وارث علی عطاری (درجۂ ثالثہ جامعۃُ المدینہ
فیضان فاروق اعظم سادہوکی لاہور، پاکستان)
دین
اسلام میں ایک انسان کی عزت و حرمت کی بہت زیادہ اہمیت ہے اور اگر وہ انسان مسلمان
بھی ہو تو یہ عزت و قدر اور بڑھ جاتی ہے۔ اسی وجہ سے دین اسلام میں ان تمام افعال
سے بچنے کا درس ملتا ہے جس کی وجہ سے انسان کی عزت و قدر کم ہو اور انہیں میں سے
ایک فعل جھوٹی گواہی رینا ہے۔
ارشاد
باری تعالیٰ ہے:وَ الَّذِیْنَ لَا یَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَۙ
- ترجمہ کنزالایمان:اور جو جھوٹی گواہی
نہیں دیتے۔
یعنی کامل ایمان والے گواہی دیتے ہوئے جھوٹ نہیں
بولتے اور وہ جھوٹ بولنے والوں کی مجلس سے علیحدہ رہتے ہیں۔ ان کے ساتھ میل جول
نہیں رکھتے۔(مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: 76، ص811)اس سے معلوم ہوا کہ جھوٹی گواہی
نہ دینا اور جھوٹ بولنے والوں سے تعلق نہ رکھنا کامل ایمان والوں کا وصف ہے۔ یاد
رہے کہ جھوٹی گواہی دینا انتہائی مذموم عادت ہے اور کثیر احادیث میں اس کی شدید
مذمت بیان کی گئی ہے جن میں سے چند احادیث درج ذیل ہیں:
(1)حضرت
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا، کبیرہ گناہ یہ ہیں اللہ عزوجل کے ساتھ شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی
کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔(بخاری، باب قبول الله تعالیٰ
ومن احیاها، 4/358، حدیث:9871)
(2)حضرت
عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، حضور پر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مرد کا مال بلاک ہو
جائے یا کسی کا خون بہایا جائے، اس نے اپنے اوپر جہنم کا عذاب واجب کر لیا۔(معجم
کبیر، 11/172، حدیث:11541)
(3)حضرت
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سرکار دوعالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے ارشاد فرمایا: جو شخص لوگوں کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوا چلا کہ یہ بھی گواہ ہے
حالانکہ یہ گواہ نہیں وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے۔ اور جو بغیر جانے ہوئے کسی
کے مقدمہ کی پیروی کرے وہ اللہ تعالیٰ کی نا خوشی میں ہے جب تک اس سے جدا نہ ہو
جائے۔(سنن کبری للبیہقی، کتاب الوكالۃ، باب اثم من خاصم او اعان فی خصومۃ
باطل،6/369، حديث:11444)
(4)حضرت
عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا: جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اس کے
لئے جہنم واجب کر دے گا۔(ابن ماجہ، کتاب الاحکام، باب شهادة الزور، 3/123، حدیث:
2373)