تمام تعریفیں اس پاک پروردگار کے لیے ہیں جس نے کلمہ کن سے ہر شیء کو پیدا فرمایا اور ہر دور میں اپنے انبیاء کرام کو بھیج کر انسانوں کی ہدایت اور راہنمائی کیلئے انبیاء کرام علیہم السلام کی زندگی کو ان کے لیے نمونہ بنایا اور سب سے آخر میں اپنے حبیب نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بطور آخری نبی مبعوث فرما کر اُن پر قرآن مجید کو نازل کیا جس کی تشریح کرتے ہوئےنبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی احادیث کے ذریعے ہر جائز اور ناجائز امور کے درمیان فرق کردیا چنانچہ انہیں میں سے ایک امر کسی معاملے پر گواہی دینا ہے۔

قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ مسلمانوں کو عدل و انصاف کے تقاضے کو پورا کرنے کا حکم ارشاد فرماتے ہوئے گواہی کے متعلق ارشاد فرماتا ہے:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُهَدَآءَ لِلّٰهِ وَ لَوْ عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَۚ-اِنْ یَّكُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰهُ اَوْلٰى بِهِمَا- فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوٰۤى اَنْ تَعْدِلُوْاۚ-وَ اِنْ تَلْوٗۤا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا(۱۳۵)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو انصاف پر خوب قائم ہوجاؤ اللہ کے لیے گواہی دیتے چاہے اس میں تمہارا اپنا نقصان ہو یا ماں باپ کا یا رشتہ داروں کا جس پر گواہی دو وہ غنی ہو یا فقیر ہو بہرحال اللہ کو اس کا سب سے زیادہ اختیار ہے تو خواہش کے پیچھے نہ جاؤ کہ حق سے الگ پڑواور اگر تم ہیر پھیر کرو یا منہ پھیرو تو اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے۔ (النسآء:135)

اسی طرح نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھی گواہوں کے اوصاف بیان فرمائے ہیں:جیساکہ حضرت زید بن خالد سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کیا میں تم کو بہترین گواہوں کی خبر نہ دوں وہ گواہ ہے جو طلب کیے جانے سے پہلے گواہی دے۔ (مراٰۃ المناجیح، حدیث: 3766)

ایک اور حدیث میں رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بڑے سے بڑا گناہ اﷲ کا شریک ٹھہرانا ہے اور ماں باپ کی نافرمانی اورگزشتہ پر جھوٹی قسم اور نہیں قسم کھاتا کوئی روکنے والی قسم، پھر اس میں مچھر کے پر برابر ملاوٹ کرے مگر وہ تاقیامت اس کے دل میں داغ بنادی جاتی ہے۔ (مراٰۃ المناجیح، حدیث: 3677)

بیہقی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے راوی کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اگر لوگوں کو محض اُن کے دعوے پر چیز دلائی جائے تو بہت سے لوگ خون اور مال کے دعوے کر ڈالیں گے و لیکن مدعی کے ذمہ بینہ (گواہ)ہے اور منکر پر قسم۔(سنن کبری للبیہقی، ج10،ص427، الحدیث:21201)

صحیح بخاری و مسلم میں انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کبیرہ گناہ یہ ہیں، اللہ(عزوجل)کے ساتھ شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔(صحیح مسلم،ص59، حدیث:144)

ابو داؤدو ابن ماجہ نے خریم بن فاتک اور امام احمد و ترمذی نے ایمن بن خریم رضی اللہ عنہما سے روایت کی، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نماز صبح پڑھ کر قیام کیا اور یہ فرمایا کہ جھوٹی گواہی شرک کے ساتھ برابر کر دی گئی۔ (سنن ابو داوٗد، حدیث:3599)

ابن ماجہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے راوی کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اُس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔(ابن ماجہ، حدیث:2373)

طبرانی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے راوی کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مرد مسلم کا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے اُس نے جہنم واجب کر لیا۔(المعجم الکبیر، ج11،حدیث: 11541)

لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ جب کبھی ہماری گواہی کی ضرورت پیش آئے تو ہم ان احادیث کو پیش نظر رکھتے ہوئے جھوٹی گواہی سے اجتناب کریں اور سچی گواہی دے کر اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی اور رضا کو حاصل کریں۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ہمیشہ سچ بولنے کی سعادت نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم