حسن محمود سعیدی(درجۂ دورۃ الحدیث مرکزی جامعۃُ
المدینہ فیضانِ مدینہ کراچی، پاکستان)
اللہ
عزوجل نے نوع انسانی کی تخلیق فرمائی اور دین اسلام جیسا خوبصورت دین ہمیں عطا
فرمایا، یہ واحد مذہب ہے جو انسان کے ہر قسم کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے اس کی
تعلیمات میں شامل ہیں کہ اپنے کسی بھائی کا حق غضب نہ کیا جائے اسے تکلیف نہ دی
جائے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کسی دوسرے انسان کے خلاف جھوٹی گواہی نہ دیں۔
بندۂ مؤمن کی یہ شان نہیں کہ جھوٹ بول کر یا
جھوٹی شہادت دے کر کسی مسلمان بھائی کا حق غضب کرے، جھوٹی گواہی کا شمار کبیرہ
گناہوں میں ہوتا ہے ۔ ہمیں اسلام یہ تعلیمات دیتا ہے کہ اس سے بچنا ہے اور کسی
گناہ سے یا برائی سے بچنا ہو تو اس کے متعلق جو قرآن و حدیث میں وعیدیں آئی ہیں وہ
سنیں ان شآء اللہ آپ میں تبدیلی آئے گی، جب گناہ کا عذاب معلوم ہو تو انسان سوچتا
ہے کہ اگر یہ کیا تو اس کی یہ سزا ملے گی۔ ان شآء اللہ ہم بھی آج گناہ کی تعریف
اور وہ احادیث مبارکہ جو جھوٹی گواہی دینے سے متعلق ہیں انہیں پڑھے گے۔
معزز قارئین کرام: گناہ کی دواقسام ہیں:(1)کبیرہ
گناہ(2)صغیرہ گناہ
گناہ
کبیرہ کی تعریف:
گناہ
کبیرہ کا معنی ہے بڑا گناہ! چنانچہ اصطلاح شریعت میں گناہ کبیرہ اس فعل کو کہتے
ہیں جس کا کرنے والا حد یعنی شریعت کی متعین کردہ سزا کا حقدار ٹھہرے یا جس کے
کرنے پر قرآن اور حدیث میں سخت وعید مذکور ہو یا جس کے کرنے والے کو شریعت نے بطور
مبالغہ کفر کرنے والے سے تعبیر کیا ہو یا جس کا فساد اور نقصان گناہ کبیرہ کے فساد
و نقصان کے برابر یا اس سے زیادہ ہو یا جس کی ممانعت دلیل قطعی کے ساتھ ثابت ہو
اور جس کا اختیار کرنا حرمت دین کا موجب ہو پس جس فعل اور بات میں ان میں سے کوئی
بھی چیز پائی جائے گی اس کو گناہ کبیرہ یعنی بڑا گناہ کہیں گے۔
گناہ
صغیرہ کی تعریف:
اور
جس فعل یا بات میں ان میں سے جو اوپر ذکر کی گئی ہیں کوئی چیز نہیں پائی جائے گی
اور وہ اسلامی تعلیمات اور دینی تقاضے کے خلاف ہو گی اس کو گناہ صغیرہ یعنی چھوٹا
گناہ کہا جائے گا۔
احادیث
مبارکہ میں ایک جگہ تمام کبیرہ گناہوں کا تعین اور تفصیل موجود نہیں بلکہ موقع اور
محل کی مناسبت سے یا کسی سائل کے جواب میں بیان کیے گئے ہیں جن میں سے ایک گناہ
کبیرہ جھوٹی گواہی بھی ہے۔
جھوٹی
گواہی کی تعریف:
کسی شخص کا ایسی گواہی دینا جس کا اس کے پاس
ثبوت نہ ہو(جہنم میں لے جانے والے اعمال، جلد2، ص713)
جھوٹی گواہی دینے والے پرجہنم واجب ہوجاتی ہے:
حضرت
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جھوٹی گواہی دینے والے کے قدم اپنی جگہ سے نہیں ہٹیں گے
یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے جہنم واجب کردے۔(ابن ماجہ بحاشیۃ الامام سندی،
کتاب الاحکام، باب فی شھادۃالزور، جلد3، حدیث: 2373)
جھوٹی
گواہی گناہ کبیرہ ہے:
جھوٹی گواہی دینے والا گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوتا
ہے جو بغیر توبہ کے معاف نہیں، چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضوراکرم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پوچھا گیا کہ گناہ کبیرہ کتنے ہیں تو حضور جان
عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: (1)اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا
(2)ماں باپ کی نافرمانی کرنا (3)جھوٹی گواہی دینا۔(بخاری، جلد 2، ص194، حدیث:
2653)
جھوٹی
گواہی شرک کے مساوی ہے:
جھوٹی گواہی دینا شرک کے مترادف ہے چنانچہ حضرت
خریم بن فاتک رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے صبح کی نماز پڑھائی اور جب آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نماز سے فارغ ہوئے
تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کھڑے ہوئے اور فرمایا جھوٹی گواہی اللہ
تعالیٰ کے ساتھ شرک کے مساوی ہے۔(سنن ابو داؤد، کتاب الأقضیہ، باب فی شھادۃ الزور،
جلد3، حدیث: 3599)
اور
مسند امام احمد بن حنبل میں ہے: رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا
فرمان عبرت نشان ہے: جس نے کسی مسلمان کے خلاف ایسی گواہی دی جس کا وہ اہل نہیں
تھا تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنالے۔(مسند احمد، جلد3، ص585، حدیث: 10622)
اللہ تعالیٰ ناراض رہتا ہے:
جھوٹی
گواہی اللہ عزوجل کی ناراضگی کا سبب ہے، اللہ تعالیٰ ایسے شخص سے ناراض ہوجاتا ہے
چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو کسی قوم کے ساتھ یہ کہلاتے ہوئے چلا کہ وہ گواہ ہے
حالانکہ وہ گواہ نہیں تھا تو وہ جھوٹی گواہی دینے والا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی
ناراضگی میں رہے گا حتی کہ ان سے الگ ہو جائے۔(سنن کبری للبیہقی، کتاب الوکالۃ،
باب آثم من خاصم أو أعان فی خصومۃ بباطل، جلد6، حدیث:11444)
لعنت فرمائی گئی ہے:
حضرت
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے جان بوجھ کر جھوٹی گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی ہے۔(کنزالعمال، کتاب
الشھادۃ، باب شھادۃ الزور من الاکمال، جلد4، ص9، حدیث: 17798)