عبدالحکیم عطاری (درجہ خامسہ جامعۃُ المدینہ فیضان
غوث اعظم حیدرآباد، پاکستان)
﴿وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ
بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ
مَسْـٴُـوْلًا(۳۶)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس
کا تجھے علم نہیں بےشک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے سوال ہونا ہے۔
تفسیر
صراط الجنان:وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اور
اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں۔ یعنی جس چیز کو دیکھا نہ ہو اُس کے
بارے میں یہ نہ کہو کہ میں نے دیکھا ہے اور جس بات کو سنا نہ ہو اس کے بارے میں یہ
نہ کہو کہ میں نے سنا ہے۔ ایک قول ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جھوٹی گواہی نہ دو۔
اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما نے فرمایا: اس سے مراد یہ ہے کہ کسی پر
وہ الزام نہ لگاؤ جو تم نہ جانتے ہو۔(مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ:36، ص623)
یعنی
اس آیت سے جو معلوم ہوا تو ہمارا معاشرہ اس کے برعکس ہے۔ ہمارے معاشرے میں بعض
اوقات ایسے گناہوں کو گناہ ہی نہیں سمجھا جاتا بلکہ کہتے ہیں کہ کسی کی مدد کرنا
اچھی بات ہے میں نے تو اسے بڑی مصیبت سے بچایا ہے۔ یعنی کہ گناہ کو گناہ سمجھنا
بھی گوارہ نہیں کرتے لہٰذا ہمیں اللہ پاک کے قہر سے ڈرتے رہنا چاہیے کیونکہ اگر اس
گناہ کے تحت اللہ تعالیٰ نے مواخذہ فرمایا تو کیا حال ہوگا جو آج ایک کانٹا چبنے پر
تکلیف برداشت نہیں ہوتی تو وہ سزا کیسے برداشت کریں گے۔ یہاں اس آیت اوردیگر
احادیث بیان کرنا ضروری تھا اس لیے کہ ہمارے معاشرے میں ہونے والے گناہوں کی
نشاندہی کی جاسکے۔
ابو
عبداللہ محمد بن احمد قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت میں
جھوٹی گواہی دینے، جھوٹے الزامات لگانے اور اس طرح کے دیگر جھوٹے اَقوال کی
مُمانعت کی گئی ہے۔(تفسیرقرطبی، الاسراء، تحت الآیۃ: 36،
5/187)
جھوٹی گواہی دینے اور غلط الزامات لگانے کی
مذمت پر اَحادیث:
یہاں
جھوٹی گواہی دینے اور غلط الزامات لگانے کی مذمت پر 3 روایات ملاحظہ ہوں:
(1)حضرت
عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ
اُس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔(ابن ماجہ، کتاب الاحکام، باب شہادۃ الزور، 3/123، الحدیث:2373)
(2)حضرت
معاذ بن انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے،رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے ارشاد فرمایا:جو کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر الزام عائد کرے تو
اللہ تعالیٰ جہنم کے پل پر اسے روک لے گا یہاں تک کہ اپنے کہنے کے مطابق عذاب پا
لے۔(ابوداؤد، کتاب الادب، باب من ردّ عن مسلم غیبۃ، 4/354،
الحدیث:4883)
(3)حضرت
عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا جو کسی مسلمان پر ایسی چیز کا الزام لگائے جس کے بارے میں
وہ خود بھی جانتا نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اسے (جہنم کے ایک مقام)رَدْغَۃُ الْخَبَالْ
میں اس وقت تک رکھے گا جب تک کہ اپنے الزام کے مطابق عذاب نہ پالے۔(کتاب الجامع فی
آخر المصنّف، باب من حلّت شفاعتہ دون حدّ،10/353،
الحدیث:21069)
بیان کردہ آیت مبارکہ اور احادیثِ مبارکہ کو
سامنے رکھنے کی شدید حاجت ہے کیونکہ آج کل الزام تراشی کرنا اس قدر عام ہے کہ
کوئی حد ہی نہیں، جس کا جو دل کرتا ہے وہ دوسروں پر الزام لگادیتا ہے، جگہ جگہ
ذلیل کرتا ہے اور ثبوت مانگیں تو یہ دلیل کہ میں نے کہیں سنا تھا یا مجھے کسی نے
بتایا تھا، اب کس نے بتایا، بتانے والا کتنا معتبر تھا؟ اس کو کہاں سے پتا چلا؟ اس
کے پاس کیا ثبوت ہیں؟ کوئی معلوم نہیں۔
كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا(۳۶):ان سب
کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ آیت کے آخر میں فرمایا کہ کان، آنکھ اور دل سب کے
بارے میں سوال کیا جائے گا کہ تم نے اُن سے کیا کام لیا؟ کان کو قرآن وحدیث سننے،
علم و حکمت اور وعظ و نصیحت کی اور ان کے علاوہ دیگر نیک باتیں سننے میں استعمال
کیا یا غیبت سننے، لَغْو اور بیکار باتیں سننے، جِماع کی باتیں سننے، بہتان، زنا
کی تہمت، گانے، باجے اور فحش سننے میں لگایا۔ یونہی آنکھ سے جائز و حلال کو دیکھا
یا فلمیں، ڈرامے دیکھنے اور بدنگاہی کرنے میں استعمال کیا اور دل میں صحیح عقائد
اور اچھے اور نیک خیالات و جذبات تھے یاغلط عقائد اور گندے منصوبے اور شہوت سے
بھرے خیالات ہی ہوتے تھے۔
وَ لَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَؕ-: اور گواہی نہ
چھپاؤ۔ یہاں صراحت سے بیان فرمایا کہ گواہی نہ چھپاؤ کیونکہ گواہی کو چھپانا
حرام اور دل کے گناہگار ہونے کی علامت ہے کیونکہ اس میں صاحبِ حق کے حق کو ضائع
کرنا پایا جاتاہے۔ گواہی چھپانا کبیرہ گناہ ہے چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی
اللہُ عنہما سے ایک حدیث مروی ہے کہ کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑا گناہ اللہ تعالیٰ
کے ساتھ شریک کرنا اور جھوٹی گواہی دینا اور گواہی کو چھپانا ہے۔(شعب الایمان،
الثامن من شعب الایمان، 1/271، الحدیث: 291)
جھوٹی گواہی دینے کی مذمت پر 4اَحادیث:
اس سے معلوم ہو اکہ جھوٹی گواہی نہ دینا اور
جھوٹ بولنے سے تعلق نہ رکھنا کامل ایمان والوں کاوصف ہے۔ یاد رہے کہ جھوٹی گواہی
دینا انتہائی مذموم عادت ہے اور کثیر اَحادیث میں اس کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے،
یہاں ان میں سے 4 اَحادیث ملاحظہ ہوں:
(1)حضرت
انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ عزوجل کے ساتھ شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی
کرنا کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔(بخاری، کتاب الدیات، باب قول
اللہ تعالی: ومن احیاہا، 4/358،
الحدیث:6871)
(2)حضرت
عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ
اس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔(ابن ماجہ، کتاب الاحکام، باب شہادۃ الزور، 3/123، الحدیث:2373)
(3)حضرت
عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے،حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مردکا مال ہلاک ہو
جائے یا کسی کا خون بہایا جائے، اس نے (اپنے اوپر)جہنم (کا عذاب)واجب کر لیا۔(معجم
الکبیر، عکرمۃ عن ابن عباس، 11/172،
الحدیث:11541)
(4)حضرت
ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص لوگوں کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوئے چلا کہ یہ بھی
گواہ ہے حالانکہ یہ گواہ نہیں وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے اور جو بغیر جانے
ہوئے کسی کے مقدمہ کی پیروی کرے وہ اللہ تعالیٰ کی ناخوشی میں ہے جب تک اس سے جدا
نہ ہو جائے۔(سنن الکبری للبیہقی، کتاب الوکالۃ، باب اثم من خاصم او اعان فی خصومۃ
بباطل، 6/136، الحدیث: 11444)
وَ اِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ: اور جب کسی
بیہودہ بات کے پاس سے گزرتے ہیں۔ یعنی جب وہ کسی لغو اور باطل کام میں مصروف لوگوں
کے پاس سے گزرتے ہیں تواپنی عزت سنبھالتے ہوئے وہاں سے گزر جاتے ہیں۔ اپنے آپ کو
لہو و باطل سے مُلَوَّث نہیں ہونے دیتے اور ایسی مجالس سے اِعراض کرتے ہیں۔(مدارک،
الفرقان، تحت الآیۃ: 72، ص811)
اللہ
تعالیٰ ہمیں ان گناہوں سے بچنے اور حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا مطیع
وفرمانبردار بنائے اور ہمیں شیطان کے مکروفریب سے بچتے رہنے اور توبہ کرتے رہنے کی
توفیق عطا کرے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم