انسان معاشرے میں رہتا ہے تو اس کا بہت سے لوگوں کے ساتھ واسطہ پڑتا ہے۔ ہر کسی کے ایک دوسرے کے ساتھ کچھ نہ کچھ حقوق ہیں۔اگر درست انداز سے حقوق کی ادائیگی نہ کی جائے تو معاشرتی نظام تباہ ہو جائے،انسان چونکہ شریعت کا مکلف ہے اور بندوں پر پہلا حق اگر کسی کا واجب ہوتا ہے تو وہ اللہ کا ہے جس نے تمام چیزوں کو عدم سے وجود بخشا ہے۔

حق اللہ سے مراد:وہ حقوق جو بندے پر اللہ کی طرف سے ہیں انسان کی وہ ذمہ داریاں جنہیں سرانجام دینا ہے،انہیں حقوق اللہ کہتے ہیں۔

حضرت معاذ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ (صحیح البخاری،حدیث:2856)

اللہ پاک کے اپنے بندوں پر بہت سے حقوق ہیں جن میں سے پہلا حق:

1) معرفتِ الٰہی:معرفتِ الٰہی اولین فرائض میں سے ہے۔اس کی کئی اقسام ہیں جیسے معرفتِ عینیہ،معرفتِ تشبیعیہ،معرفتِ برہانیہ وغیرہ۔

معرفتِ برہانیہ دلیل اور برہان سے حاصل ہوتی ہے۔یہ تمام مخلوق کو حاصل ہے۔قرآنِ پاک معرفت کے دلائل پر مشتمل ہے۔مطالعہ کائنات کرکے معرفتِ الٰہی حاصل کی جاسکتی ہے۔

2) توحید کا اقرار:توحید سے مراد یہ ہے کہ اللہ کو اس کی ذات و صفات،اس کے اسماء و افعال میں یکتا مانا جائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ0ترجمہ:تم فرماؤ وہ اللہ ایک ہے۔ (الاخلاص:01)

3)عبادات:انسان کی پیدائش کا اصل مقصد یہ ہے کہ وہ خالص اللہ کی عبادت کرے،معبود سمجھ کر جو بھی تعظیم کی جائے گی وہ عبادت کہلائے گی۔حدیثِ قدسی میں اللہ پاک فرماتا ہے:اے انسان تو میری عبادت کے لیے فارغ ہو جا میں تیرا سینہ غنا سے بھر دوں گا۔(ترمذی،حدیث:2674) اس لئے حق یہ ہے کہ عبادت کی ساری انواع و اقسام صرف اللہ وحدہٗ لاشریک کے لیے خاص کی جائیں نماز،روزہ،زکوٰۃ،حج وغیرہ عبادات میں داخل ہیں۔

4) شکر:اللہ پاک ساری مخلوق پر احسان فرمانےاور نعمتیں عطا کرنے والا ہے اس لئے واجب ہے کہ زبان،دل اور اعضاء کے ذریعے اس کا شکر ادا کیا جائے۔اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ اشْكُرُوْا لِیْ وَ لَا تَكْفُرُوْنِ0اور میرا حق مانو اور میری ناشکری نہ کرو۔( البقرۃ:152)

5)اللہ کے محبوب بندوں کی تعظیم اور محبت کرنا:یہ اللہ پاک کا حق ہے کہ جن بندوں سے اللہ پاک محبت فرماتا ہے ان سے خالص اللہ کی رضا کے لئے محبت کی جائے اور ان کی تعظیم کی جائے،جیسے انبیائے کرام،اولیائے کرام و علمائے کرام وغیرہ۔


انسان کو اللہ نے اپنی عبادت کا جو حکم دیا ہے وہ اس لیے نہیں ہے کہ اس کی بادشاہت اور سلطنت میں یا اس کی قوت و شوکت میں اضافہ ہو جائے اور اگر انسان اللہ کی عبادت نہیں کرے گا تو اس کی سلطنت و شوکت میں کمی آ جائے گی ایسا ہرگز نہیں ہے۔ اللہ پاک ہر چیز سے بے نیاز ہے اور بلا شرکت غیر ے تمام اختیارات اور قوتوں کا مالک ہے۔اللہ پاک کے حقوق کی مختصر تفصیل مندرجہ ہے:

(1)توحیدِ الٰہی (2)نماز (3)زکوٰۃ (4)روزہ (5)حج بیت اللہ۔

پہلا حق توحیدِ الٰہی:قرآنِ پاک میں ہے:اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَاِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ0ہم تجھی کو پوجیں اور تجھی سے مدد چاہیں۔(پ 1،الفاتحہ:4) اللہ پاک ہمارا پروردگار ہے ہمیں اسی کی عبادت کرنی چاہیے،اللہ پاک کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہرانا بہت بڑا شرک ہے۔ ہر رسول اور نبی نے اپنی اپنی قوموں کو اسی توحید کی دعوت دی۔

دوسرا حق نماز:اللہ کی توحید کا اقرار و اعتراف اور اس کے تقاضوں کی تکمیل اللہ کا پہلا حق ہے۔ سورۃ البقرہ میں اللہ پاک فرماتا ہے:وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَ0اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ (البقرۃ:43)

تیسرا حق زکوٰۃ:زکوٰۃ ایک مالی عبادت ہے،نماز کے بعد اللہ پاک کا عام حق زکوٰۃ کی ادائیگی ہے۔ اللہ پاک نے کمالِ شفقت اور رحمت سے اپنے ضرورت مند بندوں کی فلاح و بہبود کو اپنا حق قرار دیا،یہ اللہ پاک کی کس قدر مہربانی ہے،حق اس کا اور فائدہ اٹھائیں بندے !سبحان اللہ! قرآنِ پاک میں ہے:اللہ پاک فرماتا ہے:خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّیْهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَیْهِمْؕ- اے محبوب ان کے مال میں سے زکوٰۃ تحصیل(وصول) کرو جس سے تم انھیں ستھرا اور پاکیزہ کردو اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو۔ (پ11،التوبۃ:103)

چوتھا حق روزہ:توحید،نماز اور زکوٰۃ کے بعد اب ہم روزہ کی مختصر تفصیل دیکھتے ہیں۔اللہ پاک نے سورۃ البقرہ میں فرمایا:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ0اے ایمان والو!تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں پرہیزگاری ملے۔( پ2،البقرۃ:183)

پانچواں حق حجِ بیت اللہ:اللہ پاک فرماتا ہے:وَ  لِلّٰهِ  عَلَى  النَّاسِ حِجُّ  الْبَیْتِ  مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ  سَبِیْلًاؕ-اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا ہے جو اس تک چل سکے۔( پ 4،اٰ ل عمران:97)


حق کی تعریف:حق سے مراد وہ ذمہ داری ہے جو ایک ذات پردوسری ذات کے مقابل لازم ہو۔

حق کی اقسام:حقوق دو قسم کےہیں:( 1)حقوق اللہ( 2)حقوق العباد۔

ہمارا دین کامل،جامع اور مکمل ہے۔اس میں اللہ اور بندے دونوں کے حقوق کا بیان ہے۔دنیا میں آنے کا مقصد اللہ پاک نے قرآن ِکریم میں بیان فرمایا ہے کہ بندے کو رب کریم کی عبادت کے لیے پیدا کیا گیا ہے تو اب اس کا بندہ ہونے کے ناطے یہ ضروری ہے کہ اس کی عبادت کی جائے۔اگر کوئی کسی پر احسان کرے تو لازمی طور پر وہ اس کا مشکور اور ممنون ہوگا تو رب کریم جس کے اتنے احسانات ہیں کہ شمار نہیں تو اس کا شکر ادا کرنااس سے بھی زیادہ ضروری ہے اور محبت کا تقاضا بھی یہ ہے کہ اس کی خوشنودی حاصل کرنے میں کوشش کی جائے۔یہ جب ہی ممکن ہے کہ اس کے حقوق ادا کیے جائیں۔

حقوق العباد پر تو کلام بہت عام ہے مگر حقوق اللہ سے عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ نماز ادا کرنی ہے،روزہ رکھ لیا تو اللہ کے حقوق ادا ہو گئے،جان لیجیے!حقوق اللہ کے معنی اس سے کہیں وسیع ہیں۔آئیے !اپنے پیدا کرنے والے کے چند حقوق کے بارے میں جان لیتے ہیں۔

اللہ پاک کا پہلا حق:اس کی ذات و صفات پر کامل ایمان لانا ہے۔ ایمان وہ چیز ہے کہ اس کے بغیر کسی دوسری چیز کا تصور ہی ممکن نہیں۔بات شروع ہی اٰمنتُ باللّٰہ (میں اللہ پر ایمان لایا )سے ہوتی ہے،رسول و فرشتے و کتاب اس کے بعد آتے ہیں اور ایمان لانے کے لیے ضروری ہے کہ جیسے ایمان لانے کا حق ہے ویسے ایمان لایا جائے کہ صرف ظاہرا ًہی نہیں بلکہ دل سے ایمان لائے،دل سے اس کے رب ہونے اور وہ تمام صفات جو اس کے بارے میں بیان کی جاتی ہیں ان کو مانے اور دل سے خود کو اس کا بندہ تسلیم کرے۔

دوسرا حق:اللہ پاک کا دوسرا حق یہ ہے کہ جو یہ ایمان لایا اس کو اپنا کمال نہیں بلکہ اس کا ہی احسان اور اس کی ہی عطا سمجھے کہ بغیر اس کی توفیق کے ایمان لانا ممکن ہی نہیں اور یہی سمجھے کہ اگر اللہ چاہے تو ہی میرے دل میں ایمان ہے اگر نہ چاہے تو اس عاجز بندے کے اختیار میں کچھ نہیں۔اللہ پاک ایمان کی سلامتی عطا فرمائے۔قبر میں بھی ایمان ساتھ لے کر جائیں۔قرآنِ کریم میں ان لوگوں کے بارے میں فرمایا گیا جو اسلام لانے پر آقا ﷺ پر احسان جتاتے تھے:یَمُنُّوْنَ عَلَیْكَ اَنْ اَسْلَمُوْاؕ- قُلْ لَّا تَمُنُّوْا عَلَیَّ اِسْلَامَكُمْۚ-بَلِ اللّٰهُ یَمُنُّ عَلَیْكُمْ اَنْ هَدٰىكُمْ لِلْاِیْمَانِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ0 اے محبوب وہ تم پر احسان جتاتے ہیں کہ مسلمان ہوگئے تم فرماؤ اپنے اسلام کا احسان مجھ پر نہ رکھو بلکہ اللہ تم پر احسان رکھتا ہے کہ اُس نے تمہیں اسلام کی ہدایت کی اگر تم سچے ہو۔ (الحجرات:17)

تیسرا حق:اللہ پاک کا تیسرا حق یہ ہے کہ اس کی ملاقات کا شوق رکھا جائے،جس سے محبت ہو اس سے ملنے کا شوق بھی ہوتا ہے اور اس ملاقات کو خوبصورت بنانے کی کوشش بھی کرتا ہے،جو اللہ پاک سے ملاقات کا شوق رکھتا ہے وہ اس سے ملاقات کو بہتر بنانے کی کوشش بھی کرتا ہے اور اس کو بہتر بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کی عبادت میں کوشش کی جائے۔فرمایا:وَ اِنَّهَا لَكَبِیْرَةٌ اِلَّا عَلَى الْخٰشِعِیْنَ0الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّهِمْ بے شک نماز ضرور بھاری ہے مگر ان پر جو دل سے میری طرف جھکتے ہیں جنہیں یقین ہے کہ انہیں اپنے رب سے ملنا ہے۔(البقرہ:45-46)

چوتھا حق:اللہ پاک کا چوتھا حق یہ ہے کہ اس سے اعلیٰ درجے کی محبت کی جائے،اس کی محبت میں جیے اور اس کی محبت میں مرے،اپنی خوشی پر اللہ کی رضا اور خوشنودی کو ترجیح دے،اس کی یاد میں روئے اس کی خاطر دوستی رکھے،اس کی خاطر ہی دشمنی رکھے،اس کے پسندیدہ لوگوں کو خود بھی پسند کرے،قرآنِ کریم میں ایمان والوں کی نشانی بیان فرمائی گئی ہے:وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِؕ- اور ایمان والوں کو اللہ کے برابر کسی کی محبت نہیں۔ (البقرہ:165)

پانچواں حق:اللہ پاک کا پانچواں حق اس کی اطاعت ہے کہ جس جس چیز کا اس نے حکم دیا اسے بجا لائے اور جس جس چیز کا اس نے منع فرمایا اس سے رک جائے اور اس کی اطاعت میں دل تنگ نہ ہو بلکہ خوشی خوشی اس کی عبادت میں کوشش کرے،نماز پڑھے تو خشوع و خضوع سے،زکوٰۃ ادا کرے تو دل تنگ نہ ہو،روزہ رکھے تو بھوک پیاس پر رب کی رضا کی خاطر صبر کرے،حرام سے پرہیز کرے تو رب کے لیے،کفر سے بچے تو رب کے لیے،پھر ان سب کو اللہ کی توفیق اور احسان جانے اور اپنی عبادت پر ناز نہ کرے بلکہ استغفار کرے، جیسے قرآنِ کریم میں پرہیزگاروں کے بارے میں ارشاد فرمایا:وَ بِالْاَسْحَارِ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ0اور رات کے آخری پہروں میں بخشش مانگتے تھے۔(الذٰریٰت:18)اور یہ بھی فرمایا:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ اے ایمان والوں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔(الانفال:20)

ان کے علاوہ اور بھی بہت سارے حقوق ہیں کہ جن کا احاطہ کرنا مشکل ہے۔اگر ہم اللہ پاک کے ان حقوق کی ادائیگی کریں گے تو ہی محض بندے سے حقیقی بندہ بن سکتے ہیں۔ اللہ پاک سے ملاقات تو کرنی ہے اس کی دو ہی صورتیں ہیں کہ یا تو اللہ پاک ہم سے خوش ہو یا ناراض ہو تو کیوں نہ اس حال میں ملاقات کی جائے کہ وہ ہم سے راضی ہو اور اس سعادت کو پانے کے لیے اس کے حقوق ادا کرنے ہوں گے۔اللہ پاک توفیق عطا فرمائے۔


یہ ایک مسلم بات ہے کہ ہم پر جس کے جتنے احسان ہوتے اس کے حقوق بھی اتنی کثرت سے ہوتے ہیں۔ الله پاک ہمارا خالق و مالک ہے اس کی عنایات نوازشات شمار سے باہر ہیں،ارشادِ ربانی ہے:اور اگر تم اللہ کی نعمتیں گنو تو شمار نہیں  کر سکو گے۔( ابراہیم:34) لہٰذا اس ذاتِ پاک کے ہم پر بے شمار حقوق بھی ہیں۔ اگرچہ بندہ بہت کمزور ہے اور اس کے حقوق کما حقہ ادا نہیں کر سکتا مگر کوشش ضرور کرے۔وہ کریم ذات بندے کی حقیر کوشش پر اسے بے انتہا ثواب عطا فرمادیتی ہے۔ فرماتا ہے:اور اگر کوئی نیکی ہو تو اسےدونی کرتاہے اور اپنے پاس سے بڑا ثواب دیتا ہے۔( النساء:40) اس کیلئے چند حقوق اللہ کا مختصر ذکر درج ذیل ہے:

(1) اللہ پاک کو معبودِ برحق و ایک ماننا:دوسرے الفاظ میں بیان کیا جائے تو لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کی تصدیق کرنا،اسی کو مستحقِ عبادت جاننا،اس کی ذات،صفات،اسماء و افعال،احکام میں کسی دوسرے کو شریک نہ ٹھہرانا،اسی کو عقیدۂ توحید سے تعبیرکیا جاتا ہے۔ترجمہ:اور تمہارا معبود ایک معبود ہے۔( البقرۃ:163) تمام انبیائے کرام علیہ السلام نے اپنی قوموں کو سب سے پہلے اسی حق سےروشناس کرایا۔

(2)حدود الله کی پاسداری کرنا:اس میں فرائض و واجبات کی ادائیگی اور معصیت ونافرمانی سے بچنا دونوں آگئے،جو حدود الله کی حفاظت نہ کرے اس کیلیے قرآنِ کریم میں وعید بیان فرمائی گئی۔ ترجمہ:اور جو الله کی حدوں سے آگے بڑھا بے شک اس نے اپنی جان پر ظلم کیا۔( الطلاق:1)

(3) شکر:شکر کی حقیقت یہ ہے کہ نعمت دینے والے کی نعمت کا اس کی تعظیم کے ساتھ اعتراف کرے اور نفس کو اس چیز کا عادی بنائے۔(صراط الجنان، ابراہیم،تحت الآیۃ 1) سرکارِ دو عالمﷺنے فرمایا:جسے شکر کرنے کی توفیق ملی وہ نعت کی زیادتی سے محروم نہ ہوگا۔(صراط الجنان، ابراہیم،تحت الآیۃ 1)شکر ادا کرنے کا طریقہ ایک یہ بھی ہے کہ محسن کی فرمانبرداری کی جائے اور اس کی نافرمانی سے بچا جائے۔

(4) توکل علی الله:توکل ترکِ اسباب کا نام نہیں بلکہ توکل تو یہ ہے کہ اسباب اختیار کر کے نتیجہ اللہ پاک کے سپرد کر دیا جائے۔قرآن و حدیث میں جابجا اس کی ترغیب موجود ہے۔فرمانِ باری ہے:بے شک تو کل والے اللہ کو پیارے ہیں۔(اٰل عمران:163) آخری نبی ﷺ فرماتے ہیں:اگر الله پاک پر جیسا چاہیے ویساتو کل کرو تو تم کو ایسے رزق دے جیسے پرندوں کو دیتا ہے کہ وہ صبح کو بھوکے جاتے ہیں اور شام کو شکم سیر لوٹتےہیں۔(ترمذی، حدیث:2351)

(5)صبر:صبر کا معنی ہے نفس کو اس چیز پر روکنا جس پر رکنے کا عقل اور شریعت تقاضا کر رہی ہو یا نفس کو اس چیز سے باز رکھنا جس سے رکنے کا عقل و شریعت تقاضا کر رہی ہو۔صبر کے 3 فضائل درج ذیل ہیں:(1)الله پاک صبرکرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (2)صبر کرنے والوں کو بے حسا ب اجرملے گا۔ (3)صبر آدھا ایمان ہے۔(صراط الجنان)

محبت میں اپنی گمایا الٰہی ! نہ پاؤں میں اپنا پتا یا الٰہی !

مزید معلومات کیلئے مدنی چینل کا سلسلہ اللہ کے حقوق دیکھئے۔


معاشرے کا چین و سکون،تعمیر و ترقی و فلاح و بہبود اس میں بسنے والے افراد کے اخلاق وکردار کی حفاظت اور باہمی تعلقات کی مضبوطی کا مرہونِ منت ہوتا ہے،اس لیے مختلف تہذیبوں اور معاشروں میں انسانی حقوق کی حفاظت کے لیے مختلف قوانین رائج ہیں مگر دینِ اسلام کو حقوق کے تحفظ پر برتری حاصل ہے۔ حقوق میں والدین،اولاد،میاں بیوی،رشتہ داروں،یتیموں،مسکینوں وغیرہ ہر قسم کے لوگوں کے حقوق ہیں جنہیں ادا کرنا دوسرے کا فرض ہے۔اسی طرح معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بنا رہے گاکہ ہر انسان اپنے فرض کو اچھے سے ادا کرے جو کہ دوسرے کا حق ہے۔

حقوق کی دو طرح سے اقسام ہیں:حقوق اللہ و حقوق العباد۔اللہ پاک کا حق تمام مخلوقات پر سب سے زیادہ ضروری اور اہم ہے کیونکہ وہ ہمارا خالق ہے اور اس کائنات کا مالک ہے جس نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا۔

حق کی تعریف:حقوق حق کی جمع ہے۔حق کسی چیز کا اس طرح ثابت ہو جانا،واقع ہو جانا اور موجود ہو جانا ہے کہ اس کے واقع ہونے پر اس کے موجود ہونے کا انکار نہ کیا جا سکےحق کہلاتا ہے۔حق کے معنی درست،ذمہ داری،بجا وغیرہ بھی ہے۔

اللہ پاک کے حقوق:

اللہ پاک کی معرفت:یہ سب سے پہلا اور اہم حق ہے جس کا ادا کرنا ہر شخص پر ضروری ہے اس کی ذات،صفات،حقوق کی معرفت کرنا۔هُوَ الْاَوَّلُ وَ الْاٰخِرُ وَ الظَّاهِرُ وَ الْبَاطِنُۚ-وَ هُوَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ0وہی اوّل وہی آخر وہی ظاہر وہی باطن اور وہی سب کچھ جانتا ہے۔(الحدید:03)

اللہ پاک پر ایمان:اللہ پاک کی ایسی معرفت حاصل کی جائے جو اس پر ایمان لانے کے متقاضی ہو،اللہ پاک پر ایمان لانے میں مندرجہ ذیل امور شامل ہیں:اللہ کے وجود،ربوبیت،الوہیت،اسماء و صفات پر ایمان لانا وغیرہ۔

اللہ پاک کی عبادت:ایمان لانے کے بعد عظیم حق یہ ہے کہ اس کی عبادت کی جائے،اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے،نہ کسی نبی،نہ کسی ولی،نہ دوسری مخلوق کو۔عبادتِ قلبیہ،لسانیہ،بدنیہ،مالیہ،بدنیہ و مالیہ مرکب جیسے قلبیہ خوف و رجاء،لسانیہ فریاد و دعا طلبی،بدنیہ نماز و روزہ،مالیہ صدقہ و خیرات اور مالیہ و بدنیہ مرکب حج و زیارت۔

حدیثِ مبارکہ:حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اللہ کے رسولﷺ کے پیچھے ایک گدھے پر سوار تھا،آپ نے فرمایا:اے معاذ!کیا تم جانتے ہواللہ پاک کا حق اس کے بندوں پر کیا ہے؟ بندوں کا حق اللہ پاک پر کیا ہے؟ میں نے کہا:اللہ اور اس کے رسولﷺ بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:اللہ پاک کا حق بندوں پر یہ ہے کہ وہ صرف اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور اللہ پاک پر بندوں کا حق یہ ہے کہ جو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے اسے عذاب نہ دے۔(صحیح البخاری،حدیث:2856)

حدیث:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اللہ پاک نے کچھ فرائض مقرر کیے ہیں پس انہیں ضائع نہ کرو اور کچھ حدود مقرر کی ہیں پس ان سے آگے نہ بڑھو،کچھ اشیا حرام کی ہیں پس ان کی خلاف ورزی نہ کرو اور جو بھولے بغیر تم پر رحم فرماتے ہوئے کچھ اشیاکا ذکر نہیں کیا پس ان کے بارے میں بحث نہ کرو۔(اربعین نووی،حدیث:30)

حقوق کی ادائیگی کا درس:حقوق اللہ کی ادائیگی سے اللہ پاک کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا بلکہ اس کے بندوں کو پہنچتا ہے۔اللہ پاک کے حقوق کو مفاسد سے محفوظ رکھنا ضروری ہے کیونکہ اخروی مقاصد کے حصول پر سزا ملتی ہے اور ثواب چھن جاتا ہے۔ حقوق اللہ کی ادائیگی اصل میں احکام ِالٰہی کی پیروی کا نام ہے،ان کی ادائیگی سے جہاں حقوق اللہ کی بجا آوری ہوتی ہےوہاں اللہ پاک کے دوسرے بندوں کے لیے بھی نفع رسانی کا سامان وافر موجود ہوتا ہے۔حقوق اللہ کی کما حقہ ادائیگی سے قربِ الٰہی حاصل ہوتا ہے جس سے رضائے الٰہی کا حصول یقینی ہوجاتا ہےاور ایک بندے کو رضائے الٰہی کے علاوہ اور کیا چاہئے !جو دنیا و مافیا سے بڑھ کر ہوتی ہے،اللہ پاک ہمیں اپنے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔ 


حقوق (Rights)کا لفظ ہم بڑی کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔آج کے زمانے میں ہر شے کے ساتھ حقوق اور Rightsکا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جیسے ماں باپ کے حقوق،بیوی بچوں کے حقوق،پڑوسیوں کے حقوق،عوام کے حقوق،حکمرانوں کے حقوق حتی کہ آج تو جانوروں کے حقوق کا لفظ بھی بڑی کثرت کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس تحریر کا بنیادی مقصد (Topic)اللہ کے حقوق ہے۔اللہ پاک کے اپنے بندوں پر اپنی مخلوق پر بلا شک و شبہ بہت سے حقوق ہیں مثلا اللہ پر ایمان لانا اور کسی کو اس میں شریک نہ ماننا،اللہ پاک کے بھیجے ہوئے پیغمبروں پر ایمان لانا اور ان کے بتائے ہوئے احکام پر عمل کرنا،خدا کی عبادت کرنا یعنی نماز،روزہ،حج،زکوٰۃ وغیرہ ارکانِ اسلام کی پابندی یہ سب حقوق اللہ میں شمار ہوتے ہیں۔

حق کی تعریف:حق کے لغوی معنی جائز مطالبہ یا استحقاق کے ہیں،اس طرح حق ایک ذومعنی لفظ ہے ایک طرف یہ سچائی کی طرف اشارہ کرتا ہے،دوسری جانب اس چیز کی طرف جیسے قانوناً اور باضابطہ طور پر ہم اپنا کہہ سکتے ہیں یا اس کی بابت اپنی ملکیت کا دعوی کر سکتے ہیں۔

آئیے !اب اللہ پاک کے حقوق کے متعلق پانچ احادیثِ طیبہ ملاحظہ کیجئے:

(1) روایت میں آیا ہے کہ ہمارے پیارے آخری نبی ﷺ نے فرمایا:اے معاذ !کیا تمہیں معلوم ہے کہ اللہ پاک کا اپنے بندوں پر کیا حق ہے ؟میں نے عرض کی:اللہ اور اس کے رسول ﷺہی زیادہ جانتے ہیں! آپ ﷺ نے فرمایا:اللہ کا حق اپنے بندوں پر یہ ہے کہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور بندوں کا اللہ پاک پر یہ حق ہے کہ جو بندہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرا تا ہو اللہ پاک اسے عذاب نہ دے،میں نے کہا:یا رسول اللہ ﷺ!کیا میں اس کی لوگوں کو بشارت نہ دے دوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا:لوگوں کو اس کی بشارت نہ دو ورنہ وہ خالی اعتماد کر بیٹھیں گے۔(صحیح بخاری،حدیث نمبر:2856) (2) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:اے انسان!تو میری عبادت کے لیے فارغ ہو جا میں تیرا سینہ غنا سے بھر دوں گا اور تیری محتاجی کا دروازہ بند کردوں گا اور اگر تو ایسا نہیں کرے گا تو میں تیرے دونوں ہاتھ مصروفیات سے بھر دوں گا اور تیری محتاجی کا دروازہ بند نہیں کروں گا۔(ترمذی،4/211،حدیث:2474)

(3) اللہ پاک کے حقوق میں سے ایک حق تو کل بھی ہے،چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:اگر اللہ پاک پر جیسا چاہئے ویسا توکل کرو تو تم کو ایسے رزق دے جیسے پرندوں کو دیتا ہے کہ وہ صبح کو بھوکے جاتے ہیں اور شام کو شکم سیر لوٹتے ہیں۔(ترمذی، حدیث:2351)

(4)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:کسی شخص کا کوئی عمل ایسا نہیں جو اللہ پاک کے ذکر سے زیادہ (اس کے حق میں )اللہ پاک کے عذاب سے نجات دلانے والا ہو۔لوگوں نے عرض کی:کیا اللہ پاک کی راہ میں جہاد بھی نہیں؟ارشاد فرمایا:اللہ کی راہ میں جہاد بھی ذکر کے مقابلے میں زیادہ نجات کا باعث نہیں مگر یہ کہ مجاہد اپنی تلوار سے خدا کے دشمنوں پر اس قدر وار کرے کہ تلوار ٹوٹ جائے۔(الدعوات الکبیر، حدیث:19)

(5)اللہ پاک کے حقوق میں سے ایک حق،اس کا خوف رکھنا اس سے ڈرنا ہے،چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:مخلوق میں سے اللہ پاک کا خوف اس کو ہے جو اللہ پاک کے جبروت اور اس کی عزت و شان سے باخبر ہے۔ (مدارک،فاطر،تحت الآیۃ:28،ص 977-978)

ہمیں چاہیے کہ حقوق اللہ کے معاملے میں کوتاہیوں سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دلائیں۔حضرت زید بن اسلم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:جو شخص اللہ پاک کی اطاعت کر کے تعظیم بجا لائے تو اللہ پاک اپنی جنت کے ساتھ اسے اس طرح عزت عطا فرماتا ہے کہ اسے جہنم میں داخل نہیں کرتا۔ مزید فرماتے ہیں: اللہ پاک سے مدد مانگو وہ تمہیں اپنے سوا ہر ایک سے بے پروا کر دے گا،نہ تو تم سے بڑھ کر کوئی اللہ پاک کا نیاز مند ہو نہ ہی تم سے بڑھ کر کوئی اس کا محتاج۔ (حلیۃ الاولیا،3/257،رقم:3877)

اللہ کریم ہمیں صحیح معنوں میں حقوق اللہ کی بجاآوری کی توفیق عطا فرمائے،اس سلسلے میں ہماری تمام کوتاہیوں کو معاف فرما کر اپنے مقربین میں سے بنائے۔آمین یا رب العالمین 


شریعتِ اسلامی کی رو سے خدا کے حقوق بندے پر  مثلاً اس پر ایمان لانا،اس کے پیغمبروں پر ایمان لانا،اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ماننا اور نماز،روزہ،حج،زکوٰۃ وغیرہ اللہ پاک کے حقوق میں شامل ہیں۔

اسلام نے انسان تو انسان ہر جاندار کے حقوق کا تحفظ کیا ہے،اسلام مکمل ضابطۂ حیات ہے اور ایک پُرامن معاشرے کی تشکیل کے لیے ہر قدم پر رہنمائی فرماتا ہے۔اب اگر کوئی اسلام میں داخل ہو جاتا ہے کلمہ طیبہ پڑھتا ہے تو اس پر کلمہ طیبہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ کے پڑھنے سے کتنے اللہ اور نبی کریم کے حقوق آجاتے ہیں۔ اللہ پاک کا حق تمام مخلوقات پر سب سے زیادہ ضروری اور سب سے اہم ہے کیونکہ وہ اس کائنات کا اور ہمارا خالق،مالک،مولی اور تمام امور کی تدبیر کرنے والا ہے۔اللہ پاک کا حق اپنے بندوں پر یہ ہے کہ صرف اس کی عبادت کی جائے۔ارشاد ِباری:وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ0مَاۤ اُرِیْدُ مِنْهُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّ مَاۤ اُرِیْدُ اَنْ یُّطْعِمُوْنِ0 اور میں نے جن اور انسان کو بنایا ہے تو صرف اپنی بندگی کے لیے میں ان سے کوئی روزی نہیں چاہتا ہوں اور نہ ہی چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں بے شک اللہ پاک ہی بڑا روزی دینے والا،زبردست طاقت دینے والا ہے۔( الذاریات:56-57)

حق کی تعریف:حقوق حق کی جمع ہے،حق کسی چیز کا اس طرح ثابت ہو جانا واقع ہو جانا اس طرح موجود ہو جانا کہ اس کے موجود ہونے کا انکار نہ کیا جا سکے،حق کہلاتا ہے۔حق کا معنی درست ذمہ داری،سچ اور انصاف،جائز مطالبہ وغیرہ بھی ہے۔

احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں:حضوراکرم ﷺ نے حضرت معاذ سے پوچھا:اے معاذ !کیا تمہیں معلوم ہے کہ اللہ کا اس کے بندوں پر کیا حق ہے؟انہوں نے کہا:اللہ اور اس کا رسول ﷺہی بہتر جانتے ہیں! نبی کریم ﷺ نے فرمایا:اللہ کا حق اپنے بندوں پر یہ ہے کہ وہ صرف اس کی عبادت کریں اور اس کا کوئی شریک نہ ٹھہرائیں۔(صحیح البخاری،حدیث:2856) مطلب ہر مشکل و آسانی میں اپنی ہر ضرورت کے لیے ہر حال میں اللہ پاک کی طرف رجوع کرنا اور اس کے غیر کی طرف متوجہ نہ ہونا،ہر کام میں اللہ کو ہی کارساز سمجھنا،اللہ پاک کا حق ہے۔ اللہ پاک کی ایسی معرفت حاصل کی جائے جو اس پر ایمان لانے کے متقاضی ہو،اللہ پاک پر ایمان لانے میں یہ امور شامل ہیں:اللہ پاک کے وجود پر ایمان لانا،اس کی الوہیت پر ایمان لانا،اس کی ربوبیت پر ایمان لانا،اس کے اسما و صفات پر ایمان لانا۔

شریعتِ اسلامیہ میں بدکاری کرنے،چوری کرنے اور شراب پینے سے بھی بڑا گناہ نماز کا ترک کرنا ہے۔نماز میں کوتاہی کرنے والے کی سزا کے متعلق تین آیاتِ مبارکہ یہ ہیں:

(1)فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ0الَّذِیْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ0ترجمہ: تو ان نمازیوں کے لئے خرابی ہے۔جو اپنی نماز سے غافل ہیں۔ وہ جو دکھاوا کرتے ہیں۔( الماعون:4-5)۔ اس سے وہ لوگ مراد ہیں کہ جو نماز یا تو پڑھتے ہی نہیں یا پہلے پڑھتے تھے،اب نہیں پڑھتےیا سست ہو گئے،تاخیر سے پڑھنے کو معمول بنا لیتے ہیں،اس لیے نماز کی ساری کوتاہیوں سے بچنا چاہیے۔

(2)فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَ اتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّاترجمہ: تو ان کے بعد وہ نالائق لو گ ان کی جگہ آئے جنہوں نے نمازوں کو ضائع کیا اور اپنی خواہشوں کی پیروی کی تو عنقریب وہ جہنم کی خوفناک وادی غی سے جاملیں گے۔(مریم:59)

(3)مَا سَلَكَكُمْ فِیْ سَقَرَ0قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ0وَ لَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِیْنَ0ترجمہ:کون سی چیزتمہیں دوزخ میں لے گئی؟وہ کہیں گے:ہم نمازیوں میں سے نہیں تھے اور مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے۔( المدثر:42-44)

اہل ِجنت جنت کے بالا خانوں میں بیٹھےجہنمیوں سے سوال کرتے ہیں کہ کس وجہ سے تمہیں جہنم میں ڈالاتو وہ جواب دیں گے کہ ہم دنیا میں نہ نماز پڑھتے تھے نہ مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے۔

زکوٰۃ:جو شخص زکوٰۃ کے فرض ہونے کا انکار کرے وہ کافر ہے،زکوٰۃ کی ادائیگی نہ کرنے والا گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہے اور اگر مرنے سے پہلے اس نے سچی توبہ نہ کی اس گناہ سے تو اسے آخرت میں سخت سزائیں دی جائیں گی۔قرآنِ کریم میں ارشاد ہوتا ہے،اللہ پاک نے ان لوگوں کے لیے بڑی سخت وعید بیان فرمائی جو اپنے مال کی زکوٰۃ نہیں نکالتے:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّ كَثِیْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَ الرُّهْبَانِ لَیَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِؕ-وَ الَّذِیْنَ یَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِۙ-فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ0 یَّوْمَ یُحْمٰى عَلَیْهَا فِیْ نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوٰى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَ جُنُوْبُهُمْ وَ ظُهُوْرُهُمْؕ-هٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ فَذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُوْنَ0 اے ایمان والو بےشک بہت پادری اور جوگی لوگوں کا مال ناحق کھا جاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور وہ کہ جوڑ کر رکھتے ہیں سونا اور چاندی اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں خوش خبری سناؤ دردناک عذاب کی۔ جس دن وہ تپایا جائے گا جہنم کی آگ میں پھر اس سے داغیں گے ان کی پیشانیاں اور کروٹیں اور پیٹھیں،یہ ہے وہ جو تم نے اپنے لیے جوڑ کر رکھا تھا اب چکھو مزااس جوڑنے کا (توبۃ:34-35)

مسلمان ہونے کے لیے انسان کلمہ طیبہ پڑھتا ہے جس میں اللہ کے معبودِ برحق ہونے کی گواہی ہے۔

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:ہر دو جہاں علم کی قید میں ہے اور علم کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ کی قید میں ہے اور کلمہ طیبہ اسم اللہ کی قید میں ہےاور جو شخص زبان سے کلمہ پڑھتا ہے اور دل سے اس کی تصدیق کرتا ہے اور کلمہ طیبہ کی حقیقت کو جانتا ہے،اس سے علم مخفی نہیں رہتا۔(امیر الکونین)

انسان پر حق ہے کہ وہ صرف اور صرف اسی کو خالق و مالک مانے یعنی اللہ پاک کے سوا کسی کی بھی کسی بھی حالت میں عبادت،اطاعت،فرمانبرداری نہ کرے بلکہ اطاعت اور فرمانبرداری میں اللہ پاک کی رضا شامل رکھے۔ آقا ﷺ فرماتے ہیں:فقر میرا فخر ہے اور فقر کی بدولت مجھے تمام انبیا و مرسلین پر فخر حاصل ہے۔(عین الفقر )

فقر اللہ کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے(شمس الفقرا)اے کاش !ہم بھی صحیح معنوں میں حقوق اللہ ادا کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔

پس مذکورہ تمام آیاتِ مبارکہ اور احادیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ صرف اور صرف اللہ کی عبادت کی جائے،خشوع و خضوع کے ساتھ فرض نمازوں کی پابندی کی جائے،مال پر زکوٰۃ فرض ہونے اور پھر اس کا حساب لگا کر ہر سال زکوٰۃ ادا کی جائے اس طرح دیگر جو حقوق بیان کیے گئے ان کی بھی ادائیگی کر کے عذابِ نار سے بچانے کا سامان کرنا چاہیے اس کا ایک آسان ذریعہ آپ کو بتاتی چلوں کہ دعوتِ اسلامی کا پیارا پیارا دینی ماحول ہے،اس سے وابستہ ہو جائے آپ جس وقت چاہیں دعوتِ اسلامی آپ کی رہنمائی کے لیے اسی وقت حاضر ہے۔اللہ کریم ہمیں اخلاص کے ساتھ حقوق کی ادائیگی کرنے اور دین کے لیے کوشاں رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین


حقوق اللہ پر تمہید:وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَاؕ- ترجمہ: اور اگر تم اللہ کی نعمتیں گنو تو انہیں شمار نہیں کرسکو گے۔الله نے ہمیں پیداکیا،بے شمار نعمتیں دیں۔ہمیں زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھایا،احکام دیے تاکہ ہم زندگی کو صراط ِمستقیم پر چلا سکیں۔ ان احکام پر عمل کرنا ہم پر اللہ کا حق ہے۔ اللہ کے ان احکام کو صحیح طریقے سے اور بھر پور انداز میں ماننے کا نام ہی بندگی ہے،بندگی کا سلیقہ ہمیں تب ہی آسکتا ہے جب ہم یہ جانیں کہ حقوق الله کیا ہیں اور ان کو کیسے پورا کیا جا سکتا ہے!

حق کی تعریف:ایک ایسی ذمہ داری جو الله کی طرف سے ایک ذات پر کسی دوسری ذات کے مقابلے میں لازم کی گئی ہو اگر وہ ذات خود اللہ کی ہے۔ اس نے اپنی ذات کے پیشِ نظر ہم پر کچھ ذمہ داریاں رکھی ہیں انہیں حقوق اللہ کہتے ہیں۔اور اگر کسی بندے کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اس کے مقابلے میں ہم پر ذمہ داری ہے تو وہ بندے کا حق کہلائے گا۔

اللہ پاک کے 5 حقوق پر 5 احادیث:

1۔کیا تمہیں معلوم ہے کہ اللہ پاک کا اپنے بندوں پر کیا حق ہے اور بندوں کا اللہ پاک پر کیا حق ہے ؟ میں نے عرض کی:الله اور اس کا رسولﷺ ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا:اللہ پاک کا بندوں پر یہ حق ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں،اور بندوں کا اللہ پر حق یہ ہے کہ جو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے،اسے عذاب نہ دے۔(صحیح بخاری )اور یہ حق تمام حقوق سے پہلے ہے نہ کوئی حق اس سے پہلے ہے،اور نہ اس سے بڑھ کر ہے۔

2۔اے ابنِ آدم !تو میری عبادت کے لیے فارغ ہوجا میں تیرا سینہ تونگری سے بھر دوں گا اور تیری حاجتیں پوری کر دوں گا،اگر تو نے ایسا نہ کیا تو میں تیرے سینے کو اشغال سے بھردوں گا،اور تیری حاجت مندی کا راستہ بند نہیں کروں گا۔(مسند احمد)

3۔مجھے اس سے بالکل خوشی نہیں ہوگی کہ میرے پاس اُحد پہاڑ کے برابر سونا ہو اور اس پر مجھے تین دن اسی طرح گزر جائیں کہ اُس میں سے ایک دینار بھی میرے پاس باقی رہ جائے،سوائے اس تھوڑی سی رقم کے جو میں قرض کی ادائیگی کے لیے رکھ چھوڑدوں۔ (صحیح بخاری)

4۔جس شخص نے خالص اللہ کی خوشنودی کے لیے حج کیا،اور ان دنوں میں نہ تو اس نے کوئی فحش بات کی اور نہ کوئی گناہ کا کام کیا تو وہ اس دن کی طرح واپس ہو گا جیسے اُس کی ماں نے اُسے جنا تھا۔ ( صحیح بخاری)

5۔روزہ تمہیں عذابِ الٰہی سے اسی طرح بچاتا ہے جس طرح ڈھال تمھیں لڑائی سے بچاتی ہے۔ (مسند احمد)

الله پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حقوق اللہ پر عمل کرتے ہوئے زندگی گزارنے کا سلیقہ عطا فرمائے۔ (آمین بجاہ النبی العظیم)


جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ اللہ پاک نے  ہمیں پیدا کیا،بے شمار نعمتوں سے نوازا،ہمیں زندگی گزارنے کا سلیقہ،احکام دیے تاکہ ہم زندگی کو صراط ِمستقیم پر چلاسکیں،ان احکام پر عمل ہم پر اللہ پاک کا حق ہے،انھیں ہم سچے دل سے مانیں اور عمل پیرا ہوں ان تمام باتوں کو حقوق اللہ کہتے ہیں۔

درس:اللہ پاک نے انسان کو پیدا کیا اور اس کی ضروریات کی تکمیل کا ساز و سامان بھی کیا وہ اس طرح کہ ایک تو خود اسے بھی عقل و شعور سے نوازا اور دوسرے نمبر پر ساری کائنات کو اس کی خدمت میں لگا دیا۔انسان اللہ پاک کی عطا کردہ عقل و بصیرت سے کام لے کر کائنات میں الله کی پیدا کردہ چیزوں کو جوڑ جوڑ کر یا ان کو مختلف صورتوں میں ڈھال ڈھال کر ایسی ایسی چیزیں بنا لیتا ہے جس سے انسان کو تمدنی سہولتیں اور جسم انسانی کو راحتیں حاصل ہوتی ہیں۔ اللہ پاک نے ہمیں اتنی زیادہ نعمتوں سے نوازا ہے بدلے میں ہمیں اللہ پاک کے احکام پر عمل کرنا چاہیے۔ اور ہم اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔

آیاتِ مبارکہ:اِنَّهٗ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ الْجَنَّةَ وَ مَاْوٰىهُ النَّارُؕ-وَ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ0ترجمہ:اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ پاک کے ساتھ شرک کرتا ہے،تو اللہ نے اس پر جنت حرام کر دی ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ اور ان مشرکوں کا (وہاں )کوئی مددگار نہیں۔(المائدہ:12) نبی کریم ﷺ نے فرمایا:معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:نبی کریمﷺ نے فرمایا: تم جانتے ہو بندوں کا اللہ پر کیا حق ہے؟ انھوں نے کہا:اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں،آپ نے فرمایا:یہ کہ انھیں عذاب نہ دے یعنی اگر وہ اللہ کی عبادت کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں گے تو اس صورت میں اللہ پاک انھیں عذاب نہیں دے گا۔(صحیح بخاری: حدیث:2856)

قرآنِ پاک میں ارشاد ہے:اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یَلْبِسُوْۤا اِیْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓىٕكَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَ هُمْ مُّهْتَدُوْنَ0ترجمہ: وہ جو ایمان لائے اور اپنے ایمان میں کسی ناحق کی آمیزش نہ کی انہی کے لیے امان ہے اور وہی راہ پر ہیں(الانعام:82)نبی کریم ﷺ کا ارشادِ مبارک ہے:شرک اور جادو سے بچو،یہ ہلاک کرنے والے ہیں۔(صحیح بخاری، حدیث:5764 )

قرآنِ پاک میں ارشاد ہے:اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَآءُؕ-وَ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا0اللہ اسے نہیں بخشتا کہ اس کا کوئی شریک ٹھرایا جائے اور اس سے نیچے جو کچھ ہے جسے چاہے معاف فرمادیتا ہے اور جو اللہ کا شریک ٹھہرائے وہ دور کی گمراہی میں پڑا۔ (النساء:116)

بے شک اللہ پاک بہت رحیم و کریم ہے،اللہ بے نیاز ہے اللہ ہی ہے جو ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے،کوئی بھی کام اس سے چھپا ہوا نہیں وہ ظاہر کو بھی دیکھنے والا ہے اور باطن کو بھی دیکھ سکتا ہے۔ہم پر اللہ پاک کے حق ہیں کہ ہم مسلمان اللہ کو ایک مانیں،اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں،وہ یکتا ہے،ہمیں اللہ پاک کی عبادت کرنی چاہیے اور جن نا جائز کاموں سے اللہ اور اس کے رسول ﷺنے منع فرمایا ہے،ان کاموں سے باز رہیں اور جن کاموں کو کرنے کا حکم دیا ہے ان کاموں کو بجالائیں۔آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے جن باتوں پہ ہمارا عمل ہے اس پر استقامت عطا فرمائے اور جن پر عمل نہیں ان پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامینﷺ


بندوں پر سب سے پہلا حق اگر کسی کا واجب ہوتا ہے تو وہ اللہ پاک کا ہے جس نے کائنات کو پیدا فرمایا پوری حکمت و دانائی کے ساتھ،وہی ہے جس نے تمام چیزوں کو عدم سے وجود بخشا وہ ایک اللہ ہی ہے جس نے تمام انسانوں کی حفاظت فرمائی ان کے ماں کے پیٹ  میں اور جب وہ دنیا میں آئے اور یہاں تک کہ وہ بالغ ہو گئے وہی اللہ ہے جو تمام مخلوق کا پالنہار ہے اور پھر ان کی زندگیوں کی تمام ضروریات کا اہتمام فرماتا ہے۔

حج کرنا:بیت اللہ کا حج کرنا فرض ہے ان پر جو اس کی استطاعت رکھتا ہو ہم پر ضروری ہے کہ ہم اللہ پاک کی اطاعت کریں اور اس کی منع کردہ چیزوں سےپرہیزکریں تمام اعمال میں جن کا مطالبہ اللہ پاک ہم سے کرتا ہے اور جو مشکل اور نا ممکن نہیں ہے اور جن کے سوا کرنے پر بے شمار و اجر ثواب کا وعدہ ہے،اللہ پاک نے فرمایا:پس جو آگ سے بچا کر جنت میں داخل کیا گیا وہ مراد کو پہنچا اور دنیا کی زندگی تو یہی دھوکے کا مال ہے۔ (اٰل عمران:185 )

اللہ پاک کا فرمان:اور جو نعمتیں تم کو میسر ہیں خدا کی طرف سے ہیں پھر جب تم کو کوئی تکلیف ہوتی ہے تو اسی کے آگے چلاتے ہو۔

اخلاص اور عملِ صالح میں جدوجہد:اللہ پاک بندوں کے لئے آسانی چاہتا ہے وہ ان کو مشکل یا مصیبت میں ڈالنا نہیں چاہتا۔ اللہ پاک کا فرمان ہے:اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا جہاد کرنے کا حق ہے اس نے تم کو برگزیدہ کیا ہے اور تم پر دین کی کسی بات میں تنگی نہیں کی اور تمہارے لئے تمہارے باپ ابراہیم کا دین پسند کیا اسی لئے پہلی کتابوں میں تمہارا نام مسلمان رکھا اور اس کتاب میں بھی وہی نام رکھا ہے تو جہاد کرو تاکہ پیغمبر تمہارے بارے میں شاہد ہوں اور نماز پڑھو اور زکوٰۃ دو اور خدا کے دین کی رسی کو پکڑے رہو وہی دوست ہے تمہارا اور خوب دوست اور خوب مددگار ہے۔ (الحج:78)

عبادت میں آسانیاں:اللہ پاک ہم سے یہ چاہتا ہے کہ ہم اس کی خالص عبادت کریں اور دین کے جو امور ہیں ان کو بخوبی ادا کریں پنجگانہ نماز ادا کرنا جو ہمارے گناہوں کی مغفرت کا باعث اور دل کی پاکی اور صفائی کا سبب ہے،مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ نمازوں کو ان کے آداب کے ساتھ مکمل ادا کریں اللہ پاک کا فرمان ہے:پس جہاں تک تم سے ہو سکے اللہ سے ڈرتے رہو۔(التغابن:16)

اللہ پاک کی اپنے بندوں پر بے شمار نعمتیں ہیں اور ہر نعمت پر اللہ کا شکر واجب ہے اللہ کے اپنے بندوں پر بہت سے حقوق ہیں جن میں بہت ہی اہمیت کے حامل ذکر کیے جاتے ہیں:

توحید:توحید یہ ہے کہ اللہ پاک کی ذات و صفات اور اس کے اسماو افعال میں اسے یکتا و اکیلا مانا جائے اور یہ اعتقاد رکھا جائے کہ بے شک اللہ وحدہ لا شریک ہے اور سارے معاملات میں تصرف کرنے والا اور رزق دینے والا وہی ہے جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

عبادت:یہ ہے کہ اس اللہ وحدہ ہی کی عبادت کی جائے کیونکہ وہ ان کا رب اور ان کا خالق اور رازق ہے اور عبادت کی ساری کی ساری انواع واقسام صرف اور صرف اللہ وحدہٗ لاشریک ہے اس کے سامنے ہی امید رکھی جائے اس کے لیے ہیں نذر و نیازاور ذبح وغیرہ اس کے نام کا ہو وغیرہ۔اللہ پاک کا فرمان ہے:اور تم اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔(النساء:32)

شکر:ساری مخلوق پر اللہ پاک ہی کی نعمتیں اور احسان ہے اس لیے ان کے ذمہ ان نعمتوں پر اللہ پاک کا اپنی جانوں،زبانوں اور دلوں اور اعضاء کے ساتھ شکر کرنا واجب ہے اور وہ شکر اللہ پاک کی ان نعمتوں پر اس کی حمد و تعریف اور ان نعمتوں پر اللہ پاک کی اطاعت و فرمانبرداری اور ان میں کرنا چاہیے جو کہ اللہ پاک نے حلال قرار دی ہیں۔اللہ پاک کا فرمان ہے: تو میری یاد کرو میں تمہارا چرچا کروں گا اور میرا حق مانو اور میری ناشکری نہ کرو۔(پ2،البقرۃ:152)


پیارے اسلامی بھائیوں !حقوق حق کی جمع ہے ، جس کے معنیٰ ہیں: فرد یا جماعت کا ضروری حصہ۔(المعجم الوسیط،ص 188) اللہ پاک نے ہم کو یہ زندگی عطا فرمائی اور ہمیں طرح طرح کی نعمتوں سے نوازا ۔ ہم سر سے لیکر پیر تک اللہ پاک کی نعمتوں میں ہیں تو جس خالق حقیقی نے ہمیں پیدا فرمایا ہے اس کے ہم پر کچھ حقوق( Rights) ہیں ، آئیے انہیں حقوق میں سے پانچ حق کو سنتے ہیں اور ان کو ادا کرنے کی نیت کرتے ہیں :۔ (1) اللہ پاک کا ہم پر ایک حق یہ ہے کہ ہم اس کی عبادت کریں کیونکہ اللہ پاک نے ہمیں اپنی عبادت کے لئے پیدا فرمایا ہے۔ جیسا کہ اللہ پاک فرماتا ہے : وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(۵۶)ترجمۂ کنز العرفان: اور میں نے جنّ اور آدمی اسی لئے بنائے کہ میری عبادت کریں۔ (پ27 ، الذٰریٰت : 56)اور حدیث پاک میں ہے کہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اے معاذ ! کیا تم جانتے ہو کہ اللہ کا اپنے بندوں پر کیا حق ہے ؟ وہ کہتے ہیں میں نے عرض کی اللہ و رسول بہتر جانتے ہیں فرمایا : بیشک اللہ کا اپنے بندوں پر یہ حق ہے کہ بندے صرف اسی کی عبادت کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں۔ ( صحیح بخاری ، کتاب التوحید باب ما جاء فی دعاء النبی أمته إلى توحيد الله ، حدیث :7373)

(2) بندوں پر اللہ پاک کا ایک حق یہ بھی ہے کہ بندے اس کی اطاعت کریں۔ جیسا کہ اللہ پاک فرماتا ہے : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ ترجمۂ کنز العرفان: اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو ۔ (پ5، النسآء: 59)حدیث پاک میں ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جس نے اللہ پاک کی اطاعت چھوڑدی وہ قیامت کے دن اللہ پاک سے اِس حال میں ملے گا کہ اُس کے پاس (عذاب سے بچنے کی) کوئی حجت نہ ہو گی ( مسلم، کتاب الامارۃ، باب وجوب ملازمۃ جماعۃ المسلمین الخ۔ ،ص1030 ،حدیث: 1851 )

(3) حقوق اللہ میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ بندے اللہ پاک سے ڈرے۔ جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے : یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ ترجمۂ کنزالایمان : اے لوگو اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا۔ ( پ 4 ، النسآء :1) اور خوف خدا کی تو کیا ہی بات ہے کہ حدیث پاک میں ہے کہ حکمت کی اصل اللہ پاک کا خوف ہے۔ (شعب الایمان ، 1/ 470 ، حدیث 743)

(4) بندوں پر اللہ کا ایک حق یہ بھی ہے کہ وہ تمام اعمال خالص اللہ کے لئے کریں اور دکھاوا نہ کریں، جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے:وَ مَاۤ اُمِرُوْۤا اِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ ﳔ حُنَفَآءَ ترجمہ ٔ کنزالایمان: اور ان لوگوں کو تو یہی حکم ہوا کہ اللہ کی بندگی کریں نِرے اسی پر عقیدہ لاتے ایک طرف کے ہو کر۔ (پ30، البینۃ: 5) اور اخلاص یعنی صرف اللہ کو خوش کرنے کے لئے عمل کرنے کی فضیلت میں حدیث پاک میں ہے : اِخلاص کے ساتھ عمل کرو کہ اِخلاص کے ساتھ تھوڑا عمل بھی تمہیں کافی ہے۔ (نوادر الاصول ، الاصل السادس ، حدیث: 45)

(5) بندوں پر اللہ کا ایک حق یہ ہے کہ بندے اللہ پاک پر توکل ( بھروسہ) کریں۔ فرمان الٰہی ہے : وَ تَوَكَّلْ عَلَى الْحَیِّ الَّذِیْ لَا یَمُوْتُ ترجمۂ کنزالایمان : اور بھروسہ کرو اس زندہ پر جو کبھی نہ مرے گا۔ ( پ19،الفرقان :58 ) اور حدیث پاک میں اللہ پر بھروسہ کرنے کی کچھ اس طرح ترغیب دی گئی ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اگر تم اللہ پاک پر اس طرح بھروسہ کرو جیسے اس پر بھروسہ کرنے کا حق ہے، تو وہ تمہیں اس طرح رزق عطا فرمائے گاجیسے پرندوں کو عطا فرماتا ہے کہ وہ صبح کے ‏وقت خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو سیر ہو کر لوٹتے ہیں۔ (ترمذی، ابواب الزھد، باب فی التوکل علی اللہ، 4 / 154،حدیث:2351 )

اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں ان حقوق کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(۵۶)ترجمۂ کنز العرفان: اور میں نے جنّ اور آدمی اسی لئے بنائے کہ میری عبادت کریں۔ (پ27 ، الذٰریٰت : 56)

اللہ پاک نے ہمیں بے شمار نعمتیں عطا فرما کر ہم پر احسان عظیم فرمایا، اس نے ہمیں عدم سے وجود بخش کر اشرف المخلوقات بنایا، اس پاک پروردگار نے دیگر بہت سے انعامات فرمائے جو شمار سے باہر ہے، ویسے تو بندہ اپنے خالق کی کسی بھی نعمت کا حق ادا کرنے سے قاصر ہے لیکن اس ناچیز بندے کو چاہئے کہ وہ اللہ پاک کی عبادت کرتا رہے اور اس کی نعمتوں کا ہر حال میں شکر کرتا رہے اور اللہ پاک کے حقوق کو بجا لانے کی ہمہ تن کوشش میں لگا رہے۔

حقوق اللہ کی تعریف :جن کے بجا لانے میں صرف اللہ کی جانب کی رعایت مقصود ہو، یا اس سے مراد وہ احکام ہیں جن سے عام لوگوں کا نفع وابسطہ ہو ۔ ( حسامی، ص 236 )

حقوق اللہ میں بنیادی حق یہ ہے کہ اللہ پاک کی عبادت کرنا اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا۔

آئیے تفاسیر و احادیث کی روشنی میں چند حقوق اللہ سنتے ہیں: ( 1 ) حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سواری پر نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پیچھے سوار تھا آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ اے معاذ! تمہیں معلوم ہے کہ بندوں پر اللہ کا کیا حق ہے؟ اور اللہ پر بندوں کا کیا حق ہے؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتا ہے۔

تو رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرمایا کہ اللہ پر بندوں کا حق ہے کہ جب وہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں تو انہیں عذاب نہ دے۔(بخاری شریف، حدیث : 2856)

(2،3) وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ ترجمۂ کنز العرفان : اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ ادا کرو۔ (پ1، البقرۃ: 43) تفسیر صراط الجنان میں اس آیت کریمہ کے تحت فرمایا گیا کہ اے یہودیو! تم ایمان قبول کرکے مسلمانوں کی طرح پانچ نمازیں ان کے حقوق اور شرائط کے ساتھ ادا کرو اور جس طرح مسلمان اپنے مالوں کی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اسی طرح تم بھی اپنے مالوں کی زکوٰۃ دو ۔ (صراط الجنان،سورۃ البقرۃ،تحت الآیۃ: 43)

(4) وَ لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًاؕ ترجمۂ کنز العرفان : اور اللہ کے لئے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا فرض ہے جو اس تک پہنچنے کی طاقت رکھتا ہے۔(پ4،آلِ عمرٰن:97 )اس آیت میں حج کی فرضیت اور استطاعت کی شرط کا بیان ہے۔ ( صراط الجنان، آلِ عمرٰن ،تحت الآیۃ:97 )

اس سے پتا چلا کہ جو مسلمان استطاعت رکھتا ہو اس پر حج کرنا فرض ہے یہ اللہ پاک کا ایک عظیم حق ہے جس کو ترک نہیں کیا جا سکتا ۔

(5) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ ترجمۂ کنز العرفان: اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو ۔ (پ5، النسآء: 59)

حضور سیدُ المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت و فرمانبرداری فرض ہے، قرآنِ پاک کی متعدد آیات میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت کا حکم دیا گیا بلکہ رب کریم نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا اور اس پر ثواب عظیم کا وعدہ فرمایا اور تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نافرمانی پر عذاب جہنم کا مژدہ سنایا ،لہٰذا جس کام کا آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حکم فرمایا اسے کرنا اور جس سے منع فرمایا اس سے رک جانا ضروری ہے۔ ( صراط الجنان،النساء ،تحت الآیۃ: 59 )

اس سے معلوم ہوا کہ رسل کی اطاعت اللہ کریم کا حق ہے۔ ہمیں رسول جو حکم ارشاد فرمائے اس پر عمل کرنا ضروری ہے جس سے دونوں جہاں میں سعادت مندی ہمارا مقدر بنے۔