سرفراز علی (درجہ رابعہ جامعۃ المدینہ فیضان
فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
جھوٹی
گواہی کسی بھی مسلمان کے لیے جائز نہیں بلکہ کبیرہ گناہ ہے، آیئے! جھوٹی گواہی کی
تعریف اور اس کے متعلق مدنی پھول پڑھتے ہیں:
جھوٹی
گواہی کی تعریف:
کسی ایسی بات کی گواہی دینا جسے ثابت نہ کیا جا سکے اسے جھوٹی گواہی کہتے ہیں۔
جھوٹی گواہی کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ لَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَؕ-وَ مَنْ یَّكْتُمْهَا
فَاِنَّهٗۤ اٰثِمٌ قَلْبُهٗؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ۠(۲۸۳)ترجَمۂ
کنزُالایمان: گوا ہی نہ چھپاؤ اور جو گواہی چھپائے گا تو اندر سے اس کا دل گنہگار
ہے اور اللہ تمہارے کاموں کو جانتا ہے۔
بہتر
گواہ کے متعلق حدیث مبارکہ: امام مسلم زید بن خالد جہنی رضی اللہ
عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: کیا تمھیں خبر نہ دوں کہ بہتر کون ہے؟ فرمایا: وہ جو گواہی دے اس سے قبل
کہ اسے گواہی کے لیے کہا جائے۔(مسلم، کتاب الاقضیہ، ص946)
جھوٹی گواہی کبیرہ گناہ ہے؟ حضرت
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا: کبیرہ گناہ یہ ہیں: (1)اللہ عزوجل کے ساتھ کسی کو شریک کرنا (2)ماں باپ کی
نافرمانی کرنا (3)کسی کو ناحق قتل کرنا اور (4)جھوٹی گواہی دینا۔
جھوٹی
گواہی شرک کے برابر ہے: امام احمد اور امام ترمذی ایمن بن خریم سے روایت
کرتے ہیں کہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نماز صبح پڑھ کر قیام
فرمایا اور فرمایا کہ جھوٹی گواہی شرک کے برابر کردی گئی۔