جھوٹی گواہی کسی بھی مسلمان کے لیے جائز نہیں بلکہ کبیرہ گناہ ہے، آیئے! جھوٹی گواہی کی تعریف اور اس کے متعلق مدنی پھول پڑھتے ہیں:

جھوٹی گواہی کی تعریف: کسی ایسی بات کی گواہی دینا جسے ثابت نہ کیا جا سکے اسے جھوٹی گواہی کہتے ہیں۔

جھوٹی گواہی کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ لَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَؕ-وَ مَنْ یَّكْتُمْهَا فَاِنَّهٗۤ اٰثِمٌ قَلْبُهٗؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ۠(۲۸۳)ترجَمۂ کنزُالایمان: گوا ہی نہ چھپاؤ اور جو گواہی چھپائے گا تو اندر سے اس کا دل گنہگار ہے اور اللہ تمہارے کاموں کو جانتا ہے۔

بہتر گواہ کے متعلق حدیث مبارکہ: امام مسلم زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کیا تمھیں خبر نہ دوں کہ بہتر کون ہے؟ فرمایا: وہ جو گواہی دے اس سے قبل کہ اسے گواہی کے لیے کہا جائے۔(مسلم، کتاب الاقضیہ، ص946)

جھوٹی گواہی کبیرہ گناہ ہے؟ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کبیرہ گناہ یہ ہیں: (1)اللہ عزوجل کے ساتھ کسی کو شریک کرنا (2)ماں باپ کی نافرمانی کرنا (3)کسی کو ناحق قتل کرنا اور (4)جھوٹی گواہی دینا۔

جھوٹی گواہی شرک کے برابر ہے: امام احمد اور امام ترمذی ایمن بن خریم سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نماز صبح پڑھ کر قیام فرمایا اور فرمایا کہ جھوٹی گواہی شرک کے برابر کردی گئی۔

جھوٹا گواہ جہنم میں ہوگا:حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے: جس نے کسی کے خلاف ایسی گواہی دی جس کا اصل نہیں تھا تو اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ (مسند امام احمد،حدیث: 10422)

پیارے اسلامی بھائیو! آج ہمارے معاشرے میں بہت سارے گناہ پائے جاتے ہیں، انہی گناہوں میں ایک گناہ جھوٹی گواہی دینا بھی ہے، جھوٹی گواہی دینا گناہِ کبیرہ، حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ جھوٹی گواہی کی مذمت میں بہت ساری احادیث مبارکہ ملتی ہیں انہی میں سے چند احادیث ملاحظہ فرمائیں۔

جھوٹی گواہی کی تعریف: جھوٹی گواہی یہ ہے کہ کوئی اس بات کی گواہی دے جس کا اس کے پاس ثبوت نہ ہو۔

کبیر گناه: حضور نبی رحمت شفیع امت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے: کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ عزوجل کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی جان کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔

جھوٹی گواہی دینا:رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کبیرہ گناہوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، والدین کی نافرمانی کرنا اور کسی جان کو قتل کرنا کبیرہ گناہ ہیں۔ پھر فرمایا: کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہ کے بارے میں نہ بتاؤں؟ اور وہ جھوٹ بولنا ہے یا جھوٹی گواہی دینا ہے۔(بخاری، کتاب الادب، باب حقوق والدین من الکبائر، ص506، حديث: 5977)

جہنم واجب ہو جائے گا :نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے: (بروز قیامت)جھوٹی گواہی دینے والے کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے جہنم واجب کر دیتا ہے۔(ابن ماجہ، باب شهادة الزور)

اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنائے! رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے: جس نے کسی مسلمان کے خلاف ایسی گواہی دی جس کا وہ اہل نہیں تھا تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنالے۔(مسند احمد، جلد3، ص585، حدیث: 10622)

جس نے گواہی چھپائی! حضوراکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو گوائی کے لیے بلایا گیا اور اس نے گواہی چھپائی یعنی ادا کرنے سے گریز کی وہ ویسا ہی ہے جیسا جھوٹی گواہی دینے والا۔ (معجم اوسط، من اسمہ علی، 3/156، حدیث: 4167)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں جھوٹی گواہی دینے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین

گواہی کی اہمیت کےبارے میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ لَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَؕ-وَ مَنْ یَّكْتُمْهَا فَاِنَّهٗۤ اٰثِمٌ قَلْبُهٗؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ۠(۲۸۳)ترجمہ کنزالایمان: گوا ہی نہ چھپاؤ اور جو گواہی چھپائے گا تو اندر سے اس کا دل گنہگار ہے اور اللہ تمہارے کاموں کو جانتا ہے۔(پ3، البقرة: 283)

جھوٹی گواہی ایک معمولی کام سمجھا جاتا ہے اور الزام تراشی کرنا تو اس قدر عام ہے کہ کوئی حد نہیں ہو، جس کا دل کرتا ہے وہ دوسرے پر الزام لگا دیتا ہے اور جگہ جگہ ذلیل کرتا ہے۔ آیئے! جھوٹی گواہی سے متعلق چند احادیث مبارکہ پڑھتے ہیں:

(1)حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جھوٹا گواہ پاؤں بھی نہ ہٹا پائے گا اللہ تعالیٰ اُس کے لیے ہم واجب کر دے گا۔

(2)حضرت خریم بن فاتک اسدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم صبح کی نماز پڑھا کر کھڑے ہوئے اور فرمایا: جھوٹی گواہی شرک کے ساتھ برابر کردی گئی ہے۔ پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی: فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰)حُنَفَآءَ لِلّٰهِ غَیْرَ مُشْرِكِیْنَ بِهٖؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان: تو دور ہو بتوں کی گندگی سے اوربچو جھوٹی بات سے ایک اللہ کے ہوکر کہ اس کا ساجھی(شریک)کسی کو نہ کرو۔

(3)حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کبیرہ گناہ یہ ہیں: الله عزوجل کے ساتھ شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو نا حق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔

(4)حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، حضور پر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مرد کا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے اس نے اپنے اوپر جہنم کا عذاب واجب کرلیا۔


 اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ الَّذِیْنَ لَا یَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَۙ- ترجمہ کنزالایمان: اور جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔

ایک روایات میں ہے کہ جھوٹی گواہی دینا شرک کے برابر ہے، الله عزوجل ارشاد فرماتا ہے: فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰)ترجمہ کنز الایمان: تو دور ہو بتوں کی گندگی سے اور بچو چھوٹی بات سے۔

ایک حدیث پاک میں ہے: قیامت کے دن جھوٹی گواہی دینے والے کے قدم اپنی جگہ سے ہٹ بھی نہ پائیں گے کہ اس کے لئے جہنم واجب ہو جائے گی۔

جھوٹی گواہی کے سبب چار گناہ کا ارتکاب: پہلا گناہ: جھوٹ اور اور بہتان ہے۔ دوسرا گناه: چھوٹی گواہی دینے والا جس کے خلاف گواہی دیتا ہے اس پر ظلم کرتا ہے حتی کہ اس کو جھوٹی گواہی کی وجہ سے اس کا مال عزت اور جان سب کچھ چلا جاتا ہے۔ تیسرا گناہ: جس کے حق میں جھوٹی گواہی دینا ہے اس پر ظلم کرتا ہے کہ اس گواہی کے ذریعے اس تک حرام مال پہنچتا ہے۔ چوتھا گناہ: جھوٹے گواہ نے اس مال، خون اور عزت کو جائز ٹھہرا دیا جسے اللہ عزوجل نے حرمت و عصمت عطا کی تھی۔

جھوٹی گو اہی دینے کی مذمت پر چار احادیث:

(1)حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کبیرہ گناہ یہ ہیں: الله عزوجل کے ساتھ شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو نا حق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔

(2)حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشادفرمایا: جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے جہنم واجب کر دیتا ہے۔

(3)حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مرد کا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے اس نے اپنے اوپر جہنم کا عذاب واجب کرلیا۔

(4)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص لوگوں کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوئے چلا کہ یہ بھی گواہ ہے حالانکہ یہ گواہ نہیں، وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے اور جو بغیر جانے ہوئے کسی کے مقدمے کی پیروی کرے، وہ اللہ تعالیٰ کی ناخوشی میں ہے جب تک اس سے جدا نہ ہو جائے۔

اللہ عزوجل نے نوع انسانی کی تخلیق فرمائی اور دین اسلام جیسا خوبصورت دین ہمیں عطا فرمایا، یہ واحد مذہب ہے جو انسان کے ہر قسم کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے اس کی تعلیمات میں شامل ہیں کہ اپنے کسی بھائی کا حق غضب نہ کیا جائے اسے تکلیف نہ دی جائے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کسی دوسرے انسان کے خلاف جھوٹی گواہی نہ دیں۔

بندۂ مؤمن کی یہ شان نہیں کہ جھوٹ بول کر یا جھوٹی شہادت دے کر کسی مسلمان بھائی کا حق غضب کرے، جھوٹی گواہی کا شمار کبیرہ گناہوں میں ہوتا ہے ۔ ہمیں اسلام یہ تعلیمات دیتا ہے کہ اس سے بچنا ہے اور کسی گناہ سے یا برائی سے بچنا ہو تو اس کے متعلق جو قرآن و حدیث میں وعیدیں آئی ہیں وہ سنیں ان شآء اللہ آپ میں تبدیلی آئے گی، جب گناہ کا عذاب معلوم ہو تو انسان سوچتا ہے کہ اگر یہ کیا تو اس کی یہ سزا ملے گی۔ ان شآء اللہ ہم بھی آج گناہ کی تعریف اور وہ احادیث مبارکہ جو جھوٹی گواہی دینے سے متعلق ہیں انہیں پڑھے گے۔

معزز قارئین کرام: گناہ کی دواقسام ہیں:(1)کبیرہ گناہ(2)صغیرہ گناہ

گناہ کبیرہ کی تعریف:

گناہ کبیرہ کا معنی ہے بڑا گناہ! چنانچہ اصطلاح شریعت میں گناہ کبیرہ اس فعل کو کہتے ہیں جس کا کرنے والا حد یعنی شریعت کی متعین کردہ سزا کا حقدار ٹھہرے یا جس کے کرنے پر قرآن اور حدیث میں سخت وعید مذکور ہو یا جس کے کرنے والے کو شریعت نے بطور مبالغہ کفر کرنے والے سے تعبیر کیا ہو یا جس کا فساد اور نقصان گناہ کبیرہ کے فساد و نقصان کے برابر یا اس سے زیادہ ہو یا جس کی ممانعت دلیل قطعی کے ساتھ ثابت ہو اور جس کا اختیار کرنا حرمت دین کا موجب ہو پس جس فعل اور بات میں ان میں سے کوئی بھی چیز پائی جائے گی اس کو گناہ کبیرہ یعنی بڑا گناہ کہیں گے۔

گناہ صغیرہ کی تعریف:

اور جس فعل یا بات میں ان میں سے جو اوپر ذکر کی گئی ہیں کوئی چیز نہیں پائی جائے گی اور وہ اسلامی تعلیمات اور دینی تقاضے کے خلاف ہو گی اس کو گناہ صغیرہ یعنی چھوٹا گناہ کہا جائے گا۔

احادیث مبارکہ میں ایک جگہ تمام کبیرہ گناہوں کا تعین اور تفصیل موجود نہیں بلکہ موقع اور محل کی مناسبت سے یا کسی سائل کے جواب میں بیان کیے گئے ہیں جن میں سے ایک گناہ کبیرہ جھوٹی گواہی بھی ہے۔

جھوٹی گواہی کی تعریف:

کسی شخص کا ایسی گواہی دینا جس کا اس کے پاس ثبوت نہ ہو(جہنم میں لے جانے والے اعمال، جلد2، ص713)

جھوٹی گواہی دینے والے پرجہنم واجب ہوجاتی ہے:

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جھوٹی گواہی دینے والے کے قدم اپنی جگہ سے نہیں ہٹیں گے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے جہنم واجب کردے۔(ابن ماجہ بحاشیۃ الامام سندی، کتاب الاحکام، باب فی شھادۃالزور، جلد3، حدیث: 2373)

جھوٹی گواہی گناہ کبیرہ ہے:

جھوٹی گواہی دینے والا گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوتا ہے جو بغیر توبہ کے معاف نہیں، چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضوراکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پوچھا گیا کہ گناہ کبیرہ کتنے ہیں تو حضور جان عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: (1)اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا (2)ماں باپ کی نافرمانی کرنا (3)جھوٹی گواہی دینا۔(بخاری، جلد 2، ص194، حدیث: 2653)

جھوٹی گواہی شرک کے مساوی ہے:

جھوٹی گواہی دینا شرک کے مترادف ہے چنانچہ حضرت خریم بن فاتک رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صبح کی نماز پڑھائی اور جب آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نماز سے فارغ ہوئے تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کھڑے ہوئے اور فرمایا جھوٹی گواہی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کے مساوی ہے۔(سنن ابو داؤد، کتاب الأقضیہ، باب فی شھادۃ الزور، جلد3، حدیث: 3599)

اور مسند امام احمد بن حنبل میں ہے: رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے: جس نے کسی مسلمان کے خلاف ایسی گواہی دی جس کا وہ اہل نہیں تھا تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنالے۔(مسند احمد، جلد3، ص585، حدیث: 10622)

اللہ تعالیٰ ناراض رہتا ہے:

جھوٹی گواہی اللہ عزوجل کی ناراضگی کا سبب ہے، اللہ تعالیٰ ایسے شخص سے ناراض ہوجاتا ہے چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو کسی قوم کے ساتھ یہ کہلاتے ہوئے چلا کہ وہ گواہ ہے حالانکہ وہ گواہ نہیں تھا تو وہ جھوٹی گواہی دینے والا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی میں رہے گا حتی کہ ان سے الگ ہو جائے۔(سنن کبری للبیہقی، کتاب الوکالۃ، باب آثم من خاصم أو أعان فی خصومۃ بباطل، جلد6، حدیث:11444)

لعنت فرمائی گئی ہے:

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جان بوجھ کر جھوٹی گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی ہے۔(کنزالعمال، کتاب الشھادۃ، باب شھادۃ الزور من الاکمال، جلد4، ص9، حدیث: 17798)

محترم قارئین کرام!دیکھا آپ نے جھوٹی گواہی کتنا برا فعل ہے کہ جھوٹی گواہی دینے والے کا گناہ شرک کے مساوی ہے، ایسے شخص پر جہنم واجب کردی جاتی ہے، انسان گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوجاتا ہے، اللہ عزوجل کی ناراضگی کا سبب ہے، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کے منہ میں آگ کی لگام ڈالے گا، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایسے شخص پر لعنت فرمائی ہے۔ ذرا سوچیں کتنا بڑا گناہ اور کتنا برا فعل ہے لیکن ہم سوچتے نہیں جھوٹی گواہی دینے سے معاشرہ تباہ ہوجاتا ہے، لوگوں کے گھر تباہ ہوجاتے ہیں، خاندان تباہ ہوجاتے ہیں، بہت سے لوگوں کے بچے یتیم ہوجاتے ہیں، بیویاں بیوہ ہوجاتی ہیں، جھوٹی گواہی شہروں کو ویران کر دیتی ہے، لوگ گھر سے بے گھر ہوجاتے ہیں اور سب سے بڑھ کر جھوٹی گواہی دینے سے دوسرے فریق پر جو ظلم ہوتا ہے اس کا گناہ بھی آپ کے ذمہ ہے، آپ صرف گواہی میں ہی نہیں بلکہ ظلم کر کے بھی گناہ کبیرہ کے مرتکب ہورہے ہیں۔ ذرا سوچئے! جھوٹی گواہی دینا کتنا بڑا گناہ ہے یہ تو ہم پر اللہ پاک کا احسان عظیم ہے کہ اس نے ہمیں مسلمان پیدا کیا اور دین اسلام کی یہ کتنی خوبصورت بات ہے کہ یہ دین اپنے ماننے والوں کی ہر پہلو سے راہنمائی کرتا ہے۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ ہم کو ہر قسم کے گناہوں سے محفوظ فرمائے اور مظلوموں کا درد سمجھنے اور ہم سب کو شریعت کا پابند رہنے، سنتوں پر عمل کرنے، صلہ رحمی کرنے اور سچ بولنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبین۔

جھوٹی گواہی یہ ہے کہ کوئی اس بات کی گواہی دے جس کا اس کے پاس ثبوت نہ ہو۔ حضرت اما م عز الدین بن عبد السلام رحمۃ الله علیہ فرماتے ہیں: جھوٹی گواہی کو گناہ کبیرہ شمار کرنا واضح ہے۔ اسی طرح حضرت سیدنا شیخ عزالدین فرماتے ہیں: اگر نا حق گواہی میں گواہ جھوٹا ہو تو وہ 3 گناہوں کا مرتکب ہوگا، (1)نافرمانی کا گناہ (2)ظالم کی مددکرنے کا گناہ اور (3)مظلوم کو رسوا کرنے کا گناہ۔

اللہ عزوجل کا فرمان عالی شان ہے: وَ مَنْ یَّكْتُمْهَا فَاِنَّهٗۤ اٰثِمٌ قَلْبُهٗؕ-ترجمہ کنز الایمان: اور جو گواہی چھپائےگا تو اندر سے اس کا دل گنہگار ہے۔(پ3، البقرۃ:283)اور مزید فرماتا ہے: وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا(۳۶)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں بےشک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے سوال ہونا ہے۔

*نور کے پیکر تمام نبیوں کے سرور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے: جب کسی کو گواہی کے لئے بلایا جائے اس وقت اس نے گو اہی چھپائی تو وہ جھوٹی گواہی دینے والے کی طرح ہے۔(معجم الاوسط، ص15، حديث:4197)

جھوٹی گواہی دینا انتہائی مذموم فعل ہے، جیسا کہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اس کے لئے جہنم واجب کر دے گا۔ (ابن ماجہ، ص123، حدیث:22)

افسوس آج زمانے میں جھوٹی گواہی دینا ایک معمولی کام سمجھا جاتا ہے۔ بیان کردہ آیت، تفسیر احادیث مبارکہ کو سامنے رکھتے ہوئے ہر ایک کو اپنے اپنے طرز عمل پر غور کرنے کی بہت حاجت ہے آیت کہ آخر میں فرمایا کہ کان آنکھ اور دل سب کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ یہ سوال اس طرح کا ہوگا کہ تم ان سے کیا کام لیا کرتے تھے۔ کان کو قرآن و حدیث، علم و حکمت، وعظ و نصیحت اور ان کے علاوہ دیگر نیک باتیں سننے میں استعمال کیا یا لغو، بے کار، غیبت، الزام تراشی، زنا کی تہمت لگانے، گانے باجے، فحش سننے میں لگائے۔ یونہی آنکھ سے جائز و حلال کو دیکھا یا فلمیں دیکھنے یابد نگاہی کرنے میں استعمال کیا الغرض ہر اعضاء کواچھے کاموں میں استعمال کیا یا غلط۔

ایک اور مقام پر رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جھوٹی گواہی کی مذمت بیان کرتے ہوئے فرمایا: جھوٹی گواہی دینا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔

حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مرد کا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے اس نے اپنے اوپر جہنم کا عذاب واجب کر لیا۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو شخص لوگوں کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوئے چلا کہ یہ بھی گواہ ہے حلانکہ یہ گواہ نہیں وہ بھی جھوٹے گواہ کہ حکم میں ہے۔ اور جو بغیر جانتے ہوئے کسی کے مقدمہ کی پیروی کرے وہ اللہ تعالیٰ کی نا خوشی میں ہے جب تک اس سے جدا نہ ہوجائے۔

الله تعالیٰ ہمیں جھوٹی گواہی دینے سے محفوظ فرمائے اور ہمیں اپنی زبان کو سچ بولنے والے کاموں میں استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

اِرشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا(۳۶)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں بےشک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے سوال ہونا ہے۔ (پ 15، بنی اسرائیل: 36)

وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ: اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں۔یعنی جس چیز کو دیکھا نہ ہو اُس کے بارے میں یہ نہ کہو کہ میں نے دیکھا ہے اور جس بات کو سنا نہ ہو اس کے بارے میں یہ نہ کہو کہ میں نے سنا ہے۔ ایک قول ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جھوٹی گواہی نہ دو۔ اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہمانے فرمایا:اس سے مراد یہ ہے کہ کسی پرو ہ الزام نہ لگاؤ جو تم نہ جانتے ہو۔(مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: 36، ص623)ابو عبداللہ محمد بن احمد قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: خلاصہ یہ ہے کہ ا س آیت میں جھوٹی گواہی دینے،جھوٹے الزامات لگانے اور اس طرح کے دیگر جھوٹے اَقوال کی مُمانعت کی گئی ہے۔(تفسیرقرطبی، الاسراء، تحت الآیۃ: 36، 5/187، الجزء العاشر)

جھوٹی گواہی دینے اور غلط الزامات لگانے کی مذمت پر احادیث: یہاں جھوٹی گواہی دینے اور غلط الزامات لگانے کی مذمت پر تین روایات ملاحظ ہوں:

(1)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہماسے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اُس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔(ابن ماجہ، کتاب الاحکام، باب شہادۃ الزور،3/123، الحدیث: 2373)

(2)حضرت معاذ بن انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے،رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر الزام عائد کرے تو اللہ تعالیٰ جہنم کے پل پر اسے روک لے گا یہاں تک کہ اپنے کہنے کے مطابق عذاب پا لے۔(ابوداؤد، کتاب الادب، باب من ردّ عن مسلم غیبۃ، 4/354، حدیث: 4883)

(3)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو کسی مسلمان پر ایسی چیز کا الزام لگائے جس کے بارے میں وہ خود بھی جانتا نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اسے (جہنم کے ایک مقام)رَدْغَۃُ الْخَبَالْ میں اس وقت تک رکھے گا جب تک کہ اپنے الزام کے مطابق عذاب نہ پالے۔(کتاب الجامع فی آخر المصنّف، باب من حلّت شفاعتہ دون حدّ،10/353، الحدیث: 21069)

اسلام میں اللہ تعالیٰ نے مسلمان کو جو مقام عطا فرمایا ہے، اُس کی سچائی اور حقانیت کے لئے یہی ایک چیز کافی ہے کہ مسلمان جو بات اپنی زبان سے نکالے،اُسے حق اور سچ مان لیا جائے۔ اور ایک کامل مؤمن کی یہی شان ہے کہ جب بات کرے تو سچ بولے چاہے وہ کسی بھی میدان میں کھڑا ہو۔ اور قرآن و حدیث میں ہمیں اسی بات کا حکم دیا گیا ہے کہ ہمیشہ سچ بولو اور جھوٹ سے بچو۔ حدیث پاک میں ہے:حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اے لوگو! جھوٹ سے بچو، کیونکہ جھوٹ ایمان کے مخالف ہے۔(مسند امام احمد، مسند ابی بکر الصدیق، 1/22، حدیث: 16)

جھوٹی گواہی کی تعریف:جھوٹی گواہی کا مطلب ہے غلط گواہی دینا یعنی کوئی جان بوجھ کر ایسی چیز کی گواہی دے جسے وہ نہیں جانتا یا جس چیز کے بارے میں خبر دیتا ہے وہ حقیقت کے بر خلاف ہو اسے جھوٹی گواہی کہتے ہیں۔ جھوٹی گواہی کبیرہ گناہوں میں سے ایک کبیرہ گناہ ہے۔

چنانچہ اللہ پاک کا ارشاد ہے: فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰)ترجَمۂ کنزُالایمان: تو دور ہو بتوں کی گندگی سے اوربچو جھوٹی بات سے۔ (پ17، الحج: 30)

جھوٹی بات سے اجتناب کرو:

یہاں جھوٹی بات سے کیا مراد ہے، اس کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد اپنی طرف سے چیزوں کو حلال اور حرام کہنا ہے۔ دوسراقول یہ ہے کہ اس سے مراد جھوٹی گواہی دینا ہے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد جھوٹ اور بہتان ہے۔ چوتھا قول یہ ہے کہ اس سے مراد دورِ جاہلیّت میں تَلْبِیَہ میں ایسے الفاظ ذکر کرنا جن میں اللہ تعالیٰ کے لئے شریک کا ذکر ہو۔(تفسیرکبیر، الحج، تحت الآیۃ: 30، 8/223)احادیث طیبہ میں جھوٹی گواہی دینے والے کی بھر پور مزمت کی گئی ہے، چند احادیث طیبہ ملاحظہ کرتے ہیں:

شرک کے برابر:

حضرت خریم بن فاتک اسدی رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم صبح کی نماز پڑھ کر کھڑے ہوئے اور تین مرتبہ یہ ارشاد فرمایا جھوٹی گواہی ہی شرک کے ساتھ برابر کر دی گئی۔ پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی: فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰)حُنَفَآءَ لِلّٰهِ غَیْرَ مُشْرِكِیْنَ بِهٖؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان: تو دور ہو بتوں کی گندگی سے اوربچو جھوٹی بات سے ایک اللہ کے ہوکر کہ اس کا ساجھی(شریک)کسی کو نہ کرو۔ (ابو داؤد، کتاب الاقضیۃ، باب فی شہادۃ الزور، 3/427، الحدیث: 3599)

سب سے بڑا گناہ:

رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کیا تمہیں بڑے بڑے (کبیرہ)گناہوں کے بارے میں نہ بتا دوں؟ صحابہ نے عرض کیا: کیوں نہیں؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی گواہی دینا یا جھوٹی بات بولنا، آپ اس کلمہ کی تکرار فرماتے رہے یہاں تک کہ ہم لوگوں نے(شفقت کے باعث دل میں کہا): کاش! آپ خاموش ہو جاتے۔(مسلم، کتاب الایمان، باب بیان الکبائر و اکبرھا، ص 59 حدیث:87)

جہنم واجب ہے:

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہُ عنہماسے روایت ہے، رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اُس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔(ابن ماجہ، کتاب الاحکام، باب شہادۃ الزور، 3/123، الحدیث: 2372)

اسی طرح ایک اور روایت میں رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مرد مسلم کا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے اُس نے جہنم واجب کر لیا۔(المعجم الکبیر،الحدیث: 11541،ج 11،ص 172۔173)

رَدْغَۃُ الْخَبَالْ:

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو کسی مسلمان پر ایسی چیز کا الزام لگائے جس کے بارے میں وہ خود بھی جانتا نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اسے (جہنم کے ایک مقام)رَدْغَۃُ الْخَبَالْ میں اس وقت تک رکھے گا جب تک کہ اپنے الزام کے مطابق عذاب نہ پالے۔(کتاب الجامع فی آخر المصنّف، باب من حلّت شفاعتہ دون حدّ،10/353، الحدیث: 21069)

رَدْغَۃُ الْخَبَالْ کے حوالے سے حدیث پاک ہیں آیا کہ ردغۃ الخبال جہنم میں ایک جگہ ہے جہاں جہنمیوں کا خون اور پیپ جمع ہوگا۔(ظاہری گناہوں کی معلومات، ص 55تا 56)

قارئین کرام! حقیقت میں جھوٹی گواہی دینے والا کئی بڑے گناہوں کا ارتکاب کرتا ہے۔

پہلا گناہ جھوٹ اور بہتان ہے، دوسر اگناہ یہ ہے کہ جھوٹی گواہی دینے والا جس کے خلاف گواہی دیتا اسپر ظلم کرتا ہے حتی کہ اس کی جھوٹی گواہی کی وجہ سے اس کا مال، عزت اور جان سب کچھ چلا جاتا ہے ،تیسرا گناہ یہ ہے کہ جس کے حق میں جھوٹی گواہی دیتا ہے اس پر بھی ظلم کرتا ہے کہ اس گواہی کے ذریعے اس تک مال حرام پہنچاتا ہے اور وہ اس گواہی کے ذریعے اسے لیتا ہے تو اس کے لئے جہنم واجب ہو جاتا ہے۔

رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس کے لئے میں اس کے بھائی کے مال میں سے کچھ فیصلہ کر دوں حالانکہ وہ حق پر نہ ہو تو اس کو چاہئے کہ اس کو نہ لے کیونکہ اس کے لئے آگ کا ایک ٹکرا کاٹا گیا ہے۔(76 کبیرہ گناہ، ص77، 78)

لیکن آج بڑی شدت کے ساتھ جھوٹی گواہی کا مسئلہ زیر بحث ہے،سب جانتے ہیں کہ بے بنیادی باتوں کو لوگوں میں پھیلانے، جھوٹ بولنے اور افواہ کا بازار گرم کرنے سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ ہاں! اتنی بات تو ضرور ہے کہ یہی جھوٹ، چاہے جان کر ہو یا اَنجانے میں ہو، کتنے لوگوں کو ایک آدمی سے بدظن کر دیتا ہے، لڑائی، جھگڑا کا ذریعہ بنتا ہے، جب جھوٹ بولنے والے کی حقیقت لوگوں کے سامنے آتی ہے، تو وہ بھی لوگوں کی نظر سے گر جاتا ہے، اپنا اعتماد کھو بیٹھتا ہے اور پھر لوگوں کے درمیان اس کی کسی بات کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔

اللہ پاک ہمیں جھوٹی گواہی کے اس قبیح فعل سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین

پیارے اسلامی بھائیو! جھوٹی گواہی دینا کبیرہ گناہ اور بہت ہی مذموم کام ہے، آج کل جھوٹی گواہی دینا بہت عام ہو گیا ہے، آیئے! ذیل میں جھوٹی گواہی کی تعریف اور اس کی مذمت پر چند احادیث مبارکہ پڑھتے ہیں:

جھوٹی گواہی کی تعریف:کوئی ایسی بات پر گواہی دے جس کا اس کے پاس ثبوت نہ ہو۔

حدیث نمبر1: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ عزوجل کے ساتھ شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔(مسلم، کتاب الایمان)

حدیث نمبر 2: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو شخص لوگوں کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوئے چلا کہ یہ بھی گواہ ہے حالانکہ یہ گواہ نہیں وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے اور جو بغیر جانے ہوئے کسی کے مقدمہ کی پیروی کرے وہ اللہ(عزوجل)کی ناخوشی میں ہے جب تک اُس سے جدا نہ ہو جائے۔ (سنن کبریٰ للبیہقی، کتاب الوکالۃ، باب اثم من خاصم او اعان فی خصومۃ بباطل، 6/136، حدیث:11444)

حدیث نمبر 3: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اُس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔(ابن ماجہ، کتاب الاحكام، باب شهادة الزور، 3/123، حدیث: 2373)

حدیث نمبر 4: حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے، حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مرد کا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے تو اس نے جہنم کو واجب کر لیا۔ (معجم كبير، عكرمۃ عن ابن عباس، 11/172، حدیث:11541)

حدیث نمبر 5: نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے: قیامت کی ہولناکی کے سبب پرندے چونچیں ماریں گے اور دُموں کو حرکت دیں گے اور جھوٹی گواہی دینے والا کوئی بات نہ کرے گا تو اس کے قدم ابھی زمین سےجدا بھی نہ ہوں گے کہ اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔(معجم اوسط، 5/362، حديث: 7616)


پیارے اسلامی بھائیو! آج ہمارے معاشرے میں جھوٹی گواہی کی وبا بہت ہی تیزی سے پھیل رہی ہے اور کامل مسلمان کبھی بھی جھوٹی گواہی نہیں دے گا جھوٹی گواہی کے بارے میں حدیث کریم میں اس کی بہت مذمت بیان کی گئی ہے جھوٹی گواہی کبیرہ گناہوں میں سے ایک کبیرہ گناہ ہے۔

جھوٹی گواہی کی تعریف: جھوٹی گواہی یہ ہے کہ کوئی اس بات پر گواہی دے جس کا اس کے پاس ثبوت نہ ہو۔

حدیث نمبر 1:میٹھے میٹھے آقا مکی مدنی مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے: جس نے کسی مسلمان کے خلاف ایسی گواہی دی جس کا وہ اہل نہیں تھا تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔ (مسند احمد، مسند ابی ہریره، 3/580، حدیث: 10622)

حدیث نمبر2:حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے، حضوراکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مرد کا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے اس نے اپنے اوپر جہنم کا عذاب واجب کر لیا۔(معجم کبیر، عکرمہ عن ابن عباس)

حدیث نمبر3: حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے: بروز قیامت جھوٹی گواہی دینے والے کے قدم اپنی جگہ سے نہیں ہٹیں گے حتّٰی کہ اس کے لیے جہنم واجب ہو جائے گی۔(ابن ماجہ، ابواب الشهادات، باب شهادة الذور، ص2619، حديث: 2373)

حدیث نمبر4:رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کبیرہ گناہوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، والدین کی نافرمانی کرنا اور کسی جان کو قتل کرنا کبیرہ گناہ ہیں۔ پھر فرمایا: کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہ کے بارے میں نہ بتاؤں؟ اور وہ جھوٹ بولنا ہے یا جھوٹی گواہی دینا ہے۔(بخاری، کتاب الادب، باب حقوق والدین من الکبائر، ص506، حديث: 5977)

حدیث نمبر5:نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے: قیامت کی ہولناکی کے سبب پرندے چونچیں ماریں گے اور دُموں کو حرکت دیں گے اور جھوٹی گواہی دینے والا کوئی بات نہ کرے گا تو اس کے قدم ابھی زمین سےجدا بھی نہ ہوں گے کہ اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔(معجم اوسط، 5/362، حديث: 7616)

اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے: وَ الَّذِیْنَ لَا یَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَۙ- ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔

روایت میں ہے کہ جھوٹی گواہی دینا شرک کے برابر ہے۔ الله عزوجل ارشاد فرماتا ہے: فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰)ترجَمۂ کنزُالایمان: تو دور ہو بتوں کی گندگی سے اوربچو جھوٹی بات سے۔

جھوٹی گواہی کے سبب چار گناہوں کا ارتکاب:

جھوٹی گواہی دینے والا کئی بڑے گناہوں کا ارتکاب کرتا ہے، جیسے جھوٹ اور بہتان جس کی مذمت میں اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِیْ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ(۲۸)ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک اللہ راہ نہیں دیتا اسے جو حد سے بڑھنے والا بڑا جھوٹا ہو۔(پ24، المؤمن:28)حدیث پاک میں ہے: مؤمن کی فطرت میں خیانت اور جھوٹ کے سوا ہر خصلت ہو سکتی ہے۔

نیز جھوٹی گواہی دینے والا جس کے خلاف گواہی دیتا ہے اس پر ظلم کرتا ہے حتّٰی کہ اس کی جھوٹی گواہی کی وجہ سے اس کا مال عزت اور جان سب کچھ چلا جاتا ہے۔اور جس کے حق میں جھوٹی گواہی دیتا ہے اس پر بھی ظلم کرتا ہے اس گواہی کے ذریعے اس تک مال حرام پہنچتا ہے اور وہ اس گواہی کے ذریعے اسے لیتا ہے تو اس کے لیے جہنم واجب ہو جاتا ہے۔

جھوٹی گواہی کے متعلق احادیث مبارکہ

مصطفیٰ جان رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے ارشاد فرمایا: جس کے لیے میں اس کے بھائی کے مال میں سے کچھ فیصلہ کر دوں حالانکہ وہ حق پر نہ ہو تو اس کو چاہیے کہ اس کو نہ لے کیونکہ اس کے لیے آگ کا ایک ٹکڑا کاٹا گیا ہے۔

حضور سید عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہوں کے بارے میں خبر نہ دوں، اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا، سنو! جھوٹی گواہی دینا بھی بڑا گناہ ہے۔ (یہ حدیث بخاری و مسلم دونوں میں ہے)

رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کا مال خون عزت حرام ہے۔


جس طرح قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے جھوٹی گواہی کی مذمت بیان فرمائی ہے اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی جھوٹی گواہی کی مذمت بیان فرمائی گئی ہے جیساکہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کبیرہ گناہ یہ ہیں: (1)اللہ پاک کے ساتھ شریک ٹھہرانا (2)والدین کی نافرمانی (3)کسی جان کو قتل کرنا (4)جھوٹی گواہی دینا۔(صحیح بخاری)

حضرت خریم بن فاتک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نماز فجر کے بعد کھڑے ہو کر 3 مرتبہ ارشاد فرمایا: جھوٹی گواہی اللہ عزوجل کے ساتھ شرک کرنے کے برابر ہے۔ (ابو داؤد، کتاب الاقضیۃ، باب فی شہادۃ الزور، 3/ 427، الحدیث: 3599)

جس نے کسی مسلمان کے بارے میں ایسی گواہی دی جس کا وہ اہل نہ تھا تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنائے۔ (مسند امام احمد بن جنبل)