ کیا ہے ؟ اس کی وجہ کہیں علم دین سے دوری تو نہیں
بلکہ علم دین سے دوری ہی ہے اگر ہم اس کے بارے میں (قتل نہ حق) جانتے ہوتے تو ہم
یہ کام (قتل نہ حق)کرتے ہوئے سو بار سوچتے ہیں ۔ آئیے اسی کے بارے میں چند احادیث
ملاحظہ فرمائیں
’’حضرت عبد
اللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک مسلمان شخص کے قتل سے پوری دنیا کا
ناپید ( تباہ) ہو جانا ہلکا (واقعہ) ہے۔‘‘(ترمذي، السنن، کتاب الديات، باب ما جاء
في تشديد قتل المؤمن، 4: 16، رقم: 1395۔نسائي، السنن، کتاب تحريم الدم، باب تعظيم
الدم، 7: 82، رقم:)
حضرت عبد اللہ
بن بریدہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مومن کو قتل کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام دنیا کے
برباد ہونے سے بڑا ہے۔‘‘(نسائي، السنن، کتاب تحريم الدم، باب تعظيم الدم، 7: 82،
83، رقم: 3988-3990۔ طبراني، المعجم الصغير، 1: 355، رقم: 594۔ بيهقي، السنن
الکبری، 8: 22، رقم: 15647)
’’حضرت براء
بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک پوری کائنات کا ختم ہو جانا بھی کسی شخص کے قتلِ
ناحق سے ہلکا ہے۔‘‘(ابن أبي الدنيا، الأهوال: 190، رقم: 183۔ ابن أبي عاصم،
الديات: 2، رقم: 2۔بيهقي، شعب الإيمان، 4: 345، رقم: )
اِن روایات
اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک جان کو ناحق قتل کرنے والوں کو یہ معلوم ہونا
چاہیے کہ اُنہوں نے ایک نفس کو نہیں بلکہ پوری کائنات کی حُرمت پر حملہ کیا ہے،
اور اس کا گناہ اس طرح ہے جیسے کسی نے پوری کائنات کو تباہ کردیا ہے۔ اللہ عزوجل
ہمیں محفوظ فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔