اسلام میں اللہ تعالیٰ نے مسلمان کو جو مقام عطا فرمایا ہے، اُس کی سچائی اور حقانیت کے لئے یہی ایک چیز کافی ہے کہ مسلمان جو بات اپنی زبان سے نکالے،اُسے حق اور سچ مان لیا جائے۔ اور ایک کامل مؤمن کی یہی شان ہے کہ جب بات کرے تو سچ بولے چاہے وہ کسی بھی میدان میں کھڑا ہو۔ اور قرآن و حدیث میں ہمیں اسی بات کا حکم دیا گیا ہے کہ ہمیشہ سچ بولو اور جھوٹ سے بچو۔ حدیث پاک میں ہے:حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اے لوگو! جھوٹ سے بچو، کیونکہ جھوٹ ایمان کے مخالف ہے۔(مسند امام احمد، مسند ابی بکر الصدیق، 1/22، حدیث: 16)

جھوٹی گواہی کی تعریف:جھوٹی گواہی کا مطلب ہے غلط گواہی دینا یعنی کوئی جان بوجھ کر ایسی چیز کی گواہی دے جسے وہ نہیں جانتا یا جس چیز کے بارے میں خبر دیتا ہے وہ حقیقت کے بر خلاف ہو اسے جھوٹی گواہی کہتے ہیں۔ جھوٹی گواہی کبیرہ گناہوں میں سے ایک کبیرہ گناہ ہے۔

چنانچہ اللہ پاک کا ارشاد ہے: فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰)ترجَمۂ کنزُالایمان: تو دور ہو بتوں کی گندگی سے اوربچو جھوٹی بات سے۔ (پ17، الحج: 30)

جھوٹی بات سے اجتناب کرو:

یہاں جھوٹی بات سے کیا مراد ہے، اس کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد اپنی طرف سے چیزوں کو حلال اور حرام کہنا ہے۔ دوسراقول یہ ہے کہ اس سے مراد جھوٹی گواہی دینا ہے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد جھوٹ اور بہتان ہے۔ چوتھا قول یہ ہے کہ اس سے مراد دورِ جاہلیّت میں تَلْبِیَہ میں ایسے الفاظ ذکر کرنا جن میں اللہ تعالیٰ کے لئے شریک کا ذکر ہو۔(تفسیرکبیر، الحج، تحت الآیۃ: 30، 8/223)احادیث طیبہ میں جھوٹی گواہی دینے والے کی بھر پور مزمت کی گئی ہے، چند احادیث طیبہ ملاحظہ کرتے ہیں:

شرک کے برابر:

حضرت خریم بن فاتک اسدی رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم صبح کی نماز پڑھ کر کھڑے ہوئے اور تین مرتبہ یہ ارشاد فرمایا جھوٹی گواہی ہی شرک کے ساتھ برابر کر دی گئی۔ پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی: فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰)حُنَفَآءَ لِلّٰهِ غَیْرَ مُشْرِكِیْنَ بِهٖؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان: تو دور ہو بتوں کی گندگی سے اوربچو جھوٹی بات سے ایک اللہ کے ہوکر کہ اس کا ساجھی(شریک)کسی کو نہ کرو۔ (ابو داؤد، کتاب الاقضیۃ، باب فی شہادۃ الزور، 3/427، الحدیث: 3599)

سب سے بڑا گناہ:

رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کیا تمہیں بڑے بڑے (کبیرہ)گناہوں کے بارے میں نہ بتا دوں؟ صحابہ نے عرض کیا: کیوں نہیں؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی گواہی دینا یا جھوٹی بات بولنا، آپ اس کلمہ کی تکرار فرماتے رہے یہاں تک کہ ہم لوگوں نے(شفقت کے باعث دل میں کہا): کاش! آپ خاموش ہو جاتے۔(مسلم، کتاب الایمان، باب بیان الکبائر و اکبرھا، ص 59 حدیث:87)

جہنم واجب ہے:

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہُ عنہماسے روایت ہے، رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اُس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔(ابن ماجہ، کتاب الاحکام، باب شہادۃ الزور، 3/123، الحدیث: 2372)

اسی طرح ایک اور روایت میں رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مرد مسلم کا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے اُس نے جہنم واجب کر لیا۔(المعجم الکبیر،الحدیث: 11541،ج 11،ص 172۔173)

رَدْغَۃُ الْخَبَالْ:

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو کسی مسلمان پر ایسی چیز کا الزام لگائے جس کے بارے میں وہ خود بھی جانتا نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اسے (جہنم کے ایک مقام)رَدْغَۃُ الْخَبَالْ میں اس وقت تک رکھے گا جب تک کہ اپنے الزام کے مطابق عذاب نہ پالے۔(کتاب الجامع فی آخر المصنّف، باب من حلّت شفاعتہ دون حدّ،10/353، الحدیث: 21069)

رَدْغَۃُ الْخَبَالْ کے حوالے سے حدیث پاک ہیں آیا کہ ردغۃ الخبال جہنم میں ایک جگہ ہے جہاں جہنمیوں کا خون اور پیپ جمع ہوگا۔(ظاہری گناہوں کی معلومات، ص 55تا 56)

قارئین کرام! حقیقت میں جھوٹی گواہی دینے والا کئی بڑے گناہوں کا ارتکاب کرتا ہے۔

پہلا گناہ جھوٹ اور بہتان ہے، دوسر اگناہ یہ ہے کہ جھوٹی گواہی دینے والا جس کے خلاف گواہی دیتا اسپر ظلم کرتا ہے حتی کہ اس کی جھوٹی گواہی کی وجہ سے اس کا مال، عزت اور جان سب کچھ چلا جاتا ہے ،تیسرا گناہ یہ ہے کہ جس کے حق میں جھوٹی گواہی دیتا ہے اس پر بھی ظلم کرتا ہے کہ اس گواہی کے ذریعے اس تک مال حرام پہنچاتا ہے اور وہ اس گواہی کے ذریعے اسے لیتا ہے تو اس کے لئے جہنم واجب ہو جاتا ہے۔

رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس کے لئے میں اس کے بھائی کے مال میں سے کچھ فیصلہ کر دوں حالانکہ وہ حق پر نہ ہو تو اس کو چاہئے کہ اس کو نہ لے کیونکہ اس کے لئے آگ کا ایک ٹکرا کاٹا گیا ہے۔(76 کبیرہ گناہ، ص77، 78)

لیکن آج بڑی شدت کے ساتھ جھوٹی گواہی کا مسئلہ زیر بحث ہے،سب جانتے ہیں کہ بے بنیادی باتوں کو لوگوں میں پھیلانے، جھوٹ بولنے اور افواہ کا بازار گرم کرنے سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ ہاں! اتنی بات تو ضرور ہے کہ یہی جھوٹ، چاہے جان کر ہو یا اَنجانے میں ہو، کتنے لوگوں کو ایک آدمی سے بدظن کر دیتا ہے، لڑائی، جھگڑا کا ذریعہ بنتا ہے، جب جھوٹ بولنے والے کی حقیقت لوگوں کے سامنے آتی ہے، تو وہ بھی لوگوں کی نظر سے گر جاتا ہے، اپنا اعتماد کھو بیٹھتا ہے اور پھر لوگوں کے درمیان اس کی کسی بات کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔

اللہ پاک ہمیں جھوٹی گواہی کے اس قبیح فعل سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین