اللہ پاک کے پیارے حبيب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جہاں تمام چیزوں میں امت کی راہنمائی فرمائی ہے وہیں جھوٹی گواہی یعنی جھوٹاگواہ بننا،جھوٹ بولنا وغيرہ کے متعلق بھی کئی مقامات پر وعیدات ارشاد فرمائی ہیں، آج ہم ان میں سے چند ارشادات جھوٹی گواہی کے متعلق پڑنے کی سعادت حاصل کریں گے۔

جھوٹ کی تعریف:

جھوٹ یہ ہے کہ کسی کے بارے میں خلاف حقیقت خبر دینا۔ قائل گنہگار اس وقت ہو گا جبکہ (بلاضرورت)جان بوجھ کر جھوٹ بولے۔(حدیقہ ندیہ، قسم ثانی، مبحث اول، 4/10)

حدیث: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو شخص لوگوں کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوئے چلا کہ یہ بھی گواہ ہے حالانکہ یہ گواہ نہیں وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے اور جو بغیر جانے ہوئے کسی کے مقدمہ کی پیروی کرے وہ اللہ(عزوجل)کی ناخوشی میں ہے جب تک اُس سے جدا نہ ہو جائے۔ (سنن کبریٰ للبیہقی، کتاب الوکالۃ، باب اثم من خاصم او اعان فی خصومۃ بباطل، 6/136، حدیث:11444)

ایک اور مقام پر اللہ پاک کے پیارے حبيب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ پاک کے ساتھ شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔(صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب الکبائر واکبرھا، ص59، حدیث:144)

اسی طرح ایک اور مقام پر رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سب سے بہتر میرے ز مانہ کے لوگ ہیں پھر جو اُن کے بعد ہیں پھر وہ جو اُن کے بعد ہیں پھر ایسی قوم آئے گی کہ اُن کی گواہی قسم پر سبقت کرے گی اور قسم گواہی پر یعنی گواہی دینے اور قسم کھانے میں بے باک ہوں گے۔(صحیح بخاری،کتاب الشھادات،باب لایشھد علی شہادۃ جور۔۔۔ الخ،2/193، حدیث:2652)

حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو گواہی کے لیے بلایا گیا اور اُس نے گواہی چھپائی یعنی ادا کرنے سے گریز کی وہ ویسا ہی ہے جیسا جھوٹی گواہی دینے والا۔(معجم اوسط، من اسمہ علی، 3/156، حدیث:4176)

ابو داؤدو نےخریم بن فاتک سے روایت کی کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نماز صبح پڑھ کر قیام کیا اور یہ فرمایا کہ جھوٹی گواہی شرک کے ساتھ برابر کر دی گئی پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی: فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰)حُنَفَآءَ لِلّٰهِ غَیْرَ مُشْرِكِیْنَ بِهٖؕ-

ترجَمۂ کنزُالایمان: تو دور ہو بتوں کی گندگی سے اوربچو جھوٹی بات سے ایک اللہ کے ہوکر کہ اس کا ساجھی(شریک)کسی کو نہ کرو۔(پ17،الحج:30، 31-سنن ابی داوٗد، کتاب القضاء، باب فی شھادۃ الزور، 3/427، حدیث:3599)

اسی طرح ایک اور مقام پر حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اُس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔(ابن ماجہ، کتاب الاحكام، باب شهادة الزور، 3/123، حدیث: 2373)

پیارے اسلامی بھائیو! جہنم کا عذاب تو کیا ہم ایک منٹ کے لیے بھی اس دنیا میں آگ میں نہیں رہ سکتے تو اگر ہمیں اس گواہی کے سبب جو ہم کسی دوست کا دل رکھنے یا کسی عزیز کا دل رکھنے کے لیے ہم جھوٹی گواہی دے رہے ہیں اس کے سبب جہنم میں جانا پڑا تو ہم کیا کریں گے کیسے برداشت کرے گے جہنم کے عذاب کو ہم ہر گز ہر گز برداشت نہیں کر سکتے تو جب ہم وہ عذاب نہیں برداشت کر سکتے تو ہمیں چاہیے کہ ہم جھوٹی گواہی بھی نا دیں اس سے بھی ضرور بچے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہم سب کو جھوٹی گواہی سے بچنے کی توفيق عطا فرمائے اور ہم سب کو جھوٹوں کی صحبت سے بھی محفوظ رکھے۔ آمین


ہر مسلمان چاہے کتنا ہی پرہیزگار کیوں نہ ہو بحیثیّت مسلمان وہ شریعتِ مطہرہ کا مکلّف ہے کیونکہ ہماری پیاری شریعت نے اپنے پیروکاروں کو بہت سارے کام کرنے اور بہت سارے امور سے بچنے کا حکم فرمایا ہے، اور جن امور کو کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ان کو بجا لانے والوں کو دارین کی سعادتوں کی بشارتوں کا مژدہ سنایا، مگر اسی کے بر عکس اگر دیکھا جائے تو جن کاموں سے بچنے کا حکم فرمایا ان سے اجتناب نہ کرنے والوں کو دارین میں ذلت و رسوائی کی وعیدات بھی سنائیں۔ انہی اجتناب والے کاموں میں سے جھوٹی گواہی بھی ہے جس سے بچنے کا حکم ہماری شریعت ہمیں دیتی ہے کیونکہ یہ کبیرہ گناہوں میں سے ہے بلکہ اس کو اکبر الکبائر فرمایا گیا۔ (الامان والحفیظ)

جھوٹی گواہی کی تعریف: جھوٹی گواہی سے مراد وہ گواہی ہے جو حقیقت کے بر خلاف ہو۔

جھوٹی گواہی کو الزور کہنے کی وجہ: جھوٹی گواہی کو عربی میں الزور کے لفظ کے ساتھ تعبیر کیا جاتا ہے جس کا معنی مائل ہونا، ہٹ جانا ہے۔ جھوٹی گواہی کو الزور کہنے کی وجہ یہ ہے کہ جھوٹی گواہی دینے والا راہِ حق سے ہٹ جانے والا ہوتا ہے۔

جھوٹی گواہی سے بچنے کا حکم:جھوٹی گواہی سے بچنے کی ترغیب قرآن و حدیث میں ملتی ہے چنانچہ اللہ پاک سورۃ الفرقان، آیت نمبر 72 میں ارشاد فرماتا ہے: وَ الَّذِیْنَ لَا یَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَۙ-وَ اِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا(۷۲)ترجمۂ کنز الایمان: اور جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب بیہودہ پر گزرتے ہیں اپنی عزت سنبھالے گزر جاتے ہیں۔

تفسیر صراط الجنان میں آیت کے اس حصے (وَ الَّذِیْنَ لَا یَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَۙ-: اور جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔)کے تحت ہے: یعنی کامل ایمان والے گواہی دیتے ہوئے جھوٹ نہیں بولتے اور وہ جھوٹ بولنے والوں کی مجلس سے علیحدہ رہتے ہیں، اُن کے ساتھ میل جول نہیں رکھتے۔(مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: 72، ص811)

جھوٹی گواہی دینے والوں کو اپنے ایمان و آخرت کی فکر کرنی چاہئے کیونکہ یہ انتہائی مذموم عادت ہے چنانچہ حضرت سیدنا شیخ عزالدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اگر ناحق گواہی میں گواہ جھوٹا ہو تو وہ تین گناہوں کا مرتکب ہوگا:(1)نافرمانی کا گناہ (2)ظالم کی مدد کرنے کا گناہ (3)مظلوم کو رسوا کرنے کا گناہ۔(الزواجر عن اقتراف الکبائر، کتاب الشھادات، ج2، ص710)اور کثیر اَحادیث میں جھوٹی گواہی کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے، یہاں ان میں گیارہویں کی نسبت سے 11 اَحادیث ملاحظہ ہوں:

(1)صحیح بخاری و مسلم میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں: کبیرہ گناہ یہ ہیں، اللہ(عزوجل)کے ساتھ شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔(صحیح مسلم،کتاب الإیمان،باب الکبائرواکبرھا، ص59، حدیث:144)

(2)بخاری و مسلم میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سب سے بہتر میرے زمانہ کے لوگ ہیں پھر جو اُن کے بعد ہیں پھر وہ جو اُن کے بعد ہیں پھر ایسی قوم آئے گی کہ اُن کی گواہی قسم پر سبقت کرے گی اور قسم گواہی پر یعنی گواہی دینے اور قسم کھانے میں بے باک ہوں گے۔(صحیح بخاری،کتاب الشھادات،باب لایشھد علی شہادۃ جور۔۔۔ الخ،2/193، حدیث:2652)

(3)حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہُ عنہماسے روایت ہے، رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اُس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔(ابن ماجہ، کتاب الاحكام، باب شهادة الزور، 3/123، حدیث:2373)

(4)حضرت انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ عزوجل کے ساتھ شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔(بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالی: ومن احیاہا، 4/358، الحدیث: 6871)

(5)حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے،حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مردکا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے، اس نے (اپنے اوپر)جہنم (کا عذاب)واجب کر لیا۔ (معجم كبير، عكرمۃ عن ابن عباس، 11/172، حدیث:11541)

(6)حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص لوگوں کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوئے چلا کہ یہ بھی گواہ ہے حالانکہ یہ گواہ نہیں وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے اور جو بغیر جانے ہوئے کسی کے مقدمہ کی پیروی کرے وہ اللہ تعالیٰ کی ناخوشی میں ہے جب تک اس سے جدا نہ ہو جائے۔ (سنن کبریٰ للبیہقی، کتاب الوکالۃ، باب اثم من خاصم او اعان فی خصومۃ بباطل، 6/136، حدیث:11444)

(7)سرکار دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:جو کسی مسلمان پر ایسی چیز کا الزام لگائے جس کے بارے میں وہ خود بھی جانتا نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اسے(جہنمیوں کے خون اور پیپ جمع ہونے کے مقام)رَدْغَۃُ الْخَبَالْ میں اُس وقت تک رکھے گا جب تک کہ اپنے الزام کے مطابق عذاب نہ پا لے۔(مصنف عبد الرزاق،ج11، ص425، حدیث: 20905)

(8)کائنات کے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:جس نے کسی مسلمان کے خلاف ایسی گواہی دی جس کا وہ اہل نہیں تھا تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔(مسند امام احمد بن حنبل، مسند ابی ہریرة،3/585، حدیث:1062)

(9)سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانے عبرت نشان ہے: قیامت کی ہولناکی کے سبب پرندے چونچے ماریں گے اور دموں کو حرکت دیں گے اور جھوٹی گواہی دینے والا کوئی بات نہ کرے گا اور اس کے قدم ابھی زمین سے جدا نہ ہوں گے کہ اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔(معجم اوسط، 5/362، حدیث:7616)

(10)حضرت ابو بکرہ بن نفیع بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں بیٹھے ہوئے تھے، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تین مرتبہ ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہوں کے بارے میں نہ بتاؤں۔ ہم نے عرض کی:یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! ضرور ارشاد فرمائیں۔ تو ارشاد فرمایا: وہ اللہ پاک کے ساتھ شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا ہے، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ٹیک لگائے تشریف فرما تھے پھر سیدھے ہوکر بیٹھ گئے اور ارشاد فرمایا: یاد رکھو! جھوٹ بولنا اور جھوٹی گواہی دینا بھی کبیرہ گناہ ہے۔ راوی فرماتے ہیں: آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بار بار یہی فرماتے رہے یہاں تک کہ ہم کہنے لگے کہ کاش آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خاموشی اختیار فرمائیں۔(صحیح بخاری،کتاب الشھادات، باب ماقبل فی الشھادةالزور، حدیث:2654،ص209)

(11)رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نماز صبح پڑھ کر قیام کیا اور یہ فرمایا کہ جھوٹی گواہی شرک کے ساتھ برابر کر دی گئی پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی: فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰)حُنَفَآءَ لِلّٰهِ غَیْرَ مُشْرِكِیْنَ بِهٖؕ-

ترجمۂ کنز الایمان: تو دور رہو بتوں کی گندگی سے اور بچو جھوٹی بات سے ایک اللہ کے ہوکر کہ اس کا ساجھی(شریک)کسی کو نہ کرو۔(پ 17،الحج: 30، 31۔ سنن ابو داوٗد،کتاب القضاء،باب في شھادۃ الزور، 3/427، حدیث:3599)

مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں: قرآن کریم میں جھوٹی گواہی کو شرک کے ساتھ بیان فرمایا اور اسے شرک کے برابر قرار دیا کیونکہ شرک بھی جھوٹ کی ہی تو قسم ہے۔مشرک کہتا ہے رب دو ہیں یہ قول جھوٹ ہے سمجھتا ہے کہ بت لائق عبادت ہیں یہ اعتقادی جھوٹ ہے،نیز مشرک رب تعالیٰ کے خلاف جھوٹ بول کر اس کا حق مارتا ہے اور یہ جھوٹا بندے کے خلاف جھوٹ بول کر اس کا حق مارتاہے لہٰذا جھوٹ کو شرک سے بہت تناسب ہے۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، ج5، تحت الحدیث: 3779)

ان تمام احادیث سے معلوم ہو اکہ جھوٹی گواہی نہ دینا اور جھوٹ بولنے سے تعلق نہ رکھنا کامل ایمان والوں کاوصف ہے۔

جھوٹی گواہی کے معاملے میں ہمارے معاشرے کا حال:

پیارے اسلامی بھائیو! واقعی جھوٹی گواہی دینا بہت قبیح عمل ہے مگر اگر ہم اپنے معاشرے کی طرف ایک نظر دیکھیں تو خوفِ خدا نہ ہونے کے سبب لوگ کیسے ایک دوسرے کے خلاف جھوٹی گواہیاں دے رہے ہیں دنیا کے بے وقعت مال و دولت کی حرص اتنی بڑھ چکی ہے کہ بھائی اپنے سگے بھائی کے خلاف، دوست اپنے دوست کے خلاف، ایک ہی گھر کے افراد ایک دوسرے کے خلاف، محلے والے اپنے محلے دار کے خلاف، الغرض تقریباً دنیا کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے لوگ ایک دوسرے کے خلاف جھوٹی گواہیاں دے رہے ہوتے ہیں۔

مگر افسوس!فی زمانہ جھوٹی گواہی دینا ایک معمولی کام سمجھا جاتا ہے العیاذ باللہ۔ یہاں تک کہ آج کل تو باقاعدہ لوگوں کو کچھ (گھٹیا)رقم کے عوض جھوٹی گواہی پر آمادہ کیا جاتا ہے اور کوٹ و کچیریوں میں جھوٹی گواہی دلائی جاتی ہے۔

مدنی التجا: ان تمام احادیث کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے جھوٹی گواہی سے ہر ایک کو ہر دم بچتے رہنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ اللہ کریم اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے ہم سب کو جھوٹی گواہی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ خاتمِ النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


جھوٹی گواہی کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ ہے جس کے معنی حقیقت کے برخلاف گواہی دینا ہے۔ فقہا نے آیات اور روایات سے استناد کرتے ہوئے جھوٹی گواہی دینے کو حرام قرار دیا ہے۔ فقہا کے فتوے کے مطابق اگر اقرار، گواہی یا علم قاضی کے ذریعے گواہی، جھوٹی ہونا ثابت ہوجائے تو جھوٹے گواہ پر تعزیر ہوگی۔

قرآن پاک میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے کامل ایمان والوں کے متعلق ارشاد فرمایا کہ کامل ایمان والے جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔چنانچہ پارہ19، سورۃ الفرقان کی آیت نمبر 72 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:وَ الَّذِیْنَ لَا یَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَۙ-ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔ یعنی کامل ایمان والے گواہی دیتے ہوئے جھوٹ نہیں بولتے اور وہ جھوٹ بولنے والوں کی مجلس سے علیحدہ رہتے ہیں، اُن کے ساتھ میل جول نہیں رکھتے۔ (مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: 72، ص811)

اس سے معلوم ہو اکہ جھوٹی گواہی نہ دینا اور جھوٹ بولنے سے تعلق نہ رکھنا کامل ایمان والوں کاوصف ہے۔ یاد رہے کہ جھوٹی گواہی دینا انتہائی مذموم عادت ہے اور کثیر اَحادیث میں اس کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے، یہاں ان میں سے4 احادیث ملاحظہ ہوں:

(1)حضرت انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے،نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ عزوجل کے ساتھ شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔(بخاری، کتاب الديات، باب قول الله تعالى: ومن احياها، 4/358، حدیث: 6871)

(2)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔(ابن ماجہ، کتاب الاحكام، باب شهادة الزور، 3/123، حدیث:2373)

(3)حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے،حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مردکا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے، اس نے (اپنے اوپر)جہنم (کا عذاب)واجب کر لیا۔(معجم كبير، عكرمۃ عن ابن عباس، 11/172، حدیث:11541)

(4)حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص لوگوں کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوئے چلا کہ یہ بھی گواہ ہے حالانکہ یہ گواہ نہیں وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے اور جو بغیر جانے ہوئے کسی کے مقدمہ کی پیروی کرے وہ اللہ تعالیٰ کی ناخوشی میں ہے جب تک اس سے جدا نہ ہو جائے۔(سنن کبریٰ للبیہقی، کتاب الوکالۃ، باب اثم من خاصم او اعان فی خصومۃ بباطل، 6/136، حدیث:11444)


اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّمَا یَفْتَرِی الْكَذِبَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ(۱۰۵)ترجمہ کنز الایمان: جھوٹ بہتان وہی باندھتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے اور وہی جھوٹے ہیں۔ (پ14، النحل: 105)

لہٰذا ثابت ہوا کہ جھوٹ بولنا اور بہتان باندھنا بےایمانوں ہی کا کام ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جھوٹ کبیرہ گناہوں میں بد ترین گناہ ہے لیکن آج ہمارے معاشرے میں جھوٹ اس قدر عام ہوچکا ہے کہ لوگ دنیاوی خواہشات اور اس فانی دنیا کی محبت میں گواہی میں بھی جھوٹ بولنے لگ گئے اور جھوٹی گواہی دینے لگ گئے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَ الَّذِیْنَ لَا یَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَۙ-وَ اِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا(۷۲)ترجمہ کنز الایمان: اور جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب بیہودہ پر گزرتے ہیں اپنی عزت سنبھالے گزر جاتے ہیں۔(پ19، الفرقان: 72)

یعنی کامل ایمان والے گواہی دیتے ہوئے جھوٹ نہیں بولتے اور وہ جھوٹ بولنے والوں کی مجلس سے علیحدہ رہتے ہیں۔ ان کے ساتھ میل جول نہیں رکھتے۔ (مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: 72) اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی جھوٹی گواہی کی مذمت بیان کی گئی ہے۔ چند احادیث مبارکہ پیش کی جاتی ہیں:

(1)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اس کے لئے جہنم واجب کر دے گا۔ (ابن ماجہ، کتاب الاحكام، باب شهادة الزور، 3/123، حدیث:2373)

(2)حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کبیرہ گناہ یہ ہیں: الله کے ساتھ شرک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرتا اورجھوٹی گواہی دینا۔(بخاری، کتاب الديات، باب قول الله تعالى: ومن احياها، 4/358، حدیث: 6871)

(3)حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے، حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مرد کا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے تو اس نے جہنم کو واجب کر لیا۔ (معجم كبير، عكرمۃ عن ابن عباس، 11/172، حدیث:11541)

دیکھا پیارے اسلامی بھائیو اور بہنو! آج ہم فنا ہونے والی دنیا کی خاطر جھوٹی گواہی سے نہیں ڈرتے اور اس دنیا کی محبت میں جھوٹی گواہی دینے والوں کا ساتھ بھی دیتے ہیں۔ لیکن ذرا غور کریں کہ ایک دن ہمیں مرنا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمیں جھوٹی گواہی کی حالت میں موت آگئی تو کہیں ہم ان حدیث کے مصداق نہ بن جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں جھوٹی گواہی دینے سے محفوظ فرمائے۔ آمین

جھوٹی گواہی دینا نہایت ہی مذموم عمل ہے، قرآن و حدیث میں اس کی شدید ترین مذمت بیان کی گئی ہے، جھوٹی گواہی کو کبیرہ گناہ قرار دیا گیا ہے، جھوٹی گواہی دینے والا الزام، بہتان، جھوٹ اس کے علاوہ طرح طرح کے گناہوں میں ملوث ہو جاتا ہے، اس کے علاوہ جھوٹی گواہی بہت بڑا سماجی اور اخلاقی جُرم ہے اور ایک ایسی معاشرتی بیماری ہے جو سماج اور عدالتی نظام کو تباہ کر دیتی ہے۔ قرآن پاک میں الله تبارک وتعالیٰ اپنے بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: وَ الَّذِیْنَ لَا یَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَۙ

-ترجمہ کنزالایمان: اور جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔ (پ19، الفرقان:62)

یعنی کامل ایمان والے گواہی دیتے ہوئے جھوٹ نہیں بولتے۔(مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ:72، ص811)کثیر احادیث میں جھوٹی گواہی کی مذمت بیان کی گئی ہے ان میں سے چند یہ ہیں:

جھوٹے گواہ کی سب سے بڑی سزا یہ ہے کہ اللہ جل شانہ اس پر اسی وقت جہنم کو واجب فرما دیتا ہے، چنانچہ حدیث پاک میں ہے:(1)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہماسے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اُس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔ (ابن ماجہ، باب شہادۃ الزور، 3/123، الحدیث: 2373)

جھوٹے گواہ کو اس کے کہنے کے مطابق عذاب دیا جائے گا جس کے خلاف اس نے گواہی دی تھی،(2)حضرت معاذ بن انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے،رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر الزام عائد کرے تو اللہ تعالیٰ جہنم کے پل پر اسے روک لے گا یہاں تک کہ اپنے کہنے کے مطابق عذاب پا لے۔(ابوداؤد، 4/354، حدیث: 4883)

جھوٹے گواہ کو جہنم کے ایک مقام ردغۃ الخبال(ایسا مقام جس میں جہنمیوں کا خون اور پیپ جمع ہوتا ہے)عذاب دیا جائے گا،(3)حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو کسی مسلمان پر ایسی چیز کا الزام لگائے جس کے بارے میں وہ خود بھی جانتا نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اسے (جہنم کے ایک مقام)رَدْغَۃُ الْخَبَالْ میں اس وقت تک رکھے گا جب تک کہ اپنے الزام کے مطابق عذاب نہ پالے۔(کتاب الجامع فی آخر المصنّف، 10/353، حدیث:21069)

حدیث پاک میں جھوٹی گواہی کو کبیرہ گناہ قرار دیا گیا ہے،(4)حضرت انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ عزوجل کے ساتھ شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔(بخاری، کتاب الدیات، 4/358، حدیث:6871)

جھوٹا گواہ خود ہی اپنے اوپر جہنم کا عذاب واجب کر لیتا ہے،(5)حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے، حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مردکا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے، اس نے (اپنے اوپر)جہنم (کا عذاب)واجب کر لیا۔(معجم کبیر، 11/172، حدیث: 11541)

جھوٹی گواہی دینے والا تو جھوٹا گواہ ہے لیکن جو اپنا گواہ ہونا ظاہر کرے حالانکہ وہ گواہ نہیں تو یہ شخص بھی جھوٹا گواہ ہے، (6)حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص لوگوں کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوئے چلا کہ یہ بھی گواہ ہے حالانکہ یہ گواہ نہیں وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے اور جو بغیر جانے ہوئے کسی کے مقدمہ کی پیروی کرے وہ اللہ تعالیٰ کی ناخوشی میں ہے جب تک اس سے جدا نہ ہو جائے۔(سنن کبریٰ للبیہقی، کتاب الوکالۃ، 6/136، حدیث:11444)

حدیث پاک میں جھوٹی گواہی کو شرک کے برابر کہا گیا ہے، (7)حضرت خریم بن فاتک اسدی رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم صبح کی نماز پڑھ کر کھڑے ہوئے اور تین مرتبہ یہ ارشاد فرمایا جھوٹی گواہی شرک کے ساتھ برابر کر دی گئی۔ پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی: فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰)حُنَفَآءَ لِلّٰهِ غَیْرَ مُشْرِكِیْنَ بِهٖؕ

- ترجمۂ کنزُالایمان: تو دور ہو بتوں کی گندگی سے اوربچو جھوٹی بات سے ایک اللہ کے ہوکر کہ اس کا ساجھی(شریک)کسی کو نہ کرو۔(ابو داؤد، 3/427، حدیث:3599)

ان احادیث سے ثابت ہوا جھوٹی گواہی ایک کبیرہ گناہ ہے اور جھوٹے گواہ کو طرح طرح کے عذابات دیے جائیں گے۔ الله پاک تمام مسلمانوں کو اس فعل مذموم سے بچائے اور ہمیشہ سچ بولنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین

دین اسلام میں ایک انسان کی عزت و حرمت کی بہت زیادہ اہمیت ہے اور اگر وہ انسان مسلمان بھی ہو تو یہ عزت و قدر اور بڑھ جاتی ہے۔ اسی وجہ سے دین اسلام میں ان تمام افعال سے بچنے کا درس ملتا ہے جس کی وجہ سے انسان کی عزت و قدر کم ہو اور انہیں میں سے ایک فعل جھوٹی گواہی رینا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:وَ الَّذِیْنَ لَا یَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَۙ

- ترجمہ کنزالایمان:اور جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔

یعنی کامل ایمان والے گواہی دیتے ہوئے جھوٹ نہیں بولتے اور وہ جھوٹ بولنے والوں کی مجلس سے علیحدہ رہتے ہیں۔ ان کے ساتھ میل جول نہیں رکھتے۔(مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: 76، ص811)اس سے معلوم ہوا کہ جھوٹی گواہی نہ دینا اور جھوٹ بولنے والوں سے تعلق نہ رکھنا کامل ایمان والوں کا وصف ہے۔ یاد رہے کہ جھوٹی گواہی دینا انتہائی مذموم عادت ہے اور کثیر احادیث میں اس کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے جن میں سے چند احادیث درج ذیل ہیں:

(1)حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا، کبیرہ گناہ یہ ہیں اللہ عزوجل کے ساتھ شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔(بخاری، باب قبول الله تعالیٰ ومن احیاها، 4/358، حدیث:9871)

(2)حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، حضور پر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مرد کا مال بلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے، اس نے اپنے اوپر جہنم کا عذاب واجب کر لیا۔(معجم کبیر، 11/172، حدیث:11541)

(3)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سرکار دوعالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص لوگوں کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوا چلا کہ یہ بھی گواہ ہے حالانکہ یہ گواہ نہیں وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے۔ اور جو بغیر جانے ہوئے کسی کے مقدمہ کی پیروی کرے وہ اللہ تعالیٰ کی نا خوشی میں ہے جب تک اس سے جدا نہ ہو جائے۔(سنن کبری للبیہقی، کتاب الوكالۃ، باب اثم من خاصم او اعان فی خصومۃ باطل،6/369، حديث:11444)

(4)حضرت عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اس کے لئے جہنم واجب کر دے گا۔(ابن ماجہ، کتاب الاحکام، باب شهادة الزور، 3/123، حدیث: 2373)


 دین اسلام میں ایک انسان کی عزت و حرمت کی بہت اہمیت ہے اور اگر وہ انسان مسلمان بھی ہو تو اس کی عزت و حرمت اور بڑھ جاتی ہے اسی وجہ سے دین اسلام ان تمام افعال سے بچنے کا درس دیتا ہے جس کی وجہ سے کسی انسان کی عزت و حرمت کم ہو انہی افعال میں سے ایک فعل جھوٹی گواہی دینا بھی ہے۔آئیے آپ بھی جھوٹی گواہی کے بارے میں 5 احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیے!

(1)اللہ تعالیٰ کا جہنم واجب کرنا:حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے،رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔(ابن ماجہ،کتاب الاحکام،باب شھادتہ الزور، 3/123، حدیث: 6383)

(2)اپنے اوپر جہنم واجب کر لینا: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے،کہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مرد کا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے تو اس نے (اپنے اوپر)جہنم کو واجب کر لیا۔ (معجم کبیر،عکرمتہ عن ابن عباس، 11/172،حدیث،11541)

(3)سب سے بڑا گناہ: حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کبیرہ گناہوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:اللہ عزوجل کے ساتھ شریک ٹھہرانا، والدین کی نافرمانی کرنا اور کسی جان کو قتل کرنا کبیرہ گناہ ہیں۔ پھر فرمایا کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہ کے بارے میں نہ بتاؤں؟ اور وہ جھوٹ بولنا ہے یا فرمایا: جھوٹی گواہی دینا ہے۔(صحیح بخاری،کتاب الادب،باب عقوق الوالدین من الکبائر، ص506، الحدیث: 5977)

(4)جھوٹی گواہی دینا شرک کے برابر: حضرت سیدنا خریم بن فاتک اسدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار مدینہ راحت قلب و سینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نماز فجر ادا فرمائی،جب فارغ ہوئے تو کھڑے ہو کر 3 مرتبہ ارشاد فرمایا: جھوٹی گواہی اللہ عزوجل کے ساتھ شرک کرنے کے برابر قرار دی گئی ہے۔ پھر یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی: ترجمہ کنزالایمان: تو دور رہو بتوں کی گندگی سے اور بچو جھوٹی بات سے،ایک اللہ کا ہو کر اس کا ساجھی کسی کو نہ کرو۔(سنن ابی داؤد،کتاب القضاء،باب فی شھادتہ الزور، ص 1490، الحدیث: 3599)

اللہ پاک ہمیں جھوٹی گواہی سے بچنے اور سچ بولنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین

تمام تعریفیں اس پاک پروردگار کے لیے ہیں جس نے کلمہ کن سے ہر شیء کو پیدا فرمایا اور ہر دور میں اپنے انبیاء کرام کو بھیج کر انسانوں کی ہدایت اور راہنمائی کیلئے انبیاء کرام علیہم السلام کی زندگی کو ان کے لیے نمونہ بنایا اور سب سے آخر میں اپنے حبیب نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بطور آخری نبی مبعوث فرما کر اُن پر قرآن مجید کو نازل کیا جس کی تشریح کرتے ہوئےنبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی احادیث کے ذریعے ہر جائز اور ناجائز امور کے درمیان فرق کردیا چنانچہ انہیں میں سے ایک امر کسی معاملے پر گواہی دینا ہے۔

قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ مسلمانوں کو عدل و انصاف کے تقاضے کو پورا کرنے کا حکم ارشاد فرماتے ہوئے گواہی کے متعلق ارشاد فرماتا ہے:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُهَدَآءَ لِلّٰهِ وَ لَوْ عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَۚ-اِنْ یَّكُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰهُ اَوْلٰى بِهِمَا- فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوٰۤى اَنْ تَعْدِلُوْاۚ-وَ اِنْ تَلْوٗۤا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا(۱۳۵)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو انصاف پر خوب قائم ہوجاؤ اللہ کے لیے گواہی دیتے چاہے اس میں تمہارا اپنا نقصان ہو یا ماں باپ کا یا رشتہ داروں کا جس پر گواہی دو وہ غنی ہو یا فقیر ہو بہرحال اللہ کو اس کا سب سے زیادہ اختیار ہے تو خواہش کے پیچھے نہ جاؤ کہ حق سے الگ پڑواور اگر تم ہیر پھیر کرو یا منہ پھیرو تو اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے۔ (النسآء:135)

اسی طرح نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھی گواہوں کے اوصاف بیان فرمائے ہیں:جیساکہ حضرت زید بن خالد سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کیا میں تم کو بہترین گواہوں کی خبر نہ دوں وہ گواہ ہے جو طلب کیے جانے سے پہلے گواہی دے۔ (مراٰۃ المناجیح، حدیث: 3766)

ایک اور حدیث میں رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بڑے سے بڑا گناہ اﷲ کا شریک ٹھہرانا ہے اور ماں باپ کی نافرمانی اورگزشتہ پر جھوٹی قسم اور نہیں قسم کھاتا کوئی روکنے والی قسم، پھر اس میں مچھر کے پر برابر ملاوٹ کرے مگر وہ تاقیامت اس کے دل میں داغ بنادی جاتی ہے۔ (مراٰۃ المناجیح، حدیث: 3677)

بیہقی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے راوی کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اگر لوگوں کو محض اُن کے دعوے پر چیز دلائی جائے تو بہت سے لوگ خون اور مال کے دعوے کر ڈالیں گے و لیکن مدعی کے ذمہ بینہ (گواہ)ہے اور منکر پر قسم۔(سنن کبری للبیہقی، ج10،ص427، الحدیث:21201)

صحیح بخاری و مسلم میں انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کبیرہ گناہ یہ ہیں، اللہ(عزوجل)کے ساتھ شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔(صحیح مسلم،ص59، حدیث:144)

ابو داؤدو ابن ماجہ نے خریم بن فاتک اور امام احمد و ترمذی نے ایمن بن خریم رضی اللہ عنہما سے روایت کی، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نماز صبح پڑھ کر قیام کیا اور یہ فرمایا کہ جھوٹی گواہی شرک کے ساتھ برابر کر دی گئی۔ (سنن ابو داوٗد، حدیث:3599)

ابن ماجہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے راوی کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اُس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔(ابن ماجہ، حدیث:2373)

طبرانی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے راوی کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مرد مسلم کا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے اُس نے جہنم واجب کر لیا۔(المعجم الکبیر، ج11،حدیث: 11541)

لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ جب کبھی ہماری گواہی کی ضرورت پیش آئے تو ہم ان احادیث کو پیش نظر رکھتے ہوئے جھوٹی گواہی سے اجتناب کریں اور سچی گواہی دے کر اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی اور رضا کو حاصل کریں۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ہمیشہ سچ بولنے کی سعادت نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


آج کل لوگ بہت سے گناہ کرتے ہیں مگر اسے گناہ ہی نہیں سمجھتے۔ ان میں سے ایک بڑا گناہ جھوٹی گواہی دینا بھی ہے۔ آج کل بہت سے لوگ جھوٹی گواہیوں کا سہارا لے کر مسلمانوں کی حق تلفیاں کرتے ہیں آئیے جھوٹی گواہی کے بارے میں جانتے ہیں کہ یہ ہے کیا؟

جھوٹی گواہی کی تعریف: جھوٹی گواہی یہ ہے کہ کوئی اس بات کی گواہی دے جس کا اس کے پاس ثبوت نہ ہو۔

حکم: جھوٹی گواہی دینا کبیرہ گناہ اور نا جائز و حرام ہے۔

حدیث: پیارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے: جس نے کسی مسلمان کے خلاف ایسی گواہی دی جس کا وہ اہل نہیں تھا تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔(مسند امام احمدبن حنبل، ص 585،حدیث: 10622)

حدیث:شہنشاہ مدینہ قرار قلب و سینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے: (بروز قیامت)جھوٹی گواہی دینے والے کے قدم اپنی جگہ سے نہیں ہٹیں گے حتی کہ اس کے لئے جہنم واجب ہو جائے گی۔(ابن ماجہ، ص2619، الحدیث:2373)

حدیث: حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے: کبیره گناہ یہ ہیں: (1)اللہ عزوجل کے ساتھ شریک ٹھہرانا (2)والدین کی نا فرمانی کرنا (3)کسی جان کو قتل کرنا اور (4)جھوٹی قسم کھانا۔ (صحیح البخاری، ص558، الحدیث:6675)

حدیث: حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کبیرہ گناہوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: اللہ عزوجل کے ساتھ شریک ٹھہرانا، والدین کی نافرمانی کرنا اور کسی جان کو قتل کرنا کبیرہ گناہ ہیں۔ پھر فرمایا کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہ کے بارے میں نہ بتاؤں؟ اور وہ جھوٹ بولنا ہے یا فر مایا: جھوٹی گواہی دینا ہے۔(صحیح بخاری، ص 506، حدیث:6675)

اللہ عزوجل ہمیں جھوٹی گواہی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

فی زمانہ لوگوں کی حالت اتنی ابتر ہو چکی ہے کہ ان کے نزدیک جھوٹی قسم کھانا، جھوٹی گواہی دینا، جھوٹے مقدمات میں پھنسوا کر اپنے مسلمان بھائی کی عزت تار تار کر دینا، لوہے کی سنگین سلاخوں کے پیچھے لاچارگی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دینا، اپنے مسلمان بھائی کا ناحق مال ہڑپ کر جانا گویا کہ یہ جرائم کی فہرست میں داخل ہی نہیں۔ اس دنیا کی فانی زندگی کو حرفِ آخر سمجھ بیٹھنا عقلمندی نہیں نادانی اور بیوقوفی کی انتہا ہے، انہیں چاہئے کہ اِن احادیث کو بغور پڑھ کر عبرت حاصل کریں۔

یاد رہے کہ جھوٹی گواہی دینا انتہائی مذموم عادت ہے اور کثیر اَحادیث میں اس کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے،اور ہمارا مضمون بھی جھوٹی گواہی کی مذمت سے جڑا ہوا ہے لہٰذا اس سے متعلق آپ کی خدمت میں 5 احادیث مبارکہ پیش کی جاتی ہیں:

(1)حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما سے ایک حدیث مروی ہے کہ کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑا گناہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک کرنا اور جھوٹی گواہی دینا اور گواہی کو چھپانا ہے۔(شعب الایمان، الثامن من شعب الایمان، 1/271، الحدیث:291)

(2)حضرت انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ عزوجل کے ساتھ شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔(بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالی: ومن احیاہا، 4/358، الحدیث: 6871)

(3)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔ (ابن ماجہ، کتاب الاحکام، باب شہادۃ الزور، 3/123، الحدیث:2373)

(4)حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے،حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مردکا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے، اس نے (اپنے اوپر)جہنم (کا عذاب)واجب کر لیا۔ (معجم الکبیر، عکرمۃ عن ابن عباس، 11/172، الحدیث:11541)

(5)حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص لوگوں کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوئے چلا کہ یہ بھی گواہ ہے حالانکہ یہ گواہ نہیں وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے اور جو بغیر جانے ہوئے کسی کے مقدمہ کی پیروی کرے وہ اللہ تعالیٰ کی ناخوشی میں ہے جب تک اس سے جدا نہ ہو جائے۔(سنن کبریٰ للبیہقی، کتاب الوکالۃ، باب اثم من خاصم او اعان فی خصومۃ بباطل، 6/136، الحدیث: 11444)

اس سے معلوم ہوا کہ جھوٹی گواہی نہ ہی دینا چاہیے اور نہ ہی جھوٹ بولنے سے تعلق رکھنا چاہیے کیونکہ جھوٹ کہنا اور جھوٹی گواہی دینا یہ کبیرہ گناہ ہے اور ایسا نہ کرنا کامل ایمان والوں کا وصف ہے۔

اﷲ پاک ہمیں کامل ایمان والوں میں شامل فرمائے اور ہمیشہ اس ایمان پر ثابت قدمی عطا فرمائے اور اﷲ پاک ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے۔اٰمین۔

آج کل ہمارے معاشرے میں جھوٹ بہت عام ہو چکا ہے، لوگ جھوٹ اس طرح بول رہے ہوتے ہے کہ اللہ پاک کی پناہ! بات بات پر جھوٹ بول دیا جاتا ہے، اسی طرح بعض لوگ دنیاوی فائدے حاصل کرنے یا کسی کو بدنام کرنے اور اپنے کسی دوست یا عزیز کو بچانے کے لیے جھوٹی گواہی بھی دے دیتے ہیں۔ قرآن و حدیث میں جھوٹی گواہی کی سخت مذمت بیان کی گئی ہے، جھوٹی گواہی دینا کامل ایمان والوں کا طریقہ نہیں ہے۔

اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ الَّذِیْنَ لَا یَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَۙ-ترجَمۂ کنزُالایمان: اورجو جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔ یعنی کامل ایمان والے گواہی دیتے ہوئے جھوٹ نہیں بولتے اور وہ جھوٹ بولنے والوں کی مجلس سے علیحدہ رہتے ہیں اُن کے ساتھ میل جول نہیں رکھتے۔(تفسیر صراط الجنان، الفرقان: 72)

ایک اور مقام پر اللہ پاک فرماتا ہے: وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰)ترجمہ کنزالعرفان: اور جھوٹی بات سے بچو۔ تفسیر صراط الجنان میں ہے: یہاں جھوٹی بات سے کیا مراد ہے، اس کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد جھوٹی گواہی دینا ہے۔ (تفسیر صراط الجنان، الحج: 30)

جھوٹی گواہی کی مذمت پر 5 فرامین مصطفٰے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پڑھئے:

(1)حضرت خریم بن فاتک اسدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نماز فجر پڑھی، پھر فارغ ہوئے تو کھڑے ہوئے اور تین مرتبہ ارشاد فرمایا کہ جھوٹی گواہی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے برابر کر دی گئی ہے۔ پھر یہ آیت تلاوت فرمائی: فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰)حُنَفَآءَ لِلّٰهِ غَیْرَ مُشْرِكِیْنَ بِهٖؕ

ترجَمۂ کنزُالایمان: تو دور ہو بتوں کی گندگی سے اوربچو جھوٹی بات سے ایک اللہ کے ہوکر کہ اس کا ساجھی(شریک)کسی کو نہ کرو۔(ابو داؤد، 3/428)

(2)حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مرد کا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے تو اُس نے جہنم واجب کر لیا۔ (معجم کبیر، 11/172)

(3)حضرت انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ پاک کے ساتھ شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔(بخاری، 4/358)

(4)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ پاک اس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔(ابن ماجہ، 3/123)

(5)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو کسی مسلمان پر ایسی چیز کا الزام لگائے جس کے بارے میں وہ خود بھی جانتا نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اسے رَدْغَۃُ الْخَبَالْ میں اس وقت تک رکھے گا جب تک کہ اپنے الزام کے مطابق عذاب نہ پالے۔(کتاب الجامع فی آخر المصنّف، 10/353)

اللہ پاک ہمیں ہمیشہ سچ بولنے جھوٹ اور جھوٹی گواہی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا(۳۶)ترجمہ کنز الایمان: اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں بےشک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے سوال ہونا ہے۔

تفسیر: اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں یعنی جس چیز کو دیکھا نہ ھو اس کے بارے میں یہ نہ کہو کہ میں نے دیکھا ہے اور جس بات کو سنا نہ ھو اس کے بارے میں یہ نہ کہو کہ میں نے سنا ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جھوٹی گواہی نہ دو۔

جھوٹی گواہی کی تعریف:جھوٹی گواہی یہ ہے کہ کوئی اس بات کی گواہی دے جس کا اس کے پاس ثبوت نہ ہو۔ جھوٹی گواہی دینے، جھوٹے الزامات لگانے اور اس طرح کے دیگر جھوٹے اقوال کی احادیث میں ممانعت کی گئی ہے۔

(1)جہنم واجب کر دے گا: حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اُس کے لیے جہنم واجب کردے گا۔ (ابن ماجہ، کتاب الاحکام، باب شہادة الزور،3/123، الحدیث: 2373)

(2)گناہ کبیرہ:حضور نبی کریم رءوف رحیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کبیرہ گنا ہوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: اللہ عزوجل کے ساتھ شریک ٹھہرانا، والدین کی نافرمانی کرنا اور کسی جان کو قتل کرنا کبیرہ گناہ ہیں۔ پھر فرمایا: کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہ کے بارے میں نہ بتاؤں؟ اور وہ جھوٹ بولنا ہے۔ یا فرمایا: جھوٹی گواہی دینا ہے۔(صحيح البخاری، کتاب الأدب، باب عقوق الوالدين من الكبائر، الحدیث: 5977، ص506)

(3)اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے:پیارے آقا مکی مدنی مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے: جس نے کسی مسلمان کے خلاف ایسی گواہی دی جس کا وہ اہل نہیں تھا تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔ (مسند امام احمد بن حنبل، مسند ابى ہريرة، الحديث:10622، ج3، ص585)

(4)وادیِ غی میں ڈالے جانا:حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: غی جہنم میں ایک وادی ہے جس کی گرمی سے جہنم کی وادیاں بھی پناہ مانگتی ہیں، یہ ان لوگوں کے لیے ہے جو زنا کے عادی اور اس پر مصر ہوں، جو شراب کے عادی ہوں۔ جو سود خور اور سود کے عادی ہوں جو والدین کی نافرمانی کرنے والے ہوں اور جھوٹی گواہی دینے والے ہوں۔(بغوی، مریم، تحت الآیۃ: 168، 3/59)

(5)جہنم کا عذاب واجب کر لیا: حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، حضور پر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مرد کا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے اس نے اپنے اوپر جہنم کا عذاب واجب کر لیا۔(معجم الکبیر، عکرمتہ عن ابن عباس، 11/ 172، الحدیث: 11541)

اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہمیں جھوٹی گواہی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین