الحمدللہ ہم مسلمان ہیں اور اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اسلام ہماری سماجی، معاشی، معاشرتی، اخلاقی الغرض زندگی کے ہر شعبہ حیات میں راہنمائی کرتا ہے۔ گواہ بننا اور گواہی دینا ایک ایسا عمل ہے جس کی مسلمان مرد و عورت کو زندگی کے کسی بھی مرحلے میں ضرورت پڑ سکتی ہے۔ شریعت کے اس معاملے میں بھی واضح اصول و قوانین موجود ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے دنیا میں انسان کو انسان سے باہمی ربط دے کر ایک دوسرے کی ضرورت بنایا ہے، بعض دینی اور دنیاوی معاملات میں بسا اوقات ایسی صورتیں بھی سامنے آتی ہیں کہ صاحبِ معاملہ کسی پر کسی چیز کا دعویٰ کرتا ہے کہ یہ میرا حق ہے لیکن تنہا اُس کے اقرار یا دعوے یا بیان کا کوئی اعتبار نہیں کیا جاتا۔ اس لیے نہیں کہ وہ ناقابل اعتبار ہے بلکہ اس لیے کہ اگر محض دعوے اور بیان کی رُو سے کسی کی کسی بھی چیز پر حق، ثابت ہو جایا کرے تو دنیا سے امان اُٹھ جائے اور لوگوں کا جینا دو بھر ہوجائے۔

بیہقی ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے راوی کہ رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اگر لوگوں کو محض اُن کے دعوے پر چیز دلائی جائے تو بہت سے لوگ خون اور مال کے دعوے کر ڈالیں گے۔ لیکن مدعی کے ذمہ بینہ (گواہ)ہے اور منکر پر قسم۔(السنن الکبری للبیہقي،کتاب الدعوٰی والبینات،باب البینۃ علی المدعی……إلخ، الحدیث: 21201، ج10،ص427)اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا(۳۶)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان:اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں بےشک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے سوال ہونا ہے۔(پ 15، بنی اسرائیل: 36)

تفسیر:جس بات کا عِلم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑنے سے مُراد یہ ہے کہ جس چیز کو دیکھا نہ ہو اُس کے بارے میں یہ نہ کہو کہ میں نے دیکھا ہے اور جس بات کو سُنا نہ ہو اس کے بارے میں یہ نہ کہو کہ میں نے سنا ہے۔ ایک قول کے مطابق اس سے مراد یہ ہے کہ جھوٹی گواہی نہ دو۔ حضرت سَیِّدُنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما نے فرمایا: اس سے مراد یہ ہے کہ کسی پر وہ الزام نہ لگاؤ جو تم نہ جانتے ہو۔(مدارک،ج1، ص714)تمام اَقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت میں جھوٹی گواہی دینے، جھوٹے الزامات لگانے اور اس طرح کے دیگر جھوٹے اقوال کی مُمانَعَت کی گئی ہے۔

اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:وَ الَّذِیْنَ لَا یَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَۙ- اور جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔ (الفرقان: 72)یعنی کامل ایمان والے گواہی دیتے ہوئے جھوٹ نہیں بولتے اور وہ جھوٹ بولنے والوں کی مجلس سے علیحدہ رہتے ہیں، اُن کے ساتھ میل جول نہیں رکھتے۔(مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ:72، ص811)

اس سے معلوم ہو اکہ جھوٹی گواہی نہ دینا اور جھوٹ بولنے سے تعلق نہ رکھنا کامل ایمان والوں کا وصف ہے۔ یاد رہے کہ جھوٹی گواہی دینا انتہائی مذموم عادت ہے اور کثیر اَحادیث میں اس کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے۔ احادیث مبارکہ میں جہاں سچی گواہی دینے کی فضیلتیں بیان کی ہیں وہیں جھوٹی گواہی کی وعیدیں بھی جھوٹے گواہوں کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہیں۔ آئیے پہلے ہم احادیث مبارکہ سے جھوٹی گواہی کے متعلق پڑھتے ہیں۔

(1)حضرت انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ عزوجل کے ساتھ شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔(بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالی: ومن احیاہا، 4/358، الحدیث: 6871)

(2)رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ میں تم لوگوں کو سب سے بڑے گناہ نہ بتاؤں؟ تین بار آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اسی طرح فرمایا۔ صحابہ نے عرض کیا، ہاں یا رسول! آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا، اللہ کا کسی کو شریک ٹھہرانا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس وقت تک ٹیک لگائے ہوئے تھے لیکن اب آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا، ہاں اور جھوٹی گواہی بھی۔ انہوں نے بیان کیا کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس جملے کو اتنی مرتبہ دہرایا کہ ہم کہنے لگے کاش! آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خاموش ہوجاتے۔(صحیح بخاری، کتاب گواہیوں کا بیان، باب جھوٹی گواہی کے متعلق کیا حکم ہے؟ حدیث نمبر: 2654)

(3)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔(ابن ماجہ، کتاب الاحکام، باب شہادۃ الزور، 3/123، الحدیث:2373)

(4)حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے،حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مردکا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے، اس نے (اپنے اوپر)جہنم (کا عذاب)واجب کر لیا۔(معجم الکبیر، عکرمۃ عن ابن عباس، 11/172، الحدیث: 11541)

(5)حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص لوگوں کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوئے چلا کہ یہ بھی گواہ ہے حالانکہ یہ گواہ نہیں وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے اور جو بغیر جانے ہوئے کسی کے مقدمہ کی پیروی کرے وہ اللہ تعالیٰ کی ناخوشی میں ہے جب تک اس سے جدا نہ ہو جائے۔(سنن الکبری للبیہقی، کتاب الوکالۃ، باب اثم من خاصم او اعان فی خصومۃ بباطل، 6/136، الحدیث:11444)

(6)ابو داؤد و ابن ماجہ نے خریم بن فاتک اور امام احمد و ترمذی نے ایمن بن خریم رضی اﷲ عنہما سے روایت کی رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نماز صبح پڑھ کر قیام کیا اور یہ فرمایا کہ جھوٹی گواہی شرک کے ساتھ برابر کر دی گئی پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی:

فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰)حُنَفَآءَ لِلّٰهِ غَیْرَ مُشْرِكِیْنَ بِهٖؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: تو دور ہو بتوں کی گندگی سے اور بچو جھوٹی بات سےایک اللہ کے ہوکر کہ اس کا ساجھی(شریک)کسی کو نہ کرو۔(پ17،الحج:30، 31- سنن ابوداود، باب فی شھادۃ الزور، الحدیث: 3599، ج3، ص427)

(7)بخاری و مسلم میں عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے مروی رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سب سے بہتر میرے ز مانہ کے لوگ ہیں پھر جو اُن کے بعد ہیں پھر وہ جو اُن کے بعد ہیں پھر ایسی قوم آئے گی کہ اُن کی گواہی قسم پر سبقت کرے گی اور قسم گواہی پر یعنی گواہی دینے اور قسم کھانے میں بے باک ہوں گے۔(صحیح البخاری، کتاب الشھادات،باب لایشھد علی شہادۃ جور۔۔۔۔إلخ،الحدیث:2652،ج2،ص193)

(8)حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ یہ بات علامات قیامت میں سے ہے کہ سلام صرف پہچان کے لوگوں کو کیا جانے لگے گا، تجارت پھیل جائے گی، حتی کہ عورت بھی تجارتی معاملات میں اپنے خاوند کی مدد کرنے لگے گی، قطع رحمی ہونے لگے گی، جھوٹی گواہی دی جانے لگے گی، سچی گواہی کو چھپایا جائے گا اور قلم کا چرچا ہوگا۔(مسند احمد، باب حضرت عبداللہ بن مسعود کی مرویات، حدیث نمبر: 3676)

(9)حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جان بوجھ کر جھوٹی گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی۔ (کنزالعمال، کتاب گواہیوں کا بیان، باب جھوٹا گواہ، حدیث نمبر: 17802)

(10)طبرانی ابوموسیٰ رضی اﷲ عنہ سے راوی کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو گواہی کے لیے بلایا گیا اور اُس نے گواہی چھپائی یعنی ادا کرنے سے گریز کی وہ ویسا ہی ہے جیسا جھوٹی گواہی دینے والا۔(المعجم الأوسط، من اسمہ علی، الحدیث:4167،ج3،ص156)

یاد رہے کہ جھوٹی گواہی کا مطلب کسی کے اوپر جان بوجھ کر غلط الزام لگانا ہے۔ اس سے متعلق احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں:

11- جس نے کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر الزام عائد کیا تو اللہ تعالیٰ جہنم کے پل پر اُسے روک لے گا یہاں تک کہ اپنے کہنے کے مطابق عذاب پا لے۔(ابو داؤد،ج 4، ص354، حدیث: 4883)

12- جو کسی مسلمان پر ایسی چیز کا الزام لگائے جس کے بارے میں وہ خود بھی جانتا نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اسے (جہنمیوں کے خون اور پیپ جمع ہونے کے مقام)رَدْغَۃُ الْخَبَالْ میں اُس وقت تک رکھے گا جب تک کہ اپنے الزام کے مطابق عذاب نہ پالے۔(مصنف عبد الرزاق،ج11، ص425، حدیث: 20905)

یاد رہے! کہ جھوٹی گواہی دینا اور کسی پر جان بوجھ کر غلط الزام لگانا انتہائی مذموم فعل ہے۔ افسوس! فی زمانہ جھوٹی گواہی دینا ایک معمولی کام سمجھا جاتا ہے اور الزام تراشی کرنا تو اس قدر عام ہے کہ کوئی حد ہی نہیں، جس کا جو دل کرتا ہے وہ دوسروں پر الزام لگا دیتا اور جگہ جگہ ذلیل کرتا ہے۔ بیان کردہآیت کی تفسیر اور احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے ہر ایک کو اپنے اپنے طرز ِعمل پر غور کرنے کی شدید حاجت ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو ہر حال میں سچ کو اپنانےکی توفیق عطا فرمائے۔