ابو واصف کاشف علی عطاری (درجۂ خامسہ جامعۃ
المدینہ شاہ عالم مارکیٹ لاہور، پاکستان)
اللہ
پاک کے پیارے حبيب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جہاں تمام چیزوں میں امت کی
راہنمائی فرمائی ہے وہیں جھوٹی گواہی یعنی جھوٹاگواہ بننا،جھوٹ بولنا وغيرہ کے
متعلق بھی کئی مقامات پر وعیدات ارشاد فرمائی ہیں، آج ہم ان میں سے چند ارشادات
جھوٹی گواہی کے متعلق پڑنے کی سعادت حاصل کریں گے۔
جھوٹ
کی تعریف:
جھوٹ
یہ ہے کہ کسی کے بارے میں خلاف حقیقت خبر دینا۔ قائل گنہگار اس وقت ہو گا جبکہ
(بلاضرورت)جان بوجھ کر جھوٹ بولے۔(حدیقہ ندیہ، قسم ثانی، مبحث اول، 4/10)
حدیث: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو شخص لوگوں کے ساتھ یہ
ظاہر کرتے ہوئے چلا کہ یہ بھی گواہ ہے حالانکہ یہ گواہ نہیں وہ بھی جھوٹے
گواہ کے حکم میں ہے اور جو بغیر جانے ہوئے کسی کے مقدمہ کی پیروی کرے وہ
اللہ(عزوجل)کی ناخوشی میں ہے جب تک اُس سے جدا نہ ہو جائے۔ (سنن کبریٰ للبیہقی،
کتاب الوکالۃ، باب اثم من خاصم او اعان فی خصومۃ بباطل، 6/136،
حدیث:11444)
ایک
اور مقام پر اللہ پاک کے پیارے حبيب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ پاک کے ساتھ شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی
کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔(صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب
الکبائر واکبرھا، ص59، حدیث:144)
اسی
طرح ایک اور مقام پر رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سب
سے بہتر میرے ز مانہ کے لوگ ہیں پھر جو اُن کے بعد ہیں پھر وہ جو اُن کے بعد ہیں
پھر ایسی قوم آئے گی کہ اُن کی گواہی قسم پر سبقت کرے گی اور قسم گواہی پر یعنی
گواہی دینے اور قسم کھانے میں بے باک ہوں گے۔(صحیح بخاری،کتاب الشھادات،باب لایشھد
علی شہادۃ جور۔۔۔ الخ،2/193، حدیث:2652)
حضرت
ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو گواہی کے لیے بلایا گیا اور اُس نے گواہی چھپائی یعنی
ادا کرنے سے گریز کی وہ ویسا ہی ہے جیسا جھوٹی گواہی دینے والا۔(معجم اوسط، من
اسمہ علی، 3/156، حدیث:4176)
ابو
داؤدو نےخریم بن فاتک سے روایت کی کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے نماز صبح پڑھ کر قیام کیا اور یہ فرمایا کہ جھوٹی گواہی شرک کے ساتھ
برابر کر دی گئی پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی: فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ
الزُّوْرِۙ(۳۰)حُنَفَآءَ لِلّٰهِ غَیْرَ مُشْرِكِیْنَ بِهٖؕ-
ترجَمۂ
کنزُالایمان: تو دور ہو بتوں کی گندگی سے اوربچو جھوٹی بات سے ایک اللہ کے ہوکر کہ
اس کا ساجھی(شریک)کسی کو نہ کرو۔(پ17،الحج:30،
31-سنن ابی داوٗد، کتاب القضاء، باب فی شھادۃ الزور، 3/427، حدیث:3599)
اسی
طرح ایک اور مقام پر حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ
تعالیٰ اُس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔(ابن ماجہ، کتاب الاحكام، باب شهادة الزور،
3/123، حدیث: 2373)
پیارے
اسلامی بھائیو! جہنم کا عذاب تو کیا ہم ایک منٹ کے لیے بھی اس دنیا میں آگ میں
نہیں رہ سکتے تو اگر ہمیں اس گواہی کے سبب جو ہم کسی دوست کا دل رکھنے یا کسی عزیز
کا دل رکھنے کے لیے ہم جھوٹی گواہی دے رہے ہیں اس کے سبب جہنم میں جانا پڑا تو ہم
کیا کریں گے کیسے برداشت کرے گے جہنم کے عذاب کو ہم ہر گز ہر گز برداشت نہیں کر
سکتے تو جب ہم وہ عذاب نہیں برداشت کر سکتے تو ہمیں چاہیے کہ ہم جھوٹی گواہی بھی
نا دیں اس سے بھی ضرور بچے۔
اللہ
پاک سے دعا ہے کہ ہم سب کو جھوٹی گواہی سے بچنے کی توفيق عطا فرمائے اور ہم سب کو
جھوٹوں کی صحبت سے بھی محفوظ رکھے۔ آمین