فی زمانہ لوگوں کی حالت اتنی ابتر ہو چکی ہے کہ ان کے نزدیک جھوٹی قسم کھانا، جھوٹی گواہی دینا، جھوٹے مقدمات میں پھنسوا کر اپنے مسلمان بھائی کی عزت تار تار کر دینا، لوہے کی سنگین سلاخوں کے پیچھے لاچارگی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دینا، اپنے مسلمان بھائی کا ناحق مال ہڑپ کر جانا گویا کہ جرائم کی فہرست میں داخل ہی نہیں۔ یوں تو ہر جھوٹی بات حرام و گناہ ہے۔ مگر جھوٹی گواہی خاص طور سے بہت ہی سخت گناہ کبیرہ اور جہنم میں گرا دینے والا جرمِ عظیم ہے۔ کیوں کہ قرآن و حدیث میں خصوصیت کے ساتھ جھوٹی گواہی پر بڑی سخت وعیدیں آئی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسری قسموں کے جھوٹ سے تو صرف جھوٹ بولنے والے ہی کی دنیا و آخرت خراب ہوتی ہے۔ مگر جھوٹی گوا ہی سے تو گوا ہی دینے والے کی دنیا و آخرت خرا ب ہونے کے علاوہ کسی دوسرے مسلمان کا حق مارا جاتا ہے یا بلا قصور کوئی مسلمان سزا پا جاتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ دونوں باتیں شرعاً کتنے بڑے گناہ کے کام ہیں۔لہٰذا بہت ہی ضروری ہےکہ مسلمان جھوٹی گوا ہی کو جہنم کی آگ سمجھ کر ہمیشہ اس سے دور بھاگیں۔ اس دنیا کی فانی زندگی کو حرف ِآخر سمجھ بیٹھنا عقلمندی نہیں نادانی اور بیوقوفی کی انتہا ہے، لہذا ہم سب کو چاہئے کہ درج ذیل قرآنی آیات اور احادیث کو بغور پڑھ کر عبرت حاصل کریں۔

گناہوں کی دو قسمیں ہیں:

گناہ صغیرہ (چھوٹے چھوٹے گناہ)گناہ کبیرہ (بڑے بڑے گناہ)گناہ صغیرہ نیکیوں اور عبادتوں کی برکت سے معاف ہو جاتے ہیں۔ لیکن گناہ کبیرہ اس وقت تک معاف نہیں ہوتے جب تک کہ آدمی سچی توبہ کر کے اہل حقوق سے ان کے حقوق کو معاف نہ کرالے۔

گناہ کبیرہ کی تعریف:

گناہ کبیرہ اس گناہ کو کہتے ہیں جس سے بچنے پر خداوند قدوس نے مغفرت کا وعدہ فرمایا ہے۔(کتاب الکبائر،ص7)اور بعض علمائے کرام نے فرمایا کہ ہر وہ گناہ جس کے کرنے والے پراﷲعزوجل و رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے وعید سنائی یا لعنت فرمائی۔ یا عذاب و غضب کا ذکر فرمایا وہ گناہ کبیرہ ہے۔ (کتاب الکبائر،ص8)انہی گناہ کبیرہ میں سے ایک جھوٹی گواہی دینا بھی ہے، آئیے جھوٹی گواہی کے متعلق جانتے ہیں،چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: وَ الَّذِیْنَ لَا یَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَۙ-وَ اِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا(۷۲)ترجَمۂ کنزُالایمان: اورجو جھوٹی گواہی نہیں دیتے اورجب بیہودہ پر گزرتے ہیں اپنی عزت سنبھالے گزر جاتے ہیں۔ (پ19،الفرقان:72)

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ ترجمۂ کنزالايمان:اے ايمان والو آپس ميں ايک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ۔(پ5، النسآء:29)اس آیت میں باطل طور پر کسی کا مال کھانا حرام فرمایا گیا خواہ لوٹ کرہو یا چھین کر،چوری سے یا جوئے سے یا حرام تماشوں یا حرام کاموں یا حرام چیزوں کے بدلے یا رشوت یا جھوٹی گواہی سے یہ سب ممنوع و حرام ہے۔(احکام القرآن، باب ما یحلہ حکم الحاکم وما لا یحلہ،1/304)

مسئلہ: اس سے معلوم ہوا کہ ناجائز فائدہ کے لیے کسی پر مقدمہ بنانا اور اس کو حکام تک لے جانا ناجائز و حرام ہے۔ اسی طرح اپنے فائدہ کی غرض سے دوسرے کو ضرر پہنچانے کے لیے حکام پر اثر ڈالنا، رشوتیں دینا حرام ہے۔حکام تک رسائی رکھنے والے لوگ اس آیت کے حکم کو پیش نظر رکھیں۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: وہ شخص ملعون ہے جو اپنے مسلمان بھائی کو نقصان پہنچائے یا اس کے ساتھ دھوکا کرے۔ (تاریخ بغداد، باب محمد، محمد بن احمد بن محمد بن جابر۔۔۔ الخ،1/360، رقم: 262)

جھوٹی گواہی کی تعریف: جھوٹی گواہی یہ ہے کہ کوئی اس بات کی گواہی دے جس کا اس کے پاس ثبوت نہ ہو۔

جھوٹی گواہی دینے کا حکم: کسی کے خلاف جھوٹی گواہی دینا حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے، اس کی مذمت کرتے ہوئے سرورِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک مرتبہ صبح کی نماز پڑھنے کے بعد تین مرتبہ فرمایا: جھوٹی گواہی، شرک کے برابر ہے،پھر یہ آیتِ مبارکہ تلاوت فرمائی:

فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰)ترجمۂ کنزالایمان: تو دور ہو بتوں کی گندگی سے اوربچو جھوٹی بات سے۔(پ 17،الحج:30)ایک مقام پر تین مرتبہ ارشاد فرمایا:سن لو! تمہیں سب سے بڑے گناہوں کے بارے میں بتاتاہوں۔ (1)شرک(2)والدین کی نافرمانی (3)جھوٹی گواہی۔(صحیح البخاری، کتاب الادب، حدیث:5976، ج4، ص95)معلوم ہوا کہ جھوٹی گواہی گناہ کبیرہ،حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔

جھوٹی گواہی دینے والے کا حکم: جس کا جھوٹا ہونا مشہور ہے یا جھوٹی گواہی دے چکا ہے جس کا ثبوت ہو چکا ہے اُس کی گواہی مقبول نہیں۔ (الدرالمختار،کتاب الشہادات،باب القبول وعدمہ،ج8،ص221)

احادیث ِ مبارکہ میں جھوٹی گواہی کی مذمت:

1: حضرت سیِّدُنا ابو بکرہ نفیع بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسولِ اَکرم،شاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے3 مرتبہ ارشاد فرمایا:کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہوں کے متعلق نہ بتاؤں؟ہم نے عرض کی:یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! ضرور ارشاد فرمائیں۔ ارشاد فرمایا: وہ اللہ پاک کے ساتھ شریک ٹھہرانا اوروالدین کی نافرمانی کرنا ہے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ٹیک لگائے تشریف فرماتھے پھرسیدھے ہوکر بیٹھے گئے اور ارشاد فرمایا: یاد رکھو! جھوٹ بولنا اور جھوٹی گواہی دینا(بھی کبیرہ گناہ ہے)۔ (را وی فرماتے ہیں)آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بار بار یہی فرماتے رہے یہاں تک کہ ہم کہنے لگے کہ کاش! آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خاموشی اختیارفرمائیں۔ (صحیح البخاری،کتاب الشھادات، باب ماقیل فی شھادۃ الزور، الحدیث:2654، ص209)

2: میٹھے میٹھے آقا، مکی مدنی مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: جس نے کسی مسلمان کے خلاف ایسی گواہی دی جس کا وہ اہل نہیں تھا تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔ (المسند للامام احمد بن حنبل، مسند ابی ہریرۃ، الحدیث:10622،ج3،ص585)

3: شہنشاہِ نَبوت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: قیامت کی ہولناکی کے سبب پرندے چونچیں ماریں گے اور دُموں کو حرکت دیں گے اور جھوٹی گواہی دینے والا کوئی بات نہ کرے گا اوراس کے قدم ابھی زمین سے جدا بھی نہ ہوں گے کہ اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ (المعجم الاوسط، الحدیث: 7616، ج5، ص362، لایفارق بدلہ لاتقار)

4: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اُس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔(ابن ماجہ، کتاب الاحکام، باب شہادۃ الزور، 3/123، الحدیث: 2373)

5: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: غی جہنم میں ایک وادی ہے جس کی گرمی سے جہنم کی وادیاں بھی پناہ مانگتی ہیں۔یہ اُن لوگوں کے لئے ہے جو زنا کے عادی اور اس پر مُصِر ہوں، جو شراب کے عادی ہوں، جو سود خور اور سود کے عادی ہوں، جو والدین کی نافرمانی کرنے والے ہوں اور جو جھوٹی گواہی دینے والے ہوں۔(بغوی، مریم، تحت الآیۃ: 59، 3/168)

6: ابوموسیٰ رضی اﷲ عنہ سے راوی کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو گواہی کے لیے بلایا گیا اور اُس نے گواہی چھپائی یعنی ادا کرنے سے گریز کی وہ ویسا ہی ہے جیسا جھوٹی گواہی دینے والا۔(المعجم الأوسط،من اسمہ علی،الحدیث:4167،ج3،ص156)

7: حضرتِ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو کسی مسلمان پر جھوٹی گواہی دیتا ہے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں سمجھے۔(موسوعۃ ابن ابی الدنیا،کتاب الغیبۃ والنمیمۃ، باب (ماجاء فی ذم النمیمۃ)، 4/398، الحدیث 123)

8: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے،حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مردکا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے، اس نے (اپنے اوپر)جہنم (کا عذاب)واجب کر لیا۔(معجم الکبیر، عکرمۃ عن ابن عباس، 11/172، الحدیث: 11541)

9: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص لوگوں کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوئے چلا کہ یہ بھی گواہ ہے حالانکہ یہ گواہ نہیں وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے اور جو بغیر جانے ہوئے کسی کے مقدمہ کی پیروی کرے وہ اللہ تعالیٰ کی ناخوشی میں ہے جب تک اس سے جدا نہ ہو جائے۔(سنن الکبری للبیہقی، کتاب الوکالۃ، باب اثم من خاصم او اعان فی خصومۃ بباطل، 6/136، الحدیث: 11444)