جھوٹی گواہی کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ ہے جس کے معنی حقیقت کے برخلاف گواہی دینا ہے۔ فقہا نے آیات اور روایات سے استناد کرتے ہوئے جھوٹی گواہی دینے کو حرام قرار دیا ہے۔ فقہا کے فتوے کے مطابق اگر اقرار، گواہی یا علم قاضی کے ذریعے گواہی، جھوٹی ہونا ثابت ہوجائے تو جھوٹے گواہ پر تعزیر ہوگی۔

قرآن پاک میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے کامل ایمان والوں کے متعلق ارشاد فرمایا کہ کامل ایمان والے جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔چنانچہ پارہ19، سورۃ الفرقان کی آیت نمبر 72 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:وَ الَّذِیْنَ لَا یَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَۙ-ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔ یعنی کامل ایمان والے گواہی دیتے ہوئے جھوٹ نہیں بولتے اور وہ جھوٹ بولنے والوں کی مجلس سے علیحدہ رہتے ہیں، اُن کے ساتھ میل جول نہیں رکھتے۔ (مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: 72، ص811)

اس سے معلوم ہو اکہ جھوٹی گواہی نہ دینا اور جھوٹ بولنے سے تعلق نہ رکھنا کامل ایمان والوں کاوصف ہے۔ یاد رہے کہ جھوٹی گواہی دینا انتہائی مذموم عادت ہے اور کثیر اَحادیث میں اس کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے، یہاں ان میں سے4 احادیث ملاحظہ ہوں:

(1)حضرت انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے،نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ عزوجل کے ساتھ شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔(بخاری، کتاب الديات، باب قول الله تعالى: ومن احياها، 4/358، حدیث: 6871)

(2)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔(ابن ماجہ، کتاب الاحكام، باب شهادة الزور، 3/123، حدیث:2373)

(3)حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے،حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مردکا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے، اس نے (اپنے اوپر)جہنم (کا عذاب)واجب کر لیا۔(معجم كبير، عكرمۃ عن ابن عباس، 11/172، حدیث:11541)

(4)حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص لوگوں کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوئے چلا کہ یہ بھی گواہ ہے حالانکہ یہ گواہ نہیں وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے اور جو بغیر جانے ہوئے کسی کے مقدمہ کی پیروی کرے وہ اللہ تعالیٰ کی ناخوشی میں ہے جب تک اس سے جدا نہ ہو جائے۔(سنن کبریٰ للبیہقی، کتاب الوکالۃ، باب اثم من خاصم او اعان فی خصومۃ بباطل، 6/136، حدیث:11444)