محمد عدنان (جامعۃ المدینہ فیضان امام غزالی
گلستان کالونی فیصل آباد، پاکستان)
افسوس!
فی زمانہ جھوٹی گواہی دینا ایک معمولی کام سمجھا جاتا ہے اور الزام تراشی کرنا تو
اس قدر عام ہے کہ کوئی حد ہی نہیں، جس کا جو دل کرتا ہے وہ دوسروں پر الزام
لگادیتا اور جگہ جگہ ذلیل کرتا ہے اور ثبوت مانگیں تو یہ دلیل کہ میں نے کہیں سُنا
تھا یا مجھے کسی نے بتایا تھا یا آپ کی بات کا مطلب ہی یہی تھا، اب کس نے بتایا؟
بتانے والا کتنا مُعْتَبر تھا؟ اُس کو کہاں سے پتا چلا؟ اس کے پاس کیا قابل قبول
ثبوت ہیں؟ اس نے بات کرنے والے کے دل کا حال کیسے جان لیا؟ کوئی معلوم نہیں۔
اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ لَا تَقْفُ
مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ
كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا(۳۶)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان:اور اس بات کے
پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں بےشک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے سوال ہونا ہے۔
(پ 15، بنی اسرائیل: 36)
تفسیر:
جس بات کا علم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑنے سے مراد یہ ہے کہ جس چیز کو دیکھانہ ہو اس
کے بارے میں یہ نہ کہو کہ میں نے دیکھا ہے اور جس بات کو سُنانہ ہو اس کے بارے میں
یہ نہ کہو کہ میں نے سنا ہے۔ ایک قول کے مطابق اس سے مراد یہ ہے کہ جھوٹی گواہی نہ
دو۔ حضرت سید نا عبد اللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما نے فرمایا: اس سے مراد یہ ہے کہ
کسی پر وہ الزام نہ لگاؤ جو تم نہ جانتے ہو۔ (مدارک، ج 1، ص 714)تمام اقوال کا
خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت میں جھوٹی گواہی دینے، جھوٹے الزامات لگانے اور اس طرح کے
دیگر جھوٹے اقوال کی ممانعت کی گئی ہے۔
یادر
ہے! کہ جھوٹی گواہی دینا اور کسی پر جان بوجھ کر غلط الزام لگانا انتہائی مذموم
فعل ہے۔ یہاں ان سے متعلق تین احادیث ملاحظہ ہوں:
(1)جھوٹے
گواہ کے قدم بٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اُس کے لئے جہنم واجب کر دے گا۔
(ابنِ ماجہ، ج3، ص123، حدیث: 2373)
(2)جس
نے کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر الزام عائد کیا تو اللہ تعالیٰ جہنم
کے پل پر اُسے روک لے گا یہاں تک کہ اپنے کہنے کے مطابق عذاب پالے۔ (ابو داؤد، ج
4، ص354، حدیث: 4883)
(3)جو
کسی مسلمان پر ایسی چیز کا الزام لگائے جس کے بارے میں وہ خود بھی جانتا نہ ہو تو
اللہ تعالیٰ اسے (جہنمیوں کے خون اور پیپ جمع ہونے کے مقام رَدْغَۃُ الخَبَال میں
اُس وقت تک رکھے گاجب تک کہ اپنے الزام کے مطابق عذاب نہ پالے۔(مصنف عبد الرزاق،
ج11،ص425، حدیث: 20905)
کان، آنکھ اور دل کے بارے میں سوال ہوگا:
آیت کے آخر میں فرمایا کہ کان، آنکھ اور دل سب
کے بارے میں سوال کیا جائے گا، یہ سوال اس طرح کا ہو گا کہ تم نے اُن سے کیا کام
لیا؟ کان کو قراٰن و حدیث، علم و حکمت، وعظ و نصیحت اور ان کے علاوہ دیگر نیک
باتیں سننے میں استعمال کیا یا لغو، بےکار، غیبت، اِلزام تراشی، زنا کی تہمت،
گانےباجے اور فحش سننے میں لگایا۔ یونہی آنکھ سے جائز و حلال کو دیکھا یا فلمیں،
ڈرامے دیکھنے اور بدنگاہی کرنے میں استعمال کیا اور دل میں صحیح عقائد اور اچھے
اور نیک خیالات و جذبات تھے یا غلط عقائد اور گندے منصوبے اور شہوت سے بھرے خیالات
ہوتے تھے۔اللہ تعالیٰ ہمیں جھوٹی گواہی اور الزام تراشی سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین