قرآن کریم میں اللہ پاک نے جھوٹی گواہی نہ دینے کو کامل ایمان والے کا وصف بتایا کہ جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے وہ کامل ایمان والا ہے اور رحمٰن کا بندہ ہے، افسوس کہ فی زمانہ جس طرح دیگر گناہوں کو ہلکا سمجھا جاتا ہے وہیں پر جھوٹی گواہی کو بھی عام کام سمجھا جاتا ہے حالانکہ یہ انتہائی مذموم (برا)کام ہے، قرآن و حدیث میں اس کی مذمت بیان کی گئی ہے۔

جھوٹی گواہی نیک اعمال کو برباد کردیتی ہے:

عَنْ اَبِى هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہ صلى الله عليه وسلم مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالْعَمَلَ بِهِ فَلَيْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ في أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہمارے پیارے اور آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو جھوٹی باتیں اور برے کام نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے کھانا پانی چھوڑ دینے کی پرواہ نہیں۔ (مراٰۃ المناجیح، جلد3، روزے کا بیان، حدیث نمبر: 1999)

جھوٹی گواہی دینا کبیرہ گناہ ہے:

عَنْ أَبِي بَكْرَةَ رضي الله عنه قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم أَلاَ أُنَبِّئُكُمْ بِأَكْبَرِ الكَبَائِرِ ثَلاَثًا قَالُوا بَلَى يَا رَسُولَ اللہ قَالَ الإِشْرَاكُ بِاللہ وَعُقُوقُ الوَالِدَيْنِ وَجَلَسَ وَكَانَ مُتَّكِئًا فَقَالَ أَلاَ وَقَوْلُ الزُّورِ قَالَ فَمَا زَالَ يُكَرِّرُهَا حَتَّى قُلْنَا لَيْتَهُ سَكَتَ حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے، انہوں نے کہاہم رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر تھے تو آپ نے فرمایا: کیا میں تمہیں کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑے گناہوں کی خبر نہ دوں؟ (آپ نے یہ تین بار کہا)پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی گواہی دینا (یافرمایا: جھوٹ بولنا)رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم (پہلے)ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے، پھر آپ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور اس بات کو دہراتے رہے حتی کہ ہم نے (دل میں)کہا: کاش! آپ مزید نہ دہرائیں۔ (صحیح مسلم، کتاب الایمان،باب الکبائر واکبرھا، حدیث نمبر: 259)

جھوٹی گواہی اللہ پاک کے ساتھ شرک کرنے کے برابر ہے:

عَنْ خُرَيْمِ بْنِ فَاتِكٍ رضي الله عنه قَالَ صَلَّى رَسُولُ اللہ صلى الله عليه وسلم صَلاَةَ الصُّبْحِ فَلَمَّا انْصَرَفَ قَامَ قَائِمًا فَقَالَ عُدِلَتْ شَهَادَةُ الزُّورِ بِالإِشْرَاكِ بِاللہ ثَلاَثَ مِرَارٍ ثُمَّ قَرَأَ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ حُنَفَاءَ لِلَّهِ غَيْرَ مُشْرِكِينَ بِهِ خریم بن فاتک اسدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فجر کی نماز پڑھائی، جب آپ نے سلام پھیرا تو خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے اورفرمایا: جھوٹی گواہی اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے برابر ہے، آپ نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی پھرآپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یہ مکمل آیت تلاوت فرمائی ﴿ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰)حُنَفَآءَ لِلّٰهِ غَیْرَ مُشْرِكِیْنَ بِهٖؕ-﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: تو دور ہو بتوں کی گندگی سے اوربچو جھوٹی بات سے ایک اللہ کے ہوکر کہ اس کا ساجھی(شریک)کسی کو نہ کرو۔(مسند احمد، اول مسند الکوفیین، حدیث خریم ابن فاتک، حدیث نمبر: 18898)

جھوٹی گواہی جہنم میں داخلہ کا سبب ہے:

عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَسُولَ اللہ صلى الله عليه وسلم قَالَ مَنِ اقْتَطَعَ حَقَّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ بِيَمِينِهِ فَقَدْ أَوْجَبَ اللہ لَهُ النَّارَ وَحَرَّمَ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ وَإِنْ كَانَ شَيْئًا يَسِيرًا يَا رَسُولَ اللہ قَالَ وَإِنْ قَضِيبًا مِنْ أَرَاكٍ یعنی ابو امامہ اياس بن ثعلبہ حارثی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے جھوٹی قسم کھا کر کسی مسلمان کا حق مارا، اس کے لیے اللہ نے جہنم کو واجب اور جنت کو حرام کردیا۔ ایک شخص نے سوال کیا: اے اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! چاہے وہ چیز تھوڑی سی ہی کیوں نہ ہو؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اگر چہ پیلو کے درخت کی ایک چھوٹی سی ٹہنی ہی ہو۔ (صحیح مسلم، جلد 1،باب وعید من اقتطع حق مسلم بین فاجرۃ بالنار، حدیث نمبر: 353)

جھوٹی گواہی اللہ پاک کو ناراض کرنے کے اسباب میں سے ایک سبب ہے:

عَنْ عَبْدِ اللہ بْنِ مسعود رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہ صلى الله عليه وسلم: مَنْ حَلَفَ عَلٰى يَمِيْنِ صَبْرٍ وَهُوَ فِيْهَا فَاجِرٌ يَقْتَطِعُ بِهَا مَالَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ، لَقِيَ اللّٰهَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَهُوَ عَلَيْهِ غَضْبَانُ، فَأَنْزَلَ اللّٰهُ تَصْدِيْقَ ذٰلِكَ: إِنَّ الَّذِيْنَ يَشْتَرُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيْلًا إِلى آخِرِ الآيَةِ، مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ، حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہمارے پیارے اور آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا جو لزومی قسم پر حلف اٹھائے حالانکہ وہ اس میں جھوٹا ہو تاکہ کسی مسلمان آدمی کا مال مارے تو وہ قیامت کے دن اﷲ سے اس حالت میں ملے گا کہ وہ اس پر ناراض ہوگا۔ تواﷲ نے اس کی تصدیق اتاری کہ بے شک جو لوگ اﷲ کے عہد کے اور اپنی قسموں کے بدلہ تھوڑی قیمت خرید لیتے ہیں۔ (مرآۃ المناجیح، جلد 5،حدیث نمبر: 3759)

اللہ پاک ہمیں دیگر تمام برائیوں بالخصوص جھوٹی گواہی سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

وَ الَّذِیْنَ لَا یَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَۙ-وَ اِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا(۷۲)ترجمۂ کنز الایمان: اورجو جھوٹی گواہی نہیں دیتےاورجب بیہودہ پر گزرتے ہیں اپنی عزت سنبھالے گزر جاتے ہیں۔

جھوٹی گواہی نہ دینا اور جھوٹ بولنے سے تعلق نہ رکھنا کامل ایمان والوں کا وصف ہے۔ یاد رہے کہ جھوٹی گواہی دینا انتہائی مذموم عادت ہے اور کثیر اَحادیث میں اس کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے، یہاں ان میں سے چند اَحادیثیں ملاحظہ ہوں:

حدیث نمبر 1: حضرت انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ عزوجل کے ساتھ شریک کرنا، ماں باپ کی نا فرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔(بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالی: ومن احیاہا، 4/358، الحدیث: 6871)

اس حدیث مبارکہ سے یہ بات ثابت ہوئی کہ جس طرح اللہ عزوجل کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا اور ماں باپ کی نافرمانی کرنا اور کسی کو نا حق قتل کرنا گناہ کبیرہ میں سے ہے اسی طرح جھوٹی گواہی دینا بھی گناہ کبیرہ میں سے ہے۔

حدیث نمبر 2: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔ (ابن ماجہ، کتاب الاحکام، باب شہادۃ الزور، 3/123، الحدیث: 2373)

اس حدیث مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جو شخص جھوٹی گواہی دیتا ہے تو اس شخص پر جہنم فوراً واجب ہوجاتی ہے

حدیث نمبر 3: طبرانی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے راوی کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مرد مسلم کا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے اُس نے جہنم واجب کر لیا۔ (المعجم الکبیر، الحدیث:11541، ج11، ص 172، 173)

حدیث نمبر 4: ابو داؤدو ابن ماجہ نے خریم بن فاتک اور امام احمد و ترمذی نے ایمن بن خریم رضی اللہ عنہما سے روایت کی رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نماز صبح پڑھ کر قیام کیا اور یہ فرمایا کہ جھوٹی گواہی شرک کے ساتھ برابر کر دی گئی پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی: فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰)حُنَفَآءَ لِلّٰهِ غَیْرَ مُشْرِكِیْنَ بِهٖؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: تو دور ہو بتوں کی گندگی سے اوربچو جھوٹی بات سے ایک اللہ کے ہوکر کہ اس کا ساجھی(شریک)کسی کو نہ کرو۔(پ17، الحج:30، 31- سنن ابی داوٗد، کتاب القضاء، باب فی شھادۃ الزور، الحدیث: 3599، ج 3، ص427)

اس حدیث مبارکہ سے یہ بات ثابت ہوئی کہ جھوٹی گواہی کو اللہ عزوجل نے شرک کے ساتھ برابر کر دیا ہے یعنی جس طرح شرک کرنے والا سزا کا مستحق ہوتا ہے اسی طرح جھوٹی گواہی دینے والا بھی سزا کا مستحق ہوتا ہے،جیسا کہ آپ نے پیچھے جھوٹی گواہی کی مذمت میں چند احادیثیں ملاحظہ کی اور ان احادیث میں آپ نے جھوٹی گواہی دینے والے کے متعلق عذاب کے بارے میں بھی ملاحظہ کیا اللہ عزوجل کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں جھوٹی گواہی دینے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین

جھوٹی گواہی کی تعریف: حق بات کو چھپا کر اس کے مخالف گواہی دینا جھوٹی گواہی کہلاتا ہے۔ جھوٹی گواہی کے بارے میں قرآن پاک اور احادیث میں اس کی بہت مذمت بیان کی گئی۔ چنانچہ

حدیث 1: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ پاک کے ساتھ شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔(بخاری، کتاب الديات، باب قول الله تعالى، الحديث:697)

اسی طرح جھوٹے گواہ کے لیے جہنم واجب ہے۔

حدیث 2:حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نا پائیں گے کہ اللہ تعالی اس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔

حدیث 3:حضور پرنور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مرد کا مال ہلاک ہو جائے یا کسی مسلمان کا خون بہایا جائے۔ اس نے اپنے اوپر جہنم کا عذاب واجب کر لیا۔(معجم الکبیر، عکرمہ عن ابن عباس، الحدیث: 11541)

حدیث 4:حضرت خریم بن فاتک اسدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم صبح کی نماز پڑھ کر کھڑے ہوئے اور تین مرتبہ یہ ارشاد فرمایا کہ جھوٹی گواہی ہی شرک کے ساتھ برابر کردی گئی ہے پھر تین مرتبہ اس آیت کی تلاوت فرمائی۔ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰)حُنَفَآءَ لِلّٰهِ غَیْرَ مُشْرِكِیْنَ بِهٖؕ-ترجمۂ کنزُالایمان: تو دور ہو بتوں کی گندگی سے اوربچو جھوٹی بات سے ایک اللہ کے ہوکر کہ اس کا ساجھی(شریک)کسی کو نہ کرو۔(ابو داؤد، کتاب الاقضیۃ، باب فی شہادۃ الزور، 3/427، الحدیث: 3599)

حدیث 5: حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اے لوگو! جھوٹ سے بچو کیونکہ جھوٹے ایمان کےمخالف ہیں۔ (مسند امام احمد، مسند ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ،حدیث:16)

تو دیکھیں کس طرح احادیث میں جھوٹی گواہی کی مذمت بیان کی گئی ہے تو ہمیں بھی چاہیے کہ ہم جھوٹی گواہی سے اجتناب کر یں۔ کیونکہ جھوٹی گواہی دینے میں ہمارے لیے دنیا میں تھوڑا بہت فائدہ تو ہوگا لیکن آخرت میں بربادی کا سبب بنے گا۔اللہ پاک سے دعا کرتے ہیں! اللہ پاک ہم کو اس گناہ سے ہمیشہ بچتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

گواہی حق کو باطل سے ممتاز کرنے کا ایک معیار ہے، سچے اور جھوٹے دعوؤں کے درمیان فرق کرنے والی حدِ فاصل ہے، حتی کہ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ گواہی حقوق کے لیے روح کی حیثیت رکھتی ہے، پس اﷲ تعالیٰ نے پاک روحوں کے ساتھ جانوں کو زندہ کیا۔ جھوٹی گواہی، گواہی کو اپنے اصل مقام سے ہٹا دیتی ہے۔ یہ گواہی حق کی سند بننے کے بجائے باطل کی دلیل بن جاتی ہے اور عدل و انصاف کا ساتھ دینے کے بجائے ظلم کی معاون و مددگار بن جاتی ہے۔ لہٰذا جھوٹی گواہی کے متعلق پانچ فرامینِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ذکر کئے جاتے ہیں:

(1)حضرت انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ پاک کے ساتھ شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔(بخاری، کتاب الدیات، الحدیث: 6871)

(2)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔(ابن ماجہ، کتاب الاحکام، الحدیث: 2373)

(3)حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے،حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مردکا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے، اس نے (اپنے اوپر)جہنم (کا عذاب)واجب کر لیا۔(معجم الکبیر، عکرمۃ عن ابن عباس، 11/172، الحدیث: 11541)

(4)حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص لوگوں کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوئے چلا کہ یہ بھی گواہ ہے حالانکہ یہ گواہ نہیں وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے اور جو بغیر جانے ہوئے کسی کے مقدمہ کی پیروی کرے وہ اللہ تعالیٰ کی ناخوشی میں ہے جب تک اس سے جدا نہ ہو جائے۔(سنن الکبری للبیہقی، کتاب الوکالۃ، باب اثم من خاصم او اعان فی خصومۃ بباطل، 6/136، الحدیث: 11444)

(5)جو کسی مسلمان پر ایسی چیز کا الزام لگائے جس کے بارے میں وہ خود بھی جانتا نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اسے(جہنمیوں کے خون اور پیپ جمع ہونے کے مقام)رَدْغَۃُ الْخَبَالْ میں اُس وقت تک رکھے گا جب تک کہ اپنے الزام کے مطابق عذاب نہ پا لے۔(مصنف عبد الرزاق،ج11، ص425، حدیث: 20905)

محترم قارئین! گواہی کے متعلق ابھی جو اصول و ضوابط بیان ہوئے ہیں، ان سے یہ ثابت ہوا کہ انسان کا ایسی چیز کے متعلق گواہی دینا، جسے وہ جانتا ہی نہیں ہے، جرمِ عظیم اور بہت بڑی آفت ہے۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اس گناہ سے بچنے ہر ممکن کوشش کریں۔ اللہ عزوجل ہم تمام کو اس آفت سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین

افسوس! فی زمانہ جھوٹی گواہی دینا ایک معمولی کام سمجھا جاتا ہے اور الزام تراشی کرنا تو اس قدر عام ہے کہ جس کی کوئی حد ہی نہیں، جس کا جو دل کرتا ہے وہ دوسروں پر الزام لگا دیتا اور جگہ جگہ ذلیل کرتا ہے جبکہ اسلامی تعلیمات ہمیں ایک انسان کی عزت نفس کی حفاظت کا درس دیتی ہیں۔آئیے زیر آیت اور بیان کی جانے والی احادیث مبارکہ کو سامنے رکھتے ہوئے ہر ایک کو اپنے اپنے طرز عمل پر غور کرنے کی شدید حاجت ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا(۳۶)ترجمہ کنزالایمان: اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں بےشک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے سوال ہونا ہے۔ (پ 15، بنی اسرائیل: 36)

تفسیرِ صراط الجنان: جس بات کا علم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑنے سے مراد یہ ہے کہ جس چیز کو دیکھا نہ ہو اُس کے بارے میں یہ نہ کہو کہ میں نے دیکھا ہے اور جس بات کو سنا نہ ہو اس کے بارے میں یہ نہ کہو کہ میں نے سنا ہے۔ ایک قول کے مطابق اس سے مراد یہ ہے کہ جھوٹی گواہی نہ دو۔ حضرت سیدنا عبد الله بن عباس رضی اللہُ عنہما نے فرمایا: اس سے مراد یہ ہے کہ کسی پر وہ الزام نہ لگاؤ جو تم نہ جانتے ہو۔ (مدارک، ج1، ص 714)حکم: تمام اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ جھوٹی گواہی دینا گناہ کبیرہ، حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ اسی طرح جھوٹے الزامات لگانے اور دیگر جھوٹے اقوال کی ممانعت کی گئی ہے۔

جھوٹی گواہی دینے اور غلط الزامات لگانے کی مذمت:یاد رہے! کہ جھوٹی گواہی دینا اور کسی پر جان بوجھ کر غلط الزام لگانا انتہائی مذموم فعل ہے۔ یہاں ان سے متعلق چند احادیث مبارکہ ملاحظہ ہوں:

(1)جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اُس کے لئے جہنم واجب کر دے گا۔ (ابن ماجہ، ج 3، ص123، حدیث: 2373)

(2)جس نے کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر الزام عائد کیا تو اللہ تعالیٰ جہنم کے پل پر اسے روک لے گا یہاں تک کہ اپنے کہنے کے مطابق عذاب پا لے۔ (ابو داؤد ج 4، ص354، حديث: 4883)

(3)جو کسی مسلمان پر ایسی چیز کا الزام لگائے جس کے بارے میں وہ خود بھی جانتا نہ ہو تو اللہ تعالی اسے (جہنمیوں کے خون اور پیپ کے جمع ہونے کے مقام)رَدْعَةُ الخَبَال میں اُس وقت تک رکھے گا جب تک کہ اپنے الزام کے مطابق عذاب نہ پا لے۔ (مصنف عبد الرزاق، ج11، ص 425، حدیث: 20905)

(4)حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے،حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مردکا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے، اس نے (اپنے اوپر)جہنم (کا عذاب)واجب کر لیا۔(معجم الکبیر، عکرمۃ عن ابن عباس، 11/172، الحدیث: 11541)

(5)حضرت انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ عزوجل کے ساتھ شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔(بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالی: ومن احیاہا، 4/358، الحدیث: 6871)

اللہ تعالیٰ ہمیں جھوٹی گواہی اور الزام تراشی سے محفوظ فرمائے اور ہمیں اپنے اعضاء کو اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت اور رضا و خوشنودی والے کاموں میں استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین

فی زمانہ لوگوں کی حالت اتنی ابتر ہو چکی ہے کہ ان کے نزدیک جھوٹی قسم کھانا، جھوٹی گواہی دینا، جھوٹے مقدمات میں پھنسوا کر اپنے مسلمان بھائی کی عزت تار تار کر دینا، لوہے کی سنگین سلاخوں کے پیچھے لاچارگی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دینا، اپنے مسلمان بھائی کا ناحق مال ہڑپ کر جانا گویا کہ جرائم کی فہرست میں داخل ہی نہیں۔ یوں تو ہر جھوٹی بات حرام و گناہ ہے۔ مگر جھوٹی گواہی خاص طور سے بہت ہی سخت گناہ کبیرہ اور جہنم میں گرا دینے والا جرمِ عظیم ہے۔ کیوں کہ قرآن و حدیث میں خصوصیت کے ساتھ جھوٹی گواہی پر بڑی سخت وعیدیں آئی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسری قسموں کے جھوٹ سے تو صرف جھوٹ بولنے والے ہی کی دنیا و آخرت خراب ہوتی ہے۔ مگر جھوٹی گوا ہی سے تو گوا ہی دینے والے کی دنیا و آخرت خرا ب ہونے کے علاوہ کسی دوسرے مسلمان کا حق مارا جاتا ہے یا بلا قصور کوئی مسلمان سزا پا جاتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ دونوں باتیں شرعاً کتنے بڑے گناہ کے کام ہیں۔لہٰذا بہت ہی ضروری ہےکہ مسلمان جھوٹی گوا ہی کو جہنم کی آگ سمجھ کر ہمیشہ اس سے دور بھاگیں۔ اس دنیا کی فانی زندگی کو حرف ِآخر سمجھ بیٹھنا عقلمندی نہیں نادانی اور بیوقوفی کی انتہا ہے، لہذا ہم سب کو چاہئے کہ درج ذیل قرآنی آیات اور احادیث کو بغور پڑھ کر عبرت حاصل کریں۔

گناہوں کی دو قسمیں ہیں:

گناہ صغیرہ (چھوٹے چھوٹے گناہ)گناہ کبیرہ (بڑے بڑے گناہ)گناہ صغیرہ نیکیوں اور عبادتوں کی برکت سے معاف ہو جاتے ہیں۔ لیکن گناہ کبیرہ اس وقت تک معاف نہیں ہوتے جب تک کہ آدمی سچی توبہ کر کے اہل حقوق سے ان کے حقوق کو معاف نہ کرالے۔

گناہ کبیرہ کی تعریف:

گناہ کبیرہ اس گناہ کو کہتے ہیں جس سے بچنے پر خداوند قدوس نے مغفرت کا وعدہ فرمایا ہے۔(کتاب الکبائر،ص7)اور بعض علمائے کرام نے فرمایا کہ ہر وہ گناہ جس کے کرنے والے پراﷲعزوجل و رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے وعید سنائی یا لعنت فرمائی۔ یا عذاب و غضب کا ذکر فرمایا وہ گناہ کبیرہ ہے۔ (کتاب الکبائر،ص8)انہی گناہ کبیرہ میں سے ایک جھوٹی گواہی دینا بھی ہے، آئیے جھوٹی گواہی کے متعلق جانتے ہیں،چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: وَ الَّذِیْنَ لَا یَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَۙ-وَ اِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا(۷۲)ترجَمۂ کنزُالایمان: اورجو جھوٹی گواہی نہیں دیتے اورجب بیہودہ پر گزرتے ہیں اپنی عزت سنبھالے گزر جاتے ہیں۔ (پ19،الفرقان:72)

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ ترجمۂ کنزالايمان:اے ايمان والو آپس ميں ايک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ۔(پ5، النسآء:29)اس آیت میں باطل طور پر کسی کا مال کھانا حرام فرمایا گیا خواہ لوٹ کرہو یا چھین کر،چوری سے یا جوئے سے یا حرام تماشوں یا حرام کاموں یا حرام چیزوں کے بدلے یا رشوت یا جھوٹی گواہی سے یہ سب ممنوع و حرام ہے۔(احکام القرآن، باب ما یحلہ حکم الحاکم وما لا یحلہ،1/304)

مسئلہ: اس سے معلوم ہوا کہ ناجائز فائدہ کے لیے کسی پر مقدمہ بنانا اور اس کو حکام تک لے جانا ناجائز و حرام ہے۔ اسی طرح اپنے فائدہ کی غرض سے دوسرے کو ضرر پہنچانے کے لیے حکام پر اثر ڈالنا، رشوتیں دینا حرام ہے۔حکام تک رسائی رکھنے والے لوگ اس آیت کے حکم کو پیش نظر رکھیں۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: وہ شخص ملعون ہے جو اپنے مسلمان بھائی کو نقصان پہنچائے یا اس کے ساتھ دھوکا کرے۔ (تاریخ بغداد، باب محمد، محمد بن احمد بن محمد بن جابر۔۔۔ الخ،1/360، رقم: 262)

جھوٹی گواہی کی تعریف: جھوٹی گواہی یہ ہے کہ کوئی اس بات کی گواہی دے جس کا اس کے پاس ثبوت نہ ہو۔

جھوٹی گواہی دینے کا حکم: کسی کے خلاف جھوٹی گواہی دینا حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے، اس کی مذمت کرتے ہوئے سرورِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک مرتبہ صبح کی نماز پڑھنے کے بعد تین مرتبہ فرمایا: جھوٹی گواہی، شرک کے برابر ہے،پھر یہ آیتِ مبارکہ تلاوت فرمائی:

فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰)ترجمۂ کنزالایمان: تو دور ہو بتوں کی گندگی سے اوربچو جھوٹی بات سے۔(پ 17،الحج:30)ایک مقام پر تین مرتبہ ارشاد فرمایا:سن لو! تمہیں سب سے بڑے گناہوں کے بارے میں بتاتاہوں۔ (1)شرک(2)والدین کی نافرمانی (3)جھوٹی گواہی۔(صحیح البخاری، کتاب الادب، حدیث:5976، ج4، ص95)معلوم ہوا کہ جھوٹی گواہی گناہ کبیرہ،حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔

جھوٹی گواہی دینے والے کا حکم: جس کا جھوٹا ہونا مشہور ہے یا جھوٹی گواہی دے چکا ہے جس کا ثبوت ہو چکا ہے اُس کی گواہی مقبول نہیں۔ (الدرالمختار،کتاب الشہادات،باب القبول وعدمہ،ج8،ص221)

احادیث ِ مبارکہ میں جھوٹی گواہی کی مذمت:

1: حضرت سیِّدُنا ابو بکرہ نفیع بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسولِ اَکرم،شاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے3 مرتبہ ارشاد فرمایا:کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہوں کے متعلق نہ بتاؤں؟ہم نے عرض کی:یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! ضرور ارشاد فرمائیں۔ ارشاد فرمایا: وہ اللہ پاک کے ساتھ شریک ٹھہرانا اوروالدین کی نافرمانی کرنا ہے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ٹیک لگائے تشریف فرماتھے پھرسیدھے ہوکر بیٹھے گئے اور ارشاد فرمایا: یاد رکھو! جھوٹ بولنا اور جھوٹی گواہی دینا(بھی کبیرہ گناہ ہے)۔ (را وی فرماتے ہیں)آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بار بار یہی فرماتے رہے یہاں تک کہ ہم کہنے لگے کہ کاش! آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خاموشی اختیارفرمائیں۔ (صحیح البخاری،کتاب الشھادات، باب ماقیل فی شھادۃ الزور، الحدیث:2654، ص209)

2: میٹھے میٹھے آقا، مکی مدنی مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: جس نے کسی مسلمان کے خلاف ایسی گواہی دی جس کا وہ اہل نہیں تھا تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔ (المسند للامام احمد بن حنبل، مسند ابی ہریرۃ، الحدیث:10622،ج3،ص585)

3: شہنشاہِ نَبوت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: قیامت کی ہولناکی کے سبب پرندے چونچیں ماریں گے اور دُموں کو حرکت دیں گے اور جھوٹی گواہی دینے والا کوئی بات نہ کرے گا اوراس کے قدم ابھی زمین سے جدا بھی نہ ہوں گے کہ اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ (المعجم الاوسط، الحدیث: 7616، ج5، ص362، لایفارق بدلہ لاتقار)

4: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اُس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔(ابن ماجہ، کتاب الاحکام، باب شہادۃ الزور، 3/123، الحدیث: 2373)

5: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: غی جہنم میں ایک وادی ہے جس کی گرمی سے جہنم کی وادیاں بھی پناہ مانگتی ہیں۔یہ اُن لوگوں کے لئے ہے جو زنا کے عادی اور اس پر مُصِر ہوں، جو شراب کے عادی ہوں، جو سود خور اور سود کے عادی ہوں، جو والدین کی نافرمانی کرنے والے ہوں اور جو جھوٹی گواہی دینے والے ہوں۔(بغوی، مریم، تحت الآیۃ: 59، 3/168)

6: ابوموسیٰ رضی اﷲ عنہ سے راوی کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو گواہی کے لیے بلایا گیا اور اُس نے گواہی چھپائی یعنی ادا کرنے سے گریز کی وہ ویسا ہی ہے جیسا جھوٹی گواہی دینے والا۔(المعجم الأوسط،من اسمہ علی،الحدیث:4167،ج3،ص156)

7: حضرتِ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو کسی مسلمان پر جھوٹی گواہی دیتا ہے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں سمجھے۔(موسوعۃ ابن ابی الدنیا،کتاب الغیبۃ والنمیمۃ، باب (ماجاء فی ذم النمیمۃ)، 4/398، الحدیث 123)

8: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے،حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مردکا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے، اس نے (اپنے اوپر)جہنم (کا عذاب)واجب کر لیا۔(معجم الکبیر، عکرمۃ عن ابن عباس، 11/172، الحدیث: 11541)

9: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص لوگوں کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوئے چلا کہ یہ بھی گواہ ہے حالانکہ یہ گواہ نہیں وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے اور جو بغیر جانے ہوئے کسی کے مقدمہ کی پیروی کرے وہ اللہ تعالیٰ کی ناخوشی میں ہے جب تک اس سے جدا نہ ہو جائے۔(سنن الکبری للبیہقی، کتاب الوکالۃ، باب اثم من خاصم او اعان فی خصومۃ بباطل، 6/136، الحدیث: 11444)

انسان کے جسم میں ایک لطیفہ غیبیہ ہے جس کو قلب (دل)کہا جاتا ہے جوکہ بدلتا رہتا ہے۔ دل میں بہت سی خواہشات جنم لیتی ہیں۔اگر وہ خواہشات پوری نہیں ہوتیں تو شیطان انسان کو اُکساتا ہے۔ جیساکہ اللہ پاک نے فرمایا: شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے۔(پ8، الاعراف:22)

اور دشمن ہمارا بُرا ہی چاہے گا۔ جب خواہشات حد سے بڑھ جاتیں ہیں تو بندہ خواہش کو پورا کرنے کے لیے (معاذ اللہ)بعض اوقات گناہ کر دیتا ہے، بندہ مال و دولت کی حد سے زیادہ بڑھ جانے والی خواہش کو پورا کرنے کے لیے جن گناہوں میں پڑھ جاتا ہے ان میں سے ایک جھوٹی گواہی دینا بھی ہے جھوٹی گواہی دینے سے اللہ پاک نے بھی منع فرمایا اور حضور علیہ السلام نے اس کی مذمت بھی فرمائی اور وعیدیں بھی بیان فرمائی ہیں۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرامین میں سے چند یہ ہیں۔

(1)اکبر الکبائر:

حضور علیہ السلام نے فرمایا کیا میں تمہیں اکبر الکبائر یعنی سب سے بڑے تین گناہوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟(ان میں سےایک)جھوٹی گواہی دینا اور جھوٹ بولنا ہے۔(صحیح مسلم، کتاب الایمان،باب الکبائر واکبرھا،الحدیث:87 ص53)

اس حدیث پاک میں کبیرہ گناہ کا فرمایا گیا ہے، کبیرہ گناہ کی تعریف یہ ہے کہ وہ گناہ جس کا مرتکب قرآن و سنت میں منصوص (یعنی صراحتاً بیان کی گئی)کسی خاص سخت وعید کا مستحق ہو کبیرہ گناہ ہے۔(جہنم میں لے جانے والے اعمال، جلد1، ص39)اس کے بارے میں حدیث پاک میں وعیدیں آئی ہیں جیسا کہ؛-

(2)جہنم کے پل پر:

حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:جس نے کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر الزام عائد کیا تو اللہ پاک جہنم کے پل پر اُسے روک لے گا یہاں تک کہ اپنے کہنے کے مطابق عذاب پا لے،(ابو داؤد،ج 4، ص354، حدیث: 4883)

یقیناً جہنم کے پل پر روک لیا جانا بہت سخت تر ہے ہم جب جہنم کے بارے میں سوچتے تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں تو اس پل پر کیسے رُک پائیں گے؟ (الامان و الحفیظ)

(3)ردغۃ الخبال میں:

اللہ پاک کے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:جو کسی مسلمان پر ایسی چیز کا الزام لگائے جس کے بارے میں وہ خود بھی جانتا نہ ہو تو اللہ پاک اسے رَدْغَۃُ الْخَبَالْ میں اُس وقت تک رکھے گا جب تک کہ اپنے الزام کے مطابق عذاب نہ پا لے۔(مصنف عبد الرزاق،ج11، ص425، حدیث: 20905)ردغۃ الخبال جہنم میں ایک جگہ ہے جہاں جہنمیوں کا خون اور پیپ جمع ہوگا۔ (بہار شریعت، حصہ9، ص364)

(4)جہنم واجب:

حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ پاک اُس کے لئے جہنم واجب کر دے گا۔(ابنِ ماجہ،ج3، ص123، حدیث: 2373)

حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مختلف مقامات پر بَہُت سی حدیثوں میں مذمّت فرمائی ہے اور وعیدیں بھی بیان فرمائی ہیں۔ تو یاد رکھیں! کہ ہمیں اپنے نفس پر بالکل اعتماد نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اپنے نفس پر اعتماد کرنے والا بے وقوف ہوتا ہے اور انسان بہت ضعیف ہے۔ جیساکہ اللہ پاک نے فرمایا کہ: اور آدمی کمزور بنایا گیا۔ (پ5، النسآء:28)

اس آیت کی تفسیر میں مفتی نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ نے تحریر فرمایا کہ:اس(انسان)کو شہوات سے صبر دشوار ہے۔(خزائن العرفان،ص149)اور جیساکہ حضرت سری سقطی رحمۃ الله علیہ نے فرمایا: تمام مخلوقات میں انسان سے زیادہ ضعیف کوئی نہیں ہے۔لیکن باوجود اس ضعف کے وہ خدا کی نافرمانی کرنے میں سب سے زیادہ جری اور بہادر ہے۔ (سیرِ گلستان،ص124)

ہم اللہ پاک سے خیر و عافیت اور تمام صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے بچنے کا سوال کرتے ہیں۔ آمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

﴿وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا(۳۶)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں بےشک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے سوال ہونا ہے۔

تفسیر صراط الجنان:وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں۔ یعنی جس چیز کو دیکھا نہ ہو اُس کے بارے میں یہ نہ کہو کہ میں نے دیکھا ہے اور جس بات کو سنا نہ ہو اس کے بارے میں یہ نہ کہو کہ میں نے سنا ہے۔ ایک قول ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جھوٹی گواہی نہ دو۔ اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما نے فرمایا: اس سے مراد یہ ہے کہ کسی پر وہ الزام نہ لگاؤ جو تم نہ جانتے ہو۔(مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ:36، ص623)

یعنی اس آیت سے جو معلوم ہوا تو ہمارا معاشرہ اس کے برعکس ہے۔ ہمارے معاشرے میں بعض اوقات ایسے گناہوں کو گناہ ہی نہیں سمجھا جاتا بلکہ کہتے ہیں کہ کسی کی مدد کرنا اچھی بات ہے میں نے تو اسے بڑی مصیبت سے بچایا ہے۔ یعنی کہ گناہ کو گناہ سمجھنا بھی گوارہ نہیں کرتے لہٰذا ہمیں اللہ پاک کے قہر سے ڈرتے رہنا چاہیے کیونکہ اگر اس گناہ کے تحت اللہ تعالیٰ نے مواخذہ فرمایا تو کیا حال ہوگا جو آج ایک کانٹا چبنے پر تکلیف برداشت نہیں ہوتی تو وہ سزا کیسے برداشت کریں گے۔ یہاں اس آیت اوردیگر احادیث بیان کرنا ضروری تھا اس لیے کہ ہمارے معاشرے میں ہونے والے گناہوں کی نشاندہی کی جاسکے۔

ابو عبداللہ محمد بن احمد قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت میں جھوٹی گواہی دینے، جھوٹے الزامات لگانے اور اس طرح کے دیگر جھوٹے اَقوال کی مُمانعت کی گئی ہے۔(تفسیرقرطبی، الاسراء، تحت الآیۃ: 36، 5/187)

جھوٹی گواہی دینے اور غلط الزامات لگانے کی مذمت پر اَحادیث:

یہاں جھوٹی گواہی دینے اور غلط الزامات لگانے کی مذمت پر 3 روایات ملاحظہ ہوں:

(1)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اُس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔(ابن ماجہ، کتاب الاحکام، باب شہادۃ الزور، 3/123، الحدیث:2373)

(2)حضرت معاذ بن انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے،رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:جو کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر الزام عائد کرے تو اللہ تعالیٰ جہنم کے پل پر اسے روک لے گا یہاں تک کہ اپنے کہنے کے مطابق عذاب پا لے۔(ابوداؤد، کتاب الادب، باب من ردّ عن مسلم غیبۃ، 4/354، الحدیث:4883)

(3)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا جو کسی مسلمان پر ایسی چیز کا الزام لگائے جس کے بارے میں وہ خود بھی جانتا نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اسے (جہنم کے ایک مقام)رَدْغَۃُ الْخَبَالْ میں اس وقت تک رکھے گا جب تک کہ اپنے الزام کے مطابق عذاب نہ پالے۔(کتاب الجامع فی آخر المصنّف، باب من حلّت شفاعتہ دون حدّ،10/353، الحدیث:21069)

بیان کردہ آیت مبارکہ اور احادیثِ مبارکہ کو سامنے رکھنے کی شدید حاجت ہے کیونکہ آج کل الزام تراشی کرنا اس قدر عام ہے کہ کوئی حد ہی نہیں، جس کا جو دل کرتا ہے وہ دوسروں پر الزام لگادیتا ہے، جگہ جگہ ذلیل کرتا ہے اور ثبوت مانگیں تو یہ دلیل کہ میں نے کہیں سنا تھا یا مجھے کسی نے بتایا تھا، اب کس نے بتایا، بتانے والا کتنا معتبر تھا؟ اس کو کہاں سے پتا چلا؟ اس کے پاس کیا ثبوت ہیں؟ کوئی معلوم نہیں۔

كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا(۳۶):ان سب کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ آیت کے آخر میں فرمایا کہ کان، آنکھ اور دل سب کے بارے میں سوال کیا جائے گا کہ تم نے اُن سے کیا کام لیا؟ کان کو قرآن وحدیث سننے، علم و حکمت اور وعظ و نصیحت کی اور ان کے علاوہ دیگر نیک باتیں سننے میں استعمال کیا یا غیبت سننے، لَغْو اور بیکار باتیں سننے، جِماع کی باتیں سننے، بہتان، زنا کی تہمت، گانے، باجے اور فحش سننے میں لگایا۔ یونہی آنکھ سے جائز و حلال کو دیکھا یا فلمیں، ڈرامے دیکھنے اور بدنگاہی کرنے میں استعمال کیا اور دل میں صحیح عقائد اور اچھے اور نیک خیالات و جذبات تھے یاغلط عقائد اور گندے منصوبے اور شہوت سے بھرے خیالات ہی ہوتے تھے۔

وَ لَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَؕ-: اور گواہی نہ چھپاؤ۔ یہاں صراحت سے بیان فرمایا کہ گواہی نہ چھپاؤ کیونکہ گواہی کو چھپانا حرام اور دل کے گناہگار ہونے کی علامت ہے کیونکہ اس میں صاحبِ حق کے حق کو ضائع کرنا پایا جاتاہے۔ گواہی چھپانا کبیرہ گناہ ہے چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما سے ایک حدیث مروی ہے کہ کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑا گناہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک کرنا اور جھوٹی گواہی دینا اور گواہی کو چھپانا ہے۔(شعب الایمان، الثامن من شعب الایمان، 1/271، الحدیث: 291)

جھوٹی گواہی دینے کی مذمت پر 4اَحادیث:

اس سے معلوم ہو اکہ جھوٹی گواہی نہ دینا اور جھوٹ بولنے سے تعلق نہ رکھنا کامل ایمان والوں کاوصف ہے۔ یاد رہے کہ جھوٹی گواہی دینا انتہائی مذموم عادت ہے اور کثیر اَحادیث میں اس کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے، یہاں ان میں سے 4 اَحادیث ملاحظہ ہوں:

(1)حضرت انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ عزوجل کے ساتھ شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔(بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالی: ومن احیاہا، 4/358، الحدیث:6871)

(2)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔(ابن ماجہ، کتاب الاحکام، باب شہادۃ الزور، 3/123، الحدیث:2373)

(3)حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے،حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مردکا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے، اس نے (اپنے اوپر)جہنم (کا عذاب)واجب کر لیا۔(معجم الکبیر، عکرمۃ عن ابن عباس، 11/172، الحدیث:11541)

(4)حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص لوگوں کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوئے چلا کہ یہ بھی گواہ ہے حالانکہ یہ گواہ نہیں وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے اور جو بغیر جانے ہوئے کسی کے مقدمہ کی پیروی کرے وہ اللہ تعالیٰ کی ناخوشی میں ہے جب تک اس سے جدا نہ ہو جائے۔(سنن الکبری للبیہقی، کتاب الوکالۃ، باب اثم من خاصم او اعان فی خصومۃ بباطل، 6/136، الحدیث: 11444)

وَ اِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ: اور جب کسی بیہودہ بات کے پاس سے گزرتے ہیں۔ یعنی جب وہ کسی لغو اور باطل کام میں مصروف لوگوں کے پاس سے گزرتے ہیں تواپنی عزت سنبھالتے ہوئے وہاں سے گزر جاتے ہیں۔ اپنے آپ کو لہو و باطل سے مُلَوَّث نہیں ہونے دیتے اور ایسی مجالس سے اِعراض کرتے ہیں۔(مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: 72، ص811)

اللہ تعالیٰ ہمیں ان گناہوں سے بچنے اور حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا مطیع وفرمانبردار بنائے اور ہمیں شیطان کے مکروفریب سے بچتے رہنے اور توبہ کرتے رہنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


پیارے اسلامی بھائیو! سچ بولنا ایک محمود صفت ہے جس کے سبب اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رضا دوزخ سے نجات اور جنت میں داخلہ نصیب ہوتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ معاشرہ با امن اور پرسکون بن جاتا ہے جبکہ اس کے برعکس جھوٹ بولنا اور جھوٹی گواہی دینا ایک مذموم صفت ہے۔ جو اللہ اور اس کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ناراضگی جہنم میں داخلے اور جنت سے محرومی کا سبب بن سکتی ہے اس سے معاشرے پر برےاثرات پڑتے ہیں اور معاشرہ بدامنی اور بے سکونی والا بن جاتا ہے پہلے جھوٹی گواہی کی تعریف پڑھیے۔

جھوٹی گواہی کی تعریف: جھوٹی گواہی یہ ہے کہ کوئی اس بات کی گواہی دے جس کا اس کے پاس ثبوت نہ ہو۔(جہنم میں لے جانے والے اعمال، ج2، ص 713)

جھوٹی گواہی کا حکم: جھوٹی گواہی دینانا جائز حرام اور گناہ کبیرہ ہے۔ (جہنم میں لے جائے والے اعمال، جلد2،صفحہ713 بتغير)

احادیث کریمہ میں جھوٹی گواہی کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے لہٰذا آپ بھی پانچ احادیث کریمہ پڑھیے اور اس فعل بد سے بچنے کا ذہن بنائیے:

کبیرہ گناہ: رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کبیرہ گناہ یہ ہیں، اللہ پاک کے ساتھ شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔(صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب الکبائر واكبرها)

اللہ عزوجل کی ناخوشی میں:

نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے:جو شخص لوگوں کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوئے چلا کہ یہ بھی گواہ ہے حالانکہ یہ گواہ نہیں وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے اور جو بغیر جانے ہوئے کسی کے مقدمے کی پیروی کرے وہ اللہ عزوجل کی ناخوشی میں ہےجب تک اس سے جدا نہ ہو جائے۔ (السنن الکبری للبیہقی، کتاب الوکالۃ، باب اثم من خاصم الخ، الحدیث:11444، ج6، ص136)

گواہی دینے میں بے باک:

حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: سب سے بہتر میرے زمانے کے لوگ ہیں پھر جو ان کے بعد ہیں پھر وہ جوان کے بعد ہیں پھر ایسی قوم آئے گی کہ ان کی گواہی قسم پر سبقت کرے گی اور قسم گواہی پر یعنی گواہی دینے اور قسم کھانے میں بے باک ہوں گے۔(صحیح البخاری، کتاب الشهادات، باب لا يشهد على شھادة جور۔۔۔ الخ، الحدیث:2652، جص193)

جہنم واجب کردی جائے گی:

حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اس کے لئے جہنم واجب کر دے گا۔(سنن ابن ماجہ، ابواب الاحکام، باب شهاده الزور، الحدیث:2373، ج3، ص123)

5-جہنم میں پھینک دیا جانا:

حضور نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے:قیامت کی ہولناکیوں کے سبب پرندے چونچیں ماریں گے اور دموں کو حرکت دیں گے اور جھوٹی گواہی دینے والا کوئی بات نہ کرے گا اور اس کے قدم ابھی زمین سے جدا بھی نہ ہوں گے کہ اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔(المعجم الاوسط، الحدیث:7616،ج ص362لا يفارق بدل لا تقاد)

پیارے اسلامی بھائیو! معلوم ہوا کہ جھوٹی گواہی دینا نہایت مذموم قبیح اور جہنم میں لے جانے والا فعل ہے مگر افسوس فی زمانہ لوگوں کی حالت اتنی ابتر ہو چکی ہے کہ ان کے نزدیک جھوٹ بولنا اور جھوٹی گواہی دے کر اپنے بھائی کی عزت تار تار کر نا گویا کہ گناہوں کی فہرست میں ہی نہیں ہے ان لوگوں کو مذکورہ احادیث پر غور کر کے خود کو ڈرانا چاہیے۔ اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہمیں جھوٹی گواہی دینے سے بچنے اور ہمیشہ سچ بولنے کی توفیق عطا فرمائے۔


افسوس! فی زمانہ جھوٹی گواہی دینا ایک معمولی کام سمجھا جاتا ہے اور الزام تراشی کرنا تو اس قدر عام ہے کہ کوئی حد ہی نہیں، جس کا جو دل کرتا ہے وہ دوسروں پر الزام لگادیتا اور جگہ جگہ ذلیل کرتا ہے اور ثبوت مانگیں تو یہ دلیل کہ میں نے کہیں سُنا تھا یا مجھے کسی نے بتایا تھا یا آپ کی بات کا مطلب ہی یہی تھا، اب کس نے بتایا؟ بتانے والا کتنا مُعْتَبر تھا؟ اُس کو کہاں سے پتا چلا؟ اس کے پاس کیا قابل قبول ثبوت ہیں؟ اس نے بات کرنے والے کے دل کا حال کیسے جان لیا؟ کوئی معلوم نہیں۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا(۳۶)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان:اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں بےشک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے سوال ہونا ہے۔ (پ 15، بنی اسرائیل: 36)

تفسیر: جس بات کا علم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑنے سے مراد یہ ہے کہ جس چیز کو دیکھانہ ہو اس کے بارے میں یہ نہ کہو کہ میں نے دیکھا ہے اور جس بات کو سُنانہ ہو اس کے بارے میں یہ نہ کہو کہ میں نے سنا ہے۔ ایک قول کے مطابق اس سے مراد یہ ہے کہ جھوٹی گواہی نہ دو۔ حضرت سید نا عبد اللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما نے فرمایا: اس سے مراد یہ ہے کہ کسی پر وہ الزام نہ لگاؤ جو تم نہ جانتے ہو۔ (مدارک، ج 1، ص 714)تمام اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت میں جھوٹی گواہی دینے، جھوٹے الزامات لگانے اور اس طرح کے دیگر جھوٹے اقوال کی ممانعت کی گئی ہے۔

یادر ہے! کہ جھوٹی گواہی دینا اور کسی پر جان بوجھ کر غلط الزام لگانا انتہائی مذموم فعل ہے۔ یہاں ان سے متعلق تین احادیث ملاحظہ ہوں:

(1)جھوٹے گواہ کے قدم بٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اُس کے لئے جہنم واجب کر دے گا۔ (ابنِ ماجہ، ج3، ص123، حدیث: 2373)

(2)جس نے کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر الزام عائد کیا تو اللہ تعالیٰ جہنم کے پل پر اُسے روک لے گا یہاں تک کہ اپنے کہنے کے مطابق عذاب پالے۔ (ابو داؤد، ج 4، ص354، حدیث: 4883)

(3)جو کسی مسلمان پر ایسی چیز کا الزام لگائے جس کے بارے میں وہ خود بھی جانتا نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اسے (جہنمیوں کے خون اور پیپ جمع ہونے کے مقام رَدْغَۃُ الخَبَال میں اُس وقت تک رکھے گاجب تک کہ اپنے الزام کے مطابق عذاب نہ پالے۔(مصنف عبد الرزاق، ج11،ص425، حدیث: 20905)

کان، آنکھ اور دل کے بارے میں سوال ہوگا:

آیت کے آخر میں فرمایا کہ کان، آنکھ اور دل سب کے بارے میں سوال کیا جائے گا، یہ سوال اس طرح کا ہو گا کہ تم نے اُن سے کیا کام لیا؟ کان کو قراٰن و حدیث، علم و حکمت، وعظ و نصیحت اور ان کے علاوہ دیگر نیک باتیں سننے میں استعمال کیا یا لغو، بےکار، غیبت، اِلزام تراشی، زنا کی تہمت، گانےباجے اور فحش سننے میں لگایا۔ یونہی آنکھ سے جائز و حلال کو دیکھا یا فلمیں، ڈرامے دیکھنے اور بدنگاہی کرنے میں استعمال کیا اور دل میں صحیح عقائد اور اچھے اور نیک خیالات و جذبات تھے یا غلط عقائد اور گندے منصوبے اور شہوت سے بھرے خیالات ہوتے تھے۔اللہ تعالیٰ ہمیں جھوٹی گواہی اور الزام تراشی سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین


الحمدللہ ہم مسلمان ہیں اور اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اسلام ہماری سماجی، معاشی، معاشرتی، اخلاقی الغرض زندگی کے ہر شعبہ حیات میں راہنمائی کرتا ہے۔ گواہ بننا اور گواہی دینا ایک ایسا عمل ہے جس کی مسلمان مرد و عورت کو زندگی کے کسی بھی مرحلے میں ضرورت پڑ سکتی ہے۔ شریعت کے اس معاملے میں بھی واضح اصول و قوانین موجود ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے دنیا میں انسان کو انسان سے باہمی ربط دے کر ایک دوسرے کی ضرورت بنایا ہے، بعض دینی اور دنیاوی معاملات میں بسا اوقات ایسی صورتیں بھی سامنے آتی ہیں کہ صاحبِ معاملہ کسی پر کسی چیز کا دعویٰ کرتا ہے کہ یہ میرا حق ہے لیکن تنہا اُس کے اقرار یا دعوے یا بیان کا کوئی اعتبار نہیں کیا جاتا۔ اس لیے نہیں کہ وہ ناقابل اعتبار ہے بلکہ اس لیے کہ اگر محض دعوے اور بیان کی رُو سے کسی کی کسی بھی چیز پر حق، ثابت ہو جایا کرے تو دنیا سے امان اُٹھ جائے اور لوگوں کا جینا دو بھر ہوجائے۔

بیہقی ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے راوی کہ رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اگر لوگوں کو محض اُن کے دعوے پر چیز دلائی جائے تو بہت سے لوگ خون اور مال کے دعوے کر ڈالیں گے۔ لیکن مدعی کے ذمہ بینہ (گواہ)ہے اور منکر پر قسم۔(السنن الکبری للبیہقي،کتاب الدعوٰی والبینات،باب البینۃ علی المدعی……إلخ، الحدیث: 21201، ج10،ص427)اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا(۳۶)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان:اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں بےشک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے سوال ہونا ہے۔(پ 15، بنی اسرائیل: 36)

تفسیر:جس بات کا عِلم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑنے سے مُراد یہ ہے کہ جس چیز کو دیکھا نہ ہو اُس کے بارے میں یہ نہ کہو کہ میں نے دیکھا ہے اور جس بات کو سُنا نہ ہو اس کے بارے میں یہ نہ کہو کہ میں نے سنا ہے۔ ایک قول کے مطابق اس سے مراد یہ ہے کہ جھوٹی گواہی نہ دو۔ حضرت سَیِّدُنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما نے فرمایا: اس سے مراد یہ ہے کہ کسی پر وہ الزام نہ لگاؤ جو تم نہ جانتے ہو۔(مدارک،ج1، ص714)تمام اَقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت میں جھوٹی گواہی دینے، جھوٹے الزامات لگانے اور اس طرح کے دیگر جھوٹے اقوال کی مُمانَعَت کی گئی ہے۔

اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:وَ الَّذِیْنَ لَا یَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَۙ- اور جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔ (الفرقان: 72)یعنی کامل ایمان والے گواہی دیتے ہوئے جھوٹ نہیں بولتے اور وہ جھوٹ بولنے والوں کی مجلس سے علیحدہ رہتے ہیں، اُن کے ساتھ میل جول نہیں رکھتے۔(مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ:72، ص811)

اس سے معلوم ہو اکہ جھوٹی گواہی نہ دینا اور جھوٹ بولنے سے تعلق نہ رکھنا کامل ایمان والوں کا وصف ہے۔ یاد رہے کہ جھوٹی گواہی دینا انتہائی مذموم عادت ہے اور کثیر اَحادیث میں اس کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے۔ احادیث مبارکہ میں جہاں سچی گواہی دینے کی فضیلتیں بیان کی ہیں وہیں جھوٹی گواہی کی وعیدیں بھی جھوٹے گواہوں کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہیں۔ آئیے پہلے ہم احادیث مبارکہ سے جھوٹی گواہی کے متعلق پڑھتے ہیں۔

(1)حضرت انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ عزوجل کے ساتھ شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔(بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالی: ومن احیاہا، 4/358، الحدیث: 6871)

(2)رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ میں تم لوگوں کو سب سے بڑے گناہ نہ بتاؤں؟ تین بار آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اسی طرح فرمایا۔ صحابہ نے عرض کیا، ہاں یا رسول! آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا، اللہ کا کسی کو شریک ٹھہرانا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس وقت تک ٹیک لگائے ہوئے تھے لیکن اب آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا، ہاں اور جھوٹی گواہی بھی۔ انہوں نے بیان کیا کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس جملے کو اتنی مرتبہ دہرایا کہ ہم کہنے لگے کاش! آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خاموش ہوجاتے۔(صحیح بخاری، کتاب گواہیوں کا بیان، باب جھوٹی گواہی کے متعلق کیا حکم ہے؟ حدیث نمبر: 2654)

(3)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔(ابن ماجہ، کتاب الاحکام، باب شہادۃ الزور، 3/123، الحدیث:2373)

(4)حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے،حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مردکا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے، اس نے (اپنے اوپر)جہنم (کا عذاب)واجب کر لیا۔(معجم الکبیر، عکرمۃ عن ابن عباس، 11/172، الحدیث: 11541)

(5)حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص لوگوں کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوئے چلا کہ یہ بھی گواہ ہے حالانکہ یہ گواہ نہیں وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے اور جو بغیر جانے ہوئے کسی کے مقدمہ کی پیروی کرے وہ اللہ تعالیٰ کی ناخوشی میں ہے جب تک اس سے جدا نہ ہو جائے۔(سنن الکبری للبیہقی، کتاب الوکالۃ، باب اثم من خاصم او اعان فی خصومۃ بباطل، 6/136، الحدیث:11444)

(6)ابو داؤد و ابن ماجہ نے خریم بن فاتک اور امام احمد و ترمذی نے ایمن بن خریم رضی اﷲ عنہما سے روایت کی رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نماز صبح پڑھ کر قیام کیا اور یہ فرمایا کہ جھوٹی گواہی شرک کے ساتھ برابر کر دی گئی پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی:

فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰)حُنَفَآءَ لِلّٰهِ غَیْرَ مُشْرِكِیْنَ بِهٖؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: تو دور ہو بتوں کی گندگی سے اور بچو جھوٹی بات سےایک اللہ کے ہوکر کہ اس کا ساجھی(شریک)کسی کو نہ کرو۔(پ17،الحج:30، 31- سنن ابوداود، باب فی شھادۃ الزور، الحدیث: 3599، ج3، ص427)

(7)بخاری و مسلم میں عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے مروی رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سب سے بہتر میرے ز مانہ کے لوگ ہیں پھر جو اُن کے بعد ہیں پھر وہ جو اُن کے بعد ہیں پھر ایسی قوم آئے گی کہ اُن کی گواہی قسم پر سبقت کرے گی اور قسم گواہی پر یعنی گواہی دینے اور قسم کھانے میں بے باک ہوں گے۔(صحیح البخاری، کتاب الشھادات،باب لایشھد علی شہادۃ جور۔۔۔۔إلخ،الحدیث:2652،ج2،ص193)

(8)حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ یہ بات علامات قیامت میں سے ہے کہ سلام صرف پہچان کے لوگوں کو کیا جانے لگے گا، تجارت پھیل جائے گی، حتی کہ عورت بھی تجارتی معاملات میں اپنے خاوند کی مدد کرنے لگے گی، قطع رحمی ہونے لگے گی، جھوٹی گواہی دی جانے لگے گی، سچی گواہی کو چھپایا جائے گا اور قلم کا چرچا ہوگا۔(مسند احمد، باب حضرت عبداللہ بن مسعود کی مرویات، حدیث نمبر: 3676)

(9)حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جان بوجھ کر جھوٹی گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی۔ (کنزالعمال، کتاب گواہیوں کا بیان، باب جھوٹا گواہ، حدیث نمبر: 17802)

(10)طبرانی ابوموسیٰ رضی اﷲ عنہ سے راوی کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو گواہی کے لیے بلایا گیا اور اُس نے گواہی چھپائی یعنی ادا کرنے سے گریز کی وہ ویسا ہی ہے جیسا جھوٹی گواہی دینے والا۔(المعجم الأوسط، من اسمہ علی، الحدیث:4167،ج3،ص156)

یاد رہے کہ جھوٹی گواہی کا مطلب کسی کے اوپر جان بوجھ کر غلط الزام لگانا ہے۔ اس سے متعلق احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں:

11- جس نے کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر الزام عائد کیا تو اللہ تعالیٰ جہنم کے پل پر اُسے روک لے گا یہاں تک کہ اپنے کہنے کے مطابق عذاب پا لے۔(ابو داؤد،ج 4، ص354، حدیث: 4883)

12- جو کسی مسلمان پر ایسی چیز کا الزام لگائے جس کے بارے میں وہ خود بھی جانتا نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اسے (جہنمیوں کے خون اور پیپ جمع ہونے کے مقام)رَدْغَۃُ الْخَبَالْ میں اُس وقت تک رکھے گا جب تک کہ اپنے الزام کے مطابق عذاب نہ پالے۔(مصنف عبد الرزاق،ج11، ص425، حدیث: 20905)

یاد رہے! کہ جھوٹی گواہی دینا اور کسی پر جان بوجھ کر غلط الزام لگانا انتہائی مذموم فعل ہے۔ افسوس! فی زمانہ جھوٹی گواہی دینا ایک معمولی کام سمجھا جاتا ہے اور الزام تراشی کرنا تو اس قدر عام ہے کہ کوئی حد ہی نہیں، جس کا جو دل کرتا ہے وہ دوسروں پر الزام لگا دیتا اور جگہ جگہ ذلیل کرتا ہے۔ بیان کردہآیت کی تفسیر اور احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے ہر ایک کو اپنے اپنے طرز ِعمل پر غور کرنے کی شدید حاجت ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو ہر حال میں سچ کو اپنانےکی توفیق عطا فرمائے۔

پیارے اسلامی بھائیو! الله پاک کا بڑا کرم ہے کہ اس نے ہمیں مسلمانوں کے گھر میں پیدا کیا اور ہمیں اسلام جیسا عظیم اور پرامن مذہب عطا کیا۔ عزیز دوستو! دین اسلام ایک پرامن دین ہے اس لئے کسی پر ظلم کرنا کسی مسلمان کی عزت پر حملہ کرنا اس کا مال دبانا ان سب چیزوں سے روکتا ہے یہاں تک کہ جانوروں پر بھی شفقت کرنے کا حکم دیتا ہے لیکن فی زمانہ لوگ اسلام و ایمان کی لازوال نعمت پا کر بھی جھوٹ غیبت حسد جھوٹی گواہی وغیرہ حقوق العباد کو ضائع کرنے کا طوق اپنے گلے میں ڈال دیتے ہیں حتّی کہ ایسے گناہوں کو گناہ ہی نہیں سمجھتے جھوٹی گواہی تو گویا کہ عام سی ہوگئی ہے حالانکہ احادیث مبارکہ میں اس کی شدید الفاظ میں مذمّت کی گئی ہے۔ چند احادیث پیش خدمت ہیں:

اپنے اوپر جہنم کو واجب کر لیا:

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے،نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مرد کا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے تو اُس نے (اپنے اوپر)جہنم کو واجب کر لیا۔(معجم الکبیر)

قدم ہٹنے نہ پائیں گے:

حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہُ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اُس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔(ابن ماجہ)

کبیرہ گناہ:

حضرت انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ عزوجل کے ساتھ شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔ (بخاری)

جہنم کا عذاب واجب کر لیا:

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے،حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مردکا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے، اس نے (اپنے اوپر)جہنم (کا عذاب)واجب کر لیا۔ (معجم الکبیر)

جھوٹے گواہ سے الله پاک نا خوش ہوتا ہے:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص لوگوں کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوئے چلا کہ یہ بھی گواہ ہے حالانکہ یہ گواہ نہیں وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے اور جو بغیر جانے ہوئے کسی کے مقدمہ کی پیروی کرے وہ اللہ تعالیٰ کی ناخوشی میں ہے جب تک اس سے جدا نہ ہو جائے۔ (سنن الکبری للبیہقی)

پیارے اسلامی بھائیو! اسی طرح اور بھی احادیث مبارکہ موجود ہیں جس میں جھوٹی گواہی کی مذمّت کی گئی ہے بندہ جھوٹی گواہی دے کر خود خوش ہوسکتا ہے یا دوسروں کو خوش کر سکتا ہے لیکن نادان کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ الله اس سے ناخوش ہے اپنی یا کسی کی خوشی کے لئے الله پاک کو ناراض کرنا سب سے بڑی جہالت ہے اس میں ہلاکت کے سوا کچھ بھی نہیں الله پاک ہم سب کو گناہوں سے بالخصوص جھوٹی گواہی سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین