صفی الرحمٰن عطّاری(درجۂ خامسہ مرکزی جامعۃُ
المدین فیضانِ مدینہ ہ جوہر ٹاؤن لاہور، پاکستان)
ہر
مسلمان چاہے کتنا ہی پرہیزگار کیوں نہ ہو بحیثیّت مسلمان وہ شریعتِ مطہرہ کا مکلّف
ہے کیونکہ ہماری پیاری شریعت نے اپنے پیروکاروں کو بہت سارے کام کرنے اور بہت سارے
امور سے بچنے کا حکم فرمایا ہے، اور جن امور کو کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ان کو
بجا لانے والوں کو دارین کی سعادتوں کی بشارتوں کا مژدہ سنایا، مگر اسی کے بر عکس
اگر دیکھا جائے تو جن کاموں سے بچنے کا حکم فرمایا ان سے اجتناب نہ کرنے والوں کو
دارین میں ذلت و رسوائی کی وعیدات بھی سنائیں۔ انہی اجتناب والے کاموں میں سے
جھوٹی گواہی بھی ہے جس سے بچنے کا حکم ہماری شریعت ہمیں دیتی ہے کیونکہ یہ کبیرہ
گناہوں میں سے ہے بلکہ اس کو اکبر الکبائر فرمایا گیا۔ (الامان والحفیظ)
جھوٹی گواہی کی تعریف: جھوٹی گواہی
سے مراد وہ گواہی ہے جو حقیقت کے بر خلاف ہو۔
جھوٹی
گواہی کو الزور کہنے کی وجہ: جھوٹی گواہی کو عربی میں الزور کے لفظ
کے ساتھ تعبیر کیا جاتا ہے جس کا معنی مائل ہونا، ہٹ جانا ہے۔ جھوٹی گواہی کو
الزور کہنے کی وجہ یہ ہے کہ جھوٹی گواہی دینے والا راہِ حق سے ہٹ جانے والا ہوتا
ہے۔
جھوٹی
گواہی سے بچنے کا حکم:جھوٹی گواہی سے بچنے کی ترغیب قرآن و حدیث میں ملتی
ہے چنانچہ اللہ پاک سورۃ الفرقان، آیت نمبر 72 میں ارشاد فرماتا ہے: وَ الَّذِیْنَ
لَا یَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَۙ-وَ اِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا(۷۲)ترجمۂ
کنز الایمان: اور جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب بیہودہ پر گزرتے ہیں اپنی عزت
سنبھالے گزر جاتے ہیں۔
تفسیر صراط الجنان میں آیت کے اس حصے (وَ الَّذِیْنَ لَا یَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَۙ-: اور
جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔)کے تحت ہے: یعنی کامل ایمان والے گواہی دیتے ہوئے جھوٹ
نہیں بولتے اور وہ جھوٹ بولنے والوں کی مجلس سے علیحدہ رہتے ہیں، اُن کے ساتھ میل
جول نہیں رکھتے۔(مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: 72،
ص811)
جھوٹی گواہی دینے والوں کو اپنے ایمان و آخرت کی
فکر کرنی چاہئے کیونکہ یہ انتہائی مذموم عادت ہے چنانچہ حضرت سیدنا شیخ عزالدین
رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اگر ناحق گواہی میں گواہ جھوٹا ہو تو وہ تین گناہوں کا
مرتکب ہوگا:(1)نافرمانی کا گناہ (2)ظالم کی مدد کرنے کا گناہ (3)مظلوم کو رسوا
کرنے کا گناہ۔(الزواجر عن اقتراف الکبائر، کتاب الشھادات، ج2،
ص710)اور کثیر اَحادیث میں جھوٹی گواہی کی
شدید مذمت بیان کی گئی ہے، یہاں ان میں گیارہویں کی نسبت سے 11 اَحادیث ملاحظہ
ہوں:
(1)صحیح
بخاری و مسلم میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں: کبیرہ گناہ یہ ہیں، اللہ(عزوجل)کے ساتھ شریک کرنا، ماں
باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔(صحیح مسلم،کتاب
الإیمان،باب الکبائرواکبرھا، ص59، حدیث:144)
(2)بخاری
و مسلم میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی، رسول اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سب سے بہتر میرے زمانہ کے لوگ ہیں پھر جو اُن کے
بعد ہیں پھر وہ جو اُن کے بعد ہیں پھر ایسی قوم آئے گی کہ اُن کی گواہی قسم پر
سبقت کرے گی اور قسم گواہی پر یعنی گواہی دینے اور قسم کھانے میں بے باک ہوں
گے۔(صحیح بخاری،کتاب الشھادات،باب لایشھد علی شہادۃ جور۔۔۔ الخ،2/193، حدیث:2652)
(3)حضرت
عبد اللہ بن عمر رضی اللہُ عنہماسے روایت ہے، رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ
اُس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔(ابن ماجہ، کتاب الاحكام، باب شهادة الزور، 3/123، حدیث:2373)
(4)حضرت
انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ عزوجل کے ساتھ شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی
کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔(بخاری، کتاب الدیات، باب قول
اللہ تعالی: ومن احیاہا، 4/358،
الحدیث: 6871)
(5)حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما سے
روایت ہے،حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے ایسی
گواہی دی جس سے کسی مسلمان مردکا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے، اس
نے (اپنے اوپر)جہنم (کا عذاب)واجب کر لیا۔ (معجم كبير، عكرمۃ عن ابن عباس، 11/172، حدیث:11541)
(6)حضرت
ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص لوگوں کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوئے چلا کہ یہ بھی
گواہ ہے حالانکہ یہ گواہ نہیں وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے اور جو بغیر جانے
ہوئے کسی کے مقدمہ کی پیروی کرے وہ اللہ تعالیٰ کی ناخوشی میں ہے جب تک اس سے جدا
نہ ہو جائے۔ (سنن کبریٰ للبیہقی، کتاب الوکالۃ، باب اثم من خاصم او اعان فی خصومۃ
بباطل، 6/136، حدیث:11444)
(7)سرکار دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے فرمایا:جو کسی مسلمان پر ایسی چیز کا الزام لگائے جس کے بارے میں وہ خود بھی
جانتا نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اسے(جہنمیوں کے خون اور پیپ جمع ہونے کے مقام)رَدْغَۃُ
الْخَبَالْ میں اُس وقت تک رکھے گا جب تک کہ اپنے الزام کے مطابق عذاب نہ پا
لے۔(مصنف عبد الرزاق،ج11، ص425، حدیث: 20905)
(8)کائنات کے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے فرمایا:جس نے کسی مسلمان کے خلاف ایسی گواہی دی جس کا وہ اہل نہیں تھا تو وہ
اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔(مسند امام احمد بن حنبل، مسند ابی ہریرة،3/585،
حدیث:1062)
(9)سرکارِ
مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانے عبرت نشان ہے: قیامت کی ہولناکی کے
سبب پرندے چونچے ماریں گے اور دموں کو حرکت دیں گے اور جھوٹی گواہی دینے والا کوئی
بات نہ کرے گا اور اس کے قدم ابھی زمین سے جدا نہ ہوں گے کہ اسے جہنم میں پھینک
دیا جائے گا۔(معجم اوسط، 5/362، حدیث:7616)
(10)حضرت ابو بکرہ بن نفیع بن حارث رضی اللہ عنہ
فرماتے ہیں کہ ہم رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں بیٹھے
ہوئے تھے، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تین مرتبہ ارشاد فرمایا: کیا میں
تمہیں سب سے بڑے گناہوں کے بارے میں نہ بتاؤں۔ ہم نے عرض کی:یارسول اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! ضرور ارشاد فرمائیں۔ تو ارشاد فرمایا: وہ اللہ پاک کے
ساتھ شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا ہے، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم ٹیک لگائے تشریف فرما تھے پھر سیدھے ہوکر بیٹھ گئے اور ارشاد فرمایا: یاد
رکھو! جھوٹ بولنا اور جھوٹی گواہی دینا بھی کبیرہ گناہ ہے۔ راوی فرماتے ہیں: آپ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بار بار یہی فرماتے رہے یہاں تک کہ ہم کہنے لگے کہ
کاش آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خاموشی اختیار فرمائیں۔(صحیح بخاری،کتاب
الشھادات، باب ماقبل فی الشھادةالزور، حدیث:2654،ص209)
(11)رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
نماز صبح پڑھ کر قیام کیا اور یہ فرمایا کہ جھوٹی گواہی شرک کے ساتھ برابر کر دی
گئی پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی: فَاجْتَنِبُوا
الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰)حُنَفَآءَ
لِلّٰهِ غَیْرَ مُشْرِكِیْنَ بِهٖؕ-
ترجمۂ
کنز الایمان: تو دور رہو بتوں کی گندگی سے اور بچو جھوٹی بات سے ایک اللہ کے ہوکر
کہ اس کا ساجھی(شریک)کسی کو نہ کرو۔(پ 17،الحج:
30، 31۔
سنن ابو داوٗد،کتاب القضاء،باب في شھادۃ الزور، 3/427، حدیث:3599)
مفسر
شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں: قرآن
کریم میں جھوٹی گواہی کو شرک کے ساتھ بیان فرمایا اور اسے شرک کے برابر قرار دیا
کیونکہ شرک بھی جھوٹ کی ہی تو قسم ہے۔مشرک کہتا ہے رب دو ہیں یہ قول جھوٹ ہے
سمجھتا ہے کہ بت لائق عبادت ہیں یہ اعتقادی جھوٹ ہے،نیز مشرک رب تعالیٰ کے خلاف
جھوٹ بول کر اس کا حق مارتا ہے اور یہ جھوٹا بندے کے خلاف جھوٹ بول کر اس کا حق
مارتاہے لہٰذا جھوٹ کو شرک سے بہت تناسب ہے۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح،
ج5، تحت الحدیث: 3779)
ان تمام احادیث سے معلوم ہو اکہ جھوٹی گواہی نہ
دینا اور جھوٹ بولنے سے تعلق نہ رکھنا کامل ایمان والوں کاوصف ہے۔
جھوٹی
گواہی کے معاملے میں ہمارے معاشرے کا حال:
پیارے
اسلامی بھائیو! واقعی جھوٹی گواہی دینا بہت قبیح عمل ہے مگر اگر ہم اپنے معاشرے کی
طرف ایک نظر دیکھیں تو خوفِ خدا نہ ہونے کے سبب لوگ کیسے ایک دوسرے کے خلاف جھوٹی
گواہیاں دے رہے ہیں دنیا کے بے وقعت مال و دولت کی حرص اتنی بڑھ چکی ہے کہ بھائی
اپنے سگے بھائی کے خلاف، دوست اپنے دوست کے خلاف، ایک ہی گھر کے افراد ایک دوسرے
کے خلاف، محلے والے اپنے محلے دار کے خلاف، الغرض تقریباً دنیا کے ہر شعبہ سے تعلق
رکھنے والے لوگ ایک دوسرے کے خلاف جھوٹی گواہیاں دے رہے ہوتے ہیں۔
مگر
افسوس!فی زمانہ جھوٹی گواہی دینا ایک معمولی کام سمجھا جاتا ہے العیاذ باللہ۔ یہاں
تک کہ آج کل تو باقاعدہ لوگوں کو کچھ (گھٹیا)رقم کے عوض جھوٹی گواہی پر آمادہ کیا
جاتا ہے اور کوٹ و کچیریوں میں جھوٹی گواہی دلائی جاتی ہے۔
مدنی
التجا: ان تمام احادیث کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے جھوٹی گواہی سے ہر ایک کو ہر دم
بچتے رہنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ اللہ کریم اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے ہم سب کو جھوٹی گواہی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
بجاہ خاتمِ النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم